شوکت حیات کے سلسلے سے قدر شناسی کا کام ادھورا ہے:

شوکت حیات کے سلسلے سے قدر شناسی کا کام ادھورا ہے:

نقّادوں کی سنجیدہ کوششیں لازمی
بزمِ صدف انٹرنیشنل کے قومی سے می نار میں اصحابِ علم کی گزارشات
بنیادی درس گاہوں اور اسکولوں میں اردو زبان کے لیے تحریکی کاوشیں ضروری: ڈاکٹر شکیل احمد خاں

پٹنہ:٢١؍ اگست: وبائی دور میں اردو کے مشہور افسانہ نگار شوکت حیات کے گزرنے کے بعد عظیم آباد میں پہلی بار اُن کی حیات و خدمات کے حوالے سے ایک قومی سے می نار منعقد ہوا جس کا افتتاح کرتے ہوئے کانگریس کے رُکنِ اسمبلی ڈاکٹر شکیل احمد خاں نے کہا کہ شوکت حیات آنے والے دور کی تشویشات اور خطروں کو نہ صرف یہ کہ سمجھتے تھے بلکہ اپنے افسانوں کے ذریعہ ہمیں باخبر کرتے تھے۔ بڑا لکھنے والا وہی ہوتا ہے جو اپنے زمانے کے مسائل کے ساتھ ساتھ آنے والے وقت کے مسئلوں پر بھی نظر رکھے۔ انھوں نے سے می نار کے شرکا سے خاص طَور سے یہ بات کہی کہ ادبی اور علمی کاوشوں کے ساتھ عوامی سطح پر اردو زبان کی تدریس اور خواندگی پر مرکوز ہونے کی ضرورت ہے۔
جناب امتیاز احمد کریمی، رکن بہار پبلک سروس کمیشن نے شوکت حیات کے تعلق سے اپنے تاثّرات میں بتایا کہ وہ کیسے اندر سے نرم اور ملائم تھے اور باہر سے سخت اور زورآور معلوم ہوتے تھے۔ انھوں نے کہا کہ ہر سچّے فن کار کا دِل اسی طرح نرم اور انسانی ہم دردی سے بھرا ہوتا ہے۔ ممتاز ناول نگار جناب عبدالصمد نے اپنی پانچ دہائیوں کی رفاقت کے نشیب و فراز پر روشنی ڈالتے ہوئے اس بات کا اقرار کیا کہ ان کی نسل میں ویسا ہُنر وَر کوئی دوسرا نہیں تھا۔ ممتاز افسانہ نگار مشتاق احمد نوری نے اپنے دیرینہ تعلّقات کی تفصیل واضح کرتے ہوئے یہ بتایا کہ شوکت حیات چند لمحوں میں پتّھر سے موم بن جاتے تھے۔ یہ تخلیقی فن کار کا ایسا انفراد ہے جس کے بغیر وہ شہہ کار نہیں لکھ سکتا۔ خورشید اکبر نے مہمانِ ذی وقار کی حیثیت سے تقریر کرتے ہوئے یہ بات بتائی کہ سعادت حسن منٹو کے بعد انھیں شوکت حیات کا اسلوب ہی اردو افسانے کا سب سے موزوں اسلوب معلوم ہوتا ہے۔
اس قومی سے می نار کے اغراض و مقاصد بتاتے ہوئے بزمِ صدف انٹرنیشنل کے سربراہ پروفیسر صفدرامام قادری نے واضح الفاظ میں یہ بات کہی کہ شوکت حیات کو اپنی ناقدری کا بہت شدّت کے ساتھ احساس تھا اور اِس کے سبب وہ ہمیشہ مبتلاے غم رہے۔ ان کے ہم عصروں نے اور ان کے دوسرے چاہنے والوں نے کبھی اُن کے حق کے مطابق ادبی مقام کے تئیں ماحول نہیں بنایا۔ کسی ادارے نے سنجیدگی سے اُن پر کوئی مذاکرہ نہیں رکھا۔ اُن کی کتابیں وقت پر شایع نہ ہو سکیں۔ بہار کے سرکاری اداروں نے بھی اُن پر اِلتفات کی نگاہ نہیں ڈالی۔ اِنھی وجوہات سے بزمِ صدف انٹرنیشنل نے ان کی حیات و خدمات کے حوالے سے ایک قومی سے می نار کرنے کا فیصلہ کیا۔ انھوں نے بتایا کہ اس سے می نار میں مُلک بھر سے نمایندے تشریف فرما ہیں اور وہ شوکت حیات کی خدمات کے حوالے سے اپنے مقالوں میں گفتگو کریں گے۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ اقبال حسن آزاد کی ادارت میں شایع ہونے والے رسالہ ’ثالث‘ کے شوکت حیات نمبر کا خاص طَور سے اِس اجلاس میں اجرا بھی کیا جائے گا۔ پروفیسر آزاد اور نائب مدیرہ محترمہ نشاط پروین بہ نفسِ نفیس اس تقریب میں موجود تھے۔
پہلے جلسے میں رسالہ ’ثالث‘ کے خصوصی شوکت حیات نمبر کا تعارف کراتے ہوئے پروفیسر اقبال حسن آزاد نے بتایا کہ شوکت حیات کے تعلق سے برسوں سے کچھ خاص کرنے کا اُن کے ذہن میں ارادہ تھا۔ شوکت حیات کی وفات کے بعد وہ اِس مُہم میں جُڑ گئے اور انھوں نے تقریباً پانچ سو صفحات پر مشتمل رسالہ ’ثالث‘ کا شوکت حیات نمبر شایع کردیا۔ سے می نار میں شوکت حیات کی اہلیہ محترمہ ارشاد پروین نے شوکت حیات کی زندگی کے کئی ان جانے پہلوؤں کی طرف توجہ دلائی۔ انھوں نے بھی اس بات کا ذکر کیا کہ شوکت حیات کو اپنی ناقدری کا بہت شکوہ تھاجس کی تلافی اِس سے می نار میں ہو رہی ہے۔ شوکت حیات کی صاحب زادی محترمہ اَنا حیات نے اپنی یادوں کی رہ گزر میں اپنے والد کی شبیہہ دیکھتے ہوئے بتایا کہ یہ میرے لیے واقعتا قابلِ فخر بات ہے کہ میرے والد شوکت حیات تھے۔ انھوں نے دوسرے مقرّرین کی باتوں کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ وہ اس دکھ کی گھڑی میں اس بات سے سرشار ہیں کہ اُن کے والد کی غیر موجودگی میں بھی اُن کے چاہنے والے شہرِ عظیم آباد میں بھرے پڑے ہیں۔
سے می نار کی نظامت ڈاکٹر افشاں بانو نے کی ۔ پہلے جلسے میں جناب محمد مرشد، محترمہ شبنم پروین نے رسالہ ’ثالث‘ کی ادبی اہمیت کے حوالے سے خصوصی مقالے پیش کیے۔ دوسرے جلسے میں شوکت حیات پر مشتمل یادداشتوں کے حوالے سے محترمہ نشاط پروین، ڈاکٹر تسلیم عارف اور محترمہ شگفتہ ناز نے اپنے مقالے پیش کیے۔ سے می نار کی تیسری نشست میں ڈاکٹر الفیہ نوری نے شوکت حیات کے کُل افسانوں کی تعداد کے حوالے سے اپنی تحقیق کا خلاصہ پیش کیا۔ دیگر مقالہ نگاروں میں ڈاکٹر اظہار خضر، ڈاکٹر طیب نعمانی، ڈاکٹر منی بھوشن کمار، ڈاکٹر سلمان عبدالصمد، ڈاکٹر صالحہ صدیقی، محترمہ نازیہ تبسم، محترم سعدیہ آفرین ، جناب محمد مرجان علی اور جناب محمد شوکت علی نے اپنے مقالات پیش کیے جن سے شوکت حیات کی تحریروں کے گوناگوں پہلوؤں پر روشنی پڑتی تھی۔ان مقالوں سے یہ بات بھی روشن ہوئی کہ شوکت حیات کی افسانہ نگاری میں گہرائی ہے اور ان کی تفہیم کے لیے نقّادوں کو مشقّت اُٹھانی پڑے گی۔
سے می نار کے پہلے اجلاس کی صدارت ڈاکٹر اسلم جاوداں نے کی۔ انھوں نے شوکت حیات کے سلسلے سے اپنی یادداشتوں کے حوالے سے گفتگو کی۔دوسرے اجلاس کی صدارت ممتاز ہندی ادیب جناب رشی کیش سُلبھ نے فرمائی۔ انھوں نے اپنے دیرینہ تعلّقات کا ذکر کرتے ہوئے واضح کیا کہ شوکت حیات کس طرح ایک شعلۂ مستعجل تھے۔ وہی آگ ان کی تحریروں میں بھی دکھائی دیتی تھی۔ معاشرے اور زمانے کے حالات سے وہ غیر مطمئن تھے اور اِسی کے حوالے سے وہ اپنی تحریروں میں اور ذاتی طَور پر اپنی گفتگو میں اختلاف کرتے تھے۔ شوکت حیات سے دوستی میں انھوں نے ادب اور زندگی کے نہ جانے کتنے ابواب سیکھے۔ سے می نار کے تیسرے اجلاس کی صدارت پروفیسر علیم اللہ حالی نے کی۔ تیسرے اجلاس میں مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے شریک پروفیسر شہزاد انجم، سابق صدر شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ ، نئی دہلی نے کہا کہ اب شوکت شناسی کا نیا دور شروع ہونا چاہیے۔ پروفیسر جمشید قمر نے رسالہ ’ثالث‘ کے خصوصی شمارے کو ایک تاریخی اقدام قرار دیا اور اس بات پر زور دیا کہ بزمِ صدف انٹرنیشنل نے ان کی حیات و خدمات کے حوالے سے کئی طرح کے کاموں کا جو خاکا بنا رکھا ہے، اسے جلد از جلد انجام تک پہنچایا جائے۔ سے می نار میں پروفیسر صفدر امام قادری نے بزمِ صدف کی جانب سے مہمانوں اور دیگر شرکا کا خاص طَور سے شکریہ ادا کیا۔ سے می نار کے تینوں اجلاس میں ہال خاص طَو رپر ادیبوں، شاعروں، نقّادوں اور ری سرچ اسکالرس سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ شوکت حیات سے عقیدت رکھنے والے قارئین کی بھی اچھّی خاصی تعداد محفل میں موجود تھی۔
***
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں :بزمِ صدف کا قومی سے می نار ٢١/اگست کو بہار اردو اکادمی، پٹنہ میں

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے