اردو ادب کی مشہور و معروف کنواریاں (قسط اول)

اردو ادب کی مشہور و معروف کنواریاں (قسط اول)

جبیں نازاں ، نئی دہلی
Jabeen nazan 2015@gmail.com

جہاں اردو ادب کے چند معروف و مشہور شعرا ادبا نے مجرد زندگی گزاری، ان سے ہم سب بہ خوبی واقف ہیں. ان میں سر فہرست ساحرلدھیانوی کا نام آتا ہے. کہا جاتا ہے لتا منگیشکر سے شادی کے لیے تیار ہوگئے. لتا بھی راضی تھیں لیکن ماں نے غیر مسلم کو بہو تسلیم کرنے سے انکار کردیا. ساحر ماں کو حد سے سوا چاہتے تھے، ماں کی بات ٹھکرا نہ سکے۔ اور آخری کوشش بھی ناکام ثابت ہوئی. دنیاے ادب کا خاص و عام طبقہ اس واقعے سے باخبر ہے، ساحر کے ساتھ کئی خواتین کے نام منسلک رہے لیکن ان میں سر فہرست امرتا پریتم، سدھا ملہوترا، لتا منگیشکر، اور خدیجہ مستور وغیرہ کا نام لیا جاتا ہے. خدیجہ مستور سے ساحر کا نکاح ہوجاتا لیکن عین وقت پر بات مِہر پہ آکر اٹک گئی۔۔۔ اس طرح ساحر کے لیے نکاح کی راہ ہموار نہ ہوسکی.
ثناءاللہ جی تو بنگالی میؔرا سین پر یوں فدا ہوئے کہ اپنی شباہت ہی نہیں اپنا نام تک میؔرا رکھ لیا. میؔرا کے بعد انھیں کوئی بھائی وہ شاعرہ سحاب قزلباش تھیں لیکن سحاب قزلباش میؔرا جی کا حلیہ دیکھ کر متنفر ہوگئیں.
مجاز لکھنوی جاوید اختر کے ماموں کا نام لوگوں نے کئی خواتین سے منسلک کیا لیکن شارب ردولوی صاحب کی تحقیق اور مجاز صاحب کی بہن جاوید اختر کی خالہ کی تصدیق کے مطابق مجاز ایک شادی شدہ خاتون کو دل دے بیٹھے تھے. جہاں ملنے کی کوئی صورت ہی نہیں نظر آئی. لہذا ان کے جذبات کو شدید ضرب پہنچی اور ان کا پہلا نروس بریک ڈاؤن اس صدمے کی وجہ سے 1940ء میں ہوا. پھر مجاز شراب کی پناہوں میں آگئے. یہ حقیقت ہے کہ کثرت مے نوشی کے سبب ان کی موت واقع ہوئی۔
جیسا کہ عصمت چغتائی نے بھی ایک جگہ لکھا ہے "مجاز اس قدر وجیہہ شخصیت کے مالک تھے کہ علی گڑھ میں لڑکیاں ان پر فدا تھیں ان کے نام کا قرعہ نکالا کرتی تھیں ۔۔۔"
لیکن شارب رودولوی کہتے ہیں اس میں شک و شبہ کی بالکل گنجائش نہیں کہ لڑکیاں ان پر نہ مرمٹی ہوں۔ لیکن مجاز نے ان میں سے کسی کو بھی دل نہیں دیا اور نہ ہی کوئی پیش کش قبول کی۔ کیوں کہ یہ مزاجاً نہایت شرمیلے تھے. اور حس نزاکت نہایت اعلیٰ تھی۔۔۔۔"
وہیں چند خواتین قلم کار نے بھی شادی شدہ زندگی پر ناکتخدائی کو ترجیح دی!
سب سے پہلے میں تذکرہ کرنا چاہتی ہوں شہزادی زیب النساء مخفی کا جو مغلیہ سلطنت کی صاحبِ دیوان شاعرہ تھیں.
شہزادی زیب النساء مغلیہ سلطنت کی چھٹی نسل کے بادشاہ محی الدین اورنگ زیب کی سب سے بڑی اور چہیتی اولاد تھیں. یہ دلرس بانو بیگم کے بطن سے 15/ فروری 1638ء دولت آباد میں پیدا ہوئیں.
اسلامی قواعد اور مغلیہ سلطنت کے دستور کے مطابق جب ان کی عمر چار سال چار ماہ چار دن ہوئی، ‘بسم اللہ شریف` کی رسم ادا کی گئی. اور پھر حافظ مریم کو اتالیق مقرر کیا گیا. زیب النساء نےصرف دس سال کی عمر میں قرآن ناظرہ مکمل کرلیا. اورنگ زیب اپنی بیٹی کی ذہانت اور ذکاوت سے بے پناہ مسرور ہوئے، دختر نیک کی غیر معمولی صلاحیت اور اس سعادت مندی کی حوصلہ افزائی بہ طور انعام تیس ہزار اشرفیوں سے نواز کر کیا. اس کے بعد انھوں نے علم فقہ علم نحو، کی تعلیم ملَا جیون کی شاگردی میں حاصل کی. بعد ازاں ملَا محمد سعید اشرف ماژندرانی کے سامنے زانوے تلمیذ تہہ کیے، محض 14 سال کی عمر میں اس وقت کی شاہی خاندان کی مروجہ تعلیم مکمل کرلیں. شاعری کے تمام رموز سے واقفیت حاصل کی، سعید محمد اشرف مارژندرانی آخری استاد ثابت ہوئے، شاعری کے علاوہ خطاطی کے ہنر سیکھے، یہ نہایت خوش نویس تھیں. کم مدت میں شکست، نسخ اور نستعلیق پہ عبور حاصل کرچکی تھیں.
زیب النساء مخفیؔ کی شاعری کے حوالے سے کئی بے بنیاد باتیں پھیلائیں گئیں. چونکہ ان کا دیوان محفوظ نہ رہ سکا ، احمد علی سندیلوی مخزن الغرائب میں ایک حقیقت بیان کرتے ہیں کہ مخفیؔ کی دل پسند کنیز ارادت فہم کے ہاتھ سے مخفیؔ کی بیاض بے احتیاطی کے سبب حوض میں گر گئی اور یوں زیب النساء مخفیؔ کا تمام کلام یعنی کہ عمر بھر کی محنت یا اثاثہ کہہ لیں، ضائع ہوگئی.
بدحواس خادمہ دوڑی ہوئی شہزادی کے استاد کے پاس گئی اور ساری روداد کہہ ڈالی تاکہ شہزادی کی ناراضی کا سدباب کرسکے۔ استاد محترم نے خادمہ کی طرف سے 23 اشعار پہ مشتمل قطعہ لکھ کر زیب النساء مخفیؔ کی خدمت میں پیش کیا "مخزن الغرائب" میں پورا منظوم عریضہ مرقوم ہے. شہزادی نے وہ قطعہ پڑھ کر خادمہ کا قصور معاف کردیا. اس قطعہ کو بنیاد بناکر بدخواہ اور کوتاہ نظروں نے زیب النساء مخفیؔ کے کلام کو استاد سعید اشرف ماژندرانی سے منسوب کردیا. ڈاکٹر افروز زیدی ایک مضمون میں رقم کرتی ہیں: "زیب النساء مخفیؔ قیام لاہور کے دوران میں ایک بار شالیمار کے تختہ فیض بخش میں حرم کی دیگر مستورات کے ساتھ بیٹھی ہوئی سنگ مرمر کے آبشار کا نظارہ کررہی تھیں اس نظارے سے متاثر ہوکر انھوں نے یہ قطعہ کہا:
اے آبشار نوحہ گر از بہر کیستی
چیں بر جبیں فگندہ زاندرہ کیستی
آیا چہ درد بود کہ جوں ماں تمام شد
سر را بسنگ می زدی و می گریستی
زیب النساء مخفیؔ نے فارسی زبان میں ہی نہیں اردو زبان میں بھی شاعری کی ہے. دیوانِ مخفیؔ کے نام سے ایک مجموعہ کلام موجود ہے. چند اردو اشعار بہ طور ثبوت ملاحظہ فرمائیں:
آکر ہماری نعش پہ کیا یار کرچلے
خواب عدم سے فتنے کو بیدار کر چلے

ہر اک پہ تم جور وفا کرتے ہو پیارے
دھڑکے نہ مِرا دل نہ لگے آہ کسو کی

نہ نامہ نہ پیغام زبانی نہ نشانی
حالت سے کوئی کیوں کہ ہو آگاہ کسو کی

کہتے ہو تم نہ گھر مرے آیا کرے کوئی
پر دل نہ رہ سکے تو بھلا کیا کرے کوئی

جدا ہو مجھ سے مِرا یار یہ خدا نہ کرے
خدا کسی کے تئیں دوست سے جدا نہ کرے

زیب النساء مخفیؔ کا نام اردو شاعری میں نئی روایت کا آغاز کہا جاسکتا ہے.
زیب النساء شاہی ناز و نعم میں پلی بڑھیں، شاہی گھرانے کے تمام عیش و طرب سے لطف اندوز ہوتی رہیں، وہیں بدبختی نے شاہی ٹھاٹ باٹ کی زندگی میں ‘گہن` لگا دیا، وہ تا عمر ناکتخدا رہیں، عمر کے آخری ایام انھوں نے قران شریف کی تعلیم دینے اور اپنے ہاتھوں سے لکھنے، غرضیکہ قران شریف کی تالیف و اشاعت میں صرف کردی. ان کے ہاتھ کا لکھا ایک نسخہ دہلی کی ایک لائبریری میں موجود ہے_
67 سال کی عمر میں 1114ھ 1705ء بہ مقام دہلی وفات پاگئیں (بعض روایت کے مطابق لاہور میں وفات ہوئی). صاحبہ الزمانی کا باغ جو تیس ہزاری دہلی میں تھا، آخری آرام گاہ بنی. جو انگریز کی آمد تک قبر موجود تھی. 1885ء میں دہلی میں راجپوتانہ مالوہ ریلوے لائن تیار ہورہا تھا، اس وقت زیب النساء کا مقبرہ زد میں آگیا اور اسے مسمار کردیا گیا. افسوس کہ آج شہزادی کے مقبرے کا نشان تک باقی نہیں.
***
جبیں نازاں کی گذشتہ نگارش: بارہ قباؤں کی سہیلی: عذرا پروین

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے