نسیم احمد نسیم سے ایک دل ربا ملاقات

نسیم احمد نسیم سے ایک دل ربا ملاقات

نسیم اشک
ہولڈنگ نمبر10/9گلی نمبر3
جگتدل 24 پرگنہ مغربی بنگال
فون۔9339966398

آپ نے ثمر آور پیڑ دیکھا ہی ہوگا۔ دیکھا کیا آپ نے اس کے پھل بھی کھائیں ہوں گے۔ کبھی کبھی میں سوچتا ہوں عظمت کیا ہے؟ شہرت اور نام آوری کیا ہے؟ تو بات سمجھ میں یہ آتی ہے کہ کسی کے پاؤں کی ٹھوکر اور کسی کی زندگی کا حاصل۔ ایک جست مار کر ہواؤں میں اڑ جانا تو بہت لوگوں کے مقدر میں ہوتا ہے مگر اس اڑان میں جذبات کو قابو میں رکھنا، آسمان جیسی بلندیوں پر جاکر زمین کو دیکھتے رہنا ہر کس و ناکس کے مقدر میں نہیں ہوتا اور کچھ کے بس میں ہی نہیں ہوتا۔ شہرت غرور پیدا کرتی ہے مگر ہر حال میں معتدل رہنے کا فن صرف ان کو حاصل ہوتا ہے جو اپنی پیشانیوں پر صبر اور شکر لکھوا کر آتے ہیں، اس سے جو تمام عزت و ذلت کا دینے والا ہے۔ ہاں تو اس عزت و ذلت کے نوازنے والے نے مجھے ایک بڑی عزت سے نوازا،میرے ایک کرم فرما دوست کے توسط سے.دوست لکھتے وقت نہ معلوم کیوں مجھے اپنا قد اس قدآور دوست کےجیسا لگ رہا ہے۔ بہار کی مقدس سرزمین سے ایک شخص میرے بغل والی کرسی پر بڑے اطمینان سے بیٹھا ہوا تھا.کچھ دیر بعد جب وہ رونق اسٹیج بنا تو میرے ہوش ٹھکانے لگ گئے۔ اب میں نے سارا دھیان باتوں سے ہٹا کر اس شخص پر لگا دی. کیوں لگا دی میں اس کی وضاحت کردوں گا۔ پہلے میں ان کی دیدہ ور آنکھوں کا تو ذکر کرلوں۔ سفید پنجابی کرتے میں ملبوس، درمیانہ قد، بلند چہرے پر وہ تیز کہ لوڈشیڈنگ کے دوران انھیں بطور ایمرجنسی لائٹ استعمال کیا جا سکتا تھا۔ گہری آنکھوں پر ہلکے فریم کا چشمہ جیسے مانو کسی مصور نے تصویر بنانے کے بعد فائنل ٹچ دیتے وقت اپنے برش سے بعد میں بنا دی ہو۔ کان پڑھنے والے کی طرف، آنکھ نوٹ بک پر، ناک چشمہ روکے ہوئے۔ ہاں ناک کا ذکر کرتا چلوں کہ وہ ناک والوں سے مل چکے ہیں اور بڑے ناک والے بھی ان کے سامنے ناک اٹھا کر چلنے سے گھبراتے ہیں۔یہ بھی اتفاق دیکھیے کہ نیپال کو ہی اپنا جائے عمل ڈھونڈا جہاں ناک کا مسئلہ ہے. وہاں انھیں جب کوئی "او شاب جی" کہتا ہوگا تو وہ فوراً اپنی ناک کا حلیہ دیکھ کر تسلی کرتے ہوں گے۔ لوگ پہاڑی علاقوں میں جاکر مصالحے اور ادویات، جڑی بوٹیاں ڈھونڈتے ہیں. انھوں نے وہاں جاکر اردو ڈھونڈی اور ڈھونڈ بھی لی۔ خیر بات سے بات یونہی پیدا ہوجاتی ہے. اسٹیج سے نیپال کیسے پہنچ گیا؟ اچھا کوئی بات نہیں لوٹ آتا ہوں، تو بات اسٹیج کی تھی جب سبھی اپنی بات کہہ چکے تو یہ صاحب اٹھے اور تین گھنٹے کی تمام باتوں کو تین منٹ میں ایسے لپیٹ دیا جیسے کوئی پان لپیٹ دیتا ہو. نہ گھن گرج، نہ بجلی کا لپکا لیکن علمیت کے بادل جم کر برسے اور مجھے احساس ہوا کہ سچ میں بات کس کو بولتے ہیں۔ لوٹتے وقت ادارے کے آفس میں میری نگاہوں کا مرکز اب تک وہی تھے۔ کرسی پر بیٹھتے وقت قدرے مطمئن تھے۔ میں ان کی خاموشی کو دیکھ کر خاموش ہوگیا پھر ایک ٹھہراؤ آیا بالکل ویسا ہی جیسا ان کی شخصیت میں، گفتگو میں، ملاقات میں ملتا ہے اور چار مہینے بعد مجھے پھر سے انھیں ملنے کا موقع ملا۔ اتنا خلیق اتنا نرم جیسا کہ وہ دراز قد دوست کہ جس نے مجھے تنگ و تاریک گلی سے نکال کر روشن شاہ راہوں پر اپنے ساتھ لے چلا. مجھے یقین ہے وہ گوشت پوست کا آدمی نہیں بلکہ ایک "نیلم" ہے. آپ کسی سے کہیے گا مت، آپ کو اس شریف النفس کی قسم دے رہا ہوں جن کا ذکر ابھی میں کر رہا ہوں۔ جی ہاں! میں جن کا ذکر کر رہا ہوں انتہائی مہذب اور سلجھے ہوئے انسان ہیں، اپنے رکھ رکھاؤ میں نفاست پسند واقع ہوئے ہیں۔ مجھے معلوم ہے آپ خوب صورت دل والے لوگ ہیں. جن کا دل خوب صورت ہوتا ہے ان کے اخلاق بھی خوب صورت ہوتے ہیں اور ظاہری و باطنی دونوں بی، موصوف کا دل بھی بہت خوب صورت ہے۔ بالکل میں نے ان کے دل میں جھانک کر دیکھا. محبت تھی صرف محبت اور بہت وسیع، جس میں ہر ایک کے لیے جگہ نکل سکتی ہے، کیا چھوٹا، کیا بڑا، اس وقت ان کے دل میں میں نے شدت سے ایک انتظار بھی دیکھا اور وہ تھا طعام کا انتظار۔ کھانے کی میز پر بڑے سکون سے نوالے اٹھاتے جس میں انہوں نے گھول ملا رکھا تھا، میں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ زندگی کی تلخیوں میں محبت کےگھول ایسے ہی ملا لینا چاہئے. کیونکہ غموں کے دنوں میں محبت کے چند لمحے ملا لینے سے غم اٹھانا آسان ہوجاتا ہے۔ شاعروں، ادیبوں کی کمزوریوں میں ایک کمزوری چائے کی گرما گرم گھونٹ ہوتی ہے لیکن ذرا اطمینان ہوا کہ یہ معاملہ شاعروں، ادیبوں کے علاوہ محققوں اور دانشوروں کے یہاں بھی ہے. اس دن سے مجھے اپنی اس کمزوری میں مضبوطی کا احساس جاگا اور ان کے ہمراہ کافی کے کافی گھونٹ پی لیے۔
وقفے کے دوران چہل قدمی کرتے وقت نہایت سنجیدگی سے اور شائستگی سے قدم اٹھاتے ہیں. جیسے کسی مقالے میں کسی بات پر صاد کہتے وقت حوالے پیش کئے جاتے ہیں۔ نپی تلی گفتگو کرنے والے، کم گو، چھوٹی سی ملاقات میں خوب صورت "بتیا" سنانے والے تو اپنے گھر لوٹ گئے مگر ہم ان کی "بتیا" آج تک نہ بھولے. رہ رہ کر ہمیں بہار کی وہ بہار یاد آتی ہے۔
کاتب ازل سے دعا گو ہوں کہ علم و ادب کی اس وادی میں” نسیم" کے جھونکے سدا چلتے رہیں اور ذہن و فکر کو تازگی ملتی رہے۔
ان کے اس شعر کو میں ان کی نذر کرتا ہوں۔
پھر کسی شام کے رخسار پہ رکھ دے گا وہ
دن کے چہرے پہ جو تھوڑا سا نمک باقی ہے
***

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے