کتاب: انجانی راہوں کا مسافر

کتاب: انجانی راہوں کا مسافر

قانتہ رابعہ

پریس فار پیس صرف فاؤنڈیشن یا چند لوگوں کا نام نہیں بلکہ جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ "نام ہی کافی ہے" یہ اس کی بہترین مثال ہے. مختصر عرصے میں معیاری کتب کی اشاعت اور ادبی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے لیے پریس فار پیس کی مثال دی جا سکتی ہے.
الجمعہ یونی ورسٹی الریاض میں انگریزی کے استاد کے رتبے پر فائز پروفیسر امانت علی کا نام نیا ہے لیکن سفرنامہ، انجانی راہوں کا مسافر، کے مطالعہ سے ان کے قلم کی پختگی کا اندازہ ہوتا ہے.
یہ سفرنامہ ترکی اور افریقہ کے ملک کینیا کی یاترا پر مشتمل ہے. ترکی کا سفر انھوں نے معروف موٹیویشنل اسپیکر جناب قاسم علی کی بنائی قاسم فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام کیا.
گو یہ سفرنامہ ان کی پہلی تصنیف ہے لیکن اسے مفید سفرنامہ کہا جاسکتا ہے.
بالعموم سفرنامہ دو طرح کا ہوتا ہے. ایک تو مصنف کی تاریخ اور جغرافیہ کے متعلق ڈھیروں ڈھیر معلومات کہ سفر نامہ کم اور ہسٹری کی کتاب اور جغرافیہ کی انسائیکلو پیڈیا زیادہ دکھائی دے، دوسرا مصنف کا اس جگہ جا کر اپنی واردات قلبی اور اپنے احساسات کو ہی بیان کرنا کہ وہ ایک طرح سے اس کی آپ بیتی محسوس ہو. کامیاب سفر نامہ نگار وہ ہوتا ہے جو جغرافیہ کی معلومات سے مرعوب کرنے اور اپنے آپ کو ہیرو بنا کر پیش کرنے کی بجائے حسب ضرورت دونوں سے مناسب جگہوں پر کام لے.
خیر آمدم برسر مطلب، فاضل مصنف نے کتاب کے شروع ہی میں بہت خوب صورت بات سے توجہ سفر نامے کی طرف مبذول کروائی اور لکھا
"میں نے کوشش کی ہے کہ ان تمام سر زمینوں کی سیر کراؤں جن کو میں نے دیکھا پرکھا اور سمجھا اور آپ بھی میرے ساتھ ان لمحوں کو محسوس کر سکیں جن میں میں نے سانس لی، کیونکہ لمحوں کو جی لینا ہی اصل زندگی ہے."
ترکی کا سفر نامہ ترکی کی شان دار تاریخ کے ساتھ شروع ہوتا ہے اور پورے سفر نامے میں وہ سلطنت عثمانیہ ہو یا اس کے کردار، تحریک خلافت ہو یا ترکی کا تاریخی ورثہ، وہ قاری کی انگلی پکڑ کر نہیں بلکہ پورا ہاتھ پکڑ کر تاریخ کو ساتھ لے کے چلتے ہیں.
اتا ترک کی سر زمین پر پہنچ کر وہ استنبول میں قیام کرتے ہیں اور اسے دیکھ کر اپنے ملک کا تقابلی جائزہ بھی لیتے ہیں. بے شک یہ سیاح کے حساس ہونے کی پہلی نشانی ہے. محض دیکھ کر گزر جانا کسی طور بھی شعور رکھنے والوں کی نشانی نہیں ہوتی. سلطنت عثمانیہ کے متعلق پورا باب ان کی شان دار تاریخ بیان کرتا ہے۔ خلافت اور مشہور زمانہ شعر:
بولیں اماں محمد علی کی
جان، بیٹاخلافت پہ دے دو
کے ساتھ اس باب کا اختتام اور نیلی مسجد، آیا صوفیہ، توپ کاپی محل کی رومان پرور کہانیوں نے ترکی کے سفرنامے میں جان ڈال دی ہے.
قونیہ، جلال الدین رومی کا شہر، مصنف کا رومی سے گہری محبت اور عقیدت کا مظہر ہے. ان سے دل چسپی رکھنے والوں کے لیے یہ باب سمندر کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے. ترکی کے سفرنامے میں وہاں کرنسی کا حصول، وہاں کے بازاروں میں خرید و فروخت سمیت بہت سے مشاہدے پڑھنے کے لائق ہیں.
بشیر بدر کے خوب صورت شعر:
مسافر کے راستے بدلتے رہے
مقدر میں چلنا تھا چلتے رہے
کے ساتھ قاسم علی شاہ فاؤنڈیشن کے تحت ہونے والا سفر پایہ تکمیل کو پہنچا. دوسرا سفر نامہ براعظم افریقہ کے ملک کینیا کے متعلق ہے جو وہاں کے جنگلات، ان کے مشہور جانوروں اور وہاں کے مختلف مقامات کی سیر کی روداد پر مشتمل ہے.
کتاب میں اس افریقی ملک کینیا کی تاریخ اور بھر پور جغرافیائی معلومات کے ساتھ ان مسافروں کے لیے جو کبھی کینیا نہیں گئے وہاں کے بازار، مساجد، کھانے پینے کے لیے ہوٹلوں اور کھانے کی اشیا کے متعلق بہت کچھ بتایا گیا ہے.
اس سفرنامے کی خوبی یہ ہے کہ جو نہیں گئے، انھیں کینیا کی خوب صورتی کے تذکرے سنا کر جانے کے لیے تیار کرتا ہے اور جو جانے کی تیاریوں میں ہیں ان کو مکمل راہ نمائی فراہم کرتا ہے۔ کتاب کی طباعت انتہائی نفیس، کاغذ عمدہ، پرنٹنگ دیدہ زیب اور کتاب کی زبان عام فہم ہے. چونکہ امانت علی صاحب ایک سیاح کی حیثیت سے گئے اور سیاحت سے متعلقہ تمام امور کی تیاری کر کے گئے لہذا کہیں بھی کتاب میں بے ربطی یا عدم دل چسپی محسوس نہیں ہوتی۔
کینیا کے دارالحکومت نیروبی میں انھوں نے وہاں کے سستے بازاروں اور نوجوان نسل کی بے راہ روی کا دکھ بہت کرب کے ساتھ بیان کیا ہے۔ وہاں کے مسلمان باشندوں سے اس کی وجوہات دریافت کی ہیں اور درد دل سے تجاویز پیش کی ہیں۔
مجموعی طور پر یہ سفر نامہ ان دو ممالک کے مفید اور بہترین سفرناموں میں شامل کیا جا سکتا ہے. کیونکہ اس میں تفریحی نقطہ نظر سے ہی سارا مواد مرتب نہیں کیا بلکہ دینے کے لیے قاری کے پاس وہاں کے خوب صورت مقامات کا تذکرہ، جغرافیائی معلومات اور وہاں کے مسائل کے بارے میں ہلکی پھلکی گفتگو بھی شامل ہے۔
پوری کتاب میں زبان شستہ اور مہذب ہے۔ کہیں سے اندازہ نہیں ہوتا کہ مصنف ایک غیر ملکی یونی ورسٹی میں انگریزی زبان کے پروفیسر ہیں اور اس کی جھلک دکھائی دینے کی شعوری کوشش کی گئی ہو۔
اس بہترین سفر نامہ پر میں پروفیسر امانت علی اور پروفیسر ظفر اقبال کے ساتھ پریس فار پیس فاؤنڈیشن یو کے کی شکر گزار ہوں جنھوں نے اردو ادب کے اچھے سفرناموں میں اضافہ کیا اور اس میں قرآن کی آیت سیرو فی الارض کے تمام تقاضوں کو پورا کیا۔
قانتہ رابعہ کی گذشتہ نگارش:بہاولپور میں اجنبی یا بہاولپور میں ابن بطوطہ؟

شیئر کیجیے

One thought on “کتاب: انجانی راہوں کا مسافر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے