آتا نہیں ہے فن کوئی استاد کے بغیر

آتا نہیں ہے فن کوئی استاد کے بغیر

نکہت پروین
اسسٹنٹ ٹیچر
آج بہت دنوں بعد ڈاکٹر تسلیم عارف کا فون آیا۔ حال احوال دریافت کرنے کے بعد انھوں نے استادِ محترم صفدر امام قادری کی خیریت پوچھی:
”کیا آج کل سر کے یہاں جاناہو رہا ہے یا نہیں۔“
”نہیں بھائی۔ سر کے پاس کہاں جا پاتی ہوں آج کل، بس سوچ کر رہ جاتی ہوں۔ شام کو جب تھک ہار کر گھر واپس آتی ہوں تو بدن ہاتھ جواب دے جاتا ہے اور کہیں نکلنے کا جی ہی نہیں کرتا۔ سب خیریت ہے نا؟؟
”ہاں ہاں! سب خیریت ہے۔ ہم نے سمجھا کہ تمھیں پتا ہوگا۔“
”کیا؟“ میں نے حیرت سے پوچھا۔ ”نہیں۔. مجھے تو کچھ نہیں معلوم۔ کیا بات ہے؟“
”صفدر سر کی حیات و خدمات پر ایک کتاب شایع ہونے والی ہے۔ ظفر کمالی صاحب اور واحد نظیر صاحب اس کتاب کو تیار کر رہے ہیں جن میں سر کی تخلیقات پر مضامین تو کافی تعداد میں جمع ہو گئے ہیں لیکن ان کی زندگی اور شخصیت پر بہت کم ہی لکھا گیا ہے۔ تم بھی تو سر کو پندرہ بیس برسوں سے جانتی ہو۔ تمھیں بھی ان کی شخصیت کے بارے میں کچھ لکھنا چاہیے۔“
”اس میں کوشش کی کیا بات ہے۔ بالکل سر کے بارے میں لکھنا میرے لیے اعزاز کی بات ہوگی۔ ان شاء اللہ میں ضرور کوشش کروں گی۔“
میرے ذہن میں مولوی نذیر احمد کا خاکا گھومنے لگا۔جس طرح مولوی عبدالحق کی فرمایش پر فرحت اللہ بیگ نے ایک یادگار تحریر قلم بند کی تھی۔ آج قدرت نے مجھے بھی یہ موقع عنایت کیا ہے میرے بھائی جیسے دوست کی فرمایش پر استاد محترم پروفیسر صفدر امام قادری کی شخصیت کے بارے میں چند باتیں اپنی لکھنے کی کوشش کی جائے۔
میرے ذہن میں برسوں پہلے کی تصویریں گردش کرنے لگیں۔ صفدر سر سے میری پہلی ملاقات پٹنہ یونی ورسٹی کے شعبۂ اردو میں ہوئی۔ ان سے میرا تعارف پروفیسر اسلم آزاد سر نے کرایا تھا۔ میں اسلم آزاد سر سے کچھ پوچھنے صدر شعبہ کے دفتر گئی تھی، اُسی وقت پروفیسر صفدر امام قادری وہاں تشریف لائے تو پروفیسر اسلم آزاد نے ان سے میرا تعارف کراتے ہوئے فرمایا:
”یہ ہماری شاگردہ ہیں لیکن میں چاہتا ہوں کہ یہ آپ کی نگرانی میں اپنی تعلیم آگے بڑھائیں اور آپ کی کوچنگ میں ان کا داخلہ ہو جائے۔“
یہ سر سے میری پہلی ملاقات تھی۔ اس کے بعد ایک دن موقع ملا تو میں صفدر سر کے کوچنگ سینٹر گئی تو سر کلاس میں تھے۔ تھوڑی دیر انتظار کرنے کے بعد سر کلاس روم سے واپس آئے اور تعلیم کے سلسلے سے کچھ باتیں ان سے ہوئیں۔ اگلے دن آنے کا کہہ کر میں واپس ہوئی لیکن کچھ مسائل ایسے ہوئے کہ میں نہ دوبارہ کوچنگ جا سکی اورنہ یونی ورسٹی کی تعلیم ہی مکمل کر پائی۔ کرنا تو بہت ہی کچھ چاہتی تھی پر شاید ہماری قسمت میں کچھ اور لکھا تھا۔ کچھ وقت گزرنے کے بعد پھر وہی خواب دیکھنے لگی کہ کاش میں زندگی میں کچھ ڈھنگ کا کام کر پاتی۔ اپنی تعلیم کو مکمل کرتی، میں بھی نیٹ اور جے آر ایف کرتی۔ انھی خوابوں کے ساتھ ایک بار پھر ہمّت کرکے آگے بڑھی اور سب سے پہلا کام پٹنہ میں گرلس پی جی میں ایک بیڈ لیا اور اُس کے بعد صفدر سر سے ملاقات کے لیے اُن کے رہایش گاہ  پہنچی۔ وہاں اُن کے بہت سے شاگرد پہلے سے ہی موجود تھے۔ ان سب کو دیکھ کر میں سوچ میں پڑ گئی کہ کیا اردو میں بھی اپنا کیرئر بنایا جا سکتا ہے؟ کیوں کہ میں اردو کے تعلق سے ہمیشہ یہ گمان کیا کرتی تھی کہ اردو پڑھ کر کیا ہوگا؟ اردو پڑھ کر زیادہ سے زیادہ بس ایک ڈگری مل جائے گی اور کیا۔ لیکن سر کے اتنے سارے شاگردوں سے مل کر مجھے کافی خوشی ہوئی اور اردو کے بارے میں میری سوچ کافی بدل گئی اور آگے پڑھنے کا بھی ہمیں حوصلہ ملا۔
حالاں کہ چند برس قبل میں سر سے مل چکی تھی لیکن اُس وقت سر سے پورے طور پر واقف نہیں تھی، اُس وقت بس ایک سرسری سی بات ملاقات ہوئی تھی۔ لیکن اس بار میں مصمّم ارادے کے ساتھ آئی تھی۔ اس مرتبہ جب میں صفدر سر سے ملی توانھوں نے کہا:
”اس بار بھی پہلے کی طرح آئی ہو یا کچھ کرنا بھی ہے۔“
”جی سر کچھ کرنا تو چاہتی ہوں۔“ میں نے جواب دیا۔اس کے بعد سر نے ہمیں کافی کچھ سمجھایا اور ہمارا حوصلہ بڑھایا۔ جس کا فائدہ یہ ہوا کہ مجھ میں یہ احساس پیدا ہوا کہ میں بھی کچھ کر سکتی ہوں۔ یہ بہت کم اساتذہ کی خوبی ہوتی ہے کہ وہ اپنے شاگردوں کا اس طرح حوصلہ بڑھائے اور انھیں ان کی اہمیت سمجھائے جس سے ان کی زندگی کا ہدف اُبھر کر سامنے آنے لگے۔ میں نے سر سے پوچھا:
”سر فیس۔۔۔؟“
سر تھوڑی دیر کے لیے خاموش ہو گئے اور فرمایا:
”ہماری فیس یہ ہے کہ تم نیٹ جے آرایف کرلو۔ یہ ہی ہماری فیس ہوگی۔“
میں مالی اعتبار سے کافی کمزور تھی اور سر کو یہ باتیں معلوم تھیں۔ اس لیے انھوں نے مجھے بغیر کسی اجرت کے ہی تعلیم دینے کا فیصلہ پلک چھپکتے ہی کر لیا۔ آج جب کہ تعلیم گاہیں تجارتی ادارے بن گئے ہیں، کوچنگ کے نام پر لُوٹ مچی ہے، اس دور میں استاد اللہ نے مجھے عطا کیا جسے میری تعلیم سے زیادہ غرض تھی نہ کہ مجھ سے حاصل ہونے والے پیسوں سے۔
سر نے ہماری کاپی لی اور اس طرح سمجھانا شروع کیا جس طرح ایک چھوٹے بچّے کو سمجھایا جاتا ہے۔ سر نے سمجھاتے ہوئے مجھ سے فرمایا:
”دیکھو! نیٹ میں تین قسم کے سوالات آتے ہیں، معروضی، مختصر اور تفصیلی جواب والے سوالات کے ساتھ بے حد تفصیلی جواب کا ایک سوال۔“ (اس زمانے میں نیٹ امتحان اسی طرز پر لیا جاتا تھا، آج صرف معروضی سوالات نیٹ امتحان میں پوچھے جاتے ہیں)۔ اس کے علاوہ تعلیم کے سلسلے سے ہی بہت سی باتیں سر نے بتائیں۔ اس طرح صفدر سر سے ہماری دوسری ملاقات نے میرے خیال سے عمر بھر کے لیے ان سے رشتہ قایم کر دیا اور اب ایک عرصہ ان کی شاگردی میں گزارنے کے بعد محسوس ہوتا ہے کہ سر صرف ایک استاد ہی نہیں ہیں وہ ہم سب شاگردوں کے ایک گارجین بھی ہیں۔ سر کی رہایش گاہ پر کوئی تشریف لائے اور ناشتہ، کھانا اور چائے کے ساتھ اس کی مہمان نوازی نہ ہو، ایسا ممکن نہیں۔ کبھی کبھی ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ وہ اپنے حصّے کی روٹی بھی اپنے شاگردوں کے ساتھ اس طرح بانٹ کر کھا لیتے ہیں جیسے وہ ان کے اپنے بچّے ہوں۔ میں نے اپنی زندگی میں ایسا کوئی شخص نہیں دیکھا جو اپنے شاگردوں کو بچّوں کی طرح پیار کرے۔پھر صفدر سر نے فرمایا:
”ایسے کام نہیں چلے گا تم شام میں بھی فرصت نکالو اور کوچنگ میں آؤ۔ میں نے بھی سوچا سر ٹھیک ہی کہہ رہے ہیں اور پھر میں شام کو سر کے کوچنگ پر(فارمنس نٹ/جے آر ایف) پہنچی تو دیکھا کہ کلاس روم میں وھائٹ بورڈ مارکر رکھا ہے ایک قطار میں بینچیں لگی ہوئی ہیں اور سامنے کی طرف ایک پوڈیم بھی ہے، اس سے پہلے میں نے کلاس میں دیوار سے لگا ہوا بلیک بورڈ دیکھا تھا لیکن یہاں دیوار پر وھائٹ بورڈ لگا ہوا تھا۔ کھلّی کی جگہ مارکر نے لے رکھی تھی۔ سر کے کلاس روم میں آنے سے قبل ہمارے ذہن میں جو تصّور تھا وہ یہ تھا کہ سر کلاس روم میں آئیں گے میر، غالب، مومن جو بھی موضوع ہو، اُن کے بارے میں کچھ نوٹ وغیرہ لکھوا کر یا کچھ کتابی باتیں بتائی جائیں گی لیکن یہاں تو ایسا کچھ بھی نہیں تھا۔ یہاں روایتی تعلیم سے بالکل مختلف ماحول تھا۔ درس و تدریس میں صفدر سر کا انداز بالکل ہی مختلف تھا۔ مانو ہم کسی اور دنیا کی سیر کر رہے ہوں۔ مانیے ایسا لگ رہاتھا جیسے کہ سر ان شعرا و ادبا کا زمانہ اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے ہیں۔ سر جب کلاس روم میں داخل ہوتے تو سب سے پہلا کام یہ کرتے کہ جس موضوع کو پڑھانا ہوتا تھا، وہ عنوان بورڈ پر لکھ دیتے اور ایک کے بعد ایک اہم نکات اوپر سے نیچے کی جانب لکھتے چلے جاتے اور اسی پر اپنا لکچر دینا شروع کردیتے۔ ایک ایک پوائنٹ کو تفصیل سے سمجھاتے۔ جب وہ کسی شاعر کو پڑھاتے تو اُن کے اہم اشعار بورڈ پر لکھ دیتے اور ان کے معنی کو سمجھانے سے پہلے وہ طلبا کو موقع دیتے کہ وہ ان اشعار سے کیا سمجھ رہے ہیں۔ اُس کے بعد آخر میں خود اس شعر کا مطلب سمجھاتے۔
پھر ایک دن سر نے مجھے ایم۔ اے۔ کرنے کا مشورہ دیا۔سر کے مشورے کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے نہ صرف یہ کہ ایم اے میں داخلہ لیا بلکہ اس میں نمایاں نمبروں سے کامیابی حاصل کی۔ اس کے بعد سر کے ہی مشورے سے مگدھ یونی ورسٹی سے پی ایچ ڈی کے لیے ہم نے فارم بھرا اور اس میں منتخب بھی ہو گئی لیکن اُسی دوران یونی ورسٹی آف دہلی کے ایم فیل کا انٹرنس امتحان کا ریزلٹ بھی آگیا جس میں قسمت آزمانے کی خاطر میں شامل ہوئی تھی۔ کامیاب طلبہ کی فہرست میں میرا بھی نام تھا۔ اس لیے میں نے سر کے مشورے سے دہلی یونی ورسٹی سے ہی آگے کی تعلیم حاصل کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے بعد مجھے مولانا آزاد نیشنل فیلوشپ بھی ملنے لگی۔ وہاں رہ کر محنت سے پڑھائی کی تو کئی کوششوں کے بعد نیٹ امتحان میں بھی کامیابی مل گئی۔ میں خود کو نہایت خوش نصیب سمجھتی ہوں کہ اللہ نے مجھے صفدر سر جیسی شخصیت سے ملوایا اور ان کے ذریعہ سے زندگی کی کئی اہم کامیابیاں مجھے حاصل ہوئیں۔
دیکھا نہ کوہ کن کوئی فرہاد کے بغیر * آتا نہیں ہے فن کوئی استاد کے بغیر
زندگی کا ایک چھوٹا سا عرصہ میں نے طے کیا ہے۔ اسکول سے کالج اور پھر یونی ورسٹی، کوچنگ، ٹیوشن وغیرہ لیکن ایسا استاد نہ ہم نے دیکھا نہ سنا جو اپنے طلبہ کو اتنا عزیز رکھتا ہو۔ صرف پڑھنا لکھنا ہی نہیں، زندگی کے ہر مرحلے میں وہ اپنے شاگردوں کے ساتھ ہوتے ہیں۔ ان کی تکلیف اور دکھ درد میں ہر طریقے سے ان کی مدد کرتے ہیں۔ آج ٹکنالوجی کی دنیا ہے۔ جہاں اچھے اچھے لوگوں کو دقت پیش آتی ہے لیکن ایک ہمارے صفدر سر ہیں جو ہر کا م بہ آسانی انجام دیتے ہیں اور اپنے کاموں سے انھوں نے ادبی دنیا میں ایک منفرد پہچان بنائی ہے۔ کئی سال پہلے سر نے کہا تھا:
”آنے والے وقت میں  سارا کام ٹکنالوجی کے ذریعہ کرنا ہوگا۔“
اس وقت سر کی اس بات کو ان کے شاگردوں نے زیادہ توجہ نہیں دی تھی لیکن آج دیکھتی ہوں کہ ان کی کہی ہوئی ہر بات حرف بہ حرف سچ ثابت ہورہی ہے۔ یہ ان کی دور اندیشی ہی ہے کہ انھوں نے وقت سے پہلے ہی یہ انداز ہ لگا لیا تھا کہ آگے دور میں کیا کیا تبدلیاں ہوں گی اور وہ ان تبدیلیوں کے لیے اپنے طلبہ کو تیاری کرنے کا نہ صرف مشورہ دیتے ہیں بلکہ اس کے لیے خود کو بھی ذہنی اور تکنیکی طور پر تیار کرنے میں لگے رہتے ہیں۔
مارچ ٢٠٢٠ء کورونا کی وبا نے جیسے پوری دنیا ہی بدل دی۔ پڑھائی لکھائی کا پورا  نظام ہی بدل گیا۔ ملک اور دنیا کے نظام میں واضح تبدیلیاں رو نما ہونے لگیں۔ بازار کے ساتھ ساتھ تمام طرح کے تعلیمی ادارے بند کردیے گئے۔ اس میں بھی صفدر سر سب سے منفرد نظر آتے ہیں۔ جہاں دوسرے اساتذہ آن لائن کلاس میں پریزنٹیشن کی خبر سن کر گھبراہٹ کا شکار ہو جاتے ہیں، ان کے رونگٹے کھڑے ہونے لگتے ہیں اورکلاس کے دوران ان کی سانسیں پھولنے لگتی ہیں، وہیں صفدر سر نے نہ صرف آن لائن کلاس کا کام تن دہی سے انجام دیا بلکہ اس موقعے کو غنیمت جان کر کئی اہم کام انجام دے دیے. خاص کر سکرٹیریٹ اسسٹنٹ ٹرانس لیٹر امتحان کے لیے آن لائن کلاس لینا، آن لائن (zoom app) پر کانفرنس، میٹنگ کے علاوہ کئی کتابیں بھی مکمل کر کے شایع کرادیں۔ ان سب کے ساتھ ہی غریبوں اور ضرورت مندوں کی اس مشکل وقت میں مدد کے لیے بھی بڑے پیمانے پر کام کیا اور ہنگامی آن لائن چندہ کرکے سیکڑوں گھروں تک راشن مہیا کرایا۔
آج اردوکی ادبی دنیا میں صفدرسر کا ایک اہم مقام ہے۔ ان کی شخصیت نہ صرف میرے لیے بلکہ ان کے کئی طلبہ کے لیے باعثِ رحمت ہے۔ میری دعا ہے کہ اللہ ان کو لمبی عمر عطا کرے اور ان کے علم کی روشنی سے مزید طلبہ کو سرفراز ہونے میں مدد ملے۔
***
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں : یہ علم کا سودا، یہ رسالے، یہ کتابیں

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے