کتاب: میزاب نور

کتاب: میزاب نور

نام کتاب : میزاب نور (نعتیہ مجموعہ)
شاعر : داغ نیازی
صفحات : 240
قیمت : 151₹
سنہ اشاعت : 2022
مبصر : مصباح انصاری
گورکھ پور، یو۔ پی۔
موبائل: 8858273875
"میزاب نور" علی محمد داغ نیازی کا چوتھا شعری مجموعہ ہے۔ اس سے قبل "مدینے کا چاند" 2009، آئینۂ حیات 2014 ، "عکس اور آئینہ" (ہندی) 2021 میں زیور طبع سے آراستہ ہوکر منظر عام پر آ چکے ہیں۔ یہ ان کا دوسرا نعتیہ مجموعہ کلام ہے۔
قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے مالی تعاون شائع ہوا یہ شعری مجموعہ 240 صفحات پر مبنی ہے۔ اس کا سر ورق پر کشش، طباعت صاف ستھری اور جاذب نظر یے۔ اس میں داغ نیازی کی نعت گوئی کے حوالے سے تین مضمون بالترتیب "حضرت داغ کا بے داغ دامن عقیدت" مولانا قاسم حبیبی برکاتی، "بلبل چہک رہا ہے دیار حبیب میں" ڈاکٹر محمود ریاض راعی اور "مداح رسول اکرم و اہل بیت مکرم جناب داغ نیازی" مولانا محمد میکائیل ضیائی۔ مذکورہ مضامین کے بعد شاعر نے اپنی بات عنوان سے چند سطور رقم کیے ہیں۔ جس میں انھوں نے اپنی شاعری کے اغراض و مقاصد بیان کیے ہیں۔ نعتیہ کلام سے پہلے شاعر نے حمد، مناجات اور نعتیہ کلام کے بعد منقبت پیش کی ہے۔
داغ نیازی کا شعری سفر 1974 سے مسلسل جاری و ساری ہے۔ وہ اردو ادب کے شیدائی ہیں۔ ان کا شمار علامہ حق بنارسی کے عزیز اور قابل شاگردوں میں ہوتا ہے۔ موصوف شاعری میں پر پیچ اور خم دار مضامین و الفاظ کے قائل نہیں۔ اپنی بات کے تحت لکھتے ہیں:
"میں شاعری میں ثقیل الفاظ اور پر پیچ مضامین سے اجتناب کرتا ہوں۔ ایسی شاعری کی ترسیل ایک محدود حلقے میں ہوتی ہے۔ میں چاہتا ہوں میں جو کچھ بھی کہوں سب کے دلوں کی آواز بن جائے۔"
(میزاب نور ص 26)
"میزاب نور" میں شامل کلام کا مطالعہ کرنے کے بعد میرا خیال ہے آپ بھی ان کی اس بات سے متفق نظر آئیں گے۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں:
گھر آنگن جو مہکتا دیکھا
کملی والے کی عطا یاد آئی

بروز حشر یقیناً کہیں گے سبط نبی
ہٹو ہٹو یہ نبی کا غلام آیا ہے

ان کے لیے ہی رب نے دو عالم کو بنایا
احسان زمانے پہ ہے امی لقبی کا

خدا کے بعد بر تر اور بالا میرے آقا ہیں
کلام اللہ شاہد ہے اسے دنیا نے مانا ہے

شاعری کی زبان اشارے کنایے کی زبان ہوتی ہے، بہاریہ شاعری ہو یا نعتیہ شاعری۔ داغ نیازی نے بھی اپنی نعتیہ شاعری میں جگہ جگہ مختلف صنعتوں جیسے استعارہ، تشبیہ اور تلمیح وغیرہ کا بر محل استعمال کر کے شعری حسن میں اضافہ کیا ہے۔
نعتیہ شاعری ایک مشکل کام ہے۔ اگر اس کے موضوعات کی بات کریں تو بقول ڈاکٹر محمود ریاض راعی:
"ایک حقیقی نعت گو کے لیے یہ لازم ہے کہ وہ حیات طیبہ کے تمام گوشوں پر مدحت سرائی کرے یعنی ذات و حیات، صفات و تعلیمات، احسانات و کمالات، معجزات و غزوات، عدالت و شجاعت، امانت و دیانت، شفقت و محبت اور اظہار محبت کے ضمن میں ممکنہ موضوعات محاسن اور اظہار محبت وغیرہ۔"
میزاب نور ص 18
مذکورہ شعری مجموعے میں داغ نیازی نے غالباً ان تمام موضوعات کا احاطہ بڑی ہنر مندی سےکیا ہے۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں:
امیر کون و مکاں ہیں حبیب رب علا
مگر ہے خاک کا تکیہ چٹائی بستر ہے

جس نے یتیموں کو چاہا
میرے نبی کی ہے وہ ذات

عطا نماز کا تحفہ کیا خدا نے تمھیں
حضور عرش پہ پہنچے جب اس کی دعوت پر

جس کے آگے جل جائیں جبریل کے پر
اس سے آگے ان کا جانا اچھا لگتا ہے

نظام امن و امانت رسول لے آئے
شکست آ گئی ظلم و جفا کے ہاتھوں میں

میری ضیا سے جگ روشن کیا پربت کیا گلشن پھول
ان کی ضیا سے میں روشن ہوں سوچ رہی ہے یہ بھی دھوپ

وہ ہو توریت کہ انجیل و زبور و قرآن
ہر شریعت سے نمایاں ہوا وحدت کا نظام

جو لوگ راہ ہدایت سے دور ہیں اے داغ
انھیں رسول کی باتیں بتا کر دیکھتے ہیں

زیر تبصرہ کتاب میں ایک حمد، تین مناجات، ایک سو پندرہ نعتیں اور پانچ منقبت شامل ہیں۔ چار مننقب حضرت علی کی شان میں کہے گئے ہیں اور ایک مننقب حضرت امام حسین کی شان میں لکھا گیا ہے۔ نعتیہ شاعری میں کہیں کہیں منقبت کے اشعار رقم ہو گئے ہیں۔ بعض اشعار میں مضامین کی تکرار بھی نظر آتی ہے۔ لیکن مجموعی طور پر "میزاب نور" غلامان مصطفیٰ کے لیے نایاب تحفہ ہے۔
صاحب تبصرہ کی گذشتہ نگارش:افسانچے کا فن- ایک مطالعہ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے