مولانا حفیظ الرحمن اعظمی عمری مدنیؒ

مولانا حفیظ الرحمن اعظمی عمری مدنیؒ

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ، پھلواری شریف، پٹنہ

مفسرقرآن جامعہ دار السلام عمرآباد تامل ناڈو کے ناظم اعلا، استاذ الاساتذہ، نامور عالم دین، اچھے شاعر، بہترین نثرنگار، کئی کتابوں کے مصنف و مولف مولانا حفیظ الرحمن عمری مدنی کا ۲۴؍مئی ۲۰۲۲ء مطابق۲۲؍شوال ۱۴۴۳ھ بروز منگل دوپہر [کو] انتقال ہوگیا اور اسی دن بعد نماز عشاء دس بجے شب جنازہ کی نماز ادا کی گئی اور عمرآباد میں ہی تدفین عمل میں آئی، اہلیہ کا انتقال برسوں پہلے ہوچکا تھا، پس ماندگان میں تین بیٹیاں ہیں، مولانا حفیظ الرحمن اعظمی بن مولانا محمد نعمان اعظمی (م۲۸؍ دسمبر ۱۹۵۱ء) بن عبد الرحمن شہید کی پیدائش ۳؍اپریل ۱۹۴۱ء تامل ناڈو کے شہر عمرآباد میں ہوئی، دس سال کی عمر میں ہی والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا، تربیت کی ذمہ داری والدہ نے سنبھالی اور تنگ دستی کے باوجود اپنے بچوں کو عالم بنایا، مولانا کے والد جامعہ دار السلام عمرآباد میں شیخ الحدیث کے منصب پر فائز تھے اور ان کا شمار میاں نذیر حسین محدث دہلویؒ کے نامور شاگردوں میں ہوتا تھا، مولانا کی ابتدائی تعلیم ناظرہ قرآن تک کی گھر پر ہوئی، حفظ قرآن کے لیے مولانا قاری عبد اللہ عمری کے سامنے زانوے تلمذ تہہ کی، پھر جلد ہی دار العلوم پرنامیٹ منتقل ہوگئے اور حفظ قرآن کی تکمیل مولانا محمود الحسن سے ہوئی، ۱۹۵۳ء میں جامعہ دارالسلام عمرآباد میں عربی کے ابتدائی درجہ میں داخل ہوئے، ۲۹؍جنوری۱۹۶۱ء کو مروجہ و متداولہ نصاب کی تکمیل کرکے سندفراغ حاصل کیا. یہاں کی سند مولوی فاضل کے نام سے متعارف ہے، یہاں مولانا نے علامہ شاکر اعظمی، مولانا عبد الواحد عمری رحمانی، مولانا عبد السبحان، مولانا سید امین عمری اور مولانا ابو البیان حماد عمری سے کسب فیض کیا، مدراس یونی ورسٹی سے افضل العلماء کی سند بھی حاصل کی، نومبر ۱۹۶۱ء میں کلیۃ الشریعۃ جامعہ اسلامیہ مدینۃ المنورہ میں داخلہ لیا اور یہاں سے بی اے کے مساوی سند ملی، یہاں کے اساتذہ میں شیخ بن باز، شیخ ناصر الدین البانی، شیخ محمد امین شفقیطی، شیخ عبد الحسن بن عباد، حافظ محمد گوندلوی، شیخ عبد الغفار رحمہم اللہ کے اسماے گرامی خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔ ۱۹۶۵ء میں مدینہ منورہ سے واپسی کے بعد سہ روزہ مدینہ بجنور میں کچھ دن اور روزنامہ دعوت دہلی میں چند ماہ نائب مدیر کی حیثیت سے کام کیا، پھر مادر علمی جامعہ دارالسلام عمرآباد تشریف لے آئے اور ۱۱؍ فروری ۱۹۶۶ء سے جامعہ دارالسلام عمر آباد سے منسلک ہوگئے اور تادم واپسیں اس ادارہ کی خدمت کرتے رہے، وہ جامعہ کے ترجمان ’’راہ اعتدال‘‘ کے مدیر اعزازی بھی تھے، جامعہ دا رالسلام عمر آباد سے متعلق رہنے کے درمیان آپ نے نائجریا اور ملیشیا کا بھی سفر کیا اور کم و بیش آٹھ سال ۱۹۷۶ سے ۱۹۷۸ء تک نائیجیریا اور ۱۹۸۲ء سے ۱۹۸۶ء تک ملیشیا میں قیام پذیر رہے، اور وہاں درس و تدیس، وعظ و تذکیر کے فرائض انجام دیے۔
مولانا کو اللہ تعالیٰ نے تصنیف و تالیف کا خصوصی ملکہ عطا فرمایا تھا، آپ کی تصنیفات میں متاع قرآن، فکری یلغار، میری زندگی کا حاصل، اسلام میں اختلاف کے آداب، ارض حرم میں پہلا قدم (سفر نامہ حج وعمرہ) اور خطبات کا مجموعہ صداے دل مشہور و معروف ہیں۔
میری ان سے برسوں پہلے اسلامک فقہ اکیڈمی کے سمینار منعقدہ جامعہ دار السلام عمر آباد میں ملاقات ہوئی تھی، وہ انتہائی چاق و چوبند اور مثالی قسم کے انسان تھے، ظاہری شکل و صورت اور وضع وقطع متاثر کن نہیں تھی، لیکن جب زبان کھولتے اور قلم چلتا تو علم کا سمندر ابلتا، وہ اپنے مسلک پر عامل ہوتے بھی دوسرے مسالک کی قدر کرتے اور ان کے واجبی اکرام و احترام میں کمی نہیں آنے دیتے، ان کی فکر انتہائی معتدل تھی. اس اعتدال کی ترویج و اشاعت کو انھوں نے اپنی زندگی کا نصب العین بنا رکھا تھا، شاید اسی لیے جامعہ کے ترجمان کا نام ’’راہ اعتدال‘‘ رکھا گیا تھا، اس سفر میں میری ملاقات مولانا ابو البیان حماد صاحب سے بھی ہوئی تھی، انھوں نے راہ اعتدال کے کئی شمارے میرے حوالہ کیا تھا، میں ان دنوں مدرسہ احمدیہ ابا بکر پور میں تھا، جو انی کا جوش تھا اس لیے فکر میں اعتدال کی کمی تھی، جن فرقوں کو صراط مستقیم سے ہٹا پاتا تو اس کے خلاف بولتا اور لکھتا بھی، بلکہ ایک انجمن تھی جس میں ویشالی ضلع کے بڑے علما فرقۂ ضالہ منحرفہ پر اپنی تحقیقات پیش کرتے، کئی مقالے جن کو میں نے امارت شرعیہ آنے کے بعد اپنی فہرست سے نکال دیا ہے، اسی زمانہ میں لکھے گئے، ایسے میں راہ اعتدال کے شماروں سے فکر کو معتدل کرنے اور جارحانہ لب و لہجہ کے بجائے سنجیدہ اسلوب اختیار کرنے میں بڑی مدد ملی، پھر جب امارت شرعیہ آگیا تو یہاں اس کا کوئی موقع ہی نہیں تھا، یہاں کلمہ کی بنیاد پر اتحاد کی دعوت دی جاتی ہے اس لیے مسلک اور فرقوں پر گفتگو کا سلسلہ ہی بند ہو گیا، لیکن فکری اعتدال پیدا کرنے میں راہ اعتدال نے اپنا کردار ادا کیا، مولانا حفیظ الرحمن صاحب جیسا کہ پہلے مذکور ہوا، اس رسالہ کے مدیر اعزازی تھے۔
مولانا کی ذات میں تواضع و انکساری بدرجہ اتم تھی، جامعہ میں بڑے عہدے پر فائز تھے، علم پختہ تھا، جس میں گہرائی بھی تھی اور گیرائی بھی، نظامت سے وابستہ تھے، اس لیے مختلف مزاج کارکنوں سے ہر روز واسطہ پڑتا تھا، جنھیں برتنا اور ڈیل کرنا آسان کام نہیں ہوتا، لیکن مولانا کا مزاج ایسا تھا کہ سب کو برت لیتے اور ان کی ضروریات کی تکمیل کرتے، ضرورت پڑنے پر دار و گیر اور تنبیہ سے بھی بازنہیں آتے، لیکن انداز ہر حال میں مشفقانہ ہی رہتا، اس لیے لوگ ان کی قدر کرتے تھے، اور اعلا عہدے پر فائز ہونے کے باوجود ان سے بات کرتے اور اپنی بات رکھتے ججھک نہیں محسوس کرتے تھے.
مولانا ہمارے درمیان نہیں رہے، ان کے ہزاروں شاگرد اور ان کی تصنیف کردہ کتابیں ان کے لیے صدقہ جاریہ ہیں، عالم برزخ میں انھیں ان کی نیکیوں کا صلہ مل رہا ہوگا اور اللہ رب العزت نے ان کے سیئات سے در گذر کرکے فرشتوں کے ذریعہ ’’نم کنومۃ العروس‘‘ کا مژدہ سنا دیا ہوگا اور وادخلی جنتی سن کر زندگی بھر کی تکان دور ہو گئی ہوگی۔
***
صاحب تحریر کی گذشتہ نگارش:پروفیسر اسلم آزاد

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے