عشرہ ذی الحِجہ کی شانِ امتیاز: حجِ بیت الله اور عیدالاضحیٰ

عشرہ ذی الحِجہ کی شانِ امتیاز: حجِ بیت الله اور عیدالاضحیٰ

عبدالرحمٰن
Abdul Rahman
نئی دہلی
(سابق چیف مینیجر، الہ آباد بینک)
rahman20645@gmail.com

لَبَّّیْکَ اللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ
(میں حاضر ہوں اے الله میں حاضر ہوں)

حج کا سفر کرنے والوں کے مشاہدہ میں آنے والی یہ وہ مبارک صدائیں ہیں جن کی تجلی اور خوشبو سے عازمین حج کے قافلے منور اور معطر بنے رہتے ہیں۔ بلا شبہ، حج کا سفر الله تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی جدوجہد کے ساتھ ساتھ، اپنی نوعیت کے منفرد مشاہدات اور تجربات عنایت کرنے والا مبارک سفر ہوتا ہے۔ حج کا سفر گویا الله رب العالمین سے ملاقات کے لیے ہونے والا سفر ہے۔ اگر دوسری عبادتیں الله تعالی کی یاد کے مترادف ہیں، تو حج کرنا گویا خود الله تعالی تک پہنچ جانا ہے۔ بے شک، الله تعالیٰ جس کو توفیق عطا کرتا ہے اور حج کی سعادت سے نوازتا ہے، اسی کو اس کے گھر (بیت الله) کے دیدار کی دولت نصیب ہوتی ہے۔ کعبہ کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد الله رب العالمین نے اپنے برگزیدہ پیغمبر سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حکم دیا تھا کہ وہ لوگوں میں اعلان کر دیں کہ وہ اپنے پروردگار کے گھر کا حج کریں (الحج-22: 27)۔
اسی اعلان کے پس منظر میں، حج کے سفر پر جانے والے خوش نصیب حضرات جب اپنےخالق و مالک، مہربان پروردگار کی عنایات کو اپنی آنکھوں کے سامنے نازل ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں، تب کیفیتِ اعتراف میں ان کی زبان پر ’لَبَّّیْکَ اللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ‘ کے دل کو مسرور و مطمئن کرنے والے کلمات خود بہ خود جاری ہو جاتے ہیں۔ ان مبارک کلمات کو ’تلبیہ‘ کہا جاتا ہے۔ حج کا ’اِحرام‘ (سادگی کی علامت، دو سفید چادروں پر مشتمل بغیر سِلا کپڑا) زیب تن کرنے یعنی ایک چادر تہمد کی طرح باندھنے اور دوسری کندھوں پر اوڑھنے کے بعد تلبیہ پڑھنا گویا حج کی نیت کے ساتھ احرام میں داخل ہو جانا ہوتا ہے۔ اسی کے ساتھ، عازمین حج پر الله تعالیٰ کی نافذ کردہ احرام کی پابندیاں بھی عائد ہوجاتی ہیں۔ ہمیں حالتِ احرام میں الله رب العزت کی مرضی کو اپنے ارادہ و اختیار کی آزادی کے ساتھ قبول کرتے ہوئے اس پر عمل کرنا خود پر لازم کر لینا چاہیے۔ اپنے خالق و مالک پروردگار کی مرضی کے آگے ڈھے پڑنا ہی سچی بندگی کی نشانی ہے۔
دراصل، اندیشہ و امید کی کیفیت کے ساتھ، الله تعالیٰ کی مرضی میں جینا ہی’تقویٰ‘ کہلاتا ہے، اور یقیناً تقویٰ اختیار کرنے والوں کو الله رب العالمین پسند فرماتا ہے۔ احرام باندھنے کے بعد حج کے پورے عمل کے دوران کثرت سے تلبیہ پڑھا جاتا ہے۔ جہاں مردوں کے لیے بہ آواز بلند تلبیہ پڑھنے کی تاکید ہے، وہیں عورتیں بھی خاموشی کے ساتھ پڑھ سکتی ہیں۔ تلبیہ پڑھنے کا سلسلہ جمرہ عَقَبہ (بڑا شیطان) پر پہلی کنکری مارنے کے ساتھ ختم ہوجاتا ہے۔ تلبیہ کی پوری عبارت اس طرح سے ہے:
لَبَّّیْکَ اللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ،
لَبَّّیْکَ لَا شَرِیْکَ لَکَ لَبَّّیْکَ،
اِنَّ الْحَمْدَ وَ الْنِّعْمَۃَ لَکَ وَ الْمُلْکَ،
لَا شَرِیْکَ لَکَ۔
(میں حاضر ہوں، اے الله میں حاضر ہوں؛ میں حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں، میں حاضر ہوں؛ بےشک سب تعریفیں تیرے لیے ہیں اور ہمیں ساری نعمتیں تجھی سے حاصل ہیں، اور تیری ہی بادشاہی ہے؛ تیرا کوئی شریک نہیں.)
29 ذی القعدہ (ذوالقعدہ)، 1443ہجری(مطابق 29 جون 2022ء) کو سعودی عرب میں رویت ہلال کے بعد، 30 جون 2022ء کو ماہ ذی الحِجہ(ذی الحِج) یا ذوالحِجہ کے آغاز کے ساتھ، حج بیت الله اور عیدالاضحیٰ کی مبارک تاریخوں کا اعلان کردیا گیا ہے۔ حج کا فریضہ، اسلامی یا قمری کیلینڈر (Lunar calendar) کے ذی الحجہ کے نام سے معروف بارہواں اور آخری مہینے کی 9 تاریخ کو ادا کیا جاتا ہے۔ ذی الحجہ یا ذی الحج کے معنی ہیں ’حج کا مہینہ‘. موجودہ سال یعنی سنہ 2022 عیسوی میں شمسی کیلینڈر(Solar calendar) کے مطابق یہ تاریخ 8 جولائی ہوگی، اور سعودی عرب میں عیدالاضحیٰ کی تاریخ 9 جولائی۔ ہندستان میں یومِ عرفہ (9 ذی الحِجہ) 9 جولائی کو ہوگا اور عیدالاضحیٰ 10 جولائی کو منائی جائے گی۔ برصغیر ہند و پاک میں بہت دنوں کے بعد وہ مبارک حالات پیدا ہوئے ہیں جب قمری اور شمسی تقویم (calendar) کی تاریخوں نے ایک ماہ تک ساتھ ساتھ چلنے کا فیصلہ کیا ہے۔
8 جولائی جمعہ کا دن ہے۔ مطلب یہ کہ امسال حج جمعہ کے دن ہوگا۔ حاجیوں کی اصطلاح میں جمعہ کے دن پڑنے والے حج کو ’حج اکبر‘ کہا جاتا ہے۔ الحمدللہ، راقم الحروف کو بھی حج اکبر کی پر کیف خوشی حاصل ہو چکی ہے، جب سنہ 2006 عیسوی میں الله تعالیٰ نے مجھے مع اہلیہ کے حج کی سعادت عطا فرمائی تھی۔ سنہ 2006ء میں دو (2) حج واقع ہوئے تھے، پہلا جنوری میں اور دوسرا دسمبر میں۔ دسمبر مہینے میں ہونے والے حج کو (2006-II) کے نام سے منسوب کیا گیا تھا، یعنی سنہ 2006ء کا دوسرا حج۔ اسی دوسرے حج کی سعادت ہمیں نصیب ہوئی۔ الله تعالیٰ ہمارے حج کو حجِ مبرور کا درجہ عنایت فرمائے۔
سنہ 2022ء میں ہونے والا حج، بالخصوص ہندستانی عازمین کے لیے بہت خاص ہے، کیوں کہ انھیں دو سال کی محرومی کے بعد حج کی سعادت حاصل ہو رہی ہے۔ سنہ 2020 اور 2021ء میں بہ شمول ہندستان دنیا کے سبھی ملکوں کے مسلمان شہری حج کے لیے سعودی عرب کے سفر سے محروم ہوکر رہ گئے تھے۔ ان دونوں سالوں میں، دنیا کے تقریباً سبھی ممالک کورونا وائرس (Corona virus) نام کی مہاماری یا عالمی وبا (pandemic) عرف کووِڈ (Covid-19) سے بہت بڑے پیمانے پر متاثر ہوئے تھے۔ ابھی تک کے اعداد و شمار (statistics) کے مطابق متاثرین کی تعداد 554.4 ملین (55 کروڑ چوالیس لاکھ) اور مرنے والوں کی تعداد 6.4 ملین (چونسٹھ لاکھ) ہو چکی ہے۔
’کووڈ‘ کے انسانی اختلاط سے پھیلنے والی بیماری ہونے کے پس منظر میں، حکومتِ سعودی عرب نے دنیا بھر سے عازمین حج کے آنے پر پابندی عائد کردی تھی۔ دنیا کے سبھی ممالک میں آباد مسلمانوں میں سے عام طور پر ہر سال 2 ملین (بیس لاکھ) سے زیادہ افراد حج کا فریضہ ادا کرتے ہیں۔ سنہ 2020ء کا حج اُس سال کی 29 جولائی کو ہوا تھا جس میں صرف ایک ہزار (1000) افراد کو شرکت کی اجازت دی گئی تھی۔ ان افراد میں تقریباً 700 کی تعداد ان غیر ملکی شہریوں پر مشتمل تھی جو سعودی عرب میں مقیم ہیں اور باقی لوگ خود سعودی عرب کے شہری تھے۔ پچھلے سال یعنی سنہ 2021ء میں عازمین حج کی تعداد قدرے بڑھا دی گئی تھی، جس کی وجہ سے ساٹھ ہزار (60000) لوگوں نے حج کی سعادت حاصل کی۔ یہ سبھی افراد سعودی عرب کے ہی شہری تھے۔ سنہ 2021ء کے حج کا فریضہ جولائی کی 18 تاریخ کو ادا کیا گیا تھا۔
موجودہ سال یعنی سنہ 2022ء میں 8 جولائی کو ہونے والے حج کے لیے سعودی عرب کی حکومت نے عازمین کی تعداد کو زیادہ سے زیادہ ایک ملین (دس لاکھ) تک رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ کُل دس لاکھ حاجیوں کی تعداد میں ہمارے ملک ہندستان کا حصہ تقریباً ایک لاکھ طے کیا گیا ہے، جن میں حج کمیٹی (The Haj Committee of India) کے توسط سے سعودی عرب آنے والے حجاج کرام کی تعداد قریب اَسّی ہزار (80000) ہوگی، تو وہیں قریب بیس ہزار افراد کی ذمے داری پرائیویٹ ٹور آپریٹر (PTO) اٹھا رہے ہیں۔ اسی کے ساتھ، ہندستانی شہریوں کے لیے، اس سال کا حج مختلف وجوہات سے، پچھلے تمام سالوں کے مقابلے زیادہ مہنگا بھی رہے گا۔ جہاں ایک طرف حج کمیٹی کے ذریعے حج کرنے والے افراد کا خرچ چار لاکھ روپے سے زیادہ رہنے کا امکان ہے، تو وہیں پی۔ ٹی۔ او۔ کے ذریعے سفر کرنے والوں کے خرچ کی رقم چھ لاکھ روپے سے بھی تجاوز کر سکتی ہے۔
ہندستان اردو ٹائمز (hindustanurdutimes.com) نے اپنی 3جولائی 2022ء کی اشاعت میں رپورٹ کیا ہے کہ مصر کی مستقل کمیٹی برائے علمی تحقیق اور افتا کے مطابق پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی الله عليه وسلم نے سنہ 9 ہجری میں مسلمانوں پر پہلا حج فرض ہونے سے متعلق حکم الہیٰ صادر فرمایا تھا اور امیر حج کی ذمے داری حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ کو سونپی گئی تھی جن کی امارت میں 300 مسلمانوں نے اپنا پہلا فریضہ حج ادا کیا۔ اس سے قبل حج فرض نہیں کیا گیا تھا۔
اردو لغت میں حَجّ کے معانی ہوتے ہیں: ارادہ کرنا، قصد کرنا, زیارت کرنا اور غالب آنا وغیرہ؛ جب کہ شریعت کی اصطلاح میں، حج کا مطلب ہوتا ہے: متعین دنوں میں مکہ مکرمہ پہنچ کر بیت الله کی زیارت و طواف کرنا، وقوفِ عرفہ (9 ذی الحجہ کو میدانِ عرفات میں ٹھہرنا) اور دیگر ارکان ادا کرنا، جنھیں مناسکِ حج کہا جاتا ہے۔ جملہ مناسک میں وقوف عرفہ کی حیثیت بنیادی ہے۔ وقوف عرفہ ہی گویا حج ہے(الحج عرفہ) – سنن نسائی (حدیث نمبر: 3019).
حج اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے پانچواں رکن ہے۔ قرآن مجید کی 22 ویں سورۃ کا نام بھی ’اَلْحَجَ‘ ہے۔ حج قولی، بدنی، قلبی اور مالی عبادات کا مجموعہ ہونے کے ساتھ ساتھ، الله تعالیٰ کی عظمت اور اس کے بندوں کی بندگی کے بے پناہ اظہار کا ذریعہ بھی ہے۔ اس لیے بجا طور پر حج کو سب سے بڑی عبادت کا درجہ حاصل ہے۔ حج کی ادائیگی چار ارکان پر مشتمل ہے۔ پہلا رکن ہوتا ہے حج کی نیت کے ساتھ احرام باندھنا، دوسرا رکن ہوتا ہے وقوف عرفہ (میدان عرفات میں قیام)۔ تیسرا رکن ہوتا ہے طواف زیارت (رمی جمرات، قربانی اور حلق کے بعد خانہ کعبہ کا طواف) اور چوتھا رکن ہوتا ہے صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرنا۔ سعی میں صفا و مروہ پہاڑیوں کے درمیان حضرت ہاجرہ علیہا السلام کی اتباع میں دوڑ کر سات چکر پورے کرنے ہوتے ہیں۔
عملی نوعیت کے پیش نظر، حج کی تین قسمیں ہیں: (1) اِفراد: حج افراد یہ ہے کہ احرام باندھ کر صرف حج کیا جائے اور عمرہ نہ کیا جائے۔ اس طرح سے حج کرنے والے حاجی کو مفرد کہتے ہیں۔ یہ حج عام طور پر مکہ مکرمہ کے باشندے ادا کرتے ہیں۔ (2) قِران: حج قران یہ ہے کہ عمرہ اور حج دونوں کی ایک ساتھ نیت کرتے ہوئے احرام باندھا جائے اور عمرہ، یعنی طواف و سعی سے فارغ ہو کر احرام ختم نہ کیا جائے، مطلب یہ کہ حلق یا تقصیر نہ کرائی جائے، بلکہ اسی احرام سے حج کیا جائے۔ اس طرح حج کرنے والے حاجی کو قارن کہتے ہیں۔ قِران حج کی افضل ترین قسم ہے۔ الله تعالیٰ کے آخری رسول حضرت محمد صلی الله عليه وسلم نے ‘حجتہ الوداع‘ کے نام سے معروف جو حج کیا تھا وہ قران ہی تھا۔
(3) تمتع: حج تمتع یہ ہے کہ عمرہ کا احرام باندھ کر عمرہ کیا جائے اور حلق یا تقصیر کرا کر احرام کی حالت کو ختم کر دیا جائے۔ پھر حج کے لیے نئے سرے سے احرام باندھ کر حج کیا جائے۔ اس طرح سے حج کرنے والے حاجی کو متمتع کہا جاتا ہے۔ عام طور پر، ہندستان سے جانے والے عازمین اسی قسم کےحج کا فریضہ ادا کرتے ہیں۔
ذی الحجہ کی 8 تاریخ سے لے کر 12 تاریخ تک کے پانچ دن ایام حج (حج کے دن) کہلاتے ہیں۔ حج کے جملہ مناسک انہی پانچ دنوں کے اندر اختتام پذیر ہو جاتے ہیں۔ مدینہ منورہ میں حاضری اور مسجد نبوی میں چالیس نمازوں کی ادائیگی باعثِ سعادت ہے، مگر وہ مناسکِ حج میں شامل نہیں ہے۔ مناسِکِ حج سے متعلق سارے مقامات جیسے بیت الله (خانہ کعبہ)، صفا و مروہ، آب زم زم، منیٰ، عرفات، مزدلفہ، مقامِ جمرات اور قربان گاہ یا تو مکہ مکرمہ شہر میں ہیں یا پھر اس سے متصل مقامات پر۔
مکہ مکرمہ کی طرح مدینہ منورہ کی اہمیت بالخصوص مسجد نبوی کی فضیلت بھی بہت زیادہ ہے۔ مسجد الحرام (خانہ کعبہ) اور مسجد نبوی (مدینہ منورہ) کی فضیلت کے متعلق حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: میری مسجد میں ایک نماز پڑھنی دوسری مسجدوں میں ہزار نماز پڑھنے سے افضل ہے سوائے مسجد الحرام کے، اور مسجد الحرام میں ایک نماز پڑھنی دوسری مسجدوں کی ایک لاکھ نماز سے بہتر ہے (سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 1406)۔
حجاج کرام (فریضہ حج سے فارغ ہو چکے حضرات) یا عازمین حج (فریضہ حج کا عزم کرنے والے افراد) مکہ مکرمہ کے ساتھ ساتھ مدینہ منورہ کا بھی سفر کرتے ہیں۔ یہاں پر خاتم الانبیاء اور رحمت اللعالمین، حضرت محمد مصطفیٰ صلی الله علیہ وسلم کے روضہ اقدس کی زیارت اور نذرانہ درود و سلام کی کثرت کے ساتھ ساتھ، مسجد نبوی میں چالیس نمازیں ادا کرنے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اسلام میں اس طرح کا کوئی حکم نہ ہونے کے باوجود، مسلمانوں کی ثقافت (culture) میں چالیس کی گنتی بہت اہمیت کی حامل ہے۔
ہندستان سے آنے والے عازمین حج دو طرح سے سعودی عرب پہنچتے ہیں۔ سفرِ حج کے شروعاتی دور میں لوگوں کو مدینہ منورہ بھیجا جاتا ہے، اور مسجد نبوی میں چالیس نمازیں ادا کرنے کے حساب سے وہاں کم سے کم 8 دن ٹھہرایا جاتا ہے۔ اس کے بعد مکہ مکرمہ کے لیے روانہ کردیا جاتا ہے، اور حج کی تکمیل کے بعد ان حجاج کرام کو جدہ کے راستے ہندستان واپس بھیجنے کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ اس کے برعکس، حج کے اختتامی دور میں حج کے شائقین کو جدہ کے راستے مکہ مکرمہ بھیجا جاتا ہے اور مناسک حج مکمل ہو جانے کے بعد ان حجاج کرام کو مدینہ منورہ روانہ کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا جاتا ہے، اور وہاں کم سے کم آٹھ دن ٹھہرنے کے بعد وطن واپسی ہونے لگتی ہے۔
سنہ 2006ء میں جب ہم نے حج کا سفر کیا تھا تو ہمیں پہلے بذریعہ ہوائی جہاز مدینہ منورہ اور وہاں سے بذریعہ بس مکہ مکرمہ بھیجا گیا تھا۔ پچھلے کئی سالوں سے، اندرونِ ملک سفر کو آسان بنانے کے لیے، سعودی عرب کی حکومت نے مختلف شہروں کو میٹرو ٹرین سروس سے جوڑ دیا ہے۔ مکہ مکرمہ میں عازمین حج کی ہماری جماعت (Batch) کو جس ہوٹل میں ٹھہرایا گیا تھا، وہاں کئی دل چسپ اور سبق آموز واقعات وقوع پذیر ہوئے۔ ایک قصہ بیان کردینا مناسب رہے گا۔
ہوٹل کی پہلی منزل یا گرائونڈ فلور (Ground Floor) پر جس کمرے کو حج کمیٹی کے ذریعے ہمارے اور ہمارے ساتھیوں کے لیے مختص (reserved) کیا گیا تھا، اس پر کچھ دوسرے عازمین حج پہلے ہی قبضہ کر کے بیٹھ گئے تھے۔ اس معاملے میں انھوں نےحج کمیٹی کے کارکنان کی بھی ایک نہ سنی اور آخر وقت تک وہ وہیں پر قابض رہے۔ نتیجتاً، ہمیں ہوٹل کی آخری منزل پر ایک جُگاڑ (کام چلائو) والے کمرے میں ٹھہرایا گیا۔ یہ بات آسانی سے سمجھی جاسکتی ہے کہ ہر طرف بھاری بھیڑ بھاڑ ہونے کی وجہ سے حج کا موقع مسلمانوں کی اخلاقیات کو پرکھنے کا امتحان بھی ہے اور ان کی کمزور اخلاقیات کو سنوارنے کی تربیت گاہ بھی۔ اب مکہ مکرمہ پہنچ کر خانہ کعبہ کا طواف کرنے والوں پر منحصر ہے کہ وہ یہاں سے ایک نومولود معصوم بچے کی طرح وطن واپسی چاہتے ہیں یا جیسے آئے تھے ویسے ہی جانا چاہیے ہیں۔
حج بیت الله کے مناسک اور عیدالاضحیٰ سے وابستہ قربانی کی جامع عبادات کے پس منظر میں اگر کسی ایک عظیم شخصیت کا تصور کیا جاسکتا ہے تو وہ ہیں خلیل الله (الله کے دوست)، حضرت ابراہیم علیہ السلام۔ اپنے پروردگار کی ادنیٰ سے ادنیٰ اور مشکل سے مشکل بات پر لبیک کہنے والے ابو الانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام کا الله تعالیٰ کی نظر میں بہت بڑا مرتبہ ہے۔ ان کے بلند پایہ ایثار اور قربانی کے پیش نظر، نبوت کے آخری دور میں الله تعالیٰ نے فیصلہ فرمایا کہ اس کے برگزیدہ پیغمبر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بعد نبوت اور رسالت کا سلسلہ صرف انہی کی اولاد میں جاری رکھا جائے گا، یہاں تک کہ اس کے آخری رسول اور خاتم النبیین، حضرت محمد مصطفیٰ صلی الله عليه وسلم مبعوث ہوجائیں۔
حضرت محمد صلی الله عليه وسلم حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بڑے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی نسل میں سے ہیں، جب کہ حضرت یعقوب علیہ السلام سے لے کر حضرت مسیح (ابنِ مریم) علیہ السلام تک مبعوث ہوئے سارے پیغمبروں کا تعلق ان کے دوسرے بیٹے حضرت اسحاق علیہ السلام کی نسل سے ہے۔ اسی نسبت سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ابو الانبیاء (The Father of the Prophets) بھی کہا جاتا ہے۔ اس طرح، حضرت ابراہیم علیہ السلام مسلمانوں کے ساتھ ساتھ یہودیوں (Jews) اور نصرانیوں (Christians) کے لیے بھی برگزیدہ ہیں۔
الله تعالیٰ کے نزدیک دین ہمیشہ سے ایک ہی رہا ہے اور وہ ’اسلام‘ ہے۔ جہاں ایک طرف حضرت آدم علیہ السلام دین اسلام کے پہلے پیغمبر ہیں تو وہیں دوسری طرف حضرت محمد صلی الله عليه وسلم آخری۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بھی الله تعالیٰ نے ’مسلم‘ کہا ہے۔ دوسرے پیغمبروں کی طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی اسلام کے پیغمبروں میں شامل ہیں۔ قرآن مجید میں الله تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اس نے (حضرت) محمد رسول الله (صلی الله عليه وسلم) کو وہی دین وحی کیا ہے جس کی ہدایت اس نے (حضرت) نوح (علیہ السلام)، (حضرت) ابراہیم (علیہ السلام)، (حضرت) موسیٰ (علیہ السلام) اور (حضرت) عیسیٰ (علیہ السّلام) کو عنایت کی تھی (الشوریٰ-42: 13). اس پس منظر میں گویا یہودیت (حضرت موسیٰ علیہ السلام کے نام سے منسوب کیا گیا مذہب) اور نصرانیت (حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نام سے منسوب کیا گیا مذہب) کو اسلام کے ہی دو الگ فرقوں کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے، بالکل اُسی طرح جس طرح دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث اور اہل تشیع وغیرہ مسلمانوں کے فرقے ہیں۔
توحید (Oneness of God) کے ابلاغ کے راستے میں اپنے برگزیدہ پیغمبر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بیش بہا اور بے نظیر قربانیوں کو الله تعالیٰ نے اس قدر پسند فرمایا کہ ان کی سرگزشت سے وابستہ یادوں کو اپنی نشانی (شعائر الله) کے طور پر تسلیم کرتے ہوئے مناسِک حج اور عیدالاضحیٰ کی قربانی کو اپنی عبادات قرار دے دیا۔ ایک خواب کی بنیاد پر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے پروردگار کی رضا کی خاطر اپنے نور نظر کو قربان کر دینے کا نہ صرف ارادہ کر لیا تھا، بلکہ اس کی گردن پر چھری بھی چلادی۔ الله تعالیٰ کا حکم نہ ہونے کی وجہ سے چھری حضرت اسماعیل علیہ السلام کی گردن تو نہ کاٹ سکی، لیکن اس کے برعکس، الله تعالیٰ نے ایک دُنبہ کو ذبح کرنے کا بندوبست کردیا۔ خلیل الله کے خطاب سے سرفراز اپنے برگزیدہ، مسلم اور حنیف بندے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی کار گزاری سے خوش ہوکر اُس دن یعنی ’10 ذی الحجہ‘ کو الله تعالیٰ نے یوم النحر (قربانی کا دن) قرار دے دیا۔ قربانی کے اس واقع کو الله تعالیٰ نے سنت ابراہیمی کے طور پر اپنی سالانہ عبادت بنا کر ہمیشہ کے لیے اپنے مومن بندوں کے درمیان جاری کردیا۔ اسی سالانہ خوشی کو دوبالا کرنے کے لیے الله تعالیٰ نے 10 ذی الحجہ کو عیدالاضحیٰ کے نام سے معروف سب سے بڑا تیوہار (festival) بھی مسلمانوں کو عنایت کردیا۔ مسلمانوں کے دونوں تیوہار، عیدالاضحیٰ اور عیدالفطر الله تعالیٰ کے ہی عنایت کردہ ہیں۔
حج کے تمام ارکان و مناسک کسی نہ کسی شکل میں حضرت ابراہیم علیہ السلام، ان کی بیوی حضرت ہاجرہ علیہا السلام اور ان کے لختِ جگر حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اپنے رب کے تئیں فرماں برداری کی یادوں سے عبارت ہیں۔ حجاج کرام ہر سال ان محترم بزرگ ہستیوں سے وابستہ واقعات کا اعادہ کر کے ان کی یادوں کو نہ صرف زندہ کرتے ہیں، بلکہ خود کو صحیح معنی میں متقی بنانے کے راستے بھی دریافت کرتے ہیں۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اپنی بیوی حضرت ہاجرہ علیہا السلام کو اپنے شیر خوار بیٹے (اسماعیل علیہ السلام) کے ساتھ الله تعالیٰ کے حکم سے عرب کی بے آب و گِیاہ (waterless and barren) وادی میں آباد کردینے کے بعد حضرت ہاجرہ کا پانی کی تلاش میں صفا و مروہ کی پہاڑیوں کے درمیان دوڑنا (سعی)، آبِ زم زم کا جاری ہوجانا، حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کا واقع، جمرات کی رمی، تعمیر کعبہ، سنگ اسود اور طواف کعبہ وغیرہ سے وابستہ تمام اعمال فرائض و واجبات اور سنن و نوافل کی حیثیت سے حج کے مناسک میں شامل ہیں۔ قرآن مجید میں الله تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”اِنَّ الصَّفَا وَ الْمَرْوَةَ مِنْ شَعَآىٕرِ اللّٰهِ۔۔۔ “ (بے شک صفا اور مروہ الله کی نشانیوں میں سے ہیں) [البقرہ-2: 158]
حج کا سفر کرنے سے پہلے اگر عازمین حج حضرت ابراہیم، حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیل علیہم السلام کی تاریخ اور ان سے متعلق واقعات کا گہرائی اور گیرائی کے ساتھ سنجیدہ مطالعہ کریں تو مناسک حج ادا کرتے وقت ان کو نہ صرف ان برگزیدہ ہستیوں کی تاریخ کا زندہ تجربہ حاصل ہوگا، بلکہ الله تعالیٰ کے حکم کی پاسداری میں کی گئی ان کی جدوجہد میں پوشیدہ حکمت و معنویت اور تقویٰ کی مختلف کیفیات کا بھی ادراک حاصل ہوگا۔ یقیناً، یہ ادراک (بصیرت، واقفیت) الله تعالیٰ کی قربت حاصل کرنے کی سمت میں نئے نئے منازل طے کرنے میں بھی معاون ثابت ہوگا۔ اس قسم کا ایک حاجی مکہ مکرمہ سے لوٹتے وقت اس احساس سے لبریز ہو سکتا ہے گویا اس کو اپنے پروردگار کی سچی معرفت حاصل ہوگئی ہو۔
مسلمانوں کو حج کی نیت کرنے کے ساتھ ہی مہینوں تک گھنٹوں کے حساب سے چلنے اور دوڑنے کی مشق ضرور کرنی چاہیے۔ دیر تک پیدل چلنے کی استعداد مکہ مکرمہ میں اپنی رہائش سے بیت الله (کعبہ شریف) اور واپسی، بار بار طواف کعبہ، صفا و مروہ کے درمیان سعی، مکہ سے منیٰ، منیٰ سے عرفات، عرفات سے مزدلفہ، مزدلفہ سے منیٰ، منیٰ میں تین دن تک مقامات ِجمرات تک جانا اور واپس آنا، قربان گاہ جانا اور واپس آنا، طواف زیارہ کے لیے منیٰ سے کعبہ شریف جانا اور واپس آنا ایسے متعدد اعمال ہیں جن میں پیدل چلنے والے سبقت ہی نہیں لے جاتے، بلکہ حج کے ارکان کو بہترین طریقے سے ادا بھی کرتے ہیں۔ کچھ اسی طرح کی صورت حال مدینہ منورہ میں بھی پیش آتی ہے جہاں آٹھ دن تک روزانہ پانچ وقت ہوٹل سے مسجد نبوی اور مسجد نبوی سے ہوٹل کے درمیان آمد و رفت بنی رہتی ہے۔ بلا شبہ، حرم مکہ اور حرم مدینہ میں عبادت مکمل خشوع و خضوع کے ساتھ، جگہ کے شایان شان ہونی چاہیے۔ اس لیے عازمین حج کے لیے اچھی صحت سے مزین ہونا بھی درکار ہے۔
حج بیت الله اور عیدالاضحیٰ، سال میں صرف ایک بار جس مہینے میں جلوہ افروز ہوتے وہ ذی الحجہ کا مہینہ ہے۔ الله تعالیٰ کے نزدیک سال کے بارہ مہینوں میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں۔ ذی الحجہ انہی میں سے ایک ہے۔ باقی تین ہیں: ذی القعدہ، محرم اور رجب۔ حرمت والے مہینوں میں کوئی لڑائی جھگڑا نہیں، کوئی جنگ جدال نہیں، بلکہ ہر صورت امن کے حالات بنائے رکھنے کی کوشش کی جانی چاہیے تاکہ انسان الله تعالیٰ کی کائنات میں پھیلی ہوئی نشانیوں (آیات) پر غور و فکر کرتے ہوئے اس کی معرفت حاصل کریں، کیوں کہ سنجیدہ غور و فکر کے لیے امن(peace) کی حالت ناگزیر ہے۔
ذی الحجہ ایک با برکت اور بڑی شان والا مہینہ ہے، بالخصوص اس کا پہلا عشرہ۔ قرآن مجید میں الله تعالیٰ نے ”دس راتوں“ کی قسم کھائی ہے (الفجر-89: 2)۔
علمائے قرآنیات کا ماننا ہے کہ یہاں دس راتوں سے مراد ماہ ذی الحجہ کے پہلے عشرے کی دس راتیں ہیں۔ الله تعالیٰ کا قسم کھانا اس عشرے کی فضیلت کی کھلی دلیل ہے۔ اسی کے ساتھ، رسول الله صلى الله عليه وسلم بھی پہلی تاریخ سے 9 ذی الحجہ تک روزوں کا اہتمام کیا کرتے تھے (ابو دائود، حدیث نمبر: 2437)
مذکورہ پس منظر میں اور مختلف روایات و اقوال کے حوالوں کے ساتھ، مسلمانوں کے علمی حلقوں میں شائع و ضائع تحاریر و تقاریر کی روشنی میں وثوق کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ عشرہ ذی الحجہ کی اتنی بڑی فضیلت ہے کہ اس میں ایک دن کا روزہ ایک سال کے روزوں کے برابر اجر رکھتا ہے اور رات کی عبادت گویا شب قدر میں کی گئی عبادت کے مترادف ہے۔
اس لیے، بزرگ حضرات کی تاکید رہتی ہے کہ لوگ اس عرصہ میں فرائض کے ساتھ ساتھ اپنے رب کی مزید عبادت کریں۔ تسبیح و تہلیل اور تکبیر و تحمید، یعنی سبحان الله، لا إله إلا الله، الله اکبر اور الحمدللہ کا بہ کثرت ورد کریں، اور بڑھ چڑھ کر خیرات و صدقات جیسے نیک اعمال انجام دینے کا قصد کریں۔
جس طرح ہفتہ بھر کے دنوں میں جمعہ کا دن افضل ترین ہے، اسی طرح سال بھر میں سب سے افضل نو(9) ذی الحجہ یعنی عرفہ کا دن ہے۔ یوم عرفہ سے متعلق رسول الله صلى الله عليه وسلم کی نسبت سے یہ بھی منقول ہے کہ اس دن کا روزہ رکھنے سے پچھلے اور اگلے سال کے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔ یوم عرفہ کا روزہ صرف ان لوگوں کے لیے ہے جو فریضہ حج کی جدوجہد میں شامل نہیں ہیں۔ اس ضمن میں ایک مبارک امر یہ ہے کہ ہمارے موجودہ مسلم معاشرے میں لوگ بڑی تعداد میں یوم عرفہ کا روزہ رکھنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔ اس لیے، کہا جاسکتا ہے کہ عشرہ ذی الحجہ گوناگوں خصائص کا حامل ہے اور اس عشرہ میں کی گئیں عبادات اور دوسرے صالح اعمال کا منفرد مقام ہے۔
حج کا فریضہ جو الله تعالیٰ کی نظر میں سب سے بڑی عبادت ہے اور عیدالاضحیٰ کی قربانی جو الله تعالیٰ کی قربت کا ذریعہ ہے، دونوں ہی اس عشرے کی شانِ امتیاز ہیں۔ قربانی کا عمل الله تعالیٰ کو اتنا زیادہ محبوب ہے کہ عیدالاضحیٰ سے وابستہ قربانی کو حج کے اعمال کے ساتھ بھی منسلک کردیا گیا ہے، یعنی قربانی بھی حج کا ایک باقاعدہ رکن ہے۔ عید الاضحیٰ کی قربانی کرنے والوں کے لیے یہ بھی مستحب ہے کہ ذی الحجہ کا چاند نظر آنے سے لے کر عیدِ قرباں کی نماز ادا کرنے کے بعد 10 (یا 11 یا 12) تاریخ کو قربانی کرنے تک ناخن اور بال نہ کاٹے جائیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ الله، رحمٰن و رحیم حج کا قصد نہ کرنے والوں کی زندگی میں بھی عازمین حج کی حالتِ اِحرام سے مشابہت پیدا کر دینا چاہتا ہے، اور اس طرح ان کو بھی اپنی بہت سی نعمتوں کا حق دار بنا دینا چاہتا ہے۔
حالاں کہ تکبیر تشریق 9 ذی الحجہ کی فجر سے شروع ہو کر 13 ذی الحجہ کی عصر تک ہر فرض نماز کے بعد مردوں کے لیے بلند آواز میں پڑھنا واجب ہے، مگر دوسرے ایام میں بھی اس کا پڑھنا جاری رکھا جاسکتا ہے، جو یقیناً باعث ثواب اور خیر و برکت ہوگا۔ تکبیر تشریق کا دبی آواز میں پڑھنا عورتوں پر بھی واجب ہے۔ تکبیر تشریق کے الفاظ اس طرح سے ہیں:
اللهُ اکبر اللّهُ اکبر، لا الہ الا الله و الله كبر، الله اکبر و للہ الحمد۔
(الله سب سے بڑا ہے، الله سب سے بڑا ہے؛ الله کے سوا کوئی معبود نہیں اور الله سب سے بڑا ہے؛ الله سب سے بڑا ہے اور ساری تعریف اسی کے لیے ہے۔)
الله تعالیٰ نے اگرچہ قربانی کا عمل ہر امت کے لیے مقرر کیا تھا (الحج-22: 34), لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام کے الله تعالیٰ کے حضور پیش کی جانے والی حضرت اسماعیل علیہ السلام کی عظیم قربانی کے واقع اور اس کی قبولیت کے بعد قربانی کا عمل ہمیشہ کے لیے”سنتِ ابراہیمی“ قرار پایا۔ الله تعالیٰ کے حکم پر اور حضور اکرم صلی الله عليه وسلم کی اتباع میں ہر سال رب العالمین کے حلال کیے ہوئے جانوروں کی قربانی کی جاتی ہے، اور الله کے حکم سے یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا۔
خلوصِ نیت کے ساتھ، جانور کی قربانی پیش کر کے ایک مسلمان گویا یہ عہد کرتا ہے کہ وہ الله رب العزت کے راستے میں ضرورت پڑنے پر اپنی جان (اور مال، عزت و آبرو اور اولاد) کو بھی قربان کرنے سے گریز نہیں کرے گا۔ قربانی پیش کرتے وقت، متعلقہ افراد کے دل و دماغ کی کیفیت یہ ہونی چاہیے کہ
”میری نماز اور میری قربانی، میرا جینا اور میرا مرنا الله رب العالمین کے لیے ہے“ (الانعام-6: 162)۔
اپنے عہد کے ساتھ ساتھ، مسلمانوں کو اپنی اولاد کی تربیت بھی اس طرح کرنی چاہیے کہ قربانی کی ضرورت پیش آنے پر ہمارا نور نظر بھی حضرت اسماعیل علیہ السلام کی مانند کہہ اٹھے کہ ”ابا جان، کر ڈالیے جس کا آپ کو حکم دیا گیا ہے۔ ان شاء الله، آپ مجھے ثابت قدم پائیں گے“(الصافات-37: 102).
قربانی کے متعلق، مسلمانوں کو قرآن مجید کی اس تاکید پر بھی عمل کرنا چاہیے کہ ”چند مقرر دنوں میں ان جانوروں پر الله کا نام لیں، جو اس نے تمھیں بخشے ہیں، خود بھی کھائیں اور تنگ دست محتاج لوگوں کو بھی کھلائیں“ (الحج-22: 28)۔ اسی کے ساتھ، قرآن پاک کی یہ تنبیہ یاد رکھنا بھی نہایت ضروری ہے کہ ”خدا تک نہ ان کا گوشت پہنچتا ہے نہ خون، بلکہ اس تک تمھارا تقویٰ (پرہیزگاری) پہنچتا ہے“ (الحج-22: 37)۔
عشرہ ذی الحجہ، حج بیت الله اور عیدالاضحیٰ کے بارے میں مفصل بات کرنے کے بعد یہ ضروری محسوس ہوتا ہے کہ میں خود اپنے سفرِ حج کو یاد کرتے ہوئے حج کے پانچ دنوں (8 سے 12 ذی الحجہ) کی روداد مختصر طور پر بیان کر دوں:
حج کا پہلا دن(8 ذی الحجہ):
خانہ کعبہ میں نماز فجر ادا کرنے کے بعد حج کی نیت کے ساتھ احرام باندھ کر تلبیہ پڑھتے ہوئے منیٰ کے لیے سفر شروع ہوتا ہے۔ اس تاریخ کو ‘یوم الترویہ‘ بھی کہا جاتا ہے۔ مکہ مکرمہ سے منیٰ کا فاصلہ تقریباً سات کلومیٹر ہے۔ رسول الله صلى الله عليه وسلم کی اتباع میں، ظہر سے لے کر فجر تک پانچ نمازیں منیٰ میں ادا کی جاتی ہیں۔
حج کا دوسرا دن(9 ذی الحجہ):
منیٰ میں نماز فجر کے بعد میدان عرفات کی جانب سفر کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ وقت ظہر تک وہاں پہنچنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ میدان عرفات میں ٹھہرنے کو وقوفِ عرفہ کہا جاتا ہے۔ دراصل، 9 ذی الحجہ کے دن وقوفِ عرفہ ہی حج ہے۔ یہاں ظہر اور عصر کی نمازیں ایک ساتھ پڑھی جاتی ہیں۔ عرفات کی سر زمین پر یہ حاجی کے اخلاص، استطاعت اور اس کو حاصل الله تعالیٰ کی توفیق پر منحصر ہے کہ وہ اپنے پروردگار سے کیا کیا نہ مانگ لے۔ الله رب العزت کی ذات سے امید کی جا سکتی ہے کہ اس کی ہر جائز تمنا پوری کردی جائے گی۔ یہ پاکیزہ جگہ کثرت سے اپنے خالق و مالک، رب کی حمد و ثنا اور ذکر و تسبیح کرنے اور اس سے دل کھول کر مانگنے کی جگہ ہے۔ مانگنے میں شامل ہونے چاہئیں:
‘اپنی، اپنے والدین اور المومنین والمومنات کی بخشش اور مغفرت، الله تعالیٰ کی رضا اور اس کی قربت، جنت کے محلات و باغات اور دنیا میں عزت و وقار کی زندگی اور نعمتوں کا بے حساب نزول‘.
عرفات میں غروب آفتاب کے بعد مگر مغرب کی نماز ادا کیے بغیر مزدلفہ کے لیے کوچ کیا جاتا ہے۔ وہیں پر عشاء کے وقت میں مغرب اور عشاء کی نمازیں ایک ساتھ ادا کی جاتی ہیں۔ مزدلفہ میں رات کا قیام بھی بہت فضیلت والا ہے۔ رات کے اس وقت کو الله تعالیٰ کی حمد و ثنا اور اذکار و دعاؤں میں گزانا چاہیے۔ مزدلفہ میں وقوف کا وقت صبح صادق سے شروع ہوکر طلوع آفتاب تک رہتا ہے۔ الله تعالیٰ کو حاجیوں کا یہ وقوف بہت محبوب ہے۔ حجاج کرام کے لیے ان کے پروردگار نے بیش بہا اعزاز و انعامات کا اعلان پہلے ہی کردیا ہے۔
اگلے دنوں میں ہونے والی جمرات کی رمی کے پیش نظر، چلی آرہی روایت کے مطابق مزدلفہ کی پہاڑی سے ہی کنکریاں جمع کرنے کا کام کیا جاتا ہے۔ ہر جمرہ پر سات کنکریاں مارنے کے حساب سے کل 49 یا 70 کنکریوں کی ضرورت ہوتی ہے۔
منیٰ میں 12 تاریخ تک رکنے کی صورت میں 49:
[7+(7×3)+(7×3)= 49]
اور منیٰ میں 13 تاریخ تک رکنے کی صورت میں 70:
[7+(7×3)+(7×3)+(7×3)= 70]
حج کا تیسرا دن (10 ذی الحجہ):
نماز فجر کے بعد آفتاب کے طلوع ہونے سے چند منٹ پہلے تک مزدلفہ میں وقوف کرنے کے بعد منیٰ کی جانب سفر شروع کیا جاتا ہے۔ راستے بھر لَبَّیْک اور ذِکْر و دُرُود کی تکرار رکھی جانی چاہیے۔ منیٰ پہنچ کر اور کچھ سامان ساتھ ہونے کی صورت میں، سامان کو اپنے خیمہ میں رکھ کر سیدھے جمرہ عقبہ (بڑا شیطان) پہنچ کر رمی یعنی سات کنکریاں مارنی ہوتی ہیں۔ شیطان کی علامت کو پہلی کنکری مارنے کے ساتھ ہی تلبیہ پڑھنا بند کردیا جاتا ہے۔ رمی کے بعد خود یا کسی ادارے کی مدد سے حج کی قربانی کی جاتی ہے اور اس کے بعد حلق (سر مونڈوانا) یا تقصیر (بال ترشوانا) کروایا جاتا ہے۔ قربانی کے بعد ہی احرام ترک کرنے کی اجازت مل جاتی ہے اور احرام کی کچھ پابندیاں بھی ساقط ہو جاتی ہیں۔
اب نہا دھو کر روزمرہ کے عام کپڑے پہن لیے جاتے ہیں، اور انہی کپڑوں میں مکہ مکرمہ پہنچ کر طواف کعبہ کیا جاتا ہے۔ اس طواف کو طواف زیارہ کہا جاتا ہے۔
طواف سے فارغ ہو کر دو رکعت نماز واجب الطواف ادا کی جاتی ہے۔ اس کے بعد صفا و مروہ پہاڑیوں کے درمیان سعی کی جاتی ہے۔ آپ زم زم سیر ہو کر پیا جاتا ہے۔
الحمدللہ، یہ وہ مبارک گھڑی ہوتی ہے جب ایک عازم حج، الحاج (حاجی) بن جاتا ہے۔ حج کا قصد کررہے تمام خوش نصیب حضرات کے لیے دلی مبارکباد!
آج رات کا قیام منیٰ میں ہی رہے گا۔
حج کا چوتھا دن (11 ذی الحجہ):
وقتِ زوال کے بعد تینوں جمرات کی رمی کرنی ہے, اس ترتیب کے ساتھ کہ پہلے جمرہ اولیٰ(چھوٹا شیطان), پھر جمرہ وسطیٰ (منجھلا شیطان) اور آخر میں جمرہ عَقبہ (بڑا شیطان)۔ رات کا قیام منیٰ میں ہی رہے گا۔
حج کا پانچواں دن(12 ذی الحجہ): چوتھے دن کی طرح اور اسی ترتیب سے تینوں جمرات کی رمی کی جائے گی۔ 10 ذی الحجہ کو طواف زیارت کی سعادت حاصل نہ کرپانے کی صورت میں، آج غروب آفتاب سے پہلے پہلے طواف زیارت کیا جاسکتا ہے۔ آج منیٰ سے واپسی بھی کی جاسکتی ہے، مگر اس کے لیے غروب آفتاب سے پہلے پہلے منیٰ کی حدود سے باہر آجانا ضروری ہے۔
منیٰ میں رات کو قیام کرنے کی حالت میں، 13 تاریخ کو بھی تینوں جمرات کی رمی کرنا ضروری ہو جائے گا۔
آخر میں، مکہ مکرمہ سے پروگرام کے مطابق وطن واپسی سے پہلے بھی بیت الله یعنی خانہ کعبہ کا طواف کیا جانا ضروری ہے۔ اس طواف کو ‘طوافِ وداع‘ کہا جاتا ہے۔
زیر نظر مضمون کی تحریر کی شکل میں گویا میں نے بھی عازمین حج کے ہمراہ حج کا سفر کیا ہے۔ الله تعالیٰ کی شان کریمی کے پیش نظر، میں دعا کرتا ہوں کہ وہ میری اس کاوش کو حج کی سعادت میں مبدل فرما دے۔ ساتھ ہی، میں یہ بھی دعا کرتا ہوں کہ الله تعالیٰ جملہ ایمان والوں کو حج کی سعادت نصیب فرمائے، اور جن حضرات کو ’الحاج‘ کہلانے کا شرف حاصل ہو چکا ہے ان کے حج کو قبولیت کا درجہ عطا فرمائے۔ الخیر و مرحبا!
(07.07.2022AD≈07.12.1443 AH)
صاحب تحریر کی گذشتہ نگارش:احتجاجی سیاست: بے فائدہ ہی نہیں نقصان دہ بھی

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے