انڈین نیشنل کانگریس کا اگلا صدر کون؟

انڈین نیشنل کانگریس کا اگلا صدر کون؟

ہندستان کی سب سے قدیم سیاسی پارٹی کانگریس میں صدر، کار گزار صدر اور نائب صدر کے انتخاب کے مسائل ہمیشہ کسی نا کام ڈرامے کے سین کی طرح ہوتے ہیں۔ امیّد ہے، اِس بار بھی ایسا ہی ہوگا۔

صفدر امام قادری
شعبۂ اردو، کا لج آف کا مرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ

پچھلے آٹھ برسوں میں پسپائی کی نئی تاریخ لکھنے میں روزانہ مزید مستحکم ہوتی ہوئی کانگریس پارٹی نے اپنے نئے صدر کے انتخاب کا تاریخ وار شیڈول جاری کیا ہے۔لوگ اِس کے اطلاق پر چہ می گوئیاں کر رہے ہیں۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ راہل گاندھی کیا کانگریس کی مسندِ صدارت پر پھر سے بیٹھیں گے یا بٹھائے جائیں گے؟ اِس جواب میں ہی ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ راہل نہیں تو پھر سونیا گاندھی بہ دستور کارگزار صدر بن کر منجھدار میں پھنسی اِس ناؤ کو سنبھالنے کے لیے مجبور ہوں گی۔ فی الوقت کانگریس کے پاس چھتیس گڑھ اور راجستھان کی صوبائی حکومتیں ہیں۔ باقی کسی صوبے میں اُن کی حکومت اِن آٹھ برسوں میں قایم نہ ہو سکی۔مدھیہ پردیش، کرناٹک میں اُن کی حکمتِ عملی سے سب کچھ تمام ہو گیا۔
راجیو گاندھی کی وفات کے بعد سے اب تک کا منظر نامہ سامنے رکھیے تو یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ راہل گاندھی کو قائد بنانے کے لیے جو مہم شروع ہوئی، وہ اب تک بے نتیجہ ثابت ہوئی ہے۔ ٢٠١٤ء کے انتخاب میں نریندر مودی نے شہزادہ اور دوسرے لیڈروں نے سیاست کا پپّو بنا کر اُنھیں دھول چٹا دی تھی۔ اُس سے پہلے لگاتار دس برسوں تک من موہن سنگھ کی وہ وفادار حکومت تھی جسے سونیا، راہل اور اُن کے مشیران اپنی اُنگلیوں پر نچاتے رہے۔ ٢٠١٤ء سے آج تک راہل گاندھی ڈرائنگ روم سیاست کے اعتبار سے تو بہت حد تک حزبِ اختلاف کے لیڈر کے طور پر کامیاب کہے جائیں گے کیوں کہ اُنھوں نے ہندستانی سیاست کے سیکڑوں مسئلوں کو عوام کے سامنے اُٹھایا اور حکومت کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کی کوشش کی۔
مگر صوبائی انتخابات میں وہ مکمل طور پر ایک ناکام سیاست داں کی طرح ہمارے سامنے آتے ہیں۔ مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ اور راجستھان میں کانگریس کو جو فتح یابی ملی، اِس میں اُن علاقائی لیڈروں کا بڑا ہاتھ ہے جنھوں نے بھارتیہ جنتا پارٹی کی ناکامیوں کو اپنے لیے ووٹ میں تبدیل کرنے میں کامیابی پائی۔ لوگ اب بھی نہ بھولے ہوں گے کہ وزیرِ اعلا کے نام کے انتخاب کے لیے راہل گاندھی کی نگرانی میں جو ڈراما ہوا، اُس میں مدھیہ پردیش تو ہاتھ سے نکل ہی گیا، رہ رہ کر راجستھان کی حکومت میں بھی لرزہ طاری ہوتا رہتا ہے۔ وہ تو کہیے کہ راجستھان کے وزیرِ اعلا اپنے طویل تجربے کی روشنی میں اپنی حکومت کو سنبھالے ہوئے چل رہے ہیں۔ آخر یہ سوال کیوں نہیں توجہ طلب ہونا چاہیے کہ کانگریس کا ہائی کمان صوبائی انتخابات میں اپنی جان نہیں لگاتا اور اُسے پارلیمانی انتخاب میں بڑی اعلا توقعات ہیں۔ دل میں یہ چور بیٹھا ہوا ہے کہ کم از کم ایک بار راہل گاندھی وزیرِ اعظم کی کرسی پر بیٹھ ہی جائیں لیکن عوام کے بیچ اور سڑکوں پر اترنے میں انھیں بہت طرح کی پرپشانیاں ہیں۔
ہندستانی جمہوریت میں فرقہ پرستی، ذات پات اور دولت کے بڑھتے کھیلوں سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ مگر اِس کے باوجود صوبائی انتخابات سے لے کر پارلیمانی انتخاب تک، وزیر اعظم سے لے کر وزیرِ داخلہ اور ملک کے تمام سر برآوردہ لیڈران تک جنگی سطح پر کرو یا مرو کے انداز میں جٹ جاتے ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی ماحول بنا کر، کبھی کبھی خوف میں مبتلا کر کے انتخاب جیت لیتی ہے اور حکومتیں بنالیتی ہے۔ اُس کی زور زبردستی اور بے ایمانیاں چھوڑیے، اُس کی محنت اور مشقّت کو یاد رکھیے۔ کیا کانگریس یہ کام کر پاتی ہے؟ کانگریس کے صوبائی سیکریٹریز ہارنے کے لیے سیٹیں بیچتے ہوئے پائے جاتے ہیں اور ناچار ہر صوبے میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت قایم ہو جاتی ہے۔ راہل گاندھی اور سونیا گاندھی کو یہ سب نہیں سوچنا ہے کہ جب آپ کی پارٹی نے کھلے عام ٹکٹ فروخت کر کے نا اہلوں کو امیّد وار بنایا تو آپ کی کھوئی ہوئی سیٹیں کیسے بڑھیں گی اور آپ بھلا کیسے بھارتیہ جنتا پارٹی سے اپنی حکومت چھین پائیں گے۔
کانگریس کی سب سے بڑی طاقت یہ ہے کہ ہندستان کے سیکولر عوام اور دانش وروں کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کا وہی متبادل ہو سکتی ہے جس کے سبب اُس پارٹی کو ووٹ دینے والے ملک کے ہر گوشے میں موجود ہیں۔ کانگریس کی دوسری بڑی طاقت یہ ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے خلاف جب کوئی فرنٹ قایم ہوتا ہے تو سیاسی پارٹیاں یہ امیّد باندھتی ہیں کہ کانگریس اُس میں مرکزی رول انجام دے مگر گانگریس کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ اِن دونوں باتوں پر یا تو اُسے دل سے یقین نہیں یا اُسے ایسے کاموں میں دل چسپی نہیں۔ پوری پارٹی میں دل چسپی اگر ہو بھی تو اُس کی قیادت خاص طور سے سونیا گاندھی، راہل گاندھی اور پرینکا گاندھی میں ہر گز ہر گز کوئی ایسا شوق یا اعتماد نہیں ہے۔ اِس کے لیے ملک گیر سطح پر اُن کی کوئی کوشش کبھی نظر نہیں آئی۔ الیکشن کے وقت میں جاگنا اور الیکشن کے کچھ دنوں پہلے محاذ بنانے کی کوشش اور پھر اُسے توڑ تاڑ کر الگ الگ انتخاب میں ہارنے کے لیے آنا جیسے کام ہی کانگریس کی پہچان بن گئے ہیں۔
کانگریس میں ایک نئی تبدیلی راہل گاندھی کے دور میں آئی ہے۔ پرانی کانگریس کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے پرانے سے پرانے رُکن کو بھی اچھے یا بُرے دونوں دَور میں سنبھال کر رکھتی ہے۔ کانگریس میں آپ کی اور آپ کے اسلاف تک کی وفاداریوں کی قیمت رہتی تھی۔راہل گاندھی کے زمانے میں ایک نیا طور سامنے آیا ہے۔ایک ایک کر کے گنتے جائیے۔ سندھیا، سچن پائلٹ، جتن پرشاد، کپل سبل اور اب غلام نبی آزاد؛ کچھ الگ ہو گئے اور کچھ کی ابھی باری ہے۔ بہار کے دو دو کانگریس صدر اپنی مدّتِ کار ختم ہوتے ہوتے فوراً ہی دوسری پارٹیوں میں منصب پانے پہنچ گئے۔ آخر یہ کیسی پارٹی ہے اور اِس کی قیادت کیسی نا اہل ہے کہ اپنے اُن لوگوں کو بھی سنبھال کر نہیں رکھ سکتی جن پر پچیس چالیس برس تک عہدے لٹائے گئے ہیں۔ اقبال نے اِس موقعے سے کیا دانش ورانہ شعر کہا تھا:
کوئی کارواں سے ٹوٹا، کوئی بد گماں حرم سے
کہ امیرِکارواں میں نہیں خوئے دل نوازی
سو بات کی آخری بات یہ ہے کہ ماں، بیٹے، بیٹی کی قیادت میں سمٹی ہوئی یہ پارٹی اب اِس بات پر بھی متفق نہیں کہ ان تینوں میں کس کی قیادت کو عوام میں پیش کیا جائے۔ صوبوں سے لے کر مرکز تک انتخاب سے پہلے عوام کو معلوم ہوتا ہے کہ اِس الیکشن کے نتیجے میں ہماری قوم کا قائد کون ہوگا؟ نریندر مودی بھی انتخاب سے کافی پہلے بھارتیہ جنتا پارٹی کے وزیرِ اعلا امیّدوار کے طور پر پیش کر دیے گئے تھے۔ صوبوں میں ممتا بنرجی ہوں یا نیتش کمار سب کی قیادت کا اعلان انتخاب سے پہلے ہو جاتا ہے۔ ایک کانگریس ایسی پارٹی ہے جہاں انتخاب نہیں ہونا ہے۔ سب کو معلوم ہے کہ ماں، بیٹے، بیٹی میں وہ خود جسے پیش کر دیں، اُسی پر سب کا اتّفاق ہوگا۔ مگر صدر کے انتخاب کے لیے سب سے زیادہ نوٹنکی اِسی پارٹی میں ہوتی ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی میں راج ناتھ سنگھ، نتن گڈکری، امت شاہ اور جے پی نڈا صدر کے طور پر ادلتے بدلتے رہے۔ بر سرِ اقتدار پارٹی ہونے کی وجہ سے اُس کے یہاں زیادہ جھمیلا ہونا چاہیے مگر بڑے سلیقے سے ترتیب وار مراحل انجام تک پہنچتے گئے۔ مگر کانگریس ہی ایک ایسی پارٹی ہے جہاں ڈراما در ڈراما ہونا ہی ہے۔
راہل گاندھی اُتر پردیش کانگریس کے صدر بنائے گئے۔ الیکشن میں انھیں ہارنا ہی تھا، وہ ہار گئے۔ اُصول تو یہ کہتا ہے کہ وہیں محنت کرتے اور اگلے پانچ برس میں انقلاب برپا کر دیتے مگر استعفیٰ کا آزمایا ہوا نسخہ اُن کے کام آیا۔ نریندر مودی کی جیت کے بعد بھی اُنھوں نے استعفیٰ دیا۔ سوال یہ ہے کہ انتخاب سے پہلے اُنھیں کیوں یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ کانگریس یا اُس کا محاذ نریندر مودی کو شکست دے دے گا۔ جب آپ انتخاب میں کہیں تھے ہی نہیں تو یہ غلط فہمی آپ کو کیوں کر پیدا ہو گئی؟ کانگریس کی ہار تو پہلے سے ہی متعین تھی۔ ایسے میں اِس ناٹک کا کیا مطلب اور آپ کے استعفیٰ دینے سے کیا فرق پڑ گیا۔ کیا آپ کے استعفیٰ دینے سے پارٹی کے قائدین یا زمینی کام کر نے والے کارکنوں میں جوش پیدا ہو گیا۔ کبھی کبھی محسوس ہوتا ہے کہ کانگریس کے سچے ورکروں کو راہل گاندھی مجبور کرتے رہتے ہیں کہ وہ پارٹی سے ٹوٹ کر الگ ہو جائیں۔
ابھی حال کے دنوں میں بہار کی سیاست میں تبدیلی ہوئی ہے۔ لالو یادو کی رہ نمائی میں نتیش کمار کی قیادت سے بھارتیہ جنتا پارٹی کے خلاف ایک نیا ماحول پیدا ہونے لگا ہے۔ مختلف صوبوں کے سیکولر لیڈروں سے قومی سیاست کے لیے ایک نئے محاذ کی کوششیں شروع ہوئی ہیں۔ اِن کوششوں میں رفتہ رفتہ ہر صوبے کے سیکولر لیڈر شامل ہوتے جائیں گے۔ اِس محاذ کو ملک گیر پیمانے پر پھیلنے میں کانگریس ہی کہیں رُکاوٹ نہ بن جائے۔ اِس پر سیاسی مشاہدین اپنے اندیشوں کا اظہار کر رہے ہیں۔ معاملہ قیادت کا اُٹھے گا۔ جس پارٹی کو اپنے صدر کے انتخاب میں کئی برس لگ جاتے ہیں، اُس کی حالت یہ ہے کہ اُس وقت ممتا بنرجی یا نیتش کمار یا اکھلیش کو نیچا دکھا کر وہ خود کو بڑی جگہ پانے کے لیے پیش کرے گی۔ کانگریس کے لیے آج ضرورت اُس کی تنظیم کو مضبوط کرنے کی ہے۔ پہلے کی طرح گانو گانو میں اپنی شاخ قایم کرنے کی ہے۔ اِس کے بغیر وہ بتدریج گھٹتی جائے گی۔ کہنے والے تو سر گوشی میں یہ الزام بھی عائد کرتے ہیں کہ کانگریس کا یہ انتشار بھارتیہ جنتا پارٹی سے ایک اندرونی سمجھوتے کا حصّہ بھی ہے۔ خدا کرے یہ غلط ہو۔ اُس پارٹی میں یہ ہمّت تو ہے نہیں کہ راہل، سونیا اور پرینکا سے باہر کے کسی کانگریسی کو صدر بنا کر میدان میں آئے اور اپنی جان لگا کر نریندر مودی کو دھول چٹادے۔ اُس کا انتخاب اور انتخاب کا شیڈول ایک میکانکی عمل ہے جس سے ہندستانی سیاست میں کچھ بھی نہیں بدلے گا۔
[مقالہ نگار کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ میں اردو کے استاد ہیں] 
safdarimamquadri@gmail.com
گذشتہ عرض داشت : مقابلہ جاتی امتحانوں کے کھیل کو سمجھیے

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے