مقابلہ جاتی امتحانوں کے کھیل کو سمجھیے

مقابلہ جاتی امتحانوں کے کھیل کو سمجھیے

کم زور طبقے اور عام آدمی سے مواقع چھنتے ہی جا رہے ہیں
طرح طرح کے امتحانات، سائبر اسکیم، رشوت خوری اور لین دین کے حصار سے بے روزگار نکل کر کہاں جائیں، ہر جگہ سازش اور دھوکے کا کار و بار ہے!!

صفدرا مام قادری
شعبۂ اردو، کالج آف کا مرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ

پوری دنیا میں بے روز گاری ہزار مسئلوں کی بنیاد میں پیوست تسلیم کی جاتی رہی ہے۔ کسی خطّے میں جرائم بڑھتے ہیں تو تفتیش کے دوران پتا چلتا ہے کہ بے روز گاری کے شکنجے میں پستے پستے نو جوان یہاں تک پہنچ گئے۔ جاگیردارانہ سماج میں عمومی استحصال سے لوگ اپنے راستے بدلنے کے لیے مجبور ہوتے تھے۔ راستے سے گزرتے ہوئے کہیں بھیڑ کا سامنا کرنا پڑے تو بغیر پوچھے آپ یہ سمجھ سکتے ہیں کہ یہ ہمارے ملک کے بے روز گار نوجوان ہیں۔ بھیڑ بکریوں کی طرح کالج اور اسکولوں کے کمرے میں بٹھائے جا رہے اِن نوجوانوں کو جنھیں چار و ناچار آپ کو ملک کا مستقبل کہنا پڑے گا، اُن کے اساتذہ سے لے کر افسران تک ایک حقارت آمیز اور تذلیل پسند رویّے کے ساتھ دیکھتے ہیں۔ اُن کے عمومی دُکھ پر صبر کی تلقین کرنے والے تھوڑے بہت تو مل جائیں گے مگر اپنی ہزار استعداد اور صلاحیتوں کے باجود اُنھیں جو روزانہ غم نصیب ہوتے ہیں، اُس پر کون آنسو بہائے گا۔ اِن بے روزگاروں کے آنسو تو پہلے ہی خشک ہو چکے ہیں۔
ملک میں روزگار دینے کے بڑے بڑے ادارے اور ایجنسیاں موجود ہیں۔ پی۔ٹی، مینس، انٹرویو، گروپ ڈسکشن، فزیکل امتحان، سائکو ٹسٹ اور نہ جانے کتنے طریقے ہو سکتے ہیں جن کی مدد سے آج کا نظام اُن صلاحیت مند لوگوں کا انتخاب کرتا ہے۔ کچھ امتحانات میں تو کروڑوں میں سے صرف دو چار سو لوگوں کے انتخاب کا نشانہ مقرر کیا جاتا ہے۔ ایک صوبے کی حد تک غور کریں تو چپراسی، کلرک، ٹیچر، سپروائزر، انسٹرکٹر، لکچرر، ڈاکٹر، انجینیر، ڈپٹی کلکٹر اور اِسی انداز کے سینکڑوں کاموں کے لیے الگ الگ ایجنسیاں الگ الگ امتحانات لیتی ہیں۔ اِسی طرح سے مرکزی حکومت کے زیرِ انتظام ملازمتوں کے لیے ہزاروں طرح کے امتحانات لینے کا چلن ہے۔ بہت سارے ہونہار طلبہ متعدد صوبوں میں جا کر وہاں کے مقابلہ جاتی امتحانات میں قسمت آزمائی کرتے ہیں۔ اوسطاً ایک بیدار مغز اور ملازمت کے طلب گار طالب علم کو ایک سال میں ایسے بیس پچیس امتحانات لازمی طور پر دینے ہوتے ہیں۔ کسی امتحان کے لیے بچہ اردو فارسی پڑھ رہا ہے تو دوسرے امتحان کے لیے سماجیات اور نفسیات! کسی امتحان کے لیے علم الحساب اور ریزننگ کے مطالعے میں مبتلا ہے۔ کبھی معروضی سوالوں میں طالب علم اُلجھا ہوا ہے تو کبھی مختصر سوالوں کے جواب اور مضمون نما جوابوں کی تیّاری میں لگا ہوا ہے۔ ایک طالب علم نے ایک سال میں جتنے ڈھنگ کے امتحانات دیے، اُن کے مضامین اور موضوعات کی فہرست بنا لیجیے تو آنکھیں چھندھیا جائیں گی کہ تعلیمی مہم میں ہم نے ’بستے کے بوجھ‘ سے خود کو الگ کرنے کا اعلان کیا تھا مگر اسکول اور کالج سے جیسے ہی بچہ روزی روٹی کے لیے تگ و دو کرتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ اُس پر ایک ساتھ پورا کتاب خانہ ہی ڈال دیا گیا ہے۔ وہ مرے یا جیے، اِس سے کسی کو کوئی غرض نہیں۔ حد تو یہ ہے کہ سپاہی، ڈاکیہ، ریلوے، لائنس مین کے لیے بھی امتحانات اور بہت ساری جگہوں پر انٹرویو مقرر ہیں۔ کمال تو یہ ہے کہ اُن امتحانات کے نصاب کچھ اِس طرح سے بنائے گئے ہیں کہ ذرا سی توجّہ سے اِس کا وہ مطالعہ کر لیں تو افسروں کے امتحان میں بھی وہ کامیاب ہو سکتے ہیں۔
گذشتہ دنوں وزیرِ اعظم اور مرکزی وزیرِ داخلہ نے قومی اتحاد کے اعلان میں جو مختلف جملے پیش کیے، اُن میں ایک ملک ایک کرنسی، ایک ملک ایک ٹیکس، ایک ملک ایک جھنڈا کی قطار میں ہی ایک ملک اور ایک امتحان اور اُسی میں ایک ملک اور ایک امتحان ایجنسی کا بھی تصوّر سامنے آیا۔ تقریباً ٣٤/ سو کیلو میٹر طول و عرض میں پھیلے اِس ملک میں جہاں کثیر مراکز اداروں کی ضرورت سب سے زیادہ ہے، وہاں کسی کام کے لیے صرف ایک ادارے کا تصوّر یہ بتاتا ہے کہ قومی اتحاد اور سالمیت کے نام پر آئین کی روح سے تبدیلیِ راہ کی صورت پیدا کی جارہی ہے جہاں غیر مرکزیت کی بنیاد پر آئین کے معماروں نے عوامی ترقی کے نئے خواب دیکھے تھے۔ گاندھی جی کو ہم بھولتے جا رہے ہیں۔ اُن کے اُصولِ معیشت کا یہ سنہرا اُصول تھا۔ اچھا تو یہی تھا کہ ہر ضلع میں حکومت ایک ایسا ادارہ قایم کر دے جو اُس ضلع میں ضلع کی سطح پرمقامی اسامیاں نکال دے اور اُسی ضلع کے لوگوں کا انتخاب، امتحان یا کسی دوسرے ٹسٹ کی بنیاد پر کر کے دروازے پر ہی ملازمت کا پروانہ پیش کر دے۔ مگر آئے دن ہم دیکھتے ہیں کہ بہار کا آدمی تمل ناڈو میں یا بنگال میں امتحان دینے کے لیے بھاگا بھاگا جا رہا ہے۔ ابھی حال میں گجرات کا ایک طالب علم بہار کے ایک امتحان میں قسمت آزمائی کے لیے نظر آیا۔
کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اتنے امتحانات کہیں طالب علم یا بے روز گار آدمی کو ذلیل اور رسوا کرنے کے لیے تو نہیں لیے جاتے ہیں۔ ہر طالب علم کے ماتھے پر یہ ٹھپّا ہوتا ہے کہ اُس نے دس ناکامیوں کے بعد ایک کامیابی پائی۔ ملک کی آبادی اور روزگار کے مواقع کم ہوتے جانے کے باوجود مرکزی یا صوبائی سطح پر اِس بات کے لیے کیا کوششیں نہیں ہو سکتیں کہ امیّدواروں کا ایک بڑا ٹسٹ لیا جائے، میرٹ لسٹ میں جو اُونچے مقام پر ہیں، اُنھیں افسر بنا دیا جائے، اُس سے نیچے جو آئیں اُنھیں کلرک اور پھر اُس سے نیچے کی ملازمتوں میں اُنھیں بھیج دیا جائے۔ کم سے کم اُنھیں ایک ہی کام کے لیے پانچ بار اور دس بار امتحانات نہیں دینے ہوں گے۔کچھ دہائیاں پہلے تک پرائمری اسکول کے لیے ٹریننگ حاصل کر لینے کے بعد بلاک یا ضلع ایجوکیشن آفس یا امپلائمنٹ آفس میں رجسٹریشن کرا لینے کے بعد اپنی باری آنے پر اپنے ضلعے میں ہی ملازمت مل جاتی تھی۔جیسے کوئی جگہ خالی ہوئی، آپ اپنی قطار سے نکل کر ملازمت تک پہنچ جاتے تھے۔ پوسٹ آفس میں ضلع کی سطح تک پوسٹل اسسٹنٹ کی تقرریاں ہو جاتی تھیں۔پورے ملک میں لاکھوں افراد اپنے گھر اور اُس کے آس پاس چھوٹی بڑی ملازمتیں پا لیتے تھے جس کے نتیجے میں صوبائی سطح یا قومی سطح کی ملازمتوں کے لیے لاکھوں اور کروڑوں کی غیر ضروری بھیڑ سڑکوں پر آ کر اپنے حصّے کا روز گار طلب نہیں کرتی تھی۔
سیاسی نظام جیسے جسیے غیر حسّاس، مغرور اور بے اعتبار ہوا، اُسے اپنے اِرد گرد ہاتھ جوڑے، پریشان حال اور بے یار و مددگار نوجوانوں کی فوج کی ضرورت ہوئی۔ کمال یہ ہے کہ بڑے شور سے اسامیوں کے نکلنے کا اعلان ہوتا ہے۔ کہیں دو کروڑ سالانہ اور کہیں ایک کروڑ سالانہ ملازمتیں دینے کا اعلان ہوتا ہے مگر کبھی یہ نہیں بتایا جاتا کہ اِس پروسس کی تکمیل کتنے دنوں میں ہو گی۔ ایک زمانے میں بے روزگاری پر رویش کمار نے ٹیلی ویژن پر جو سیریز چلائی تو سب حیرت زدہ رہ گئے کہ امتحان پاس کر جانے، ملازمت کا پروانہ مل جانے کے باوجود دس دس برس سے لوگ سڑکوں پر پڑے ہوئے ہیں۔ کسی کسی امتحان کا نتیجہ ہی پانچ اور دس برس کے بعد نکلا۔ عمر کی حد ہزاروں نہیں لاکھوں کی پار ہو گئی۔ سچی بات یہ ہے کہ روز گار دینے کے نظام میں اتنی پیچیدگی ڈالی گئی تاکہ ہر کچھ نعرہ ہی بنا رہ جائے اور حقیقی آدمی تڑپتا ہوا ملکِ عدم روانہ ہو جائے۔ حکومت کو فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اتنے برسوں تک اُسے مستقل تقرری نہیں کرنی پڑتی ہے۔ دوسرا فائدہ یہ بھی ہے کہ آوٹ سورسنگ اور وقتی ٹھیکے پر تقرری میں اپنے قرابت داروں اور لین دین کی بنیاد پر وقتی ملازمین کو پروانۂ محبت بانٹ دیا جاتا ہے۔ ورنہ جب حکومت دل سے چاہتی ہے تو ایک اشتہار نکال کر چند مہینوں میں لیٹرل انٹری کے نام پر مرکزی حکومت کے جوائنٹ سکریٹری کے رَینک پر سیدھے من چاہے لوگوں کا تقرر کر دیتی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ نیت میں کھوٹ ہے اور ملک کے نوجوانوں کے تئیں کوئی ہم دردانہ اور مشفقانہ جذبہ کسی پالیسی ساز حکمراں کے پاس نہیں۔
آج ضرورت اِس بات کی ہے کہ اسکول سے لے کر یونی ورسٹیوں تک امتحانات کے نظام کی پیچیدگی کو دُور کیا جائے۔ اصل صلاحیت کو پہچاننے کے لیے مُثبت اندازِ فکر سے نئے طریقۂ انتخاب کو اختیار کیا جائے۔ بے روز گار طلبہ کی زندگی میں مشکلات کو سمجھتے ہوئے آسان طریقۂ انتخاب کو اپنایا جائے۔ کوئی ایسا نظام بنے جب ایک طالب علم کسی ایک امتحان کو پاس کر کے اُس میں حاصل شدہ پوزیشن کے اعتبار سے ہزاروں ملازمتوں کا دعوے دار ہو سکے۔ حکمراں جماعت کو مرکز سے لیے کر صوبے تک چھوٹی بڑی ملازمتیں کیسے بڑھیں گی، اِس کے لیے ایک مبسوط تیّاری کرنے کی ضرورت ہے۔ چائے بیچنے اور پکوڑے بنانے کے اہانت آمیز چٹکلوں کا دَور ختم ہوا، اب سنجیدگی سے بے روز گاروں کی فوج سے مقابلہ کرنے کا لائحہ عمل اختیار کرنا چاہیے۔
[مقالہ نگار کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ میں اردو کے استاد ہیں] 
safdarimamquadri@gmail.com
گذشتہ عرض داشت یہاں پڑھیں: زباں بگڑی تو بگڑی تھی، خبر لیجے دہن بگڑا

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے