جاپانی صنف رینگا پر مشتمل شعری مجموعہ”پیمانۂ سخن": ایک جائزہ

جاپانی صنف رینگا پر مشتمل شعری مجموعہ”پیمانۂ سخن": ایک جائزہ

مصباح انصاری
گورکھ پور، یو۔ پی۔ ہند
موبائل نمبر- 8858273875

"پیمانۂ سخن" ڈاکٹر عبدالحق امام بہ اشتراک ریحانہ ارم کا جاپانی صنف "رینگا" پر مشتمل شعری مجموعہ ہے۔ ڈاکٹر عبدالحق امام اور محترمہ ریحانہ ارم صاحبہ کا تعلق مجنوں، فراق اور ہندی کی سر زمین گورکھ پور سے ہے۔ ریحانہ ارم شاعری کی دنیا میں نیا نام ہے لیکن ڈاکٹر عبدالحق امام کا شمار عہد حاضر کے بہترین رباعی گو شعرا میں ہوتا ہے۔ 2700 سے زائد رباعیات پر مشتمل ان کی رباعیات کا ضخیم دیوان "نیرنگ رباعی" کے نام سے شائع ہوکر ادبی دنیا میں انھیں رباعیات کا امام بنا چکا ہے۔ اب تک ان کی سات شعری اور ایک نثری تصنیف منظر عام پر آکر مقبولیت حاصل کر چکی ہیں۔ ابتدا سے ہی دشوار راستے پر چلنا ان کا شیوہ رہا ہے۔ اسی دشوار راستے پر چل کر انھوں نے ادبی دنیا میں اپنا نام پیدا کیا۔ مذکورہ کتاب بھی اسی مشکل راستے کا ایک سفر معلوم پڑتی ہے۔
ہائیکو کی طرح صنف "رینگا" بھی جاپانی شاعری کی مقبول ترین صنف سخن ہے اور اس کی ہیئت بھی ہائیکو سے ملتی جلتی ہے۔ ہائیکو میں تین مصرعے ہوتے ہیں۔ جن کا صوتی آہنگ 5-7-5 ارکان پر مبنی ہوتا ہے۔ "رینگا" پانچ مصرعے پر مشتمل صنف سخن ہے۔ جس کا صوتی آہنگ ابتدائی تین مصرعے ہائیکو کے مماثل ہوتے ہیں اور آخری دو مصرعے صوتی آہنگ 7-7 ارکان پر مبنی ہوتے ہیں۔ اس صنف کی خاص بات یہ ہے کہ اس کو دو شاعر مل کر کہتے ہیں۔ اول تین مصرعے پہلا شاعر 5-7-5 کے صوتی ارکان پر کہتا ہے اور آخر کے دو مصرعے دوسرا شاعر 7-7 ارکان کے صوتی آہنگ پر کہتا ہے۔
اردو شاعری میں صنف "رینگا" کا پہلا مجموعہ پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی بہ اشتراک ڈاکٹر فراز حامدی کا بہ عنوان "رینگا" 2012 میں شائع ہوا تھا، جو 57 رینگا پر مشتمل ہے۔
اردو شاعری میں "رینگا" ابھی اپنے ابتدائی دور سے گزر رہی ہے۔ زیر مطالعہ کتاب سے پہلے اس صنف کے پانچ اور مجموعے منظر عام پر آ چکے ہیں۔ "تنہائی کے رنگ" ڈاکٹر فراز حامدی – کوثر صدیقی 2014، "مقیاس" وقیع منظر – سید رہبر حمیدی 2014، "خاموشی کی چیخیں" ڈاکٹر فراز حامدی-حلیم صابر 2015، "سناٹوں کا شور" مناظر عاشق ہرگانوی- حلیم صابر 2015، اور "سلسلے اجالوں کے" مناظر عاشق ہرگانوی-احسان ثاقب 2015۔
"پیمانۂ سخن" رینگا پر مشتمل ساتواں شعری مجموعہ ہے جو 2016 میں شائع ہوا۔ یہ پہلے شائع ہوئے تمام مجموعوں سے منفرد اور ضخیم ہے۔ اس کی انفرادیت کی سب سے بڑی وجہ دوسرے شاعر کا خاتون ہونا ہے۔ اب تک شائع ہوئے رینگا کے کسی بھی مجموعے میں شاعرہ کا اشتراک نہیں تھا۔ شاعرہ کے اشتراک سے "پیمانۂ سخن" میں نسوانی لب و لہجہ اور نسوانی جذبات و احساسات کی ترجمانی اسے ممتاز بناتی ہے۔ یہ مجموعہ 603 رینگا پر مشتمل ہے۔ تمام رینگا کے اول تین مصرعے ڈاکٹر عبدالحق امام نے کہے ہیں اور آخر کے دو مصرعے ان کی اہلیہ محترمہ ریحانہ ارم صاحبہ نے کہا ہے۔ اس کا انتساب اردو ادب کو رینگا کا پہلا مجموعہ دینے والے شعرا پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی اور ڈاکٹر فراز حامدی کے نام ہے اور اسے دیگر رینگا نگاروں سعید جامی، حلیم صابر، کوثر صدیقی، سید رہبر حمیدی اور وقیع منظر کی نذر کیا گیا ہے۔
کتاب کی ابتدا میں "اپنی بات" عنوان کے تحت ڈاکٹر عبدالحق امام نے رینگا کی مختصر تاریخ اور اس کی صنفی خصوصیات کو بڑے آسان لفظوں میں بیان کیا ہے۔ اس کے بعد "مقطع میں آ پڑی۔۔۔۔۔" عنوان سے ریحانہ ارم نے ایک صفحہ رقم کیا ہے۔ اس میں انھوں نے اپنے شعری ذوق اور مذکورہ مجموعے میں اپنے اشتراک کا سبب بیان کیا ہے۔ اس کے بعد 603 رینگا رقم کیے گئے ہیں۔ شعرا نے ان رینگا کو حمدیہ، نعتیہ، تصوف، منقبتی، اسلام، نماز، عید، دور، اخلاقی، سماجی، ذاتی، المیہ، سیاسی، کشمیر، ماں، طفلی، وقت، حکیمانہ، عشقیہ، لا ادریت، ادبی، فطری، فطرت، شکشا، شخص، اردو، ادب، تعلی، اور زلزلہ عنوانات کے تحت تقسیم کیا ہے۔ آخر میں نوٹ بندی کے بعد پیدا ہوئے حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے چھے رینگا کہے گئے ہیں۔ لیکن شاعر ان کو عنوان دینے سے چوک گئے۔ ان عنوانات کو دیکھ کر اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ شاعر اپنے ماضی اور حال سے پوری طرح آشنا ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے عہد سے بھی پوری طرح باخبر ہے۔
اس مجموعے کے مطالعہ سے دونوں شعرا کی فکر اور بلند تخیلی کا بہ خوبی اندازہ ہوتا ہے۔ بعض اوقات ایک شاعر کا دوسرے شاعر سے ربط ٹوٹتا محسوس ہوتا ہے۔ جس کا سبب ضخامت ہو سکتی ہے۔ کہیں کہیں لفظوں کی بنت بھی بوجھل نظر آتی ہے۔ لیکن بیشتر "رینگا" میں دونوں شاعر ایک دوسرے کے خیالات کو پُر کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ حمدیہ رینگا ملاحظہ کریں:
جگ کے پالن ہار
سب کچھ تیرے ہاتھوں میں
کر دے بیڑا پار
"میں مخلوق ہوں مٹی کی
خالق ہے جو سب کا جی"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو ہے ربِ کریم
بے مثل ہے یکتا بھی تو
اے رحمان و رحیم
"وہ بخشندہ ہے بے مثال ہے
ہے جو ربِ جاہ و جلال ہے”
اسی طرح جب اس مختصر سی صنف میں دونوں شاعر عشق رسول میں ڈوب کر نعتیہ کلام کہتے ہیں تو دل میں اتر جاتا ہے۔
زمیں سے آسماں تک
ہے کتنا پر سکوں طیبہ
نظر پہنچے جہاں تک
"وہاں ہیں ساعتیں رنگیں
وہاں ہیں راحتیں رنگیں"
دور حاضر کی حقیقت کی عکاسی بھی دونوں شعرا نے بڑی بے باکی، جواں مردی اور زندہ دلی کے ساتھ کی ہے۔ مثال کے طور پر چند رینگا پیش خدمت ہیں:
دودھیا منظر ہے
مسجد، مندر، گھر، در پر
پھر بھی اک ڈر ہے
"کب ہو جائے ہنگامہ
سوچ رہی ہوں ریحانہ"

مت پوچھو اب حال
بستی بستی کوچے کا
ہر سو ہے جنجال
"ہوتے ہیں ہر دن دنگے
بکھرے ہیں ان کے بندے"

جب ایک شاعر اور شاعرہ کے جوڑے سے رینگا کی تخلیق ہو تو نسوانی جذبات کا حائل ہونا فطری عمل ہے۔ لیکن اگر شاعر اور شاعرہ حقیقی زندگی میں میاں بیوی ہوں تو جذبات و احساسات کے اظہار میں جھجھک کی گنجائش ہی نہیں بچتی۔ یہی سبب ہے کہ ریحانہ ارم نے کھل کر اظہار خیال کیا ہے۔ چند رینگا ملاحظہ ہوں:
بہتر ہے ہر کام
یکسوئی سے کرتے جاؤ
مت سوچو انجام
"لیکن تھک جانے پہ امام
کہتی ہوں کر لے آرام"

ہم اپنائے ہیں
صبر و تحمل کو اپنے
قسمیں کھائی ہیں
"کب میں تم سے گھبرائی
میں تیری ہوں شیدائی"

آج ہے وہ آئی
نئی نویلی دلہن بن کر
ہے وہ شرمائی
"لائی ہے گر کم وہ جہیز
گھر بھر اس سے کریں گریز"

تو غزل ہماری
ہے تیری اک شخصیت
ہے یہ جان تمھاری
” یہ تو ذرہ نوازی ہے
بندی تم پر واری ہے"

رہ رہ کر ملنا
تیرا یاد آتا ہے مجھے
کلیوں کا کھلنا
” راس آیا کب مجھکو خواب
اپنا دل تھا یہ بے تاب"

اک خوشبو آئی
کس نے بدلی اپنی روش
جو تن پر چھائی
"کیسا یہ موسم آیا
آنکھوں میں البم آیا"

مت یہ پیار گنواؤ
اس کا بھی دل ٹوٹے گا
مت اس کو ٹھکراؤ
"اچھی ہے یہ رسم چلی
جب چاہو تب مسلو کلی"

پیکر ہے تیرا پیار
سر سبز صنوبر کا ہے قد
دیکھے ہے زنہار
"سوچو گے کوئی عنواں
آوارہ فکرِ نسواں"

اے مطربِ غمگیں
پُر تمکنت ہے وہ لب کہاں
مت چھیڑ رُت رنگیں
” نغمے کو تو مچلنے دے
یوں دل کو تو بہلنے دے"

ان رینگا میں نسوانی جذبات کے ساتھ ساتھ رومانی انداز کو بھی بہ خوبی محسوس کیا جا سکتا ہے۔ دونوں شعرا کے یہاں قوت ایمانی بھی ہے اور عشق کی جولانی بھی۔ یہ مجموعہ اپنے اندر تمام رنگ سموئے ہوئے ہے۔ وہ سماج کے بناوٹی پن اور دکھاوے سے گریز کرنے کی ترغیب دیتے ہیں اور امن و آشتی کا پرچم بلند کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ اس تیز رفتار ٹیکنالوجی کے دور میں بچوں سے چھن رہا ان کا بچپن بھی انھیں فکر مند کرتا ہے۔ بچوں میں غائب بچپن انھیں خائف اور رنجیدہ کر دیتا ہے۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں:
سرمایہ داری
ہے شہرت کی بیماری
اچھی ناداری
"قاتل ہیں انسان کے
بیٹے ہیں شیطان کے"

زخمی ہے انصاف
ہے جب سے اندھا قانون
بس ہے شین و قاف
"کورٹ میں جانا ہے بےکار
کیسا بدلا ہے سنسار"

تم اپنے پیچھے
چھوڑوگے گر کوئی نشاں
اپنائیں بچے
"والدین کے نقشے قدم پر
چلتے ہیں بچے اکثر"

شعرا نے اردو کے عنوان سے چھے رینگا کہا ہے اس میں ان کی اردو دوستی بھی نظر آتی ہے اور اردو کے مخالفین پر طنز بھی :
جو ہے اردو زباں
ثبت ہے صدیوں سے دل پر
انمٹ ہے یہ نشاں
"درسِ اخوت دیتی ہے
طرزِ محبت دیتی ہے"

اردو کے تیور
رینگا، تنکا، ہائیکو
جاپانی منظر
"صنف نئی ہے شعر و سخن کی
چھوڑی میں نے طرز کہن کی"

اردو بولیں سب
پر ہے اردو سے انکار
پل بھر سوچیں سب
"اردو سے کتراتے ہیں
اوچھا پن دکھلاتے ہیں"

مجموعی طور پر یہ کہنے میں قطعی گریز نہیں کہ ڈاکٹر عبدالحق امام اور ریحانہ ارم نے اس نئی صنف میں جو کارنامہ انجام دیا ہے وہ قابلِ ستائش ہے۔ ادبی دنیا اسے فراموش نہیں کر سکتی۔ امید ہے اردو شاعری میں "رینگا" کو رواج دینے میں یہ کتاب اہم کردار ادا کرے گی۔
***
مصباح انصاری کی گذشتہ نگارش:کتاب: میزاب نور

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے