پروفیسر اسلم آزاد

پروفیسر اسلم آزاد

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار، اڈیشہ و جھارکھنڈ

سابق صدر شعبۂ اردو پٹنہ یونی ورسٹی، نامور شاعر، ادیب اور نقاد، مسلم مسائل پر بے باکانہ اظہار خیال کے لیے مشہور، سابق ایم ایل سی، بہار قانون ساز کونسل میں جنتادل یونائیڈ کے سابق ڈپٹی لیڈر پروفیسر اسلم آزاد کا طویل علالت کے بعد ۸؍ نومبر ۲۰۲۲ء بروز بدھ بوقت گیارہ بجے دن آل انڈیا میڈیکل انسٹی چیوٹ (AIMS) پٹنہ میں انتقال ہو گیا، گذشتہ سال کورونا کے شکار ہونے کے بعد سے ان کی صحت مسلسل گرتی جا رہی تھی، دہلی کے سرگنگا رام اور میکس اسپتال میں جانچ کے بعد معلوم ہوا کہ وہ کینسر کے شکار ہیں، ڈاکٹروں نے جواب دے دیا تو وہ پٹنہ لوٹ آئے، مشہور معالج وجے پرکاش کا علاج جاری رہا، طبیعت زیادہ بگڑی تو ان کو تین دن قبل پٹنہ ایمس میں بھرتی کرایا گیا تھا، جہاں انھوں نے آخری سانس لی، ان کا جنازہ ان کے آبائی گاؤں مولا نگر پوپری ضلع سیتامڑھی لے جایا گیا، نماز جنازہ بدھ کے روز ہی رات کے نو بجے مولانا سعید احمد نقشبندی صاحب نے پڑھائی اور وہیں مقامی قبرستان میں تدفین عمل میں آئی، پس ماندگان میں اہلیہ، تین لڑکے اور دو لڑکیوں کو چھوڑا، سب بر سر روزگار ہیں۔
پروفیسر اسلم آزاد بن کاتب محمد عباس سابق مکھیا مولیٰ نگر کے گھر ۱۲؍ دسمبر ۱۹۴۸ء کو مولیٰ نگر، آواپور ضلع سیتامڑھی میں پیدا ہوئے، ان کی ابتدائی تعلیم پوپری میں ہوئی، وہاں سے وہ پٹنہ منتقل ہو گئے اور۱۹۶۹ء میں پٹنہ یونی ورسٹی سے ایم اے کیا اور تحقیق کی دشوار گذار وادیوں کو عبور کرکے ’اردو ناول آزادی کے بعد‘‘ کے موضوع پر ۱۹۷۴ء میں پی اچ ڈی کی ڈگری پائی، تعلیم و تدریس، ادب و شاعری، سماجی اور سیاسی خدمات سے انھیں خاص دل چسپی تھی۔
انھوں نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز ۱۹۸۳ء میں لوک دل کے ریاستی نائب صدر کی حیثیت سے کیا، ۱۹۸۹ء تک وہ اس عہدہ پر فائز رہے، ۱۹۹۱ء میں وہ سماج وادی جنتا پارٹی کے ریاستی جنرل سکریٹری رہے، ۱۹۸۵ء میں انھوں نے رونی سید پور حلقہ سے لوک دل کے اسمبلی امیدوار اور ۱۹۹۱ء میں سیتامڑھی لوک سبھا حلقہ سے سماج وادی جنتا پارٹی کے ٹکٹ پر انتخاب میں حصہ لیا، ۱۱؍ مئی ۲۰۰۶ء سے ۲۰۱۲ء تک وہ جنتا دل کی طرف سے ایم ایل سی رہے۔
حصول تعلیم کے بعد پروفیسر اسلم آزاد نے تدریسی زندگی کا آغاز بھی ۱۹۷۵ء میں پٹنہ سے کیا اور ترقی کرتے ہوئے ۱۹۹۰ء میں پہلی مرتبہ پٹنہ یونی ورسٹی کے صدر شعبۂ اردو مقرر ہوئے، ۲۰۱۴ء میں ملازمت کی مدت پوری کرکے سبک دوش ہوئے۔
اللہ رب العزت نے انھیں تصنیف و تالیف کی اچھی صلاحیت عطا فرمائی تھی. ایک شاعر، ادیب، نقاد اور مضمون نگار کی حیثیت سے ان کی اپنی شناخت تھی، ان کے مضامین اور اشعار ملک و غیر ملک کے رسائل و جرائد میں چھپا کرتے تھے، ان کی تصنیفات و تالیفات میں اردو ناول آزادی کے بعد، عزیز احمد بحیثیت ناول نگار، قرۃ العین حیدر بحیثیت فکشن نگار، آنگن ایک تنقیدی مطالعہ، اردو کے غیر مسلم شعراء اور ان کی شاعری کا مجموعہ ’نشاط کرب‘‘ اور ’’مختلف‘‘ خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔
اسلم آزاد مجھ سے ذاتی طور پر محبت کرتے تھے، برسوں کے تعلقات تھے، جب ملتے تو مجھے ادبی مضامین لکھنے پر ابھارتے، جو تحریریں چھپ چکی ہوتیں اس پر حوصلہ افزائی کے کلمات کہتے، انھوں نے میری کتاب ’’یادوں کے چراغ جلد دوم ‘‘ کے فلیپ پر جو حوصلہ افزا کلمات لکھے وہ ان کی محبت اور تعلق کا بہترین نمونہ ہے، لکھتے ہیں: ’’مولانا محمد ثناء الہدیٰ قاسمی بہار کے نامور عالم دین، ادیب اور دانشور ہیں. بے حد سنجیدہ، مہذب اور با وقار شخصیت کے حامل، ان کی ادبی اور علمی نگارشات کو پڑھ کر میں ورطۂ حیرت میں غرقاب ہو گیا، کیوں کہ کسی عالم دین سے ادبی موضوعات پر اتنے گہرے مطالعہ کی مجھے قطعی امید نہیں تھی۔‘‘
یادوں کے چراغ میں ۶۹؍ شخصیات پر لکھے گئے مضامین شامل ہیں، جنھیں سوانحی خاکہ کہا جا سکتا ہے، یہ مضامین متعقلہ شخصیتوں کی حیات کے بیش تر حصوں کا احاطہ کرتے ہیں۔ سارے مضامین بے حد معلوماتی اور وقیع ہیں، ان کی زبان شستہ، سلیس، رواں اور بے حد تخلیقی ہے‘‘۔
ایسے محبت کرنے والے شخص کا جدا ہوجانا ادبی اور سیاسی دنیا کا بڑا نقصان تو ہے ہی، مجھے لگتا ہے کہ یہ میرا ذاتی نقصان ہے، میں نے ایک محبت کرنے والے شخص کو کھو دیا ہے، بے غرض، بے لوث، محبت کرنے والے اب ملتے کہاں ہیں۔ اسلم آزاد نے کہا تھا ؎
میرے سجدوں سے منور ہے تیری راہ گذر
میری پیشانی پہ روشن ہے صداقت میری
***
صاحب تحریر کی گذشتہ نگارش:بچوں کی کتابیں_تعارف وتذکرہ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے