شہرِ تصوف میں چند دن

شہرِ تصوف میں چند دن

محمد شہباز عالم مصباحی
سیتل کوچی کالج، سیتل کوچی
کوچ بہار، مغربی بنگال

میں بھی ہوں اسی قافلۂ شوق میں شامل
جس قافلۂ شوق کا سالار ہے رومی

حضرت ملک محمد جائسی نے کہا ہے کہ:
"دو کس بسبب ترک سلطنت بر جمیع اولیاء اللہ فضیلت دارند؛ یکے سلطان ابراہیم ادہم رحمہ اللہ دوم سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی رحمة الله عليه" یعنی دو شخص ترکِ سلطنت کے سبب جملہ اولیاء اللہ پر فضیلت رکھتے ہیں؛ ایک سلطان ابراہیم ادہم رحمہ اللہ؛ دوم سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی رحمۃ اللہ علیہ۔ اسی سلطان التارکین، محبوب یزدانی، سلطان سید شاہ مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی کچھوچھوی کی بارگاہ میں حاضری اور فاتحہ خوانی کی نیت سے 25 اگست، 2022، بروز جمعرات تقریباً 12:15 رات نیو کوچ بہار جنکشن سے نارتھ ایسٹ ایکسپریس پر سوار ہوا۔ ٹرین ساڑھے سات گھنٹے لیٹ سے چل رہی تھی۔ دوسرے دن 26 اگست، 2022 ساڑھے چار بجے مغل سرائے جنکشن، بنارس پہنچا۔ مغل سرائے جنکشن میں اترنے کے بعد فور ویلر کے ذریعے براہ بنارس، جون پور، شاہ گنج 11:30 بجے رات شہرِ تصوف کچھوچھہ مقدسہ پہنچ گیا، خانقاہ عالیہ شیخ اعظم سرکار کلاں میں مولانا عظیم اشرف نے بڑی محبت سے قیام کے لیے فرسٹ فلور میں کمرہ نمبر 101 میں مختص جگہ دی، کھانا تناول کروایا اور پھر محفل سماع میں شرکت کی اور میرِ محفل، اشرف ملت، مجدد تعلیماتِ مخدوم سمناں، مدبر اسلام، شیخ طریقت حضرت مولانا سید شاہ محمد اشرف میاں اشرفی جیلانی کچھوچھوی سے ملاقات مع دست بوسی ہوئی، حضرت نے خبر خیریت دریافت کی اور پھر امیر القلم، ادیب شہیر حضرت مولانا مقبول احمد سالک مصباحی، حضرت مولانا برکت مصباحی، حضرت سیدی میاں مکن پور، ماہر القلم حضرت مولانا حبیب الرحمن مداری اور دیگر علماے کرام سے ملاقات ہوئی اور پھر قیام گاہ (کمرہ نمبر 101) میں آکر سوگیا۔ صبح فجر کی نماز کمرے ہی میں ادا کی۔ تھکاوٹ اور نیند کے غلبے کی وجہ سے جماعت میں شرکت نہ کر سکا۔ 27 اگست، 2022 دن گیارہ بجے کے قریب محب گرامی خطیب ملت مفتی منظر محسن صاحب مع احباب مولانا ربیع الحسن صاحب، مولانا جہاں گیر صاحب، مولانا حیدر پرواز صاحب و دیگر دہلی سے شہرِ تصوف کچھوچھہ مقدسہ تشریف لائے اور پھر نیند کو بالائے طاق رکھنا پڑا۔ ان سبھوں کی خبر خیریت دریافت کی اور تھوڑی دیر کے بعد غسل کیا اور ظہر کی نمازِ قصر ادا کی۔ نماز کے بعد ظہرانہ تناول کیا اور پھر حضرت اشرف ملت دام ظلہ کی مجلس میں جو گراؤنڈ فلور کے روم نمبر 1 میں منعقد تھی، بیٹھ گئے۔ حضرت اشرف ملت کی مختلف النوع قیمتی گفتگو سے لطف اندوز ہوئے۔ دورانِ گفتگو ایک بار حضرت اشرف ملت نے سامعین کو مخاطب کرکے فرمایا کہ یوں تو مہمان بہت سے آئے ہیں، لیکن سب سے زیادہ خوشی مجھے مولانا شہباز کے آنے سے ہوئی ہے۔ یہ حضرت کی ذرہ نوازی اور کرم فرمائی تھی۔ صوفیا کو دنیا دار اور گنہ گار لوگوں کو اپنے اخلاق کریمانہ کے ذریعے دین اور دینی ماحول سے قریب کرنے کا ہنر خوب آتا ہے۔ مجلس کے بعد اپنی قیام گاہ میں لمبی دیر تک قیلولہ کیا، بلکہ سوگیا۔ نیند سے بیدار ہو کر عصر کی نماز پڑھی اور تھوڑی دیر بعد مغرب بھی۔ مغرب کے بعد مفتی منظر محسن و دیگر احباب کے ساتھ باہر جاکر چائے نوشی کی۔ پھر حضرت شیخ طریقت، اشرف ملت بانی خانقاہ اشرفیہ شیخ اعظم سرکار کلاں کی روحانی و عرفانی مجلس میں ہم سبھوں نے شرکت کی۔ دن میں شدت کی گرمی پڑنے کی وجہ سے بڑی گرمی لگ رہی تھی. حضرت کی مجلس ایئر کینڈیشنڈ ہونے کی وجہ سے بڑی راحت محسوس ہوئی اور دیر تک حضرت کی روحانی و عرفانی، جماعتی و مسلکی اور قومی و بین الاقوامی گفتگو سے محظوظ ہوئے۔ مجلس میں بہت سے خوش نصیب افراد دامنِ آلِ رسول سے وابستہ بھی ہوئے اور بیعت کی سعادت حاصل کی۔ مجلس سے فراغت کے بعد عشائیہ تناول کیا اور پھر قدرے وقفے کے بعد محفل مذاکرہ و تقریری اجلاس میں ہم سب لوگ شریک ہوئے۔ مفتی حسن منظر خان ممبئی، دار العلوم فیض الرسول، براؤں شریف کے ایک استاد (نام یاد نہیں رہا)، معروف قلم کار و مصنف مفتی عبد الخبیر اشرفی مصباحی نے بڑی شان دار، معلوماتی اور فکر انگیز تقریریں کیں اور دیگر علما نے بھی۔ درمیان میں نعت و منقبت خوانی بھی چلتی رہی اور ملک کے معروف شعرا نے اپنی شیریں آواز سے سماں باندھ دیا۔ تقریباً 12:15 رات میری مختصر کتاب "اہل بیت کے لیے علیہ السلام کہنے کا جواز" کی حضرت اشرف ملت دام ظلہ، حضرت مجاہد اسلام علامہ و مولانا سید عالم گیر میاں کچھوچھوی اور دیگر علماے کرام کے دست اقدس سے رونمائی ہوئی۔ رونمائی کے معا بعد نقیبِ محفل امیر القلم علامہ و مولانا مقبول احمد سالک مصباحی نے مجھ فقیر کو کتاب پر تبصرہ اور مختصر خطاب کے لیے دعوت دی۔ میں نے مختصر میں کتاب ہذا کے لکھنے کے پس منظر پر روشنی ڈالی اور اہل بیت اطہار سے متعلق کچھ مزید حقائق بھی بتا دیے۔ علما و سامعین نے خطاب کو کافی سراہا۔ میرے بعد بھی یہ تقریری اجلاس دو بجے رات تک چلتا رہا۔ مختلف اصحاب علم جیسے مفتی اظہر شمسی نائب قاضی گورکھ پور، مفتی قاسم القادری، ماہر القلم مولانا حبیب الرحمن مداری و دیگر حضرات نے جامع خطاب کیا۔ بعدہ صلوۃ و سلام ہوا اور پھر فاتحہ خوانی اور اخیر میں حضرت اشرف ملت کی دعا پر اجلاس کا اختتام بہ حسن و خوبی ہوا۔
اجلاس ختم ہونے کے بعد یہ تہیہ کر لیا کہ اب سونا نہیں ہے اور 28 اگست، 2022 کو وقتِ فجر حضرت سلطان سید شاہ مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی کچھوچھوی کے روضے پر فاتحہ کے لیے حاضری دینی ہے۔ چنانچہ کمرے میں تھوڑی دیر کمر سیدھی کرنے کے بعد میں اور مفتی منظر محسن صاحب جامع اشرف کی طرف روانہ ہوئے جہاں محفلِ سماع اختتام پر تھی۔ صاحبِ سجادہ حضرت قائد ملت، شیخ طریقت مولانا سید شاہ محمود اشرف اشرفی جیلانی کچھوچھوی کی دعا میں شریک ہوئے اور پھر کچھ دیر کے بعد روضۂ مخدوم کی طرف بڑھے۔ روضہ کے ارد گرد کافی بھیڑ تھی۔ خیر ایک دکان دار کے پاس ہم دونوں نے اپنے جوتے رکھے اور پچاس روپے کے پھول لے کر نیر شریف کی راہ لی۔ بڑی دقت سے نیر شریف تک پہنچنے کے بعد وضو کیا۔ نیر شریف کے پانی کا رنگ، بو اور مزہ بدل گیا ہے۔ بہ ظاہر کوئی نجاست دیکھنے میں نہیں آئی، لیکن پانی کی حالت متغیر ہوگئی ہے۔ اب یہ مفتیانِ کرام ہی بتا سکتے ہیں کہ اس پانی سے وضو جائز ہے یا نہیں۔ ساداتِ بسکھاری جن کے ذمے مزار کی دیکھ ریکھ اور نیر شریف کا انتظام ہے انھیں اس پر ضرور دھیان دینا چاہیے اور نیر شریف کو صاف و شفاف کرنا چاہیے۔ نیر شریف کے پانی کی بری حالت دیکھ کر محب گرامی قاری تجمل حسین نوری کی درخواست کے باوجود میں نے نیر شریف کا پانی ان کے لیے نہیں لیا کہ خود جب طبعی کراہت محسوس ہو رہی تھی تو دوسرے کو لے جاکر کیا دیں۔ بہرکیف وضو کے بعد نیر شریف سے متصل مسجد میں داخل ہوئے اور فجر کی نماز ادا کرنے کی کوشش کی لیکن مسجد میں جگہ نہ ہونے کی وجہ سے پڑھ نہیں سکے۔ بعدہ ہم لوگ مسجد سے نکل کر روضہ تک جانے والی سیڑھیوں کے پاس آئے۔ فجر کی نماز کی وجہ سے دروازہ بند رکھا گیا تھا اور زائرین کا ایک جم غفیر دروازہ کھلنے کا منتظر تھا۔ مفتی منظر محسن اس جم غفیر کی وجہ سے وہیں سے فاتحہ پڑھ کر لوٹ جانا چاہ رہے تھے۔ تقریباً میرا بھی یہی ارادہ بن گیا تھا کہ اسی اثنا میں دروازہ کھل گیا اور پھر ہم دونوں جانفشانی کرتے ہوئے اوپر روضہ تک اور پھر درونِ روضہ بڑے ادب کے ساتھ داخل ہوئے۔ حضرت مخدوم پاک اور حضرت مخدوم الآفاق سید شاہ عبد الرزاق نور العین کے مزار پر گل پاشی کی، فاتحہ پڑھا اور خشوع و خضوع کے ساتھ حضرت مخدوم پاک کے توسل سے رب کریم سے دعائیں کیں۔ گل پاشی کے وقت ایک مجاور نے نہ چاہتے ہوئے بھی میرا سر چادر کے اندر ڈال دیا اور کہنے لگا کہ جو کچھ دینا ہے دے دیجیے۔ میں نے کہا کہ مجھے پھول پیش کرنا ہے وہ مجھے پیش کرنے دو۔ خیر روضے سے نکل کر اوپر ہی اولیا مسجد میں ہم دونوں نے منفردا نماز فجر ادا کی۔ نماز کے بعد دعا میں یاد آیا کہ بہت سے احباب نے سلام و دعا کے لیے کہا تھا جو میں بھول گیا تو پھر میں نے وہیں سے حضرت مخدوم کو سلام پیش کیا اور سارے ملتمس احباب بلکہ جمیع مسلمین و مسلمات کے لیے دعا کی۔ نماز سے فراغت کے بعد اولیا مسجد میں تین سو روپے برائے تعمیر نذر پیش کیے۔ اور پھر اوپر ہی احاطے میں تھوڑی دیر ٹہلتے رہے، ہوا بڑی فرحت بخش و خنک تھی۔ اوپر ایک جانب سے نیر شریف کی جانب جھانکا تو دیکھا کہ عورت مرد نیر شریف کے کنارے نہا رہے ہیں۔ یہ منظر بھی مجھے بڑا ہی عجیب لگا کہ ایک تو اولا یہاں نہانے نہیں دینا چاہیے، کیوں کہ آسیبی و جادوئی اثرات کے ازالے کے لیے اگر اس پانی سے نہانا تیر بہ ہدف ہے تو وہیں نہانا کوئی ضروری نہیں، بلکہ اس پانی کو لے کر گھر میں لانے کے بعد مزید پانی میں ملاکر پردے میں نہانا چاہیے یا پھر وہیں کمرہ لیا ہو تو کمرے میں لے جاکر نہانا چاہیے، کیوں کہ وہاں مرد ہو یا عورت کا بے پردہ نہانا بالکل غیر اسلامی ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے گنگا اشنان کیا جاتا ہو اور مزید خرابی یہ کہ چاروں طرف سے زائرین نہانے کے اس عمل کو دیکھتے ہیں۔ اس طرح عورتوں کا مردوں کو دیکھنا اور مردوں کا عورتوں کو دیکھنا بالکل جائز نہیں۔ میں سادات بسکھاری و منتظمین درگاہ سے درخواست کرتا ہوں کہ اس جانب بھی وہ دھیان دیں کہ وہاں یا تو نہانا بند کروائیں یا پھر نہانے کا باپردہ انتظام کریں جیسے نیر شریف کے کنارے ہی پر مردوں اور عورتوں کے لیے الگ الگ غسل خانے بنوادیں جن میں نیر شریف کا پانی جائے اور ان میں غسل کے خواہش مند غسل کرلیں۔
روضے کے بالائی احاطے سے نیچے آنے کے بعد ہم دونوں دکان دار سے جوتے لیے اور پھر جامع اشرف آگئے جہاں درس گاہ بلڈنگ میں مفتی نذر الباری جامعی استاذ جامع اشرف سے ملاقات ہوئی۔ مفتی صاحب سے تھوڑی دیر گفتگو ہوئی، مفتی صاحب نے نمکین اور چائے سے ضیافت بھی کی، دو سو روپے جامع اشرف کو بھی چندہ دیے جس کی رسید مفتی صاحب نے دی اور پھر ہم دونوں محب گرامی مولانا ضیاء رشیدی کی خواہش پر جامع اشرف ہاسٹل کے ایک کمرے میں آگئے جہاں مولانا ضیاء رشیدی مع احباب ٹھہرے تھے۔ کمرہ ہوا دار ہونے کی وجہ سے بڑا راحت بخش محسوس ہوا اور ہم لوگوں نے سونے کا تہیہ کر لیا۔ سونے سے پہلے مولانا ضیاء رشیدی صاحب نے اپنے ایک رفیق گرامی کے ذریعے ناشتہ منگوا کر ناشتہ بھی کروایا اور پھر ہم لوگ سوگئے۔ تقریباً دن ایک بجے تک سوتے رہ گئے۔ میری آنکھ کھلی تو گھڑی 🕒 دیکھ کر سوچنے میں پڑ گیا کہ اب تک تو حضرت اشرف ملت کی خانقاہ میں قل شریف ختم بھی ہوگیا ہوگا جب کہ اس میں حاضری ضروری تھی اور اسی محفل میں مفتی منظر محسن صاحب کا خطاب بھی ہونا تھا۔ فوراً منظر محسن صاحب کو بیدار کیا اور بلا تاخیر خانقاہ اشرفیہ شیخ اعظم سرکار کلاں پہنچے تو اس وقت مشہور صوفیانہ کلام "رنگ" پڑھا جا رہا تھا جو کہ محفلِ سماع کا آخری کلام ہوتا ہے۔ اس طرح محفلِ قل کی دعا میں شریک ہو سکے۔ کسی نے بتایا کہ محفل میں حضرت عالم گیر میاں کی بڑی زبردست تقریر ہوئی اور دوران خطاب آپ کی کتاب کو بھی موضوعِ سخن بنایا اور کئی بار آپ کا نام بھی لیا اور آپ ندارد۔ محفلِ قل کے بعد ظہر کی نماز ہوئی اور پھر عام لنگر میں سارے شرکا کو ظہرانہ کرایا گیا. علما کے لیے الگ نشست کا انتظام تھا۔ عمدہ تندوری، لذیذ گوشت، شان دار چکن بریانی اور شیریں حلوہ دسترخوان پر سجائے گئے تھے جن سے شکم سیر ہوا۔ ظہرانے کے بعد حضرت اشرف ملت دام ظلہ اپنی آرام گاہ میں جانے والوں کو وداع کرنے کے لیے تشریف فرما تھے۔ ہم لوگ بھی اپنے احباب کے ساتھ آرام گاہ میں گئے۔ حضرت نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کا کیا پروگرام ہے تو میں نے بتایا کہ میں کل نکلوں گا۔ باقی احباب نے کہا کہ ہم آج ہی جا رہے ہیں۔ حضرت کے پاس کچھ دیر بیٹھے۔ بہت سی قیمتی گفتگوئیں ہوئیں۔ اسی درمیان بعض احباب داخلِ سلسلہ بھی ہوئے۔ اسی مجلس میں ایک ضروری کام یہ ہوا کہ آئندہ اکتوبر 16 سے 20 تک حضرت اشرف ملت کے دورۂ سیمانچل و شمالی بنگال کے پروگرامز مرتب کر دیے گئے۔ 16 اکتوبر میں کشن گنج، 17 اکتوبر میں منورا، 18 اکتوبر میں گوال پوکھر، 19 اکتوبر میں مولانا شاہ عالم کے یہاں اور 20 اکتوبر میں دارجلنگ کے دورے پر حضرت اشرف ملت رہیں گے۔ تقریباً ہر جگہ بڑی بڑی کانفرنسیں ہوں گی۔ خیر دہلی کے احباب نے حضرت سے الوداعی دست بوسی چاہی اور حضرت نے انھیں نذرانہ اور دعا دے کر الوداع کہا۔ میں بھی تھوڑی دیر کے بعد وہاں سے نکل آیا اور کمرے میں آکر لیٹ گیا۔ عصر کی نماز بھی قضا ہوگئی۔ مغرب کے بعد اب چونکہ دہلی کے احباب جا چکے تھے تو برادرم حماد اشرفی ٹھاکر گنج کو فون کیا اور انھیں لے کر حسبِ وعدہ فاضلِ معقولات و منقولات حضرت مولانا نوشاد عالم اشرفی جامعی استاذ جامع اشرف سے ملنے فیملی کوارٹر پہنچا۔ حضرت نے بڑا پر لطف ناشتہ کرایا اور چائے پلائی اور اپنی مترجمہ ضخیم کتاب "دردو شریف کے فضائل و مسائل" بھی عنایت کی۔ وہاں سے رخصت ہوکر جامعہ صوفیہ گئے جہاں شیخ طریقت حضرت جیلانی میاں دام ظلہ سے ملاقات ہوئی۔ حضرت نے بھی از راہ محبت حضرت شیخ طریقت علامہ مدنی میاں مصباحی دام ظلہ کے مجموعۂ کلام کی تازہ اشاعت ہاتھ میں تھما دی اور جامعہ صوفیہ اور اسپریچول فاؤنڈیشن کی ایک عدد رودادِ عمل بھی مطالعہ کے لیے دی۔ جامعہ صوفیہ سے پھر جامع اشرف آئے اور احباب کے اصرار پر جامع اشرف کے لنگر خانے ہی میں بریانی کھائی جب کہ خانقاہ اشرفیہ شیخ اعظم سرکار کلاں میں ہم مہمانوں کے لیے کھانے کا عمدہ انتظام تھا، لیکن کبھی کبھی خیالِ خاطرِ احباب بھی رکھنا پڑتا ہے۔ کھانے سے فراغت کے بعد خانقاہ اشرفیہ شیخ اعظم سرکار کلاں پہنچے تو معلوم پڑا کہ صاحبِ خانقاہ حضرت اشرف ملت دام ظلہ ابھی آرام فرما رہے ہیں اور مجلس نہیں لگی ہے، لیکن مجلس ضرور منعقد ہوگی۔ تقریباً 11:30 رات میں مجلس لگی اور حماد بھائی، قاری رفیق باگ ڈوگرا، ناچیز شہباز چشتی مصباحی اور دیگر کئی افراد شریکِ مجلس ہوئے۔ حضرت اشرف ملت نے مجلس میں بریلوی جماعت کی سیاسی بے بصیرتی پر بصیرت افروز گفتگو کی اور آل انڈیا علماء و مشائخ بورڈ کے ساتھ اپنوں کی کرم فرمائیوں کا بھی تذکرہ کیا اور کیسے کیسے اہل دیوبند اور اہل حدیث کے درمیان بورڈ اور ورلڈ صوفی فارم کی شناخت بنائی، اس کی بھی داستان سنائی۔ حضرت کی گفتگو سے معلوم ہوا کہ حضرت بورڈ کے لیے مکمل پر عزم ہیں اور ان کے پایۂ ثبات میں کوئی تزلزل نہیں آیا ہے جو کہ ایک خوش آئند بات ہے۔ عنقریب بورڈ کی ایک بڑی میٹنگ ماہ رجب میں کچھوچھہ ہی میں ہوگی۔ تقریباً تین بجے رات مجلس برخاست ہوئی۔ حضرت نے اس ناچیز کو بھی خطیر نذرانہ دیا۔ میں نے الوداعی دست بوسی کی اور اپنے کمرے میں آکر سوگیا۔ 29 اگست، 2022، صبح 8 بجے کے قریب خانقاہ سے نکلا اور حضرت مخدوم پاک کو سلامی دروازہ ہی سے الوداعی سلام کہہ کر بس کے ذریعے براہِ بسکھاری و اعظم گڑھ بنارس پہنچا۔ نارتھ ایسٹ ایکسپریس پھر لیٹ تھی۔ دس بجے رات کے قریب ٹرین آئی اور اس طرح دوسرے دن 30 اگست، 2022 کو شام تک کوچ بہار واپس آیا۔
***
صاحب تحریر کی گذشتہ نگارش:حضرت مخدوم اشرف اور ترکِ سلطنت

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے