کوئی بھی واقعہ کسی پس منظر کے بغیر جنم نہیں لیتا

کوئی بھی واقعہ کسی پس منظر کے بغیر جنم نہیں لیتا

ماہر نفسیات ابصار فاطمہ کے ساتھ ایک ملاقات

انٹرویو نگار: علیزےنجف

ڈپٹی نذیر احمد نے ایک بار کہا تھا کہ "دنیا میں مطالعے کے لئے بہت سی چیزیں ہیں مگر سب سے بہترین مطالعہ انسان کا مطالعہ ہے" بےشک ان کی بات کی سچائی کا اندازہ ہر صاحب شعور انسان کو زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر آ کر ضرور ہوتا ہے۔ کیوں کہ ہم میں سے ہر انسان زندگی کو اپنے طور سے ہی سہی لیکن زندگی گذارنے کا تجربہ ضرور رکھتا ہے۔ انسان ایک جیتا جاگتا وجود ہے جو ہمہ وقت تبدیل ہوتا رہتا ہے، کیوں کہ حالات انسانی زندگی پہ ایک گہرا اثر مرتب کرتے ہیں. ایک باشعور انسان اس تبدیلی کو مثبت طور پر قبول کرتا ہے۔ یوں ایک انسان کی شخصیت کے مطالعے سے انسانی نفسیات کے پیچ و خم کا اندازہ ہوتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ اس نشیب و فراز کے درمیان عمل و رد عمل کے درمیان مطابقت پیدا کرنے کے فن کو بھی قریب سے دیکھنے و سمجھنے کا موقع ملتا ہے۔ ایسا انسان جو انسانی رویوں کی سمجھ بوجھ رکھتا ہے وہ اوروں کے مقابلے میں زندگی کو زیادہ بہتر طریقے سے گذارتا ہے کیوں کہ علم اور جہل کبھی بھی ایک مقام پہ ایک ساتھ نہیں رہ سکتے اور نہ ہی ایک جیسا نتیجہ پیدا کر سکتے ہیں۔
انسان کا مطالعہ کرنے کا ایک بہترین ذریعہ ادب میں بھی رائج ہے جسے عرف عام میں انٹرویو نگاری کی صنف کہتے ہیں. اس کے ذریعے انسان کے سالہا سال کے سفر کو لمحوں میں قید کیا جا سکتا ہے اور اس کے ذریعے اس کے انفرادی و اجتماعی نظریات کا بھی علم ہوتا ہے اور ان تمام پہلوؤں پر اس کے خیالات کھل کر سامنے آتے ہیں، جس موضوع پہ بات کرنے کے لیے وہ موقع و محل کے متلاشی ہوتے ہیں. انٹرویو نگاری کی اسی اہمیت سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے آج ایک ایسی شخصیت کے سامنے سوالنامہ لیے بیٹھی ہوں جن کا تعلق ایسے شعبے سے ہے جو انسانی ذات کا مطالعہ کرنے کا ہنر سکھاتا ہے، جو انسانی رویوں کی گتھیوں کو سلجھانے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے، جسے علم نفسیات کہتے ہیں، اور اس شعبے سے تعلق رکھنے والے ماہرین کو ماہر نفسیات کہا جاتا ہے۔ جن سے میں مخاطب ہوں ان کی تحریری صلاحیت بھی کمال کی ہے. مختلف جگہوں پہ ان کی تحریریں اپنے قاری پیدا کر چکی ہیں. وہ روایتی سوچوں سے احتراز کرتے ہوئے ہمیشہ حقائق کو اس کے اصل روپ میں دیکھنے کی جہد کرتی ہیں. وہ اپنے اس شعبے میں اپنی صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کر رہی ہیں. آپ اور ہم انھیں ابصار فاطمہ کے نام سے جانتے ہیں. آئیے ان سے ان کے متعلق بات کرتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ مختلف معاشرتی اور اخلاقی پہلوؤں پر ان کی رائے جاننے کی بھی کوشش کرتے ہیں.

علیزے نجف: ہم پہلے آپ سے آپ کا تعارف چاہتے ہیں اور یہ بھی کہ ابصار فاطمہ کو اگر آپ لفظ میں بیان کریں تو وہ ایک لفظ کیا ہوگا؟
ابصار فاطمہ: خود کو ایک لفظ میں بیان کرنا مشکل کام ہے۔ دنیا میں کوئی ایک لفظ ایسا نہیں جو کسی بھی شخصیت کو مکمل طور پہ بیان کرسکے۔ شخصیت کو سمجھنے کے لیے اس کے ہر پہلو کا بیان ہونا ضروری ہے۔ جس کے لیے بہرحال ایک سے زیادہ الفاظ درکار ہوتے ہیں۔
علیزےنجف: آپ کا تعلق کہاں سے ہے اور آپ کی تعلیم و تربیت میں سب سے زیادہ کس کا کردار رہا ہے؟
ابصار فاطمہ: میرا تعلق سندھ کے شہر سکھر سے ہے۔ تعلیم و تربیت میں میرے گھر کے تمام افراد کا ہی اہم کردار ہے۔
علیزےنجف: آپ نے کس شعبے میں تعلیم حاصل کی اور کہاں تک حاصل کی ہے؟ تعلیمی حصول میں فطری صلاحیتوں کا لحاظ رکھنا کیوں ضروری ہوتا ہے؟
ابصار فاطمہ: میں نے نفسیات اور سماجیات میں ماسٹرز کیا ہے اور جرمیات کا ڈپلوما کیا ہے۔ ساتھ ہی میں ناول و افسانہ نگار بھی ہوں۔
فطری صلاحیتوں کی بنیاد پہ تعلیم حاصل کرنا تعلیمی سفر کو آسان اور پرلطف بنا دیتا ہے لیکن ساتھ ہی طریقۂ تدریس کا دوستانہ ہونا بھی ضروری ہے۔ سختی اور پرتشدد رویے سے اگر میری پسندیدہ چیز بھی مجھے سکھائی جائے گی تو میرا دل اس سے اچاٹ ہوجائے گا۔ اور اکثر بچوں کی تعلیم سے بھاگنے کی اہم وجہ یہ بھی ہے۔
علیزےنجف: آپ اپنی ابتدائی عمر کی شخصیت اور موجودہ شخصیت میں کیا واضح تبدیلی محسوس کر رہی ہیں؟ کہتے ہیں کہ انسان پہ اس کے بچپن کے عادات و اطوار کی گہری چھاپ ہوتی ہے جو تاعمر کسی نہ کسی صورت میں برقرار رہتی ہے. آپ اس خیال کو کس طرح دیکھتی ہیں؟ کیا واقعی ایسا ہے تو پھر ابتدائی عمر کی عادتوں کو کیسے بدلا جائے؟
ابصار فاطمہ: یقیناً ایسا ہی ہے کہ ہمارے بچپن کے تجربات ہماری شخصیت سازی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ مجھے بھی ایک مخصوص عمر تک مسائل کا سامنا رہا۔ مجھے مائلڈ اٹینشن ڈیفیسٹ ہائپر ایکٹوٹی ڈس اورڈر ADHD ہے جو کہ ایک پیدائشی نفسیاتی کنڈیشن ہے۔ اکثر بچوں میں یہ مسئلہ لرننگ ڈس اورڈر کے ساتھ ہوتا ہے. اسی لیے میری طرح مائلڈ حد تک یہ مسئلہ رکھنے والے بچوں میں اس کی تشخیص مشکل ہوتی ہے۔ اس کی وجہ سے بچپن میں مجھے بہت زیادہ ڈانٹ پڑتی تھی کہ میں بات توجہ سے نہیں سنتی، چیزیں گرا دیتی ہوں، سست ہوں وغیرہ وغیرہ، یہ چیز بتدریج لڑکپن تک ڈپریشن کا باعث بن گئی۔ پھر جب نفسیات پڑھی تو سب سے پہلے اپنے ڈپریشن کا اندازہ ہوا۔ اور پھر اس ڈپریشن کی بنیادی وجہ یعنی اٹینشن ڈیفیسٹ ہائپر ایکٹوٹی ڈس اورڈر کا پتا چلا۔ چوں کہ میری ڈگری نے اس حوالے سے میری مدد کی اس لیے میں اپنے بچپن کے ان مسائل سے بہتر طور پہ نکل سکی۔ لیکن جن بچوں کو بروقت نفسیاتی مشاورت نہ مل سکے وہ بڑے ہوکر ایک پختہ شخصیت اپنا لیتے ہیں جن میں وہ منفی رویے بہ کثرت موجود ہوتے ہیں جو بچپن میں سہے منفی رویوں کا ردعمل ہوں۔ یہ اکثر مختلف قسم کے پرسنالٹی ڈس اورڈرز کا باعث بنتے ہیں۔
علیزےنجف: آپ کا تعلق شعبۂ نفسیات سے ہے، کیا نفسیات سے آپ کو ہمیشہ سے ہی دل چسپی رہی ہے اور اس دل چسپی کے پیچھے نفسیات کی کون سی خاصیت کارفرما رہی تھی؟
ابصار فاطمہ: نہیں مجھے نفسیات سے شروع سے دل چسپی نہیں تھی۔ ہمیں دل چسپی ان شعبوں اور مضامین میں ہوتی ہے جنہیں یا تو ہم نے پڑھا ہو یا کسی اور نے اس کے بارے میں سبز باغ دکھائے ہوں۔ نفسیات کے حوالے سے دونوں ہی عوامل نہیں ہوتے نہ ہمیں اسکول میں بنیادی نفسیات پڑھائی جاتی ہے نہ کوئی اس شعبے کو فینسی کیرئیر کے طور پہ دیکھتا ہے۔ انٹر کے بعد میں نے پہلے بی بی اے میں داخلہ لیا تھا لیکن وہ لوکل ادارہ جو یہ ڈگری کروا رہا تھا وہ بند ہوگیا اور مجبوراً مجھے کوئی دوسرا آپشن چننا پڑا۔ اس وقت کچھ منفرد کرنے کا شوق ہوا اور نفسیات میں داخلہ لے لیا۔
علیزےنجف: ہمارے یہاں ایک myth ہے کہ نفسیات پڑھنے والے بھی تھوڑا تھوڑا نفسیاتی ہو جاتے ہیں. یہی وجہ ہے کہ کچھ لوگ سنی سنائی باتوں کو مان کر نفسیات کے انتخاب سے کتراتے ہیں. آپ کے نزدیک لوگ ایسا کیوں کہتے ہیں اور اس کی کیا وجوہات ہیں ؟
ابصار فاطمہ: ایک بڑی اکثریت یہ صرف اس لیے سمجھتی ہے کیوں کہ ہمارے یہاں عمومی طور پہ زیادہ تعلیم یافتہ کو ہی خبط الحواس سمجھا جاتا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ تعلیم یافتہ یا باشعور افراد بہت سی غیر منطقی معاشرتی روایات کی پاس داری نہیں کرتے اور سادہ اور آسان زندگی گزارنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ماہرینِ نفسیات کے لیے یہ غلط فہمی اس لیے بھی پائی جاتی ہے کیوں کہ لوگوں کو لگتا ہے کہ پورا دن نفسیاتی مریضوں کے ساتھ گزارنے پہ ان کا اثر ضرور آتا ہوگا۔ جب کہ یہ صرف غلط فہمی ہے۔
علیزےنجف: کیا ایک نفسیات کا طالب علم یا ماہر نفسیات کبھی کسی نفسیاتی پیچیدگی کا شکار ہوسکتا ہے؟ ایسا ہونے کے کتنے فی صد چانسز ہوتے ہیں اور ہو جانے پر وہ کیسے اس سچویشن سے باہر نکل سکتا ہے؟
ابصارفاطمہ: نفسیات کے شعبے سے تعلق رکھنے والا کوئی بھی شخص وہ ماہر ہو یا طالب علم وہ خود بھی نفسیاتی مسائل کا شکار ہوسکتا ہے یعنی کچھ کو یہ نفسیاتی مسائل پیدائشی ہوسکتے ہیں جیسے میں نے اپنے لیے بتایا۔ کچھ کو یہ مسائل اوائلی لڑکپن میں ہوتے ہیں۔ مختلف قسم کے فوبیاز یا پرسنیلٹی ڈس اورڈرز سے جان چھڑانا آسان نہیں لیکن اچھا ماہر نفسیات اسے متوازن انداز میں ڈیل کرنے کے قابل ضرور ہوجاتا ہے۔ لیکن کچھ معاشرتی عوامل بہت شدت سے اثر کرتے ہیں اور ایسے ایب نارمل عوامل کا فطری ردعمل یہی ہے کہ بندہ نفسیاتی دباؤ میں آجائے۔ لیکن بہرحال اس کے بعد نفسیاتی علاج ضروری ہے۔ ماہرین نفسیات کے ساتھ نامعقول رویہ اختیار کیے رکھنا اور یہ امید رکھنا کہ وہ ماہر نفسیات ہیں انھیں کوئی ردعمل نہیں دکھانا چاہیے، ان کے ساتھ زیادتی ہے۔ ہر انسان کی طرح مثبت انداز میں اور عزت کے ساتھ برتے جانا ماہرینِ نفسیات کا بھی حق ہے۔
علیزےنجف: ہمارے یہاں نفسیاتی صحت کی آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے لوگ اپنے رویوں پر اس طرح توجہ نہیں دیتے جس طرح کہ دینی چاہئے. نتیجتاً وہ ذہنی خلفشار کا شکار ہو جاتے ہیں. میرا بنیادی سوال یہ ہے کہ ایک عام انسان کو کس حد تک نفسیاتی صحت کی آگاہی ہونی ضروری ہے اور اس کو کس طرح حاصل کیا جا سکتا ہے؟
ابصارفاطمہ: اول تو کسی حد تک یہ ذمہ داری ماہرین نفسیات پہ بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ صرف ایک کمرے میں رہ کر خود چل کے آنے والوں کا علاج نہ کریں بلکہ آگاہی کو ہر ممکن لوگوں تک پہنچائیں۔ لیکن چوں کہ ہمارے ملک میں ماہرینِ نفسیات کی تعداد کم ہے ایسے میں ریاستی سطح پہ اقدامات کی اشد ضرورت ہے کہ لوگوں کو پتا ہو کہ کس قسم کے مسائل میں فوری نفسیاتی مدد لی جانی چاہیے۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ بنیادی نفسیات اور جذباتی مسائل سے نمٹنے کے طریقے ابتدائی جماعتوں میں ہی بچوں کو سکھائے جائیں۔ عام عوام کے لیے ضروری ہے کہ نفسیات کی معلومات ماہر نفسیات سے ہی لیں۔ موٹیویشنل اسپیکرز یا تعویذ گنڈوں وغیرہ کو نفسیاتی مشاورت کا نعم البدل نہیں سمجھا جانا چاہیے۔
علیزےنجف: وہ ایک نعمت جو ہر انسان کو یکساں طور پہ حاصل ہوتی ہے وہ ہے زندگی. اس کے بعد سامان زندگی جس کی مقدار ہر کسی کے لیے الگ الگ ہوتی ہے. کیا انسان کے اچھا اور برا بننے میں تعیش زندگی کی کمی و زیادتی کا دخل ہوتا ہے یا ان کے ذاتی رجحانات اور ماحولیاتی اثرات سے ان کی شخصی زندگی کی تعمیر ہوتی ہے؟
ابصارفاطمہ: نفسیات میں جدید نظریہ بائیو سائیکو سوشل اپروچ پہ کام کرتا ہے. یعنی طبی، معاشرتی اور نفسیاتی عوامل سب مل کر ایک شخصیت تخلیق کرتے ہیں۔ ان میں سے کسی ایک کو بھی کلی طور پہ کسی انسانی رویے کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔
علیزےنجف: انسانی نفسیات کے ریسرچ کے ابتدائی دنوں میں ماہرین نے اسے soul of science کا نام دیا تھا، اگر چہ بعد میں اس اصطلاح کو تبدیل کر دیا گیا. میرا سوال یہ ہے کہ آپ متوازن نفسیاتی صحت کے لیے روحانیت کو کس قدر ضروری خیال کرتی ہیں. روح کا تصور کرتے وقت خالق کا خیال آنا فطری ہے تو وہ لوگ جو کہ atheist ہیں وہ کس طرح اپنی نفسیاتی صحت کو بہتر بنانے کے لیے اس کمی کی تلافی کرتے ہوں گے؟
ابصارفاطمہ: آپ نے خود یہ بات کہی کہ یہ نفسیات کے ابتدائی دنوں کی بات ہے۔ نفسیات میں اب روحانیت کی بات نہیں ہوتی۔ اب ماحول اور رویے کی بات ہوتی ہے اور مکمل سائنسی طریقہ کار سے انسانی رویوں کو پرکھا جاتا ہے. ایسے میں نفسیات کا مطالعہ کرنے والے کا عقیدہ کیا ہے اس سے اس کی تعلیم کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اسی لیے آج کی نفسیات اس قابل ہے کہ یہ ہر طریقے کے عقیدے یا نظریے کے حامل انسان کو نفسیاتی مدد فراہم کرسکتی ہے۔ یہاں یہ بات بھی نوٹ کی جانی چاہیے کہ اگر کوئی ماہر نفسیات کسی خاص نظریے کا پرچار علاج کے نام پہ کر رہا ہے، وہ غیر مستند طریقہ اختیار کر رہا ہے۔ جو مریض کو بھلے پسند آئے لیکن وہ اس کے نفسیاتی مسئلے میں مفید بالکل نہیں ہوسکتا۔
علیزےنجف: آپ کو نفسیات کی گہری سمجھ ہے. ایک عام انسان کی طرح آپ کا بھی ایک خاندان ہے. کہتے ہیں کبھی کبھی بعض سہولیات جو گھر والوں کو بہ آسانی حاصل ہوتی ہے، وہ ان کی قدر اس طرح نہیں کرتے جیسے ان کی باہر کی زندگی میں پروفیشنل کے طور پہ ہوتی ہے. کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ گھر کے کسی مسئلے پہ آپ نے بہ حیثیت ایک ماہر کوئی رائے دی ہو، گھر والوں نے اسے اہمیت نہ دی ہو کیوں کہ ایسے میں وہ ماہر بھی ایک فریق ہوتا ہے جہاں پہ جذبات و احساسات متزلزل ہو جاتے ہیں؟
ابصار فاطمہ: دیکھیے میں ماہر نفسیات ہوں کوئی سیلیبرٹی نہیں. اس قسم کے سوالات کے جواب لوگ ان لوگوں کے [بارے میں] پڑھنے میں دل چسپی رکھتے ہیں جو اپنی ذاتی زندگی کو خبر بناتے ہیں یا عوام کو یہ غلط فہمی ہوتی ہے کہ ان کی ذاتی زندگی کوئی چٹخارے دار خبر ہے۔ میری ذاتی زندگی سے نہ کسی کو دل چسپی ہے نہ اس سے ان کا تعلق ہے۔
لیکن اگر اسے جنرل سوال کے طور پہ واضح کروں تو جن معاملات میں ماہرین نفسیات خود ایک فریق ہوں ان میں ڈائیگنوسز بائیسڈ ہونے کا امکان ہوتا ہے. اس لیے اخلاقی طور پہ یہ بہتر طریقہ ہے کہ رشتے داروں اور دوستوں کو پروفیشنل مشورے کے لیے کسی اور ماہر نفسیات کی طرف ریفر کیا جائے جو نیوٹرل ہو کر معاملے میں گائیڈ کرسکے۔
علیزےنجف: ہمارے معاشرے میں خاندان کو ایک اکائی کی حیثیت حاصل ہے اور خاندان رشتوں سے بنتا ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے معاشرے کا ہر تیسرا انسان کسی نہ کسی نفسیاتی الجھن کا شکار ہونے کی وجہ سے رشتوں کی قدروں کو پامال کر رہا ہے. آپ کے نزدیک اس کے اسباب کیا ہیں اور تدارک کی کیا صورت ہو سکتی ہے؟
ابصارفاطمہ: ہمارے یہاں مسائل اس لیے زیادہ ہیں کیوں کہ ہم تعلقات میں ایک دوسرے سے جذبات کی گہرائی اور مثبت ہونے سے زیادہ معاشرتی دباؤ اور معاشرتی اقدار پہ توجہ دیتے ہیں۔ والدین اولاد سے محبت بہت کرتے ہیں لیکن جہاں ان کے احساسات سمجھنے کی بات آتی ہے وہاں ترجیح دیتے ہیں کہ وہ فیصلہ کریں جو بھلے اولاد کے جذبات مجروح کرتا ہو لیکن معاشرے میں انھیں بہ طور اچھے والدین قبولیت دلا سکے۔ یہ رویہ بچے والدین سے سیکھتے ہیں اور پھر ساری زندگی ہر تعلق میں مصنوعیت کے ساتھ نباہ کرتے ہیں. جہاں ساری توجہ صرف اردگرد کے لوگوں کو خوش کرنے پہ دی جاتی ہے۔ جن تعلقات میں سوشل پریشر نہ ہو انھیں فکس کرنا نسبتاً آسان ہوتا ہے۔ ایک دوسرے کے جذبات و احساسات کو غیروں کی رائے سے زیادہ اہمیت دینی ضروری ہے۔
علیزےنجف: انسانی نفسیات کم و بیش تمام شعبہ ہائے حیات پر اپنے اثرات مرتب کرتی ہے. ان میں سے ایک شعبہ ملکی سیاست بھی ہے. ہمارے یہاں لوگ بہ آسانی اس میں تنگ نظری کا شکار ہو جاتے ہیں. بعض اوقات شدت پسندی پہ اتر آتے ہیں. اس معاملے میں اپنے نظریات کو معتدل و حقیقت پسندانہ بنانے کے لیے آپ کیا مشورہ دینا چاہیں گی؟
ابصار فاطمہ: ہمارے یہاں سیاسی شعور بہت کم ہے ساتھ ہی ساتھ نفسیاتی دباؤ بھی بڑھتا جارہا ہے۔ سیاسی شعور کی کمی لوگوں میں بے لچک نظریات کو جنم دیتی ہے اور ہم ذاتی پسند ناپسند کی بنیاد پہ سیاسی رہ نما چننتے ہیں نہ کہ اس کی سیاسی بصیرت پرکھ کے۔ اسکول لیول پہ سیاست پڑھائی جانی چاہیے۔ بچوں کو شفاف سیاسی تاریخ پڑھنے کا موقع دیا جانا چاہیے۔ تب ہی وہ سیکھ سکیں گے کہ کون سے حکمران ملک کی سلامتی کے لیے بہترین تھے اور کون سے نقصان دہ۔ فی الحال تو ہماری معاشرتی علوم کی کتب میں سارے ہی سابقہ حکمرانوں کو ہیرو بنا کے پیش کیا جاتا ہے۔
علیزےنجف: ایک بچے کی نفسیات کو بہتر طور پہ نشو و نما دینے کے لیے ماں باپ کو اپنی کن skills پر خاص [طور پر] کام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے. وہ بچے جو اپنے ماں باپ کی طرف سے اچھی تربیت و ماحول نہیں پا سکے ہوں ان کی نفسیاتی صحت کو کس طرح نارملائز کیا جا سکتا ہے؟
ابصارفاطمہ: اولاد کی بہتر تربیت کرنے کے لیے پہلے تو ضروری ہے کہ والدین خود جذباتی طور پہ اسٹیبل ہوں۔ یا اگر نہیں ہیں تو اس پہ کام ضرور کریں۔ جذباتی سکون پانا ان کا حق ہے۔ جب وہ خود جذباتی حوالے سے مطمئین ہوں گے تو جذباتی تشدد کے مختلف رویوں کو پہچان سکیں گے اور انھیں اپنانے سے اجتناب کر سکیں گے۔ ساتھ ہی بچوں کی نفسیات کے بارے میں معلومات حاصل کرنا بہت ضروری ہے۔ مثلاً تین سے پانچ سال کے بچے بلاوجہ بھی غیر منطقی ضد کرتے ہیں جسے دلیل دے کر بہلایا نہیں جاسکتا۔ یا چھوٹے بہن بھائیوں میں حسد کا احساس قدرتی ہے جس کے باعث ان میں ہر دوسری بات پہ جھگڑے ہوتے ہیں۔ یہ بات والدین کو پتہ ہوگی تو وہ ہر دفعہ جھگڑے پہ اعصابی دباؤ میں نہیں آئیں گے۔ بچوں کے جھگڑوں میں خود کو پرسکون رکھنا بہت ضروری ہے۔ ایسے میں یہ اہم ہے کہ ماں باپ دونوں تربیت میں ایک جتنی ذمہ داری نبھا رہے ہوں۔ جب ایک جسمانی یا ذہنی طور پہ تھکے تو دوسرا اس کی جگہ لینے کو تیار ہو۔
علیزےنجف: انسان کو ایک ایسا کمال حاصل ہے جو کسی دوسری مرئی مخلوق کو حاصل نہیں. وہ ہے خاندان بنانے کی صلاحیت جو کہ پشتہا پشت چلتا رہتا ہے. میرا بنیادی سوال یہ ہے کہ ایک بہتر خاندان اور مثالی تعلق بنانے کے لیے کن چار باتوں کا خاص خیال رکھنا ضروری ہوتا ہے؟
ابصارفاطمہ: کئی جانور خاندان بنا کے رہتے ہیں اور ان کی کالونیز اور کمیونٹی ہوتی ہیں۔ جیسے سب سے منظم برادری کی مثال شہد کی مکھیوں کی ہے۔ انسانی خاندانی نظام ہر کچھ عرصے کے بعد اپنی ساخت بدلتا ہے۔ پہلے انسان چھوٹے گروہوں میں رہتا تھا۔ پھر قبیلوں میں رہنے لگا۔ یہ قبیلے گاؤں میں تبدیل ہوئے۔ زرعی دور میں انسان کے لیے بڑے خاندان میں رہنا فائدہ مند تھا۔ لیکن جب صنعتی انقلاب آیا اور اکثریت کو گاؤں چھوڑ کے فیکٹریوں کے گرد بسے شہروں میں رہنا پڑا تو یہ جوائنٹ فیملی سسٹم سنگل فیملی سسٹم میں بدل گیا۔ جوائنٹ فیملی سسٹم میں ایک ہی حدود میں رہنے والے تمام افراد ایک دوسرے کی زندگیوں پہ بہت زیادہ حاوی ہوتے ہیں۔ حد سے زیادہ ذاتی فیصلہ بھی ذاتی نہیں رہتا. یہ کسی حدود کا نہ ہونا جھگڑوں کا باعث بنتا ہے۔ ہم نے جوائنٹ فیملی سے سنگل فیملی کا سفر تو کرلیا لیکن ہند و پاک جیسے ترقی پذیر ممالک میں ذاتی حدود کا تصور واضح نہیں۔ جس کی وجہ سے لوگ دوسروں کی ذاتیات میں بہت زیادہ دخل دیتے ہیں۔ سب اپنے مسائل حل کرنے کی بجائے دوسروں کی زندگیوں میں کیا ہورہا ہے اس میں دل چسپی رکھتے ہیں نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ نہ ہم اپنے مسئلے حل کرتے ہیں نہ کسی اور کے ہونے دیتے ہیں۔ جب کہ ذاتیات کے حوالے سے کچھ بنیادی اخلاقی اصول بنا کر ان پہ عمل کرنا بہت ضروری ہے، تب ہی ایک مثبت خاندان کی بنیاد بن سکتی ہے۔
علیزےنجف: ہمارے یہاں ایک المیہ یہ بھی ہے کہ لوگ اپنے احساسات کو اس طرح محسوس ہی نہیں کرتے جیسے کہ انھیں کرنا چاہئے. نتیجتاً ان کے عمل اور احساس کے درمیان خلا یا تضاد پیدا ہو جاتا ہے. میں یہ جاننا چاہتی ہوں کہ ایک عام انسان کو اپنے احساسات سے جڑنے اور محسوس کرنے کے لیے کن باتوں کو کبھی بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہئے؟
ابصارفاطمہ: ہم سب اپنے جذبات سمجھتے تو ہیں لیکن معاشرتی سطح پہ یہ چلن بن گیا ہے کہ جو بھی اپنے احساسات کو ترجیح دے اسے غلط قرار دیا جاتا ہے اور اس بات پہ زور دیا جاتا ہے کہ وہ دوسروں کی رائے کو اہم سمجھے۔ یہ ایک چین ری ایکشن بن گیا ہے کہ مثلاً دوسروں نے میری زندگی پہ فیصلے مسلط کیے اور پھر میں ردعمل میں دوسروں پہ اپنے فیصلے مسلط کروں۔ یہ رویہ نفسیاتی مسائل کو بڑھاتا چلا جاتا ہے. فرسٹریشن بڑھ جاتی ہے، ہر وقت غصہ، جھنجھلاہٹ، غیر اہم ہونے کا احساس، سیلف اسٹیم کو کم کردیتا ہے۔ مسائل میں ترجیح اس بات پہ رکھنی چاہیے کہ آپ کی اور آپ کے پیاروں کی جذباتی بہتری کس میں ہے۔ لوگ کیا کہیں گے کسی بھی فیصلہ کرنے کی سب سے غیر منطقی دلیل ہے۔ ساتھ ہی یہ خیال رکھیے کہ جب کوئی جذباتی مسئلہ کسی طور حل نہ ہورہا ہو تو فوراً ماہرین نفسیات سے مشاورت لی جائے تاکہ بروقت جذباتی تکلیف سے چھٹکارا حاصل ہوسکے.
علیزےنجف: آپ کو نفسیات کے ساتھ ساتھ لکھنے میں بھی کافی دل چسپی ہے. آپ افسانے بھی لکھتی ہیں. جب آپ کسی افسانے کی بنیادی پلاٹنگ کرتی ہیں تو اس وقت آپ کے پیش نظر کس طرح کی سوچ ہوتی ہے اور کرداروں کی نفسیات کو معاشرتی رویوں سے ہم آہنگ کس طرح کرتی ہیں؟
ابصار فاطمہ: فکشن یا نان فکشن لکھنے میں میری اول ترجیح یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ اس وقت معاشرے میں کون سے مسائل ہیں اور ان کے کون سے پہلوؤں کی طرف لوگوں کا دھیان نہیں جارہا، جس کی وجہ سے وہ مسائل حل نہیں ہوپارہے۔ جب مسئلہ معاشرے سے اٹھایا جاتا ہے اس کے تمام عوامل کا مشاہدہ کیا جاچکا ہوتا ہے تو متعلقہ کردار پلاٹ میں شامل کرنا نسبتاً آسان ہوتا ہے۔ کوئی بھی واقعہ یا مسئلہ کسی پس منظر کے بغیر جنم نہیں لیتا۔ اور وہ پس منظر بھی ہمیشہ یک طرفہ نہیں ہوتا۔ جب کہ وہ مسئلہ عموماً اس لیے بنا ہوتا ہے کیوں کہ ہم اس کا یک طرفہ فیکٹر دیکھ کر ساری توجہ اسی فیکٹر پہ لگا دیتے ہیں۔ مثلاً کسی بھی مسئلے کی جڑ موبائل کو قرار دے دینا۔ یا ایک آسان سی رائے یہ پیش کرنا کہ نوجوان نسل بگڑ رہی ہے۔ یہ ایک پیچیدہ مسئلے کا بچکانہ حد تک سادہ نتیجہ ہے۔ یہی کچھ کہانی کے ذریعے قاری کو سمجھانا ہوتا ہے کہ ہم جو کچھ دیکھ رہے ہیں وہ اتنا سادہ نہیں۔ ہمیں یہ خیال رکھنا ضروری ہے کہ ہم جو کردار تخلیق کررہے ہیں وہ کہانی میں اپنی شخصیت کی بنیاد پہ رویہ دکھائے گا ہماری مرضی سے نہیں۔
علیزےنجف: آپ ایک مضمون کے ذریعے اپنے احساسات کو زیادہ بہتر طریقے سے پیش کر پاتی ہیں یا اپنی جذباتی کتھارسس کے لیے افسانہ نگاری کو زیادہ اہم خیال کرتی ہیں؟
ابصار فاطمہ: میں اپنے جذباتی کتھارسس کے لیے جو لکھتی ہوں وہ پبلک کے لیے نہیں ہوتا۔ وہ مضمون نگاری ہو یا افسانہ نگاری۔ جذباتی کتھارسس کے لیے جذبات کا مفکرانہ سطح پہ درست ہونا ضروری نہیں۔ لیکن ہم جو چیز عوام کو پیش کر رہے ہیں اس کا فکری اعتبار سے درست ہونا بہ طور ادیب یا قلم کار ہماری ذمہ داری ہے۔
علیزےنجف: کہتے ہیں ایک لکھاری کی اصل طاقت اس کی خداداد صلاحیت ہوتی ہے. پھر لفظ اور احساس اس پر الہام ہونے لگتے ہیں. یہ ہر لکھاری کے ساتھ مختلف صورتوں میں پیش آتا ہے. میرا سوال یہ ہے کہ کیا آپ کو لکھنے کے لیے مخصوص ماحول یا کیفیت کی ضرورت ہوتی ہے یا آپ کا قلم ہمہ وقت رواں دواں رہ سکتا ہے؟
ابصارفاطمہ: اصل میں یہ جو کہتے ہیں یہ بہت زیادہ درست کہاوت نہیں ہے۔ اسے اس طرح دیکھیے کہ ہر شخص میں کوئی نہ کوئی صلاحیت ہوتی ہے۔ اور الفاظ کو مربوط انداز میں پیش کرنا بھی ایک صلاحیت ہے تو یہ ادیب کے علاوہ بھی بہت سے لوگوں میں ہوتی ہے۔ کہانی لکھنا فن ہے جس کی تکنیک سیکھی جانی چاہیے۔ اور سیکھی جاسکتی ہے۔ پھر آگیا سوال کہ کن حالات میں تخلیق کرنا آسان ہوتا ہے۔ ہر انسان الگ الگ ماحول میں تخلیقی کام کرتا ہے۔ کچھ بالکل پرسکون ہوں تو تخلیقی کام کر پاتے ہیں اور کچھ پہ جب ڈیڈ لائن کا پریشر ہو تب ہی وہ کچھ تخلیق کر پاتے ہیں۔ یہ صرف ادیب پہ موقوف نہیں۔ اصل میں جب کوئی کہانی دماغ میں بننا شروع ہوتی ہے تو آپ اسے کس طرح لکھیں گے، کیا ماحول بنائیں گے، وہ پہلے دماغ میں تشکیل پانے لگتا ہے، آپ اسے محسوس کرنے لگتے ہیں۔ یہ ڈے ڈریمنگ جیسی کیفیت ہوتی ہے جسے عام فہم انداز میں الہام سے جوڑ دیا جاتا ہے۔ جب کہ نفسیاتی تجزیہ کیا جائے تو یہ باقی انسانوں کی ڈے ڈریمنگ سے الگ تجربہ نہیں ہے۔ لیکن زیادہ مربوط ہے۔
علیزےنجف: آپ کو قدرتی مناظر سے کس حد تک لگاؤ ہے؟ انسانی ذہن کی تعمیر و تشکیل میں یہ کس طرح اپنے مثبت اثرات مرتب کرتے ہیں ؟
ابصارفاطمہ: قدرتی مناظر سے کافی شدید لگاؤ ہے۔ میں دریا، سمندر پہاڑ وغیرہ جیسی جگہوں پہ جاکر پرسکون محسوس کرتی ہوں۔ جس دن ذہنی طور پہ بہت تھک جاتی ہوں پیدل سکھر میں دریا کے کنارے جاکر کچھ وقت گزارتی ہوں۔ قدرتی مناظر ہمارے اعصاب پہ مثبت اثر کرتے ہیں اور اعصابی دباؤ کم کرنے میں مدد کرتے ہیں جو تخلیقی صلاحیتوں کو بہتر کرنے میں مددگار ہوتا ہے۔
علیزےنجف: گذرتے وقت کے ساتھ جہاں ہر طرف تبدیلیاں آئی ہیں، وہیں نفسیاتی صحت کے تئیں لوگوں کے اندر بیداری بھی پیدا ہوئی ہے، اگرچہ یہ ابھی قابل تشفی نہیں، ورکشاپ وغیرہ نے بھی اس ضمن میں قابل ذکر کردار ادا کیا ہے، میرا سوال یہ ہے کہ بہ حیثیت ایک ماہر جب آپ ورکشاپ میں شرکت کرتی ہیں یا منعقد کرتی ہیں تو اس میں سوالات و جوابات کے سیشن میں سب سے زیادہ آپ نے کس مسئلے کو کامن دیکھا ہے اور وہ مسئلہ اتنا کامن کیوں ہوتا ہے؟
ابصارفاطمہ: سب سے زیادہ مسئلہ لوگوں میں خود اعتمادی کی کمی کا ہے جس کی وجہ سے وہ لوگ رشتوں کے ٹوٹ جانے کے ڈر اور خوف کا شکار ہوتے ہیں۔ دوسرا اہم مسئلہ والدین کا یہ ہوتا ہے کہ وہ بچوں کی تربیت کے حوالے سے بہت پریشان ہوتے ہیں۔ عمر کے ساتھ بدلتے رویوں سے ڈیل کرنا ان کے لیے مسئلہ ہوتا ہے۔ یہ مسائل بہت عام اس لیے ہیں کیوں کہ عمر کے کسی بھی حصے میں گھر یا اسکول میں جذباتی صحت سے متعلق کوئی معلومات نہیں دی جاتی۔ والدین تربیت میں اکثر مقابلہ بازی کا طریقہ اختیار کرتے ہیں اور بچوں کی صرف غلطیوں کی بار بار نشان دہی کرتے ہیں۔ ایک عمومی غلط فہمی یہ ہے کہ بچوں کی تعریف کی جائے گی تو وہ بگڑ جائیں گے جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ بچوں کی تعریف ہوتی ہے تو وہ اپنی صلاحیتوں پہ زیادہ توجہ کرتے ہیں اور غلطیوں کو سدھارنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اگر انھیں ایک دفعہ یہ یقین ہوجائے کہ ان میں کوئی صلاحیت نہیں تو وہ کوشش کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ یہ پورا پراسیس سیلف اسٹیم کو کم کرنے کا باعث بنتا ہے۔ چوں کہ بچے دیکھتے آئے ہیں کہ والدین کو ان میں کوئی خوبی نظر نہیں آتی اور دوسرے بہترین لگتے ہیں یہاں سے رشتوں پہ شک و شبہ بھی شروع ہوتا ہے۔ جو آگے کی زندگی میں دوستی، پیشہ ورانہ تعلقات اور ازدواجی تعلقات میں بھی مسائل پیدا کرتا ہے۔
علیزےنجف: آپ خود کو کس طرح دیکھتی ہیں اور آپ کا تعلق خود کے ساتھ کیسا ہے؟ مستقبل کے تئیں آپ کے کیا اہداف ہیں؟
ابصارفاطمہ: میرا اپنے ساتھ تعلق بہت مثبت ہے۔ میں اپنی ضرورتوں کا خیال رکھتی ہوں۔ جذباتی مشکلات کے دوران اس بات کو ترجیح دیتی ہوں کہ خود کو پرسکون ہونے کا وقت دے سکوں مصروفیت کے ساتھ ساتھ تفریح کا وقت ضرور نکالتی ہوں۔ اہداف کوئی بڑے بڑے نہیں، بس یہ ہے کہ ہر ممکن طریقے سے تعلیم کا سلسلہ جاری رکھنا ہے۔ اور کم از کم اتنا کماتے رہنا ہے کہ معاشی مسائل نفسیاتی دباؤ کا باعث نہ بنیں۔
علیزےنجف: اس انٹرویو کے ذریعے آپ لوگوں کو کیا پیغام دینا چاہیں گی اور کیوں؟
ابصارفاطمہ: میرا ہمیشہ ایک ہی مشورہ ہوتا ہے کہ اگر ہم دوسروں کے لیے مثبت کردار ادا کرنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے اپنے جذباتی استحکام پہ کام کرنا ضروری ہے۔ اپنے بنیادی حقوق جانیں اور ان کے حصول کے مثبت طریقے اختیار کریں۔ کیوں کہ جب تک ہم خود جذباتی طور پہ مستحکم نہیں ہوں گے ہمارے جذباتی مسائل دوسروں کے لیے بھی مسائل پیدا کرتے رہیں گے۔
***
علیزےنجف کی یہ گفتگو بھی ملاحظہ فرمائیں :جذباتی آگہی کی بے حد ضرورت ہے: حیا ایشم

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے