پروفیسر ڈاکٹر منظر اعجاز

پروفیسر ڈاکٹر منظر اعجاز

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ، ہند

ڈاکٹر، پروفیسر سید محمد مظہر الحق قلمی نام منظر اعجاز اے این کالج، پٹنہ اور پاٹلی پترا یونی ورسٹی کے سابق صدر شعبہ اردوکا 19 مارچ 2023 مطابق 28 شعبان المعظم 1444ھ بروز اتوار بوقت صبح کے تین بجے جگدیش اسپتال پٹنہ میں انتقال ہو گیا، کم و بیش اکہتر (71) سال عمر تھی، کورونا کے مریض ہو گئے تھے، اس سے بچ گئے، لیکن اعضاء وجوارح کمزور ہوتے چلے گئے، 14 جنوری 2023ء سے مستقل صاحب فراش تھے، اور بالآخر ملک الموت نے اپنا کام کر ڈالا، جنازہ کی نماز اسی دن بعد نماز عصر کنکر باغ میں ہوئی، مولانا دانش قاسمی امام کنکڑ باغ مسجد نے جنازہ کی امامت کی اور سیکڑوں سوگواروں کی موجودگی میں شاہ گنج قبرستان میں تدفین عمل میں آئی، پس ماندگان میں اہلیہ ناہید سلطانہ اور دو بیٹیاں فرخندہ اعجاز اور رخشندہ اعجاز ہیں، لڑکا کوئی نہیں تھا، وہ چار بھائی اور دو بہن تھے، وہ سید محمد عبد المنان، سید علی عباس کے بعد تیسرے نمبر پر تھے، سب سے چھوٹے بھائی کا نام سید محمد احسن ہے۔
پروفیسر منظر اعجاز کی ولادت 12 دسمبر 1953ءکو موجودہ ضلع ویشالی کے گاؤں ترکی رسول پور بھگوان پور ویشالی میں سید مقبول احمد (والد) اور سائرہ خاتون (والدہ) کے گھر ہوئی، ان کے مورث اعلا مخدوم سید شاہ فیروز علی عرف ترک شاہ تھے، شہنشاہ اورنگ زیب عالم گیر کے عہد میں ترکی رسول پور وایا بھگوان پور موجودہ ضلع ویشالی وارد ہوئے، شہنشاہ نے بہ لحاظ بزرگی و عظمت انھیں جاگیر عطا فرمائی تھی۔ (تذکرہ مسلم مشاہیر ویشالی صفحہ 75 بحوالہ حدیقة الانساب جلد ۱ 235)
سلسلہ نسب ان کے دادا سید شاہ نعیم اللہ بن سید شاہ ولایت حسین بن دائم علی بن قائم علی بن نائم علی بن لطف علی بن قاضی روشن علی کا ذکر آتا ہے، سید شاہ ولایت حسین عرف ابو جان ساتویں پشت میں ملک شاہ فیروز کے آتے تھے، ڈاکٹر منظر اعجاز کی نانی ہال بھی رسول پور ترکی تھی، ان کے نانا کا نام سید شاہ ولی اللہ تھا، دادا اور نانا دونوں حقیقی بھائی تھے، شادی بہار شریف ضلع نالندہ سید محمد صالح (م 1982) بن سید نور الحسن صاحب عرف نور محمد کی صاحب زادی ناہید سے اپریل 1986) میں ہوئی تھی، رسول پور ترکی گاؤں مظفر پور شہر سے چوبیس میل اور بھگوان پور ریلوے اسٹیشن سے دو میل کی دوری پر واقع ہے۔ آبا و اجداد زمین دار تھے، اس لیے ناز و نعم میں پرورش ہوئی، ابتدائی تعلیم والدہ سے حاصل کرنے کے بعد قریب کے گاؤں بہاری کے پرائمری اسکول میں تعلیم پائی اور بھگوان پور اسکول سے مڈل اور ہائر سکنڈری کی تعلیم مکمل کی، امتحان کا سینٹر مظفر پور تھا اس لیے پہلی بار 1980ءکے آخر یا 1981ء کے اوائل میں مظفر پور وارد ہوئے اور کوئی چار ماہ مظفر پور میں قیام پذیر رہے، اسی دوران منظر اعجاز صاحب کی ملاقات ظفر عدیم سے ہوئی اور پھر دوستی اس قدر پکی ہوئی کہ ایک جان دو جسم ہو کر رہ گئے۔ 1982ء کے نصف آخر میں منظر اعجاز مستقل قیام کی غرض سے مظفر پور آئے، اور یہیں سے آئی اے، بی اے اور ایم اے اردو فارسی میں کیا، اقبال ان کے محبوب شاعر تھے، اس لیے پی اچ ڈی بہار یونی ورسٹی مظفر پور سے کے لیے اقبال اور قومی یک جہتی کا انتخاب کیا اور پروفیسر قمر اعظم ہاشمی کی نگرانی میں مقالہ لکھ کر 1989ء میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی، اس طرح عنفوان شباب کے قیمتی مہ وسال انھوں نے مظفر پور کی نذر کیے۔ ظفر عدیم کی صحبتوں سے پروفیسر منظر اعجاز کی صلاحیتیں پروان چڑھیں اور ان میں نکھار آیا، اپنے ایک مضمون، ظفر عدیم: شخص، عکس اور جہتیں میں منظر امام صاحب نے خود ہی اس کا اعتراف کیا ہے، لکھتے ہیں:
”سچی بات تو یہ ہے کہ عدیم صاحب کی صحبتیں راس آئیں اور شعر و ادب کا ذوق جو مجھ میں عرصہ سے دبا دبا اور گھٹا گھٹا سا تھا، ابھرنے، نکھرنے اور پروان چڑھنے لگا “۔ (82)
منظر اعجاز صاحب آگے بڑھتے رہے، انھوں نے تدریسی زندگی کا آغاز ایس یو کالج ہلسہ نالندہ سے کیا، ۶۷-۱۹۹۱ء تک یہاں مقیم رہے، اس کے بعد اے این کالج پٹنہ چلے آئے، اور صدر شعبہ اردو کے منصب تک پہنچے، اور دسمبر 2018ء کو سبک دوش ہوگئے، اے این کالج کے بعد صرف سوا ماہ تک وہ پاٹلی پترا یونی ورسٹی کے صدر شعبہ اردو رہے. ادھر کچھ دنوں سے ان پر ضعف کا غلبہ تھا، اس کے با وجود ادبی مجلسوں میں کسی کے سہارے پہنچ جاتے تھے، یہ ان کی ادبی دل چسپی کی بات تھی، ورنہ قوی سفر کے قابل نہیں رہ گئے تھے۔ ان کی رہائش گاہ پی سی کالونی کنکر باغ پٹنہ میں تھی۔
جہاں تک ان کی ادبی صلاحیتوں کا تعلق ہے، پوری اردو دنیا ان کے مطالعہ کی گہرائی اور گیرائی کی قائل تھی، ان کی ادبی تحریروں اور تقریروں کو بڑی قدر و منزلت کی نگاہ سے پڑھا اور سنا جاتا تھا، ان کی تحریر اور تقریر میں ایجاز کا گذر نہیں تھا، انھیں باتوں کے پھیلانے کا ہنر آتا تھا، اور وہ پورے بسط و کشاد کے ساتھ اپنی باتیں رکھنے کے قائل تھے، ان کی یاد داشت بہت مضبوط تھی، برسوں پہلے پڑھی یا سنی ہوئی بات ان کے حافظہ کے گرفت میں ہوتی اور حسب موقع اس کے استعمال پر وہ قادر تھے۔ تصنیف و تالیف کا اللہ رب العزت نے خصوصی ملکہ عطا فرمایا، تجزیہ کی صلاحیت بھی مضبوط تھی، ان کی کتابیں شخصیات وانتقادیات، فراق اور غزل کا اسلوب، اقبال اور قومی یک جہتی، ظفر عدیم ایک سخن ساز اور معاصر غزل کا منظر نامہ، نئی غزل میں تلمیح کی معنویت، متن سے مکالمہ، قومی وطنی شاعری کا منظر نامہ، انعکاس میں مظفر پور کا فراق نمبر، اقبال- عصری تناظر، فیض احمد فیض اور صلیبیں میرے دریچے میں، اعجاز نظر، ورق ورق اجالا (مجموعہ غزل) فراق اور غزل کا اسلوب، تجزیاتی مطالعے، وہاب اشرفی: نقاد اور تخلیق کار، ظفر عدیم کا نثری تخلیقی وجدان، تجزیہ اور تخلیقی تجربہ، چند جاسوسی اور معاشرتی ناول، فراق، سوائے شاعری وغیرہ خاص طور سے قابل ذکر ہیں، ان کتابوں سے ان کے مطالعہ کی وسعت علم و ادب پر محنت اور ان کی قوت اخذ و عطا کا پتا چلتا ہے، ان میں زیادہ تر کتابیں تجزیہ و تنقید سے تعلق رکھتی ہیں۔
میرا ڈاکٹر منظر اعجاز صاحب سے تعلق انتہائی قدیم تھا، اب تو مہہ وسال یاد بھی نہیں رہے، جب میں نے داغ کے شاگرد عبد اللطیف اوج کے دیوان کو ایک صاحب کے بکس سے نکلوا کر مرتب کیا اور شائع ہوئی تو اس کے اجرا کی تقریب میں بہ نفس نفیس مہوا تشریف لے گئے، تبصرہ لکھا اور مجمع کو پڑھ کر سنایا اور کئی جگہ چھپوایا، ان سے میری آخری ملاقات 3 دسمبر 2022ء کو گورنمنٹ اردو لائبریری میں ہوئی تھی، ہم لوگ سلطان شمسی کے شعری مجموعہ کے اجرا کی تقریب میں شریک تھے، انھوں نے اس موقع سے خطاب فرمایا تھا، ایسی علمی و ادبی شخصیت کا رخصت ہوجانا علم وادب کی دنیا کا بڑا نقصان ہے۔ اللہ مغفرت فرمائے اور پس ماندگان کو صبر جمیل دے آمین
***
صاحب تحریر کی گذشتہ نگارش :شخصیات و انتقادیات۔ ایک تجزیاتی مطالعہ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے