آسمان ادب کے اختر تاباں تھے اختر اورینوی: امان ذخیروی

آسمان ادب کے اختر تاباں تھے اختر اورینوی: امان ذخیروی

آسمان ادب کے اختر تاباں تھے” بہار میں اردو زبان و ادب کا ارتقا" کے خالق اختر اورینوی- امان ذخیروی

جموئی 19 اگست(سلطان اختر) عالمی شہرت یافتہ افسانہ نگار، ناول نگار، شاعر، محقق، اور ڈراما نگار پروفیسر ڈاکٹر اختر اورینوی کے یوم پیدائش 19 اگست کے موقعے پر بزم تعمیر ادب ذخیرہ، جموئی کی ذیلی شاخ نوشاد منزل پریم ڈیہا ضلع لکھی سرائے میں ایک یادگاری نشست منعقد کی گئی. بزم کے جنرل سکریٹری امان ذخیروی نے اختر اورینوی کی حیات و خدمات پر روشنی ڈالتے ہوئے انھیں آسمان ادب کا اختر تاباں قرار دیا. انھوں نے کہا کہ اختر اورینوی کی پیدائش 19 اگست 1910ء کو ان کی نانیہال قصبہ کاکو کی منجھلی حویلی میں ہوئی. جب کہ آپ کا آبائی وطن بہار کے مونگیر ضلع (اب لکھی سرائے ضلع) کا مشہور گاوں اورین ہے. آپ کے والد کا نام سید وزارت حسین اور والدہ کا نام شمسہ خاتون عرف خدیجہ تھا. اختر اورینوی کے آبا و اجداد میں سے ایک بزرگ سید احمد جاجنیری، دہلی کے سلطان فیروز شاہ تغلق کے زمانے میں بغداد سے ہجرت کر کے ریاست بہار کے قصبہ اورین میں قیام پذیر ہوئے. وہ بچپن ہی سے بلا کے ذہین تھے، اس لیے ان کے والدین انھیں ڈاکٹر بنانا چاہتے تھے. اپنی ابتدائی تعلیم کی تکمیل کے بعد 1923ء میں ان کا داخلہ مونگیر کے ضلع اسکول میں ہوا. ابھی ان کی عمر محض پندرہ سال کی تھی کہ 1925ء میں ان کی والدہ کا انتقال ہو گیا. اس حادثے سے وہ بہت متاثر ہوئے. وہ زمانہ ان کے میٹرک کے امتحان کا زمانہ تھا. پھر بھی اس رنج و الم سے گزرتے ہوئے 1926ء میں انھوں نے میٹرک کا امتحان فرسٹ ڈویژن سے پاس کیا. 1928ء میں انٹرمیڈیئٹ کا امتحان پاس کیا اور میڈیکل کی پڑھائی کے لیے پٹنہ میڈیکل کالج میں داخل ہوئے. ابھی وہ تھرڈ ائیر میں تھے کہ ٹی بی کے مہلک مرض میں مبتلا ہو گئے، جس وجہ سے انھیں یہ پڑھائی چھوڑنی پڑی. اب انھوں نے اپنی پڑھائی کا رخ بدل دیا اور انگریزی آنرز کے بعد 1937ء کو اردو ادب میں ایم اے کی ڈگری حاصل کر 1938ء میں پٹنہ یونی ورسٹی میں پروفیسر مقرر ہوئے. اسی درمیان 1933ء میں شکیلہ اختر سے آپ کی شادی ہوئی، جو بہار کی مشہور و معروف افسانہ نگار تھیں. 1956ء میں انھوں نے پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی. صدر شعبۂ اردو کی حیٹیت سے 1971ء میں سبک دوش ہوئے. انھوں نے عمر بھر اردو زبان و ادب کی بیش بہا خدمت کی اور اپنی تصنیفات سے اردو ادب کے ذخیرے میں اضافہ کیا، ان کے چھے افسانوی مجموعوں میں منظر پس منظر 1942ء، کلیاں اور کانٹے 1943ء، بھول بھلیاں 1944ء، سیمنٹ اور ڈائنامائٹ 1947ء، کچلیاں اور بال جبریل 1959ء، سپنوں کے دیش میں 1969ء وغیرہم قابل ذکر ہیں. ان کا ایک ناول حسرت تعمیر بھی بہت مشہور ہوا. 31 مارچ 1977ء کو آپ نے اس جہان فانی کو الوداع کہا.
***
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں :صالحہ عابد حسین ہمیشہ صالح معاشرے کی تعمیر میں کوشاں رہیں : امان ذخیروی

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے