کتاب: بیتے ہوئے کچھ دن ایسے ہیں

کتاب: بیتے ہوئے کچھ دن ایسے ہیں

تبصرہ نگار : قانتہ رابعہ
گوجرہ، پاکستان

ان من البیان لسحرا
( یقیناً کچھ بیان جادو ہوتے ہیں ) اور اس قلم کی جادوگری میں انداز بیان کا دل چسپ یا سہل ہونا کافی نہیں بلکہ قاری یہ سمجھے کہ لکھاری نے جو لکھا وہ اصل میں پڑھنے والے کی آپ بیتی تھی جو اسے لکھاری کے ساتھ ساتھ بہائے چلی گئی۔
قرآن مجید میں حواس خمسہ میں سے صرف تین کا تذکرہ اکھٹے کیا گیا ہے۔ سماعت، بصارت اور فہم کا۔اس کی وجہ بس یہ ہے کہ یہ تینوں حواس علم کے حصول میں مددگار ہیں۔ بسا اوقات سنی سنائی داستان مدتوں آپ کو اپنے سحر میں مبتلا رکھتی ہے اور بعض اوقات پڑھی ہوئی داستان۔
میرے پاس اس وقت کوہاٹ سے تعلق رکھنے والی اہل قلم محترمہ نصرت نسیم کی آپ بیتی ہے جس کے متعلق پڑھ کر سو میں سے کم از کم نوے لوگوں کی بچپن کی یہی یادیں ہوں گی، یہی سہانا دور جس میں کوئی بھی پچاس ساٹھ سال کی عمر کا بندہ یا بندی گھس جائے تو واپس آتے آتے بہت دیر لگتی ہے۔
کتاب کا ہر صفحہ یا یوں کہیے مصنفہ کی ہر یاد ایسی ہے کہ بے اختیار پڑھنے والے کو اپنی ملتی جلتی یادوں کی بند گلی میں گھسنا پڑتا ہے۔
محترمہ نصرت نسیم بچپن سے ہی بہت عمدہ ادبی ذوق رکھتی ہیں اور جنوں بھوتوں پریوں شہزادوں کی کہانیاں پڑھنے کی عمر میں ان کے ہاتھوں میں بلند قامت ادیبوں کی کتابیں آچکی تھیں. آگ کا دریا اور پیار کا پہلا شہر اس زمانے میں پڑھ چکی تھیں جب لڑکیاں بالیاں گڈے گڑیا کی شادیوں سے فارغ ہوتی ہیں۔ ان کے وسیع المطالعہ ہونے کا اثر ان کی تحریر میں عجیب سا حسن، ادبی چاشنی، ناول کی سی کتھا کہانی پیدا کرتا ہے۔ پوری کی پوری آپ بیتی انھوں نے جوں کی توں یعنی انھوں نے اپنے بچپن میں کیا دیکھا لکھ دی ہے۔ یہی ان کا کمال ہے کہ کہیں بھی زیب داستان کے لیے فرضی قصے کہانی کی ضرورت نہیں پڑی بلکہ دریا کی سی روانی اور سلاست ہے جو پڑھنے والوں کواپنے سحر میں قابو رکھتی ہے۔
مجھے اس بے مثال آپ بیتی کو پڑھنے سے بہت کچھ ملا۔ معلومات میں اضافہ ہوا اور اتنے خوشگوار انداز میں کہ کہیں بھی جغرافیہ کی بھاری مار نہیں پڑی. چار سدہ کا علاقہ ہو یا ٹل کا، کوہاٹ کی گلیوں بازاروں میں گھسنا ہو یا ٹرین پر پشاور سے کراچی کا سفر، اتنے ہلکے پھلکے انداز میں حال احوال بیان کرتی ہیں کہ پڑھنے والا فیض یاب ہو کر ہی کتاب رکھتا ہے۔
بہت حیرت کی بات یہ ہے کہ کوہاٹ، کے پی کے کا شہر ہے لیکن زیادہ تر الفاظ اور رسوم وہی ہیں جو مجھے جنوبی پنجاب میں اپنے بچپن میں سننے اور دیکھنے کو ملے.
مثلاً شادی بیاہ کی دعوت دینے کو ہمارے ہاں بھی سدہ (تشدید کے ساتھ) کہا جاتا ہے۔ لحاف میں بھرنے والی روئی کو دھننے والے کو ہمارے یہاں بھی کوہاٹیوں کی طرح پینجا کہا جاتا ہے. پوری کتاب میں اتنے الفاظ اور ناموں میں مماثلت ہے کہ یقین ہوجاتا ہے کہ ابتدائے آفرینش میں اولاد آدم کی زبان ایک سی تھی۔
چونکہ حقیقت کسی بھی افسانے یا کہانی سے دل چسپ ہوتی ہے اور لکھنے والے نے مخصوص انداز سے لکھی ہوتی ہے اس لیے یہ بات بھی یقینی ہے کہ آپ بیتی میں اگر خوب صورت ہی نہیں برمحل اشعار بھی ترجمانی کے لیے شامل ہوں تو انگوٹھی میں نگینے کی طرح آنکھوں کو خیرہ کرتے ہیں۔ کتاب میں بہت سے اشعار ایسے ہیں جن کو پڑھ کر برجستہ ہونے کی داد منہ سے نکلی. 
یہ کتاب کہنے کو خود نوشت ہے لیکن مصنفہ نے اپنی زندگی سے وابستہ ہر رشتے اور تعلق پر بہترین خاکے لکھے ہیں، یوں اسے خاکہ نویسی کی قطار میں بھی کھڑا کیا جا سکتا ہے بالخصوص ڈیڈی، بجو ( مہر نگار) دیدی، انکل کے کردار۔ یہ محض افسانوی کردار نہیں بلکہ جیتی جاگتی زندگی کے وہ کردار ہیں جن پر ایک نہیں کئی کئی کتابیں لکھی جا سکتی ہیں، فلمیں اور یادگار ڈرامے بن سکتے ہیں۔
کتاب اس دور کی تہذیب کے ان تمام پہلوؤں کو قاری کے سامنے پیش کرتی ہے جو اس دور کے باقی رہ جانے والوں کے لیے ایثار، محبت اور رواداری کی تہذیب تھی لیکن آج کے بچے اس تہذیب سے ناواقف ہیں اور مردہ تہذیب قرار دے کر بات ہی ختم کر دیتے ہیں. کتاب میں جا بجا مصنفہ کی تعلیمی زندگی کے وہ واقعات ہیں جنھیں پڑھ کر آج کی بچیاں بہت کچھ سیکھ سکتی ہیں. اس وقت کی تہذیب شاید پورے ملک میں یکساں تھی، آنکھ میں حیا اور دل میں دوسروں کے لیے احترام تھا. مجھے بھی ہر صفحہ پر اپنے بچپن کی یادوں نے گھیرلیا. ہمارے ہاں بھی کالے عبایا کو فیشنی برقع کہا جاتا تھا. دیسی مہینوں کے ناموں سے ہماری مائیں بھی محاورے دہراتیں۔ مجھے یاد ہے بھادوں کا ماہ شروع ہوتا تو میری بہشتی ماں کہتیں:
بھادوں دے دیکھو رنگ، گوریاں نوں کالے کالیاں نوں بدرنگ
ہمارے ہاں بھی موسم بدلنے پر کڑوی کسیلی عرق جیسی ادویات زبردستی پلائی جاتیں. کتاب میں مصنفہ نے جو داستان لکھی ہے، اس کے مطابق ان کی پرورش ان کے ننھیال میں ہوئی. ننھیال میں نانا کی تو دو اولادیں تھیں باقی سارے افراد اس دور کی وضع داری کا منہ بولتا ثبوت تھے۔ نانا کی بہن بیوہ ہوگئیں. بچی سمیت ان کو اپنے پاس ٹھکانہ فراہم کردیا. ٹرین کے سفر میں روتا دھوتا بن باپ کا بچہ ملا. اسے ساتھ لائے اور کیا شاہانہ پرورش کی۔ صادقو کا یہ کردار بھی بے مثال کردار ہے جو بعد ازاں کئی عشروں کے بعد گلوکار شوکت علی کا بھائی نکلا لیکن کردار نگاری میں اگر محترمہ نصرت نسیم صاحبہ مزید توجہ دیں تو وہ اردو ادب میں بہترین خاکہ نگار ثابت ہو سکتی ہیں. اس لیے کہ ڈیڈی کا کردار ہو یا صادقو کا، انکل کا ہو یا بجو کا ان سب کی زندگیوں کو سپرد قلم کرتے ہوئے ان کے لفظوں میں جوسوز ہے وہ پڑھنے والے کو بھی اشکبار کیے بنا نہیں چھوڑتا۔
کتاب میں پشاور سے کراچی کا سفر، بہت دل چسپ اور منفرد سفرنامہ ہے جو اس دور کے پرامن ہونے اور ہوس سے پاک ہونے کی وجہ سے برکتوں کا دور تھا۔
کتاب پڑھنے کے دوران میں کئی مرتبہ حیرت سے کھٹکی۔ یوں بہت سی چیزوں میں مماثلت اتنی زیادہ ہے کہ سوائے خدا کی قدرت کے کچھ نہیں کیا جا سکتا۔
بچپن سے ہی کتابوں میں دل چسپی، حالات حاضرہ سے خصوصی لگاؤ، میں نے بھی ان کی طرح پہلی مرتبہ لاہور میں ٹی وی دیکھا تھا۔
میں نے بھی اقوال زریں اور اشعار وغیرہ سے قلم کی دھار تیز کرنا سیکھی. شادی کے بعد میں بھی کونسلر بنی۔ یہ اور بات ہے ان کے پاس ادب، عقل، فہم، مطالعہ۔ ہر چیز میں مجھ سے زیادہ سینیارٹی ہے۔ وہ ضیاء الحق کے دور میں کونسلر بنی تھیں میں مشرف کے دور میں ڈسٹرکٹ کونسلر بنی۔
الغرض یہ کتاب بلاشبہ ان چند کتب میں سے ایک ہے جو ہاتھ میں لیں تو مکمل کیے بناچھوڑنا مشکل ہوتا ہے۔ جس کے ہر صفحہ پر آپ کی یادوں کے جگنو بھی ساتھ چمکتے ہیں. کتاب کے آخری حصے میں مصنفہ نے اپنی شادی اور بچوں کی پیدائش، شادی کی بعد کی زندگی کے متعلق تھوڑے سے تجربات بھی پیش کیے ہیں. ان کی وجہ سے کتاب کو نوجوان نسل کے لیے بہ طور کاؤنسلنگ کے لیے اضافی نمبر دیا جاسکتا ہے۔
یہ کتاب اس دور کی خوب صورت روایات کی یادوں کو زندگی بخشتی ہے۔ کہیں کہیں تو ناسٹلجیا کا مریض بننے کو بھی جی چاہتا ہے
مجھے اس کتاب کے لیے نمبر دینے کو کہا جائے ( میں کیا اور میری اوقات کیا یعنی کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ) میں کتاب کو سو میں سے نوے سے کم نمبر دینے پر راضی نہیں ہوں گی. کتاب میں کچھ یادیں بے اختیار چہرے پر مسکراہٹ لاتی ہیں. کچھ افسردہ کرتی ہیں اور کچھ پر عزم (شہد کی مکھیوں کے کاٹنے، بجو کے تکلیف دہ حالات، مصنفہ کے ازدواجی زندگی کے وہ تجربات جو آپ کو ہزاروں روپے فیس کی مد میں ادا کر کے موٹیویشنل سپیکر سے سننے کے کو ملتے ہیں )۔
میں اس خوب صورت آپ بیتی، جو سفرنامے اور دل چسپ اشعار کے ٹانکوں کے ساتھ ناول کا مزہ دیتی ہے، پر مصنفہ نصرت نسیم صاحبہ کو دل کی گہرائی سے مبارک باد پیش کرتی ہوں. بے شک یہ آپ بیتیوں میں انتہائی گراں قدر اور زندہ رہنے والا اضافہ ہے. مصنفہ کی اس کتاب کو عمدہ طباعت اور خوب صورت سرورق کے ساتھ ہم سب تک پہنچانے کے لیے پریس فار پیس اور ظفر اقبال صاحب بلا شبہ مبارکباد کے مستحق ہیں۔
***
تبصرہ نگار کی گذشتہ نگارش:کتاب: انجانی راہوں کا مسافر

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے