گنگا جمنی تہذیب کے سالار اعظم تھے شاعر قوم گلزار دہلوی:  امان ذخیروی

گنگا جمنی تہذیب کے سالار اعظم تھے شاعر قوم گلزار دہلوی: امان ذخیروی

تاریخ اب جو ہوگی مرتب زبان کی
گلزار دہلوی کو بھلایا نہ جائے گا
(گلزار دہلوی)

جموئی، 7 جولائی، بزم تعمیر ادب ذخیرہ، جموئی کے دفتر فضل احمد خان منزل میں بزم کے صدر محمد ارشاد عالم خان کی صدارت میں پنڈت آنند موہن زتشی گلزار دہلوی کے یوم پیدائش 7 جولائی کے موقعے پر ایک یادگاری نشست منعقد کی گئی. بزم کے جنرل سکریٹری امان ذخیروی نے گلزار دہلوی کی حیات و خدمات پر روشنی ڈالتے ہوئے انھیں گنگا جمنی تہذیب کا سالار اعظم قرار دیا اور کہا کہ گلزار دہلوی کا شمار اردو کے نامور شاعروں میں ہوتا ہے. وہ بین الاقوامی شہرت کے حامل شاعر تھے. انھیں اردو زبان سے جنونی عشق تھا. وہ اردو کے سچے خادم اور عاشق صادق تھے. انھوں نے اپنی پوری زندگی اردو کی خدمت اور اس کی ترویج و تبلیغ پر صرف کر دی. ان کی شاعری گنگا جمنی تہذیب کی امین اور پاس دار تھی. وہ بڑی ہی باغ و بہار شخصیت کے مالک تھے. جس محفل میں شریک ہوتے اسے اپنے قلمی نام کی طرح گلزار بنا دیتے. گلزار دہلوی کی پیدائش 7 جولائی 1926ء کو پرانی دہلی کے کشمیرن میں ہوئی تھی. ان کا اصل نام پنڈت آنند موہن زتشی اور قلمی نام گلزار دہلوی تھا. ان کے والد کا نام پنڈت تربھون ناتھ تھا جو خود بھی ایک بڑے شاعر تھے اور زار دہلوی کے قلمی نام سے مشہور و معروف تھے. ان کی والدہ کا نام رانی زتشی تھا، جو خود بھی ایک شاعرہ تھیں اور "بیزار" تخلص کرتی تھی. اس طرح اردو زبان و ادب سے گلزار کا پیدائشی رشتہ تھا، جو عمر کے ساتھ ساتھ مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا گیا. ان کی ابتدائی تعلیم رام جیشن اسکول اور بی وی جے سنسکرت اسکول میں ہوئی. انھوں نے ہندو کالج سے ایم اے کیا اور قانون کی بھی سند حاصل کی. گلزار صاحب نے انجمن ترقی اردو ہند سے ادیب فاضل کا امتحان پاس کیا. انھیں شاعری سے بچپن سے لگاو تھا اور چھوٹی عمر سے ہی شاعری کرنے لگے. 1943ء سے باضابطہ ملکی اور بین الاقوامی مشاعروں میں شرکت کرنے لگے. آپ نے تقریباً 50 ممالک میں مشاعرہ پڑھا جو ایک سند ہے. گلزار دہلوی اردو زبان کے ایسے پہلے شاعر و ادیب تھے جنھیں سنہ 2000ء میں اقوام متحدہ نے اردو میں حطاب کرنے کا شرف بخشا. 36 ممالک کے شعرا کے اس کانفرس کی صدارت بھی گلزار دہلوی نے کی تھی. ان کی گراں قدر ادبی خدمات کے اعتراف میں حکومت ہند نے انھیں پدم شری ایوارڈ سے سرفراز کیا تھا. اس کے علاوہ، مجاہد اردو، شاعر قوم، غالب ایوارڈ، اندرا گاندھی میموریل قومی ایوارڈ اور 2009ء میں میر تقی میر ایوارڈ سے بھی انھیں سرفراز کیا گیا. بیرون ممالک سے بھی انھیں بہت سارے انعامات و اعزازات حاصل ہوئے، جس میں پاکستان کا "نشان امتیاز" ایوارڈ بھی شامل ہے. ان کی کتابوں میں "گلزار غزل" اور "کلیات گلزار دہلوی" کو بڑی مقبولیت حاصل ہے. 12 جون 2020ء کو دہلی میں آپ کا انتقال ہوا. اس یادگاری نشست میں بزم کے خازن پروفیسر رضوان عالم خان، روزنامہ انقلاب کے صحافی غلام سرور، ڈاکٹر شاہد انور، محمد عتیق اللہ خان، محمد شاداب رضی خان، محمد ظفر اقبال, محمد عمران خان وغیرہم شامل ہوئے.
***
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں :اردو کے عاشق صادق تھے پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی : امان ذخیروی

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے