حضرت مخدوم اشرف اور ترکِ سلطنت

حضرت مخدوم اشرف اور ترکِ سلطنت

محمد شہباز عالم مصباحی
اسسٹنٹ پروفیسر و صدر شعبۂ عربی
سیتل کوچی کالج، سیتل کوچی
کوچ بہار، مغربی بنگال

تصوف اور زہد:
قرآن کریم میں اللہ سبحانہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:
(1)زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوَاتِ مِنَ النِّسَاءِ وَالْبَنِينَ وَالْقَنَاطِيرِ الْمُقَنْطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ وَالْخَيْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَالْأَنْعَامِ وَالْحَرْثِ ذَلِكَ مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَاللَّهُ عِنْدَهُ حُسْنُ الْمَآبِ (اٰل عمران:14)
لوگوں کے لیے عورتوں سے خواہشات کی اور بیٹوں کی اور سونے اور چاندی کے خزانوں کی اور نشان زدہ گھوڑوں کی اور مویشیوں اور کھیتی باڑی کی محبت خوش نما بنادی گئی ہے۔ یہ (سب) دنیا کی زندگی کا سامان ہے، اور اللہ ہی کے پاس اچھا ٹھکانا ہے۔(ترجمۂ تبیان القرآن،علامہ غلام رسول سعیدی)
(2)الْمَالُ وَالْبَنُونَ زِينَةُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَالْبَاقِيَاتُ الصَّالِحَاتُ خَيْرٌ عِنْدَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَخَيْرٌ أَمَلًا (الکہف، 45-46)
مال اور فرزند تو دنیوی زندگی کی زیب و زینت ہیں اور باقی رہنے والے اعمال صالحہ تیرے رب کے یہاں ثواب کے اعتبار سے بہتر ہیں اور امید کے لحاظ سے بھی بہتر۔(ترجمۂ چشتی)
علامہ پیر کرم شاہ الازہری علیہ الرحمہ درج بالا آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
مال و اولاد کی خواہش کس دل میں نہیں۔ ان کے ہونے سے کون خوش نہیں ہوتا۔ اگر ان میں سے کوئی چیز نہ ہو تو زندگی کتنی بے مزہ اور بے کیف ہوجاتی ہے۔ یہ ایسی چیزیں ہیں جنھیں سب جانتے ہیں۔ یہاں بتا دیا کہ مال و اولاد سے دنیوی زندگی مزین ہوتی ہے اور جب یہ زندگی خود ناپائیدار ہے تو اس کے متعلقات بھی ناپائیدار ہوں گے۔ اس لیے عقل مندی کا تقاضا یہ ہے کہ انسان اپنی ساری عمر، اپنی ساری کد و کاوش ان دنیوی زینتوں کے لیے وقف نہ کردے۔ ایسا نہ ہو کہ جب یہ فنا ہوجائیں تو تم خالی ہاتھ ملتے رہ جاؤ، بلکہ زادِ آخرت کی بھی فکر کرو۔ وہ نیک اعمال جو اللہ کی خوشنودی کے لیے کیے جائیں وہ اس حیی و قیوم سے وابستہ ہونے کی وجہ سے بقا و دوام کی صفت سے متصف ہوجاتے ہیں۔ ( ضِیاء القرآن،جلد سوم،در ذیل تفسیر آیت ہذا)
(3)وَكَانُوا فِيهِ مِنَ الزَّاهِدِينَ (یوسف: 20)
اور انھیں یوسف سے ویسے بھی دل چسپی نہ تھی۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے دونوں کندھوں کو پکڑ کر فرمایا: دنیا میں یوں رہو جیسے مسافر یا راہ گیر۔
صاحب ریاض الصالحین امام نووی(ف:۶۷۶ھ) فرماتے ہیں کہ علما نے اس حدیث کی تشریح میں فرمایا کہ دنیا کی طرف مت جھکو اور نہ اس کو اپنا وطن بناؤ اور نہ اپنے دل کو لمبی دیر تک رہنے کے لیے اس میں لگاؤ اور نہ اس کی طرف زیادہ توجہ دو، اور اس سے اتنا ہی تعلق رکھو جتنا مسافر غیر وطن سے رکھتا ہے اور اس کے اندر مشغول نہ ہو جس طرح وہ مسافر مشغول نہیں ہوتا جو کہ اپنے گھر واپس لوٹنا چاہتا ہے۔ (ریاض الصالحین، باب فضل الزہد فی الدنیا)
زُہد کی لغوی واصطلاحی تعریف:
لغوی تعریف:
لغوی اعتبار سے زہد کا معنی ’کسی شی معین کے ساتھ تعلق رکھنے سے گریز کرنا‘ ہے۔ معجمی الحی میں ہے: یزھَد بمباہج الحیاۃ و مُتَعِھا، أی: یترکھا، المنجد میں ہے: زھد فی الشیء وعنہ: بے رغبتی کرکے چھوڑ دینا۔ اور اسی سے ہے: زھَد فی الدنیا: اس نے دنیا سے منھ موڑ کر اپنے آپ کو عبادت کے لیے فارغ کرلیا۔ تفسیر رازی میں ہے: زہد کا معنی’ قلتِ رغبت‘ ہے۔ کہا جاتا ہے : زھد فلان فی کذا، جب کہ اسے اس سے دل چسپی نہ ہو۔ اس کے اصل معنی میں قلت کا مفہوم شامل ہے۔ کہاجاتا ہے : رجل زھید، جب کہ وہ آدمی قلیل الطمع ہو۔ (مفاتیح الغيب، سورۂ یوسف،432/18)۔ پس لغوی اعتبار سے ’زہد‘ کا مطلب کسی شے کو حقیر اور قلیل سمجھتے ہوئے اس سے اعراض کرنا اور دل چسپی نہ رکھنا ہے۔
اصطلاحی تعریف:
اصطلاحی اعتبار سے زُہد کا معنی ’ اللہ کی عبادت و معرفت کی خاطر دنیوی متاع و اسباب اور ملذات و خواہشات سے گریز کرنا اور ان میں سے تھوڑے سے میسر پر راضی ہوجانا اور بلا تکلف قناعت کرلینا‘ ہے۔
حضرت سفیان بن عیینہ فرماتے ہیں کہ زہد کا مطلب یہ ہے کہ سکھ کی گھڑی میں شکر بجا لائے اور دکھ کے ایام میں صبر سے کام لے۔ یعنی اللہ کی جانب سے جو بھی ملے بلا تکلف اس پر قناعت کرلے۔ (تفسیر الدر المنثور، 371/1،دارالفکر،بیروت)
حضرت ابراہیم بن ادہم فرماتے ہیں کہ زہد کی تین قسمیں ہیں: (۱) زہد ِفرض: حرام چیزوں سے مکمل احتراز کرنا(۲) زہد ِفضل: حلال چیزوں میں تھوڑے پر قناعت کرنا(۳)زہد ِسلامت: شبہات(جن چیزوں کا حلال و حرام ہونا مشکوک ہو) سے بچنا۔(الزہد لابن أبی الدنیا، ص:69،دار ابن کثیر،دمشق)
خلاصہ یہ ہے کہ زاہد اللہ کے ماسوا سے دل نہیں لگاتا ہے، دنیاوی خواہشات اس کی راہ میں حائل نہیں ہوتیں اور نہ ہی وہ دنیا سے دل چسپی و رغبت رکھتا ہے۔ جو کچھ بھی میسر ہو جائے قناعت کرتے ہوئے شکر ادا کرتا ہے اور نہ ملے تو صبر سے کام لیتا ہے۔ دنیا پانے کی اپنی جانب سے اس کی کوئی خواہش نہیں ہوتی اور نہ اس کے لیے وہ کوئی اہتمام کرتا ہے۔ ہاں! اللہ سے قربت اور اس کی رضا و خوشنودی کو پانا اس کی خواہش ہوتی ہے۔ رضائے الہی کو پانے کی خاطر ہی وہ حرام سے مکمل احتراز کرتا ہے، حلال میں قناعت سے کام لیتا ہے اور شبہات سے بچتاہے اور ہمہ دم خوف میں مبتلا رہتا ہے کہ مجھ سے کوئی ایسا عمل نہ صادر ہوجائے کہ میں اپنے مولی کی ناراضی مول لوں۔
تصوف کی تعریف:
حضرت شیخ ابو علی روذباری نے تصوف کی تعریف یوں کی ہے: من لبس الصوف علی الصفاء، وأطعم الھوی ذوق الجفاء، وکانت الدنیا منہ علی القفا، وسلک منھج المصطفیٰ۔ صوفی وہ ہے جو قلب کی صفائی کے ساتھ صوف پوش (سادہ لباس) ہو، نفسانی خواہشات کو (زہد کی) سختی دیتا ہو، دنیا کو پسِ پشت (غیر مقصود) ڈال دیتا ہو اور شریعت مصطفی (صلی اللہ علیہ وسلم) کو لازم پکڑتا ہو۔ (التعرف لمذہب اہل التصوف، ص:25، ناشر: دارلکتب العلمیہ،بیروت)
حضرت عمرو بن عثمان مکی رحمۃ اللہ علیہ کی تعریفِ تصوف یہ ہے: أن یکون العبد فی کل وقت مشغولا بما ھو اولیٰ فی الوقت۔ صوفی وہ ہے جو ہر وقت اسی کا ہوکر رہتا ہے جس کا وہ بندہ ہے۔ (عوارف المعارف، الباب الخامس فی ماہیۃ التصوف)
حضرت شیخ شلبی رحمۃ اللہ علیہ تصوف کے بارے میں فرماتے ہیں: منقطع عن الخلق متصل بالحق۔ صوفی مخلوق سے منقطع اور خدا سے مربوط ہوتا ہے۔ (الرسالۃ القشیریۃ، باب الفتوۃ،442/2،دارالمعارف،قاہرہ)
حضرت ذوالنون مصری نے فرمایا ہے: ھم قوم آثروا اللہ عز وجل علی کل شیئ۔ صوفیاے کرام وہ ہیں جو ہر چیز سے ز یادہ اللہ عز و جل کو ترجیح دیتے ہیں۔ (الرسالۃ القشیریۃ،باب الفتوۃ،443/2،دارالمعارف،قاہرہ)
یہی وجہ ہے کہ صوفیہ نے ہمیشہ اپنے مولیٰ و عقبیٰ کے لیے دنیا سے کنارہ کشی کرتے ہوئے زہد کی راہ اختیار کی ہے، دنیا میں رہتے ہوئے بھی وہ دنیا میں نہیں ہوتے، بعض کی کنارہ کشی کا عالم تو یہ ہے کہ انھوں نے آبادی سے مکمل منھ موڑکر بیابان و صحرا کی راہ لے لی، بعض آبادی میں رہ کر بالکل خلوت نشین ہوگئے، بعض زندگی بھر مجرد رہے اور بعض نے ’ملامتیہ‘ بن کر دنیا سے دوری اپنائی، لیکن یہ رنگ صرف بعض کا رہا، جب کہ اکثر نے بہ ظاہر عام دنیوی زندگی گزاری، لیکن بہ باطن یہ بھی دنیا سے کنارہ کش تھے کہ دنیا سے کنارہ کشی کے بغیر تصوف و سلوک کا سفر ممکن ہی نہیں۔ صوفیا کی دنیا سے اسی کنارہ کشی کی وجہ سے ان پر ترکِ دنیا کا الزام بھی لگا، لیکن معلوم ہونا چاہیے کہ اس کنارہ کشی کے پیچھے ان کا مقصد ترک لذات و ترک خواہشاتِ نفسانی ہے تاکہ عبادت و معرفت میں استغراقِ تام حاصل ہو اور ترک لذات ہی کا نام ’ زُہد‘ ہے جس کا دوسرا نام ’تصوف‘ ہے۔ ترک لذات و شہواتِ نفس ہی کے لیے ان میں سے بعض نے خلوت گزینی، بیابان نشینی، تجرد، تلوم اور حتی کہ اگر بادشاہ تھے تو ترک سلطنت تک کا راستہ اختیار کیا۔ انہی بعض تارکین سلطنت صوفیہ میں ایک اہم نام تارک السلطنت سلطان سید مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی رضی اللہ عنہ کا ہے۔
حضرت مخدوم اشرف کے ابتدائی عہد کے بعض اہم گوشے:
اس ضمن میں ہم بہتر سمجھتے ہیں کہ مولانا محمد منشا تابش اشرفی قصوری نے لطائف اشرفی کے فارسی ایڈیشن (مطبوعہ مکتبۂ سمنانی ،فردوس کالونی، کراچی/سال اشاعت: فروری 1999ء)کے ابتدائی اوراق میں ’’پیشگفتار‘‘ کے نام سے حضرت مخدوم سمنان کا جو جامع تعارف لکھا ہے اس کے چند فارسی اقتباسات کا ترجمہ نقل کریں۔
غوث العالم، محبوب یزدانی، حضرت سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی کچھوچھوی رحمہ اللہ تعالی کا شمار ان بزرگوں میں ہوتا ہے جنھوں نے تخت وتاج کو ترک کرکے فقر و درویشی کی راہ اختیار کی اور جن کے فیوض و برکات سے ہزاروں گم گشتگانِ راہ صراط مستقیم پر گامزن ہوئے۔ معلوم ہونا چاہیے کہ مخدوم کے خاندان عالی مقام میں شاہی و جہانگیری نسل در نسل سے چلی آرہی تھی۔ سمنان دار السلطنت تھا۔ اُس وقت سمنان ایک عظیم شہر تھا جس کی شہرت پورے اطراف و اکناف عالم میں پھیلی ہوئی تھی۔ البتہ اِس وقت ملک ایران میں اس کی حیثیت محض ایک قصبہ کی ہے۔
حضرت مخدوم کے والد کا نام سلطان سید ابراہیم تھا جو اپنے زمانے کے معروف و جلیل القدر عالم و فاضل تھے۔ سلطان ابراہیم کے زمانے میں مملکت سمنان نے خوب ترقی کی جس کاشہرہ پورے عالم میں تھا۔ سلطان ابراہیم کی زوجہ خواجہ احمد یسوی علیہ الرحمہ کی بیٹی تھیں جن کے بطن سے دو یا تین بیٹیاں پیدا ہوئیں۔اس کے بعد کوئی اولاد پیدا نہ ہوئی جس کی وجہ سے سلطان اور زوجۂ محترمہ (خدیجہ بیگم)بہت پریشان تھیں۔
ایک دن دونوں میاں بیوی اپنے محل میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ابراہیم نامی ایک مجذوب محل میں وارد ہوئے۔سلطان احتراماً کھڑے ہوگئے اور کمالِ ادب سے اس مجذوب بزرگ کو اپنی نشست گاہ پر بٹھایا اور خود مجذوب کے سامنے ادبا کھڑے رہے۔ مجذوب نے فرمایا: اے ابراہیم! لڑکے کی تمنا ہے؟ عرض کیا: اسی نظرِ کرم کا امیدوار ہوں۔ مجذوب بزرگ نے لڑکے کے لیے دعا فرمائی اور چلنے کے لیے کھڑے ہوگئے۔
سلطان نے مجذوب کی خدمت میں ایک ہزار اشرفی بہ طور نذر پیش کی اور مجذوب کے ساتھ چلتے رہے۔مجذوب نے دیکھا تو فرمایا کہ اب کس چیز کی طلب ہے؟ سلطان نے کچھ عرض نہ کیا۔ مجذوب نے از خود فرمایا کہ جاؤ، ان شاء اللہ دولڑکے پیدا ہوں گے۔
اس واقعہ کے چند دنوں کے بعد ہی ایک خوب رو لڑکا سلطان کے گھر پیدا ہوا جس کانام ’’اشرف‘‘ رکھا گیا۔سید’’ اشرف‘‘ جہانگیر سمنانی کا سالِ پیدائش 708ھ ہے۔
جب حضرت مخدوم کی عمر ساڑھے چار سال کی ہوئی تو علماے متبحر سے تعلیم کا آغاز کیا۔ آپ کی ذہانت سے لوگ انگشت بدنداں تھے کہ عہد طفولیت میں صرف دوسال آٹھ ماہ میں آپ نے پورا قرآن حفظ کرلیا۔ چودہ سال کی عمر میں آپ نے تمام علوم مختلفہ سے بہ کمال فراغت حاصل کرلی۔ فن قرأت میں مہارت کا یہ عالم تھا کہ آپ ساتوں قرأت میں قرآن کی تلاوت فرماتے تھے۔ آپ نے شاعرانہ طبیعت بھی پائی تھی۔ (لطائف اشرفی فارسی، پیش گفتار، منشا تابش قصوری،ص: ۷تا۸)
جن دنوں سلطان ابراہیم اور ان کی زوجہ مزید اولاد بالخصوص اولاد نرینہ کی تمنا میں غمگین رہا کرتی تھیں اس حوالے سے حیات غوث العالم میں اس طرح درج ہے:
اس گھر میں دنیا کے کسی غم کے لیے کوئی دروازہ نہیں بنایا گیا تھا، مگر پھر بھی سلطان اور سلطان بیگم کا چہرہ غمگین و متفکر ہی رہا کرتا تھا اور کسی تدبیر سے پوری خوشی کی نشانیاں چہرہ سے ظاہر نہیں ہوتی تھیں۔ وزرا و امرا نے ہزاروں تدبیریں کیں، عظیم الشان جشن کی محفلیں کیں، مگر غم ہے کہ دل سے نہیں نکلتا اور یہ غم اولاد کا تھا۔
سیدوں کا گھرانا تھا، غم برداشت کرنا موروثی تھا، کبھی زبان پر ایک لفظ بھی ایسا نہ آیا کہ لوگوں کو اس غم کا علم ہونے پاتا۔ ہاں سلطان بیگم کبھی کبھی رات کو اپنے بزرگوں کی طرف متوجہ ہوتیں اور اللہ تعالی سے عرض کرتیں کہ اے میرے رب تونے اتنا دے رکھا ہے جس کا شکر گزار ہونا مجھ ضعیفہ سے دشوار ہے۔ اب میرا منھ نہیں ہے کہ تجھ سے کچھ مانگوں اور نہ اس قابل ہوں کہ جو کچھ مانگوں وہ ضرور پا جاؤں، مگر اے داتا! تو ہی بتا کہ سلطان کے بعد تیرے بندوں کا والی کون ہوگا اور کون انصاف فرماکر باپ دادا کے نام کو روشن کرے گا۔ تیری عطا کی ہوئی دو تین بچیاں ہیں اور کوئی لڑکا ’’گھر کا چراغ‘‘ نہیں ہے۔ اس پر کوئی آٹھ سال ہوئے کہ مایوسی ہی مایوسی نظر آتی ہے۔ مجھے معلوم ہوتا ہے کہ میں اس عرضی میں کوئی سوال پیش کرتی ہوں۔ میرے مالک میں نے غلطی کی۔ میں تجھ سے مانگنے کا منھ نہیں رکھتی اور اقرار کرتی ہوں کہ تیری رضا سے راضی ہوں۔
سلطان بیگم ایک دن بعدِ نماز عشاء یہی کہتے کہتے رونے لگیں اور اس قدر روئیں کہ ہچکیاں بندھ گئیں اور مصلے ہی پر سو گئیں۔ خواب دیکھا کہ حضرت شیخ احمد یسوی علیہ الرحمہ، جو اس گھرانے کے بزرگوں میں سے تھے، آئے اور فرمایا اے بیٹی! تو کیوں بے قرار ہوتی ہے۔مبارک ہو کہ تیرے بطن سے آفتابِ ولایت طلوع ہونے والا ہے۔ صبح اٹھ کرسلطان بیگم نے سلطان سے سارا واقعہ خواب کا بیان کیا اور قصرِ شاہی میں خوشیاں منائی جانے لگیں۔ اسی زمانے میں اتفاق سے ایک مسلم الثبوت بزرگ ابراہیم مجذوب علیہ الرحمہ ایک صبح کو قصر شاہی کے محل سرا میں نظر آئے۔ سلطان اور سلطان بیگم دونوں کو حیرت ہوئی کہ یہ کس راستے سے آئے ہیں۔پہرہ داروں نے کہا کہ دروازہ سے کوئی اندر نہیں گیا ہے۔سلطان نے ابراہیم مجذوب (علیہ الرحمہ) کو صدر مقام پر بٹھایا اور قدم بوس ہوئے۔ ابراہیم مجذوب(علیہ الرحمہ) نے فرمایا کہ اے سلطان تو بیٹا چاہتا ہے اور اس غم میں پریشان ہے۔ ایک ہزار اشرفی دے تو اشرف کو لے۔سلطان نے فوراََ اشرفیاں حا ضر کیں۔ ابراہیم مجذوب (علیہ الرحمہ) نے فرمایا کہ قیمتی چیز تم کو مفت دی جاتی ہے۔ جاؤ تمھارے گھر لڑکا پیدا ہوگا۔ یہ کہہ کر وہ بزرگ اٹھے اور آنکھوں سے غائب ہوگئے۔
خدا کی شان کہ اس گھر میں سلطان بیگم کے ایک نہایت مبارک و مسعود خوش اقبال اور خوب صورت لڑکا پیدا ہوا۔ اُس بچے کا نام حسبِ ہدایتِ حضرت احمد یسوی علیہ الرحمہ ’’اشرف‘‘ رکھا گیا۔ ٹھیک اسی دن حضرت ابراہیم مجذوب(علیہ الرحمہ) بھی آئے اور کہا کہ اے سلطان ! آج ہماری بیع ختم ہوگئی اور ہزار اشرفی کے بدلے تم کو قیمتی مال مل گیا۔ اس مسرت آگیں موقع پر شاہی مہمان خانہ عرصۂ دراز تک آباد کردیا گیا، ساری رعایا کے گھر گھر گویا عید ہوگئی اور چراغاں سے سمنان میں مہینوں رات دن کا فرق جاتا رہا۔ یہ کوئی 708ھ کا واقعہ ہے۔ (حیات غوث العالم،افادات محدث اعظم علیہ الرحمہ، مرتب سید حسن مثنیٰ انور، ص: 12 تا 15، ناشر: شیخ الاسلام اکیڈمی،حیدرآباد)
صحائف اشرفی میں کچھ اس طرح ہے:
حضرت حاجی الحرمین سید ابو الحسن عبد الرزاق نورالعین خاتمۂ مکتوبات اشرفی میں، جہاں حضرت محبوب یزدانی کے آبا و اجداد کا حال لکھا ہے، وہاں تحریر فرماتے ہیں کہ : حضرت سلطان السلاطین سید ابراہیم شاہ کے ایام سلطنت رانی میں چند لڑکیاں پیدا ہوئیں، مگر بیٹا نہیں ہوا۔ اس کے بعد سلسلۂ پیدائش دس یا بارہ برس تک بند رہا۔ حضرت سلطان السلاطین کو فرزند کی آرزو حد سے زیادہ تھی۔ ہر درویش و ولی کی طرف بہ غرض دعا متوجہ ہوتے۔ ایک سال اسی فکر و تردد میں گزرا۔ ایک رات خواب میں دیکھا کہ ایک مرد نورانی شکل صاحب جمال و کمال یعنی رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم رونق افروز ہوئے۔ بادشاہ تعظیم کو کھڑے ہوگئے اور نہایت اعزاز و اکرام اور احترام سے پیشوائی کرکے (پیش آکر) قدم بوسی سے مشرف ہوئے۔جب سر قدم مبارک پر رکھا، دل کو کمالِ بشاشت ہوئی۔حضرت سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہنس کر فرمایا کہ اے فرزندِ ابراہیم! تم کو متردد دیکھتا ہوں، کیا اولاد کی خواہش رکھتے ہو؟ بادشاہ رونے لگے اور بہ کمالِ عجز و انکسار یوں عرض کرنے لگے کہ بارہ برس سے آرزوئے فرزند، وارثِ تخت و تاجِ سلطنت کی دل میں رکھتا ہوں۔ اگر حضور کے ابرِ بارانِ نبوت اور نسیمِ گلستانِ رسالت سے میرے باغِ خزاں رسیدہ کو سرسبزی حاصل ہو اور فرزند عطا فرمائے تو کمال عنایت ہوگی۔حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :حق تعالیٰ تم کودو بیٹے عنایت فرمائے گا۔ ایک کا نام ’’اشرف‘‘ اور دوسرے کا نام ’’اعرف محمد‘‘ رکھنا۔ لیکن پہلا فرزند تمھارا صاحبِ سلطنت ظاہری و باطنی ہوگا۔ (صحائف اشرفی، مرتب:شیخ المشائخ اعلیٰ حضرت اشرفی میاں، ص:64تا 65،ناشر: ادارۂ فیضان اشرف ممبئی)
واقعات میں تھوڑا بہت اختلاف ہے، لیکن ان سے یہ ضرور ثابت ہوتا ہے کہ حضرت سلطان سید مخدوم اشرف کی ولادت کے قبل ولادت کی بشارت نانا خواجہ احمد یسوی، مجذوب بزرگ حضرت ابراہیم اور خود رسولِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی دی تھی۔
حضرت مخدوم اشرف اور ترکِ سلطنت:
اس حوالے سے مولانا محمد منشا تابش اشرفی قصوری لطائف اشرفی فارسی ایڈیشن میں اپنی’’ پیش گفتار‘‘ میں لکھتے ہیں۔ ترجمہ درج کیاجاتا ہے۔
جب سید اشرف جہانگیر سمنانی علیہ الرحمہ پندرہ سال کے ہوئے تو آپ کے والد کا وصال ہوگیا۔ پھر دستور زمانہ کے موافق آپ کے سر پر تاجِ شہنشاہی رکھا گیا۔ آپ نے ایسی حکمرانی کی کہ ہم نشین ندما، وزرا اور امرا سب حیران تھے، باشندگان کافی راحت و سکون میں تھے، مملکت نے خوب ترقی کی اور ہر جگہ عدل و انصاف کا شہرہ تھا۔
امور سلطنت سے آپ کو چنداں فرصت نہ تھی، لیکن تصوف و سلوک سے غایت درجہ دل چسپی تھی۔ اسی وجہ سے آپ حضرت رکن الدین علاء الدولہ اور مشائخِ زمانہ سے ملاقات فرماتے تھے۔ اگر چہ تمام بزرگوں نے آپ کی آتش شوق کو مہمیز کیا، لیکن رہ بری کرنے سے گریز کرتے تھے۔ آپ اسی طرح فقر و درویشی کی نعمت کے متلاشی بنے رہے کہ ایک رات خواب میں حضرت خضر علیہ السلام سے ملاقات ہوئی۔ حضرت خضر نے آپ کو اسمِ ذات کا ذکر کرنے کے لیے اشارہ فرمایا اس طور پر کہ زبان متحرک نہ ہو۔ (یہ قلب صنوبری میں اسمِ ذات ’’اللہ‘‘ کے ذکر کا اشارہ تھا۔)
اس کے بعد دو سال تک آپ سید التابعین حضرت خواجہ اویس قرنی رضی اللہ عنہ کی زیارت سے مشرف ہوتے رہے، جنھوں نے آپ کو اوراد و اشغالِ اویسیہ کی تعلیم دی۔ اس زیارت کے دوران آتشِ عشق تیز تر ہوتی ہوگئی یہاں تک کہ شعلۂ جوالہ بن گئی۔ جس کی وجہ سے آپ کا دل امور سلطنت سے اچاٹ ہوگیا۔ اب مرشد کامل کی تمنا ہر وقت پریشان کرنے لگی۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ آپ زربفت کے بجائے صوف پہننے لگے اور حریرِ بیش قیمت کو چھوڑ کر بوریا نشین ہوگئے۔
27 رمضان کی شب دوبارہ حضرت خضر علیہ السلام خواب میں آئے اور فرمایا کہ :اشرف! وصالِ الہی کی لذت کے لیے آمادہ ہوجاؤ، حکومت و ایوانِ شاہی کو خیرآباد کہہ کر ہندستان جاؤ۔ وہاں شیخ علاء الحق والدین گنج نبات علیہ الرحمہ تمھارے انتظار میں ہیں۔
دوسرے دن جب صبح ہوئی تو آپ نے امرا وزرا کو جمع فرمایا اور ترکِ سلطنت کا اعلان کیا۔ اس وقت آپ کی عمر شریف پچیس سال تھی۔ دس سال آپ نے بہ صد شانِ زیبائی حکومت کی. اس کے بعد تخت و تاج اپنے برادر اصغر (اعرف) محمد کو تفویض کردیا۔ یہ واقعہ 733ھ کا ہے۔(لطائف اشرفی فارسی،پیش گفتار، منشا تابش قصوری،ص: ۸)
نزہۃ الخواطر میں صاحب نزہۃ الخواطر لکھتے ہیں: السید الشریف العلامۃ العفیف أشرف بن ابراہیم الحسنی الحسینی السمنانی المشہور بجہانکیر ولد بمدینۃ سمنان، وشبل فی نعمۃ أبیہ ونشأ نشأۃ أبناء الملوک، وحفظ القرآن بالقراءات السبع، ثم اشتغل بالعلم علی أساتذۃ عصرہ و قرأ فاتحۃ الفراغ ولہ أربع عشرۃ سنۃ، قام بالملک فی التاسع عشر من سنہ مقام والدہ فاشتغل بمہمات الدولۃ مع اشتغالہ بصحبۃ الشیخ رکن الدین علاء الدولۃ السمنانی وخلق آخرین من العلماء والمشایخ، ولم یزل کذلک مدۃ من الزمان، ثم خلع نفسہ وترک السلطنۃ ولہ ثلاث وعشرون سنۃ فأقام مقامہ أخاہ محمدا وظعن الی الہند۔(نزہۃ الخواطر،237/3، دار ابن حزم، بیروت-)
***
صاحب تحریر کی گذشتہ نگارش:اہل بیت کے لیے علیہ السلام کہنے کا جواز

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے