ہمیشہ یاد کیے جاتے رہیں گے "مونالیزہ" کے خالق قتیل شفائی: امان ذخیروی

ہمیشہ یاد کیے جاتے رہیں گے "مونالیزہ" کے خالق قتیل شفائی: امان ذخیروی

جب بھی آتا ہے مرا نام ترے نام کے ساتھ
جانے کیوں لوگ مرے نام سے جل جاتے ہیں
(قتیل شفائی)
جموئی 11 جولائی ( محمد سلطان اختر) بزم تعمیر ادب ذخیرہ، جموئی کے جنرل سکریٹری امان ذخیروی نے اپنے تحریری بیان میں کہا ہے کہ معروف شاعر اور نغمہ نگار قتیل شفائی کے یوم وفات 11 جولائی کے موقعے پر بزم کے دفتر فضل احمد خان منزل میں ایک یادگاری نشست منعقد کی گئی. بزم کے جنرل سکریٹری امان ذخیروی نے قتیل شفائی کی حیات و خدمات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ قتیل شفائی کا شمار بر صغیر کے ممتاز شاعروں اور نغمہ نگاروں میں ہوتا ہے. قتیل شفائی نہایت ہی مقبول اور ہر دل عزیز شاعر تھے. ان کے لہجے کی سادگی و سچائی، عام فہم زبان کا استعمال اور عوام الناس کے جذبات و محسوسات کی خوب صورت ترجمانی ہی ان کی مقبولیت کا راز ہے. یوں تو انھوں نے مختلف اصناف سخن میں طبع آزمائی کی مگر ان کا اصل میدان غزل ہے. فلمی نغمہ نگاری میں بھی انھوں نے اہم مقام حاصل کیا تھا. ادارت و صحافت میں بھی ان کا نام بہت بلند تھا. انھوں نے ادب لطیف اور سنگ میل کی ادارت بھی کی. وہ پاکستان کے واحد ایسے شاعر تھے جنھیں ہندستانی فلموں میں بھی نغمہ نگاری کا موقع ملا. ہندستانی مشاعروں میں بھی انھیں توجہ کے ساتھ سنا جاتا تھا. قتیل شفائی کی پیدائش 24 دسمبر 1919ء کو متحدہ ہندستان کے خیبر پختونخوا ہری پور ہزارہ میں ہوئی. ان کا پیدائشی نام محمد اورنگ زیب خان تھا. انھوں نے 1938ء میں قتیل شفائی اپنا قلمی نام رکھا اور اردو دنیا میں اسی نام سے مشہور ہوئے. ان کا تخلص قتیل تھا اور شفائی انھوں نے اپنے استاد حکیم محمد یحییٰ شفا کان پوری کے نام کی وجہ سے اپنے نام کے ساتھ لگایا. بعد میں انھوں نے احمد ندیم قاسمی سے بھی اصلاح سخن لی اور مستقل ان کے تلامذہ میں شامل ہو گئے. 1947ء میں انھوں نے پاکستانی فلموں میں قدم رکھا. 1948ء میں ریلیز ہونے والی پاکستاں کی پہلی فلم "تیری یاد" کی نغمہ نگاری سے ان کے فلمی سفر کا آغاز ہوا. ان کے گیتوں کی مجموعی تعداد ڈھائی ہزار سے زیادہ بنتی ہے. ان میں سے کئی گیتوں پر انھیں خصوصی اعزازات سے نوازا گیا. اس کے علاوہ بھی ان کی مجموعی ادبی خدمات کے اعتراف میں انھیں بہت سارے انعامات و اعزازات سے نوازا گیا. جن میں صدارتی تمغا برائے حسن کارکردگی 1994ء، آدم جی ادبی انعام، امیر خسرو ایوارڈ، نقوش ایوارڈ وغیرہ شامل ہیں. ان کی تصنیفات کی تعداد بھی کافی ہے جن میں ہریالی، گجر، جلترنگ، روزن، مونالیزہ، اور ابابیل وغیرہم قابل ذکر ہیں. 11 جولائی 2001ء کو لاہور میں آپ کا انتقال ہوا.
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں :گنگا جمنی تہذیب کے سالار اعظم تھے شاعر قوم گلزار دہلوی: امان ذخیروی

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے