جذبی کی شاعری میں جذب کی کیفیت نمایاں : امان ذخیروی

جذبی کی شاعری میں جذب کی کیفیت نمایاں : امان ذخیروی

بزم تعمیر ادب ذخیرہ نے یوم پیدائش پر یاد کیا "گداز شب" کے خالق معین احسن جذبی کو

اے موج بلا ان کو بھی ذرا دو چار تھپیڑے ہلکے سے
جو لوگ ابھی تک ساحل سے طوفاں کا نظارہ کرتے ہیں
(معین احسن جذبی)

جموئی 21 اگست (سلطان اختر) معروف ترقی پسند, پدم بھوشن انعام یافتہ شاعر، و محقق ڈاکٹر معین احسن جذبی کے یوم پیدائش 21 اگست کے موقعے پر بزم تعمیر ادب ذخیرہ کی ذیلی شاخ نوشاد منزل پریم ڈیہا ضلع لکھی سرائے میں ایک یادگاری نشست منعقد کی گئی. بزم کے جنرل سکریٹری امان ذخیروی نے معین احسن جذبی کی حیات و خدمات کا اجمالی جائزہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ معین احسن جذبی ایک بلند پایہ عالمی شہرت یافتہ شاعر و ادیب تھے. ان کی شاعری ان کے اپنے شکست خوردہ حالات کی عکاس تھی. ان کی شاعری میں ایک جذب کی کیفیت نمایاں تھی، جو پڑھنے اور سننے والوں کو اپنے حصار سے کبھی باہر نکلنے نہیں دیتی تھی. انھوں نے اپنی شاعری کو کبھی کسب معاش کا ذریعہ نہیں بنایا، بلکہ قلب و روح کی تسکین کے لیے عمر بھر شعر و سخن کی زلف گرہ گیر سلجھاتے رہے. معین احسن جذبی کی پیدائش 21 اگست 1912ء کو اتر پردیش کے اعظم گڑھ ضلع کے مبارک پور میں ہوئی. انھوں نے ابتدائی تعلیم گھر پر ہی پائی. وہیں انھوں نے ہائی اسکول کا امتحان پاس کیا. سینٹ جانس کالج آگرہ سے 1931ء میں انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کیا. 1936ء میں اینگلو عربک کالج دہلی سے بی اے کا امتحان پاس کیا. 1942ء میں علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی سے ایم اے کیا. 1945ء میں علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے شعبۂ اردو سے وابستہ ہو گئے. 1956ء میں انھوں نے”حالی کی سیاسی شاعری" پر مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی. پھر ترقی کرتے ہوئے صدر شعبہ کے عہدے سے وظیفہ یاب ہوئے. بچپن میں ہی جذبی کے سر سے ماں کا سایا اٹھ گیا تھا. سوتیلی ماں کے خراب رویے نے انھیں بہت مضمحل کر دیا تھا. اس غم کو دور کرنے کے لیے انھوں نے شعر و سخن کی دنیا میں پناہ لی، اور بچپن سے ہی شعر کہنے لگے. انھوں نے 17 سال کی عمر میں اپنی پہلی نظم کہی، جس کا عنوان ” فطرت ایک مفلس کی نظر میں" تھا. انھوں نے حامد شاہ جہاں پوری اور صادق دہلوی سے اصلاح سخن لی. پھر ترقی پسند مصنفین تحریک سے وابستہ ہو گئے، جس سے ان کی شاعری میں ایک نمایاں تبدیلی رونما ہوئی.”فروزاں"، "سخن مختصر" اور ” گداز شب" ان کے شعری مجموعے ہیں. ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں انھیں بہت سارے انعامات و اعزازات سے نوازا گیا، جن میں غالب ایوارڈ، میر اکادمی ایوارڈ، اور اترپردیش اکادمی ایوارڈ کے علاوہ حکومت ہند کا پدم بھوشن ایوارڈ قابل ذکر ہیں. 13 فروری 2005ء کو علی گڑھ میں ان کا انتقال ہوا.
***
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں :آسمان ادب کے اختر تاباں تھے اختر اورینوی: امان ذخیروی

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے