علی گڑھ فکشن کے پانچ رنگ

علی گڑھ فکشن کے پانچ رنگ

غضنفر

ہر شام، شامِ مصر اور ہر شب، شب ِشیراز والی علمی فضاﺅں میں اُمید کی خوشی والے فسوں ساز نے ایسا فسوں پھونکا کہ سر زمینِ سرسیدی سے سرسبز شعری گل بوٹوں کے ساتھ ساتھ شگفتہ و شاداب افسانوی پودے بھی لہلہا اٹھے۔ خوش رنگ تخلیقی خوشے دور دور تک اپنی نیرنگیاں بکھیرتے چلے گئے۔
اس جادو گر کی پھونک نے اس زمین کو ایسا زرخیز اور پُر تاثیر بنادیا کہ اس کی مٹی سے کم زور دانے بھی توانا پود بن کر نکلنے لگے۔ اس ساحرِ وقت کی منتر میں جانے کیا ِسرِّ نمو مضمر تھا کہ زر خیزی میں کبھی کمی نہیں آئی۔ قوتِ روئیدگی ہمیشہ نمو پذیر ہوتی رہی۔ ہر دور اور ہر موسم میں تخلیقی سبزے اُگتے رہے، افسانوی خوشے لہراتے رہے۔
آپ نے پرچوں کے لہراتے ہوئے پرچموں میں بہت سارے عکس دیکھ لیے ہوں گے اور آپ کو اندازہ ہوگیا ہوگا کہ سرزمینِ سرسید نے کتنی افسانوی فصلیں اُگائیں اور ان فصلوں کی شاخوں پر کیسی کیسی خوش نما بالیاں لہرائیں، اس لیے میں تفصیل میں نہیں جاﺅں گا۔ اپنی اس مختصر سی تحریر میں بس اس عہد کی ایک جھلک دکھانے کی کوشش کروں گا جس میں بیک وقت پانچ پانچ فکشن نگار پروان چڑھے۔
ایک وقت، ایک ماحول، ایک زبان، ایک صنف اور ایک استاد کے پانچ فن کار مگر پانچوں ایک دوسرے سے مختلف۔ ہر ایک کا رنگ جدا، ڈھنگ جدا، آہنگ جدا۔ ہر ایک کی زبان الگ، ہر ایک کا بیان الگ، ہر ایک کی داستان الگ۔ ایک ایک کا موضوع و مواد منفرد، منشا و مراد منفرد، طبع کی اُفتاد منفرد۔ ہر ایک کا اپنا امتیاز، اپنا اختصاص، اپنا انفراد۔ کسی کی تحریر میں پیتل کا رنگ نہیں، گھنٹے کا آہنگ نہیں، اسلوبیاتی ترنگ نہیں، کسی میں تاریخی کردار نہیں، کسی میں جاگیردار نہیں، کسی میں زمین دارانہ کاروبار نہیں، کسی میں تیغ و سناں کی جھنکار نہیں، کوئی ولید نہیں، کوئی شکوہ نہیں، کوئی ایوبی نہیں۔ ان سب کا معاصر معاشرے سے سروکار ہے۔ سب کی صداﺅں میں وقت کی پکار ہے۔ عہدِ حاضر کے جبر و تشدد کا اظہار ہے۔ اشرف ڈار سے بچھڑے انسانی پرندوں کا کرب اور لکڑبگّھے کے ہنسنے، رونے اور چب ہوجانے کاسبب بیان کرتے ہیں۔ پیغام معاشرے کی زمین کے نیچے بچھے فلیتے اور اس کے دھماکے سے اڑنے والے انسانی جسموں کے پراخچوں کے کربناک مناظر سامنے لاتے ہیں۔ ابن کنول تیسری دنیا کے لوگوں کے خط و خال، ان کے حال چال اور زندگیِ پائمال کی عکاسی کرتے ہیں۔ طارق اس لکیر کو دکھاتے ہیں جو کھنچتی ہے تو دماغوں کی نسیں کِھنچ جاتی ہیں۔ سینہ شق ہوجاتا ہے۔ دل میں گڈھے پڑ جاتے ہیں اور غضنفر دیوی سرسوتی کی بے حرمتی اور لکشمی اور درگا کی پرستش سے رونما ہونے والی صورت حال اور اس سے مچنے والی تباہی کا قصہ سناتے ہیں اور ساتھ ہی معاشرے کے سمندر کو متھ کر وِش نکالتے ہیں۔ اردو فکشن میں سب کا اپنا اپنا حصہ ہے: "مکان" میں بے گھری اور دربدری کے کرب کی روداد ہے تو” باغ کا دروازہ" تنگ نظری سے تاراج ہوجانے والے ملک و قوم کا قصہ ہے۔ "نمبر دار کا نیلا" دہشت گردی کی ہولناکیوں کا ترجمان ہے تو” پانی" منبعِ آب پر قبضۂ نہنگ کے سبب بھڑکنے والی پیاس اور تڑپنے والے پیاسوں کی داستان ہے اور "ہمارا تمہارا خدا بادشاہ" سیاسی پینترے بازی اور انسانی بے بسی کا داستانوی بیان۔ یہاں تک کہ ان فن کاروں کی کہانیوں میں آنے والے جانور بھی مختلف ہیں۔ سید محمد اشرف کے یہاں نیلا ہے تو طارق چھتاری کے پاس گھوڑا۔ پیغام آفاقی کے یہاں لوہے کا جانور ہے تو ابن کنول کے پاس بھیڑیا اور غضنفر کے یہاں مگر مچھ۔ یہ سارے جانور اپنی ہیئت، سرشت اور معنویت سب میں ایک دوسرے سے جدا ہیں۔ ان کے کردار بھی مختلف ہیں۔ نیلے کی نیلی آنکھیں، مگرمچھ کی سرخ زبان، لوہے کے جانور کے سیاہ پنجے، گھوڑے کے برق رفتار سم اور بھیڑیے کے نکیلے دانت الگ الگ کردار نبھاتے ہیں۔ الگ الگ دنیاﺅں میں لے جاتے ہیں۔ الگ الگ منظر دکھاتے ہیں۔ ہر ایک کا طرزِ اظہار بھی جداگانہ ہے۔ الگ الگ ہدف ہے، الگ الگ نشانہ ہے۔ اشرف کی زبان تہذیبی و ثقافتی امور پر نظر رکھتی ہے اور شائستگی، شستگی اور شگفتگی کا مظاہرہ کرتی ہے۔ مثلاً:
”ککیّا اینٹ کی سفید عمارت کی دیواریں، ناقابل عبور حد تک اونچی نہیں تھیں۔ ان میں جگہ جگہ در دریچے اور روشن دان تھے اور ان سے آتی ہوئی ھو، حق کی پُر اسرار گونج دار آوازیں بازار میں صاف سنائی دے رہی تھیں۔ ان آوازوں کو سن کر ایسا لگتا جیسے ان آوازوں کے جسم ہوں اور ان جسموں پر دراز سفید ریشم جیسی داڑھیاں ہوں اور کانوں سے نیچے تک کھیلتی ہوئی نرم نرم کاکلیں ہوں۔ ان آوازوں کو سن کر ایک ایسے سکون کا احساس ہوتا جو سخت تالو میں کوسوں کا سفر پا پیادہ طے کرنے کے بعد ٹھنڈی صراحی کا سوندھا سوندھا پانی سیر ہو کر پینے پر ملتا ہے۔ نیچی نیچی دیواروں والی اس نورانی عمارت کو چاروں طرف سے ستونوں، برجیوں، میناروں اور پھاٹکوں نے گھیر رکھا تھا جو بظاہر کسی محل کی موجودگی کا احساس دلاتے تھے۔“
طارق کی لسانی طرز منظری اسلوب بناتی ہے اور بیان کو منظر اور پیکر میں بدل دیتی ہے۔ جیسے:
” وہ اگلے شہر میں داخل ہوا تو اس کی ماں کی آخری نشانی سونے کی ایک موٹی زنجیر اس کے گلے سے کھل کر پیروں کی طرف سرکی، رکاب بنی اور وہ کود کر گھوڑے کی پیٹھ پر سوار ہوگیا۔ ٹراٹ—گیلپ اور پھر باگ اتنی ڈھیلی کردی گئی کہ گھوڑے کی نعلیں گھِس گئیں اور چاروں پیر زخمی ہوگئے۔ پہاڑی راستوں پر لگی کائی اور گھوڑے کے پھسلنے کا خوف۔ وہ اترا اور لگام کا کڑا پکڑ کر دوڑنے لگا۔“
ابن کنول کی نگارش، داستانوی رنگ دکھاتی ہے اور مرصع و مسجع آہنگ سناتی ہے جیسا کہ ان کی اس عبارت میں سنائی دیتی ہے:
”اچانک آفتاب کی تیز شعاعیں مانند پیکاں اس کی نگاہوں سے اتر کر پورے جسم میں پھیل گئیں اور اس کا بدن مثل بدرِ منیر پرنور آئینہ بن گیا۔ اس کے اعضائے بدن سے کرنیں پھوٹنے لگیں۔ کئی برس تک مسلسل قطرہ قطرہ آفتاب اسی کے بدن میں اترا تھا جس نے اس کے قلبِ تاریک کو کوہِ نور میں بدل دیا تھا۔“
جب کہ پیغام آفاقی کی زبان شفاف اور سفاک بیانیہ کی مثال پیش کرتی ہے اور اکثر خود کلامی کا انداز اختیار کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ مثلاً:
”یہ بیسویں صدی کی نویں دہائی کی دلّی ہے۔ یہ وہ شہر ہے جہاں کب رات ہوتی ہے اور کب دن نکلتا ہے، پتا نہیں چلتا۔ یہ وہ شہر ہے جہاں ہر انسان اپنی حفاظت کا آپ ہی ذمّے دار ہے۔ یہاں بھروسوں کی تجارت ہوتی ہے۔ یہاں معاہدہ بنانے والے ایک ایک لفظ کے ہزاروں ہزاروں روپے لیتے ہیں اور اس شہر میں تم بھروسوں پر چل رہی ہو۔“
اور غضنفر کا طریقہ ْکار اشاراتی و استعاراتی ہے جس میں وہ تلمیح اور استعارات سے بھی کام لیتے ہیں، جیسے :
”بچے کی ماں پانی کی تلاش میں اس پہاڑی سے اس پہاڑی پر بھٹکتی پھر رہی تھی اور اب بچے کی ایڑیوں کے پاس سے چشمہ پھوٹ پڑا۔ بے نظیر کو بھی اپنی ایڑیوں کے پاس پھوٹتا ہوا چشمہ محسوس ہوا۔ نگاہیں آسمان کی جانب اٹھ گئیں۔ آسمان جس نے یوسف کو کنویں سے نکالا، عیسیٰ کو بن باپ کے پیدا کیا اور پالا، ابراہیم کو آگ کی لپٹوں سے بچایا، یونس کو مچھلی کے پیٹ میں زندہ رکھا، کرشن کو کنس کی قید سے آزاد کرایا، موسیٰ کو دشمن کے ہاتھوں پروان چڑھایا، لیکن آسمان خاموش رہا۔“
ان پانچوں فن کاروں کے امتیازات اور ان کی منفرد شناخت کا سبب ان کی انفرادیت اور تخلیقیت تو ہے ہی اس تربیت گاہ کا وہ تربیتی رویہ بھی ہے جو وہ دورانِ تربیت روا رکھتا ہے۔ طالب علموں پر وہ ادارہ اپنا تہذیبی رنگ اس طرح چڑھاتا ہے کہ ان کا اپنا رنگ بھی برقرار رہے۔ ایسی ترکیبیں کرتا ہے کہ اس کا روغن تو روشن ہو مگر طلبہ کا انفرادی رنگ مدھم نہ پڑے۔ جہاں وہ اپنے ادارے کی تہذیب کا مبلّغ اور معلّم ہوتا ہے وہیں طلبہ کے تشخص کا امین ہونے کا فرض بھی نبھاتا ہے۔ اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ادارہ طلبہ کو پوری طرح اپنے رنگ میں نہیں رنگ پاتا۔ آپ اگر ان تخلیق کاروں کی تحریروں کو غور سے پڑھیں تو ادارے کا رنگ بھی خاصا چوکھا نظر آئے گا۔ ان میں شائستگی، شستگی، درستگی، بے ساختگی، برجستگی، شگفتگی، درمندی اور انسان دوستی کا جو عکس نظر آتا ہے یہ اسی ادارے کے تہذیبی رنگ کا فوکس ہے۔
کچھ لوگوں کو اکثر یہ سبب جاننے کی خواہش ہوتی ہے کہ ایک قصباتی علاقے میں واقع ادارہ جس کا کیمپس بھی کوئی زیادہ بڑا نہیں، میں تعلیم پانے والے تخلیق کاروں کی تخلیقات میں اتنی وسعت اور تنوع کیوں کر ہے؟ ان کی بصیرت میں اتنی اور ایسی تیز روشنی کہاں سے آگئی ،تو ان کے تجسس کو مٹانے کے لیے یہ بتانا ضروری ہے کہ یہ سارے فن کار کیمپس کے بوم کلب سے وابستہ رہے اور بوم ہونے کا ثبوت بھی دیتے رہے۔ بوم جو راتوں کو جاگتے ہیں اور ظلمت میں روشنی پاتے ہیں۔ جو اگرچہ چھوٹے چھوٹے کمروں میں رہتے ہیں مگر ان کمروں میں موہن راکیش کے اندھیرے بند کمرے کھلتے ہیں اور دلوں کی سیاہی چمک اٹھتی ہے۔ رینو کا میلا آنچل لہراتا ہے اور ایک بہت بڑے علاقے کی بے شمار زندگیوں کے داغ دھبّے سامنے آجاتے ہیں۔ یشپال کی تخلیقی کھڑکی کھلتی ہے اور منش کے روپ کی مختلف صورتیں منعکس ہوجاتی ہیں۔ سفید خون سے پردہ ہٹتا ہے اور پنجاب کا سیاہ رنگ جھانکنے لگتا ہے۔ اوراقِ کملیشور الٹتے ہیں اور کھوئی ہوئی دشائیں مل جاتی ہیں۔ بھبھانی بھٹاچاریہ کی دلدل سامنے آتی ہے اور اس میں دھنسا ہوا ایک عالم دکھائی دے جاتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ بوموں کی آنکھوں میں ہمنگ وے کے ’دی اولڈ مین اینڈ سی‘ کے حالات، کامو کے بے گانہ کی کربناک کیفیات، اور پلیگ کے واقعات، ترگنیف کے باپ بیٹے کے درمیان ہونے والے تصادمات ، کا فکاکے دی ٹرائل کی کشاکش کے معاملات، دستووسکی کے ایڈیٹ کے حرکات و سکنات، کینسروارڈ کے ناسور، جرم و سزا کے داﺅ پیچ، جنگ اور امن کے حربے، قلبِ ماہیت کی کایا پلٹ، سبھی کچھ ابھر آتا ہے۔ سارا جہان ایک چھوٹے سے کمرے میں سمٹ آتا ہے۔ آﺅٹ سائڈر بھی ان سائڈر ہوجاتا ہے۔ گویا ان کا کمرہ جامِ جمشید بن جاتا ہے اوریہ بوم جب شبِ تاریک میں کیفے ڈی فوس، چار منار، لیلیٰ، ٹی ہاﺅس جیسے سرِ راہی چائے خانوں میں بیٹھتے تو بیٹھے بٹھائے انھیں آدابِ سحر گاہی آجاتے۔ پیالیوں میں شکر کے ساتھ دنیا جہان کی کڑواہٹیں بھی گھل جاتیں۔ چائے سے اٹھنے والی بھاپ میں کھولتے ہوئے سمندروں کا جوش ابلنے لگتا۔ سگریٹوں کے مرغولوں میں کائنات رقص کرنے لگتی۔ اندرونِ ذات سے جھنکاریں نکلنے لگتیں۔ ایک دوسرے کے مشاہدات، مطالعات، تجربات اور محسوسات و خیالات آپس میں مل کر ان کی سوچ کے دائرے کو اتنا بڑا کردیتے کہ فکر کا کینوس پھیل کر ساری دنیا پر محیط ہوجاتا ہے۔ اس طرح وہ خارج سے نور اور باطن سے رنگ حاصل کرکے افسانوی دھنک بناتے اور اسے آسمانِ ادب پر تان دیتے ۔
***
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں :ایک گم شدہ کردار

شیئر کیجیے

One thought on “علی گڑھ فکشن کے پانچ رنگ

  1. غضنفرسر کی زبان شہدسے دھلی معلوم ہوتی ہے۔ایک مختصر مضمون میں اکیسویں صدی کے پانچ بڑے افسانہ نگاروں کی انفرادیت ،ان کے فن کی خوبیوں کو سمٹنا گویاکوزے میں سمندرکو سمیٹنے کے مترادف ہے۔”اشرف ڈار سے بچھڑے انسانی پرندوں کا کرب اور لکڑبگّھے کے ہنسنے، رونے اور چب ہوجانے کاسبب بیان کرتے ہیں۔ پیغام معاشرے کی زمین کے نیچے بچھے فلیتے اور اس کے دھماکے سے اڑنے والے انسانی جسموں کے پراخچوں کے کربناک مناظر سامنے لاتے ہیں۔ ابن کنول تیسری دنیا کے لوگوں کے خط و خال، ان کے حال چال اور زندگیِ پائمال کی عکاسی کرتے ہیں۔ طارق اس لکیر کو دکھاتے ہیں جو کھنچتی ہے تو دماغوں کی نسیں کِھنچ جاتی ہیں۔ سینہ شق ہوجاتا ہے۔ دل میں گڈھے پڑ جاتے ہیں اور غضنفر دیوی سرسوتی کی بے حرمتی اور لکشمی اور درگا کی پرستش سے رونما ہونے والی صورت حال اور اس سے مچنے والی تباہی کا قصہ سناتے ہیں اور ساتھ ہی معاشرے کے سمندر کو متھ کر وِش نکالتے ہیں۔”

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے