جذباتی آگہی کی بے حد ضرورت ہے: حیا ایشم

جذباتی آگہی کی بے حد ضرورت ہے: حیا ایشم

معروف و مایۂ ناز ماہر نفسیات ‘حیا ایشم` کے ساتھ علیزے نجف کی ایک خصوصی گفتگو

کہتے ہیں کسی معاشرے کو مستحکم بنانے میں اور اس کے افراد کو آسودہ حال بنانے میں ہر شعبے سے وابستہ ماہرین کا ایک بڑا کردار ہوتا ہے اور انسان جو کہ ایک جسم کے ساتھ ساتھ جذباتی و روحانی وجود بھی رکھتا ہے جس طرح صحت مند جسم کے لیے ایک ماہر فزیشین کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح جذباتی و ذہنی صحت کو بہتر بنائے رکھنے کے لیے ماہر نفسیات کی ضرورت ہوتی ہے. ایک ماہر نفسیات ہمارے رویوں اور روزمرہ کی زندگی میں ہمارے عمل رد عمل کو بہتر بنانے میں ہمارے لیے معاون ثابت ہوتا ہے. وہ ہمیں نہ صرف صحیح زاویۂ نظر دیتا ہے بلکہ ہمیں سوچنے کا سلیقہ بھی سکھاتا ہے اور ہمیں جینے کا شعور بھی دیتا ہے. زندگی کے ساتھ جینے کا شعور رکھنا ہمیشہ سے ہی انتہائی اہمیت کا حامل رہا ہے. موجودہ وقت کی کشاکش کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر یہ کہا جائے کہ ایک ماہر نفسیات ہمارے معاشرے کو راست باز اور خوش حال بنانے میں ایک ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرتا ہے تو شاید یہ کہنا کچھ غلط نہ ہوگا. وہ ایک مفکر نے کہا ہے ناں کہ ‘اہم یہ نہیں کہ صورت حال کیا ہے بلکہ اہم یہ ہے کہ اس صورت حال میں ہمارا رد عمل کیا ہوتا ہے` اسی رد عمل کی ہیئت پر ایک ماہر نفسیات کام کرتا ہے.
ماہر نفسیات کی اسی اہمیت کے پیش نظر میں نے ایک مایہ ناز ماہر نفسیات سے ورچول گفتگو کی اور ان کا انٹرویو لیا جو کہ حیا ایشم کے نام سے جانی جاتی ہیں. بطور کلینیکل سائیکالوجسٹ انھوں نے متعدد ادارے میں اپنی بےبہا خدمات انجام دی ہیں. اب بھی انسانیت کی خدمت کو جاری رکھے ہوئے ہیں. اس انٹرویو میں ہم نے نہ صرف نفسیات کے موضوع پہ بات کی بلکہ روحانیت کو بھی احاطۂ تحریر میں لانے کی حتی الوسع کوشش کی ہے. مختصر وقت تھا اور سوالات ہزار پھر بھی ایک چھوٹی سی کاوش بصورت انٹرویو آپ کے پیش خدمت ہے. مقصد صرف ایک ہے لوگوں کے لیے آسانی پیدا کرنا۔ علیزےنجف۔

علیزے: سب سے پہلے تو آپ ہمیں خود سے متعارف کروائیں؟
ایشم: الحمدللہ میرا نام عاصمہ سعید خان ہے۔ میرا تعلق لاہور سے ہے. قلمی نام حیا ایشم ہے۔ شعبے کے لحاظ سے کلینکل سائیکالوجسٹ ہوں۔ تقریبا دو سال پہلے شادی ہوئی اور اب عاصمہ فرقان کہلاتی ہوں. بطور ماہر نفسیات کئی پرائیویٹ اور گورنمنٹ اداروں سے بھی وابستہ رہی ہوں۔ اور اب شادی کے بعد جاب چھوڑ کر انڈیپینڈنٹ کاونسلنگ کرتی ہوں۔
علیزے: آپ کا تعلیمی سفر کیسا اور کہاں تک رہا؟
ایشم: تعلیمی سفر الحمدللہ اچھا رہا۔ ابتدائی عمر میں جب تھی تو گھر میں بڑے بہن بھائیوں کو پڑھانے ٹیچر آتے تھے تو ان کے پاس شوقیہ جا بیٹھتی تھی۔ اور اس کا فائدہ یہ ہوا کہ جب اسکول انٹری ٹیسٹ ہوا تو ٹیچر نے ابتدائی دو کلاسز جمپ کروا دیں۔ ہاں ایک انوکھی یاد ہے کہ میں بہت زیادہ روئی تھی اسکول جاتے۔ اب محسوس ہوتا ہے شاید سیپریشن اینگزائٹی کا شکار تھی۔ الحمدللہ پوزیشن ہولڈر رہی گریجویشن ماسٹرز میں۔ خیر ہوتے ہوتے الحمدللہ گورنمنٹ کالج یونی ورسٹی لاہور سے کلینکل سائیکالوجی میں ایم ایس کیا۔
اللہ پاک ابو جی کو کروٹ کروٹ سکون اور جنت کا سکون دے۔ ابو جی کا بہت ساتھ رہا میری پڑھائی میں۔ الحمدللہ میں اپنے خاندان کی پہلی لڑکی تھی جس نے گریجویشن پھر ماسٹرز پھر ایم ایس کیا۔ اور ان کے مکمل اعتماد کے ساتھ کو-ایجوکیشن میں پڑھا۔
علیزے: زمانۂ طالب علمی کی کوئی ایک یاد جو آج تک اپ کے ذہن میں نقش ہے؟
ایشم: مجھے ہمیشہ سے جامعہ پنجاب سے بہت فیسی نیشن رہی۔ ڈائجسٹ یا ڈراموں وغیرہ میں دیکھنا کہ کیسے خوب صورت سی نہر کے کنارے دل فریب جگہ ہے۔ سو خاص گریجویشن میں محنت کی کہ پنجاب یونی ورسٹی جانا ہے۔ الحمدللہ پورے کالج میں سیکنڈ پوزیشن آئی۔ نفسیات اور فلسفہ دونوں میں یونی ورسٹی میں ٹاپ کیا۔ گورنر سے میڈل ملا۔ پنجاب یونی ورسٹی کی الحمدللہ نفسیات اور فلسفہ دونوں کی پہلی لسٹ میں نام آ گیا۔ میں بہت خوشی خوشی ابو جی کو بتانے بھاگی۔ ابو جی نے کہا تم نے وہاں کیوں اپلائی کیا۔ تم نے جی سی جانا ہے، میں صم بکم دیکھتی رہی۔ خیر میں نے ہمت نہیں ہاری. نام جی سی میں بھی آ گیا تھا۔ مگر پنجاب یونی ورسٹی ایک خواب تھی. خیر میں نے اپنے بھائیوں سے بات کی۔ اب سوچتی ہوں تو ہنسی آتی ہے۔ کیا کیا وطیرے آزما رہی تھی۔ بھائی سے کہا ابو جی کہہ رہے ہیں جی سی جانا ہے وہ تو خاصا مہنگا ہے. بھائیوں نے کہا۔ الحمدللہ فیس کوئی مسلہ نہیں۔ میں نے پھر کچھ سوچتے کہا۔ مگر میں نے ساری زندگی اردو میڈیم پڑھا ہے جی سی میں انگلش بکس ہیں میں کیسے کروں گی۔ بھائی نے کہا آگے انگلش کا ہی اسکوپ ہے، بہتر ہے ابھی محنت کر لو. میں پھر چپ ہو گئی۔۔ ہمت پھر بھی نہ ہاری خواب ٹوٹتا نہ دیکھا جا رہا تھا۔ میں نے پھر ذرا جھجکتے کہا۔ جی سی میں کو ایجوکیشن ہے۔ جامعہ میں تو جمیعت ہوتی ہے وہ لڑکوں پر نظر رکھتی ہے. بھائی نے کہا تم ہماری بہن ہو ہمیں تم پر اعتماد ہے، آگے جاو اور دنیا کو فیس کرو۔ انسان خود ٹھیک ہو تو سب ٹھیک ہوتا یے. اب تو مجھے لگا اففف۔۔۔۔ یعنی کہیں کوئی دلیل کوئی حجت کام نہیں آئے گی۔۔۔ پھر وہ رات جس کے اگلے دن جی سی میں فیس جمع کروانی تھی۔۔ اس رات میں بہت روئی۔ امی کو محسوس ہوا تو امی نے شاید زندگی میں پہلی بار میرے لیے اسٹینڈ لیا اور کہا کہ میں تمھارے ابو سے بات کرتی ہوں۔ پڑھنا تم نے یے محنت تمہاری ہے جہاں تم چاہو۔۔ لیکن ابو کی بات کو منع کرنے کا میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔۔ سو میں نے امی کو منع کر دیا۔
مگر اندر ہی اندر سوچ لیا تھا۔ پڑھوں گی ہی نہیں۔فیل ہو کر دکھاوں گی کہ کتنا غلط فیصلہ کیا میرے ل، ے خاصا پیسو اگریسو پلان تھا میرا. مگر اللہ پاک کا پلان کچھ اور تھا۔ میں داخلے سے لے کر کالج شروع ہونے تک اداس اور دیوداس ہی رہی۔ غصہ آنسو دکھ بس یہی سب کچھ اندر اندر چلتا رہا۔ کلاسز اسٹارٹ ہوئیں۔ یہ شاید دوسرا یا تیسرا دن تھا۔ ایک دن ایسے ہی کلاس نہیں تھی تو کامن روم میں جا بیٹھی۔ وہاں ایک ڈریسنگ ٹیبل تھی، اس پر ایک اسٹیکر لگا تھا جس پر کچھ لکھا تھا ۔۔ میں ایسے ہی قریب جا کر پڑھنے لگی۔۔ اس پر واصف علی واصف رحمۃ اللہ علیہ صاحب کا ایک بہت خوب صورت قول لکھا تھا. اس قول نے جیسے رضا کے احساس کو میرے دل میں اتار دیا ۔۔۔وہ یہ تھا جو کرتا ہے اللہ کرتا ہے اور اللہ جو کرتا ہے صحیح کرتا ہے.
اور اس پل جیسے ہر سوال کا جواب مل گیا، الحمدللہ رب العالمین. اللہ پاک کی بہت رحمت ہو حضرت واصف علی واصف رحمۃ اللہ علیہ پر اللھم آمین یا ارحم الراحمین.
اور پھر میں نے اپنے ڈیپارٹمنٹ میں پوزیشن لی الحمدللہ رب العالمین.
اور وقت نے ثابت کیا کہ یہ فیصلہ بہترین تھا.
علیزے: آپ کی زندگی کا اب تک کا سب سے بڑا سبق کیا ہے؟
ایشم: میری زندگی کا ابھی تک کا سب سے بڑا سبق ۔۔۔۔۔ اللہ سچا دوست ہے ۔۔۔۔ اور یہ کہ "اللہ ہے ناں ۔۔۔ کافی ہے"
الحمدللہ یہ وہ حقیقت ہے جو بارہا زندگی کے واقعات و آزمائشوں سے گزرتے میں نے سیکھی۔
علیزے: آپ کا تعلق شعبۂ نفسیات سے ہے، اس طرف آپ کا رجحان کیسے پیدا ہوا؟
ایشم: شعبہ نفسیات سے تعلق اللہ پاک نے بنوانا تھا۔ انٹر کے لیے آپشنل سبجیکٹس میں نفسیات رکھنے کی وجہ یہی تھی کہ میں لوگوں کے رویوں، ان کی نفسیات کو خود سمجھنا چاہتی تھی اور ان کی مدد بھی کرنا چاہتی تھی۔
علیزے: معاشرے کا ہر تیسرا انسان کسی نہ کسی طرح کی نفسیاتی پیچیدگی کا شکار ہے، بحیثیت ماہر نفسیات آپ کے نزدیک اس کی کیا وجوہات ہیں؟
ایشم: جی اس کی وجہ میرے نزدیک یہی ہے کہ ہمیں اپنے سچ اپنے اصل سے آگہی نہیں دی گئی۔ ہم جتنا اس زندگی اور دنیا کے سراب میں مبتلا ہیں اتنا ہی ابتلا کا شکار ہیں۔ اور یہ جھوٹ ہمیں اضطراب و انتشار کا شکار رکھتا ہے۔
علیزے: ہمارے معاشرے میں جذباتی صحت کے حوالے سے کتنی آگہی ہے؟ وہ کون سا sector ہے جس پر کام کرنے کی سخت ضرورت ہے؟
ایشم: جذباتی آگہی کی بے حد ضرورت ہے۔ ہمیں سب سے بڑا جھوٹ اپنے جذبوں سے بولنا سکھایا جاتا ہے۔ اور اس کی ابتدا سوکالڈ معاشرے کے پریشر سے نبرد آزما ہم اپنے والدین اور خاندان سے سیکھتے ہیں۔ ہمیں ایکٹ آوٹ کرنا سکھایا جاتا یے یا جذبات کی قطعی نفی سکھائی جاتی ہے، یہ جذبات کے ساتھ بہت زیادتی ہے۔ والدین پر کام کرنے کی بہت ضرورت ہے۔ اسی لیے میرے نزدیک pre-marital counseling بھی بے حد ضروری ہے۔
علیزے: نفسیاتی صحت کو بہتر بنانے کے بنیادی اصول کیا ہیں؟
ایشم: نفسیاتی صحت کو بہتر بنانے کے لیے خود سے سچا ہونا، اپنی اصل سے سچا ہونا، معتدل ہونا بہت ضروری ہے۔ مزید یہ کہ اپنی زندگی کے روحانی، نفسیاتی، معاشرتی، جسمانی، معاشی پہلووں پر مکمل ذمہ داری کے ساتھ کام کیا جائے۔ ہمارے نفسیاتی، اخلاقی، روحانی ہر طرح کے انحطاط کی وجہ یہی ہے کہ ہم اپنی ذمہ داری سے آشنا ہی نہیں یا غافل ہیں۔ اور پھر اس کو پورا نہ کرنے کے طرح طرح کے جواز تراشتے ہیں۔ بس اگر ہم اپنی اپنی ذمہ داری قبول کر لیں تو ہم انسان ہی نہیں یہ معاشرہ بھی سنور جائے گا.
علیزے: Feminism کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے، اس سے عورتوں کو فائدہ پہنچا یا نقصان؟
ایشم: ہممم feminism کی اصل حقیقت کو مسخ کر دیا گیا ہے تو اس سے عورت کو نقصان ہی پہنچا ہے ناں۔ اللہ پاک نے جو رولز مرد و عورت کے رکھے اس میں کوئی نقصان نہیں، بشرطے کہ خلوص کے ساتھ ان کو نبھایا جائے. ورنہ ایسے بھی مرد ہیں جو قوام کے نام پر کنٹرولرز بن کر ظالم ہو گئے ہیں اور ایسی بھی عورتیں جو رعیت کی بغاوت میں اپنی فطرت کے برخلاف چلتی اپنی دشمن ہو گئی ہیں۔ عموما [اس کے] پیچھے abuse ہوتا ہے جس کے ری ایکشن میں عورتیں فیمینزم کی شناخت و لوہا منوانے کو نکلتی ہیں۔ مگر پہلے اس abuse کی healing بھی تو ضروری ہے۔ grief recovery نہ ہونے کے سبب اکثر اوقات لوگ اپنے غصے کا سبب ہی نہیں جان پاتے۔ اور پھر کافی چیزیں فری فلوٹنگ ہو جاتی ہیں۔ اور پھر دیکھا دیکھی کچھ لوگ شدت پسندی بھی اختیار کر جاتے ہیں۔ ورنہ عورت کو جو حقوق دیے گئے ہیں اس ضمن میں اگر آپ خطبہ حجۃ الوداع ہی دیکھ لیں تو صاف مینشن ہے کہ تم پر ایک دوسرے کی جان مال عزت قابل حرمت.۔۔حرام ہے۔ یعنی کسی کو حق نہیں کہ کوئی ایک کسی دوسرے کی عزت کے ساتھ کسی بھی قسم کا verbal, sexual یا کوئی بھی ایبیوز کرے۔ یہ حرام ہے۔ اب عورتیں اپنی عزت کی حرمت کے لیے نکلیں تو بات سمجھ آتی ہے لیکن اگر وہ ایک مرد ہی بننا چاہیں اور مردوں سے مقابلہ بازی پر اتر آئیں تو پھر تو یہ معاشرے کے اعتدال و توازن کے خلاف ہے۔
علیزے: Female victim کی بات تو ہر کوئی کرتا ہے male victim کو لے کر ہمارے معاشرے میں کتنی بیداری ہے؟
ایشم: female victim کو لے کر ہمارے معاشرے میں پھر کہوں گی کہ بیداری بھی نہیں ہے اور اعتدال بھی نہیں ہے۔ ہمارے ہاں ایک عورت ہی دوسری عورت کو برا کہہ رہی ہوتی ہے۔ سوشل میڈیا نے جہاں آسانیاں پیدا کی ہیں وہیں پریشانیاں بھی بڑھا دیں ہیں۔ اگر کہیں عورت کسی مسئلے کا شکار ہوئی ہے تو اتنے چینلز پر اسے رگیدا جاتا ہے کہ لگتا ہے دو دن میں اسے انصاف مل جائے گا لیکن وہ صرف چینلز اپنی ریٹنگز بڑھا رہے ہوتے ہیں۔ کیس وہیں سالہا سال چلتے رہتے ہیں۔ بس نام نہاد حقوق کے نام پہ ایک تماشا برپا ہوتا ہے جو صرف عورت کا ہوتا ہے۔
علیزے: Toxic relationship بڑھنے کی کیا وجوہات ہیں ؟
ایشم: toxic relationship بڑھنے کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ ہم خود سے اپنی needs اپنی boundaries سے آگاہ نہیں تو ان سے سچے کیا ہوں گے۔ جب والدین کے ساتھ ٹاکسک رہلیشنشپ میں رہا گیا ہو تو باہر بھی انسان لاشعوری طور پر لامحالہ و لاشعوری پور پہ ایسے ہی تعلق چنتا ہے۔
علیزے: کیا مرد حضرات واقعی اپنی کامیاب بیویوں سے insecure ہوتے ہیں یا ان کو safety provide کرنے کے لیے ان پر boundation لگاتے ہیں اس بارے میں آپ کا کیا مشاہدہ رہا ہے؟
ایشم: الحمدللہ تجربہ تو یہ ہے کہ میرے ابو جی پھر میرے بھائی اور اب ماشاءاللہ میرے شوہر میرے لیے حقیقی سپورٹ رہے ہیں، انہی کی مدد کی وجہ سے میں بے فکر ہو کر اپنے کام میں یکسو رہی۔ نہ ہی ابو جی نے اور نہ ہی شوہر جی نے کبھی کوئی نا حق پابندی یا باونڈریز عائد کیں۔ ہاں مشاہدے کی بات کی جائے تو عموما مرد جب خود اندر سے اپنے آپ سے insecure ہوتا ہے تب عورت سے حسد یا موازنہ بازی میں مبتلا ہو کر اس پر پابندی عائد کر سکتا ہے، باقی یہ عورت کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ خود کو دیے جانے والے اعتماد و آزادی کا استحصال نہ کرے کہ یہ معاشرہ ایسا ہے کہ یہاں ایک مرد بھٹکے تو خمیازہ شاید کم بھگتنا پڑتا ہے مگر ایک عورت کے بھٹکنے کے ازالے نسلوں کو کرنے پڑتے ہیں۔
علیزے: ایک فرد کو نفسیاتی سطح پہ صحت مند بنائے رکھنے میں کیا خاندان کا بھی کردار ہوتا ہے اگر ہاں تو کتنا؟
ایشم: بے شک ایک خاندان کا بہت اہم کردار ہوتا ہے۔ وہ مجھے جون ایلیا صاحب کا ایک شعر یاد آ رہا ہے۔۔ شاید کچھ یوں ہے ۔۔
مجھے تو کوئی ٹوکتا بھی نہیں
یہی ہوتا ہے خاندان میں کیا
بچہ جب چھوٹا ہو تو وہ جذباتی طور پر خاندان پر انحصار کرتا ہے۔ اور اس کی یہ dependenc اس کے بڑے ہونے کے ساتھ ساتھ بڑی ہوتی جاتی ہے اور اگر یہ بیمار ہو تو سمجھ لیجیے انسان کی جذباتی بیماری بھی بڑی ہوتی جاتی ہے۔ جب بچہ بڑا ہو جاتا ہے اور معاشرے میں اپنا آپ دیکھتا ہے اور اگر وہ پرسنیلٹی ٹیمپرامنٹ سے حقیقت پسند ہو تو اپنی اصلاح کر سکتا ہے ورنہ وہ کنفیوز ہو جاتا ہے۔ ایک خاندان بچے کو غیر مشروط محبت دیتے اسے صحیح غلط کا فرق سکھاتا ہے لیکن اکثر خاندان ان باتوں کی حقیقت و اہمیت نہیں سمجھتے۔ اکثریت addictive رویوں یا باقاعدہ بیماریوں میں مبتلا ہیں اور جہاں addictiveness کی بہتات ہے وہاں ہر طرح کی تنزلی آ جاتی ہے۔
علیزے: لوگ زندگی میں اپنی خوشیوں کو بڑی بڑی کامیابیوں سے مشروط کر دیتے ہیں نتیجتاً وہ چھوٹی چھوٹی خوشیوں سے محظوظ نہیں ہوپاتے اور stress میں چلے جاتے ہیں اس بارے میں آپ کا کیا کہنا ہے؟
ایشم: جی جب لوگوں کے بچپن میں ٹاکسک شیم انڈیوس کی جائے تو بچہ اپنے سچ سے محروم ہو جاتا ہے۔ اسکا انر چائلڈ زخم خوردہ ہو جاتا ہے اسے سکھایا جاتا ہے وہ کیا ہے؟ کچھ نہیں۔ اگر اسے اپنا آپ اپروو کروانا ہے تو معاشرے کو ثابت کرنا ہو گا کہ وہ معاشرے کو کیسے خوش کر سکتا ہے یا اپنا آپ منوا سکتا ہے، پھر وہ اسی تگ و دو میں اپنا آپ رائیگاں کر بیٹھتا ہے اور مزید خلا کا شکار ہو جاتا ہے۔
علیزے: کہتے ہیں ماہر نفسیات کو انسانی رویوں کی پہچان ہوتی ہے، جب آپ کسی سے ملتی ہیں تو سامنے والے کی کون سی خوبی آپ کو متاثر کرتی ہے؟
ایشم: خلوص اور سادگی ۔۔ مجھے یہ دو چیزیں بہت اچھی لگتی ہیں۔
علیزے: ہمارے معاشرے میں ماہر نفسیات کا کیا کردار ہے؟
ایشم: بہت اہم کردار ہے، ہمارے معاشرے کو "ماہر" ماہر نفسیات کی بہت ضرورت ہے۔ خواہ وہ اسکول، کالجز، ہسپتال، جیلیں، ورک پلیس ہوں یا پولیس کابینہ اور دیگر ادارے ہوں۔
علیزے: اگر آپ کو آج اختیار ملے کسی بھی پروفیشن کے انتخاب کا تو آپ کون سا پروفیشن اختیار کریں گی؟
ایشم: نفسیات ہی کا انتخاب کروں گی. 
علیزے: آپ ماہر نفسیات ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہترین لکھاری بھی ہیں. آپ کی ‘اللہ محبت ہے` کا تیسرا ایڈیشن منظر عام پہ آ جکا ہے. اس کتاب کے بارے میں ہمارے قارئین کو مختصراً بتائیں. 
ایشم: الحمدللہ۔ کتاب اللہ محبت ہے لکھنے میں میرا کوئی ذاتی کمال نہیں۔ میں آج بھی اس کو پڑھوں تو حیرت سی ہوتی ہے یہ میں کیسے لکھ سکتی ہوں۔الحمدللہ یہ سراسر اللہ پاک کی عطا ہے جس نے توفیق دی کہ میں یہ لکھوں۔ اس میں نفس، صبر اللہ کی محبت کے حوالے سے وہ احساسات قلم بند کیے جن سے الحمدللہ میں زندگی کی آزمائشوں میں گزری۔
علیزے: ایک بہترین ماہر نفسیات سے اور قابل تعریف لکھاری بننے کے سفر کو آپ نے کمال خوبی سے طے کیا ہے. آپ کو اس مقام تک پہنچانے میں سب سے زیادہ کس کا رول رہا ہے؟
ایشم: ہمم الحمدللہ اللہ پاک کا ہی رول رہا ہے. یہ حقیقت ہے کہ میں کچھ نہیں، کچھ بھی نہیں، جو توفیق دی وہ میرے رب کی عطا کردہ رہی، میرا رب جو محبت ہے۔۔ بس یہ محبت ہی وہ کیمیا رہی جو اصل تاثیر پیدا کرتی گئی، الحمدللہ رب العالمین. 
علیزے: اللہ محبت ہے کی اپنی کتاب میں آپ نے بندے اور اللہ کے درمیان ربط قائم کرنے کے صحیح طریقوں پر کافی زور دیا ہے. اس کے پس منظر میں دیکھا جائے تو آپ بھی اللہ سے خاص تعلق رکھتی ہیں. میرا سوال یہ ہے کہ زندگی کے کس موڑ پر آپ نے خود کو اس طرف مائل ہوتا محسوس کیا؟
ایشم: اللہ پاک میری مغفرت فرمائے اور مجھے آپ کے گمان سے اچھا کر دیں، اللھم آمین. 
ہممم میرے ابو جی کے فوت ہونے کے بعد اللہ پاک نے جیسے اس درد میں مجھے اپنا آپ دکھایا۔ میرے ابو جی ہمیشہ کہتے تھے ۔ "اللہ وارث ہے بیٹی"
اللہ محبت ہے، اللہ حقیقت ہے، اور حقیقت ایک تلاش ہے، جو ازل سے ہم میں رکھ دی گئی ہے۔ اس تلاش کا راستہ سرابوں سے گزر کر، محبت سے طے ہوتا ہے۔ ہم جب اپنے ہی نفس و انا و خواہش کی گرد میں اٹ جاتے ہیں، تواللہ سے کیا، ہم خود سے بھی غافل ہو جاتے ہیں۔ اور حقیقت تو یہی ہے کہ جس نے ان حجابات سے پرے اپنے نفس کو پہچانا اس نے گویا خالقِ نفس کو پہچان لیا۔
علیزے: میں ہی کیا ہر کسی کو آپ کی گفتگو کے درمیان محسوس ہوتا ہے کہ آپ اپنی باتوں میں الحمدللہ کا فقرہ کثرت سے بولتی ہیں تو اس الحمدللہ تک کے روحانی سفر کی کیا روداد ہے مختصراً بتائیں؟
ایشم: ہممم الحمدللہ. حقیقت یہی تو ہے، سب تعریفیں اللہ پاک کے لیے ہیں، اب آپ یہ جو میرا انٹرویو لے رہی ہیں کیا یہ ممکن تھا کہ دنیا کے دو حصوں میں رہتے ہوئے ہم ایسے ملتے کہ نہ مل کر بھی روحانی تعلق اور انسیت محسوس ہو اور ہم یہ سب باتیں کریں۔ یہ اللہ پاک ہی تو کروا رہے ہیں ناں۔ اس روحانی سفر کی روداد بھی اللہ کی عطا سے شروع ہوتی ہے کہ جب ابو جی کا انتقال ہوا تو سکتے کی کیفیت سے ادراک ہوا کہ میرا تو کچھ میرا نہیں، اپنی مرضی سے اپنے اختیار سے اپنی پلک تک نہیں جھپک سکتی۔ ہل نہیں سکتی۔ رو نہیں سکتی۔ کس کا اختیار تھا، ہے اور رہے گا؟ میرے اللہ کا۔۔الحمدللہ رب العالمین. 
علیزے: اللہ محبت ہے کے بعد کیا آپ اپنی کوئی دوسری کتاب پبلش کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں؟ اگر ہاں تو وہ کس موضوع پہ ہوگی؟
ایشم: جی ان شاءاللہ ناول ۔۔محبت اک تلاش ازل سے ہے پر کام کرنے کی کوشش کر رہی ہوں۔۔ مزید ایک شاعری کی کتاب۔۔ اے چاند تمہیں معلوم ہے ناں۔  اس کا بھی ارادہ ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ابھی تو ماشاءاللہ مجھے اپنی یک سالہ بیٹی رحمہ ہی خاصا مشغول رکھتی ہیں۔ اللہ پاک انھیں سلامت شاد آباد رکھے، اللھم آمین یا ارحم الراحمین. 
علیزے: آپ شاعری کرتی ہیں اور شاعری میں محبت کو ہمیشہ سے ایک خاص مقام حاصل رہا ہے تو آپ کے نزدیک محبت کی تعریف کیا ہے؟
ایشم: محبت اس کائنات کی حقیقت ہے۔ یہی حقیقت اس کائنات کو خوب صورت، دلکش بناتی ہے. جینے کا جواز دیتی ہے۔ الحمدللہ کا راز دیتی ہے۔
علیزے: یوں تو ہر دور میں محبت کا نظریہ اپنے اپنے طور پہ نمو پاتا رہا ہے لیکن اکیسویں صدی کی ڈیجیٹل دنیا نے اس میں انقلاب برپا کردیا، میرا خیال ہے کہ محبت انسان کو اندر سے آسودہ حال بنا دیتی ہے لیکن موجودہ وقت میں لوگ محبت میں مبتلا ہو کے ناآسودگی اور بے سکونی کا شکوہ کرتے نظر آرہے ہیں ایسا کیوں؟
ایشم: ہممم جتنا جس کا ظرف ہوتا ہے وہ اتنی محبت اذیت یا حقیقت پا لیتا ہے۔
محبت تو مثل آئینہ ہے. اس میں ہر کوئی اپنی ہی حقیقت دریافت کرتا ہے، سو جب انسان کی نگاہ و قلب بینا پر انا کی پرت یا غبار آ جائے تو عکس دھندلا جاتا ہے، لوگ آئینے کو ہی خود [؟] کے لگے تو کیسی ستم ظریفی ہے ناں۔۔ پھر ایسے لوگ خود کو خود ہی خیر سے یعنی محبت سے محروم کر بیٹھتے ہیں۔
علیزے: کہتے ہیں مجازی محبت حقیقی محبت کا زینہ ہے، اس بارے میں آپ کا کیا نظریہ ہے؟
ایشم: جی بالکل ہے ۔۔ استعارہ دیکھا جائے تو قرآن پاک کی آیت سے بھی یہ ثابت ہے کہ تم رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کرو اللہ پاک تم سے محبت کریں گے۔۔ حالانکہ میرے نزدیک نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت مجازی نہیں حقیقی ہی ہے۔ مجاز کو ہم نے جسم میں قید کر دیا، حصول کی چاہ میں بضد کر دیا، یہ غلط ہے۔ جب کہ محبت جسم کی قید سے ماورا ہے. یہ تو آپ کی انا سے آزادی کی کنجی، آپ کی روحانی و اخلاقی خیر لاتی ہے۔ آپ کو رب سے رجوع کا بہانہ بن کر آتی ہے، آپ میں عجز و انکساری، سچ پیدا کرتی ہے۔ قربانی دلواتی ہے، قرب دلاتی ہے۔
علیزے: آپ کے نزدیک کیا محبت کا اپنا کوئی معیار ہوتا ہے یا یہ کسی سے بھی ہو سکتی ہے؟
ایشم: محبت تو عطا ہے. یہ تو اللہ پاک جس دل پر اپنا کرم کرنا چاہے اس کو یہ عطا کر دیتے ہیں۔ تو ہاں کسی سے بھی ہو سکتی ہے۔ اس پر کیسی حد بندی۔۔ ہاں مگر میں محبت کی بات کر رہی ہوں۔۔
محبت قابل کو عطا نہیں ہوتی۔ محبت آپ کو قابل بنا دیتی ہے۔
علیزے: قدرتی حسن سے آپ کو کس حد تک لگاؤ ہے؟
ایشم: الحمدللہ بہت زیادہ۔۔ میری روح تازہ دم ہو جاتی ہے۔
علیزے: علمِ نفسیات کی ترقی نے اسے روحانیت کے پہلو میں لا کھڑا کردیا ہے اور اکثر لوگ اسے روحانیت کی سیڑھی کہتے ہیں، آپ کے خیال میں ان کے مابین کس درجے کی مماثلت ہے؟
ایشم: جی بالکل مماثلت ہے. ۔ کیونکہ نفسیات کی حقیقت نفس ہے. ۔ اور روح و نفس کو جدا جدا کہاں کیا جا سکتا ہے. کم از کم اس دنیا میں زندگی ہوتے تو نہیں۔ نفس کی بالیدگی و پختگی ایک اچھی روح کی بشارت و ضمانت ہے۔
علیزے: ایک ماہر نفسیات کے نفسیاتی پیچیدگی میں الجھنے کے کتنے فی صد جانسز ہوتے ہیں یا پھر نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں آپ کا اس بارے میں کیا تجربہ و مشاہدہ رہا ہے؟
ایشم: جی بالکل چانسز ہیں۔ وہ بھی انسان ہوتے ہیں۔ لیکن ہاں ان کے سپروائزرز کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ ٹریننگ میں ان سب پہلووں پر تسلی بخش کام کیا جائے ورنہ مریضوں کے لیے آسانی کی بجائے پریشانی ہو جاتی ہے۔
علیزے: دل کی کوئی ایسی بات جو آپ لوگوں تک پہنچانا چاہتی ہیں؟
ایشم: زندگی مختصر ہے سچ اور خلوص سے جئیں۔ اس میں آسانی ہے خوشی ہے سکون ہے۔

انٹرویونگار کا تعارف:
علیزےنجف کا تعلق سرائے میر اعظم گڈھ اتر پردیش سے ہے. یہ ایک شاعرہ، لکھاری، انٹرویو نگار اور کالمسٹ ہیں. یوں تو کئی اخباروں میں مثلا قومی صحافت ، سری نگر جنگ ، روزنامہ انکشاف ، ہمارا سماج وغیرہ میں ان کے کالم شائع ہوئے ہیں لیکن روزنامہ انقلاب میں مستقل کالمسٹ کی حیثیت سے یہ تاحال لکھتی رہی ہیں. ان کے ادبی مضامین، غزلیں ان کے ذریعے لیے گئے انٹرویوز کئی مؤقر جرائد و رسائل اور ویب پورٹل میں شائع ہو چکے ہیں اور یہ سلسلہ ابھی جاری و ساری ہے. کتب بینی، تجزیہ نگاری اور انسانی نفسیات اور مذہب سے ان کا خاصا لگاؤ ہے۔
علیزے نجف کی گذشتہ گفتگو بھی پڑھیں: ہم بچوں کے مالک نہیں بلکہ بچے ہمارے پاس امانت ہیں: مریم زیبا

شیئر کیجیے

One thought on “جذباتی آگہی کی بے حد ضرورت ہے: حیا ایشم

  1. السلام علیکم ۔۔۔
    بلا شبہ، آپ نے ایک مشکل ذمہ داری میرے سپرد کی ہے۔ اللہ رحمٰن و رحیم کا نام لے کر میں شروع کرتا ہوں۔ اللہ تعالی مجھے، آپ کی نظر میں ایک اطمینان بخش تحریر لکھنے کی سعادت عنایت فرمائے۔ آمین!
    خیر کی دعاؤں اور امید کے ساتھ، والسلام
    عبدالرحمٰن👇
    (نوٹ : یہ انٹرویو جناب عبدالرحمن (سابق چیف مینیجر الہ آباد بینک) کو اشتراک کی جانب سے خصوصی تبصرے کے لیے ارسال کیا گیا تھا.)

    انٹرویو جن الفاظ پر ختم ہوتا ہے وہ مجھے بہت پسند ہیں۔ ” زندگی مختصر ہے سچ اور خلوص سے جئیں۔ اس میں آسانی ہے، خوشی ہے، سکون ہے۔” کسی کی طرف سے، خصوصی طور پر ایک ماہر نفسیات کی طرف سے یہ ایک با معنی پیغام ہے۔
    ہم سبھی کو اس سے علمی استفادہ کرتے ہوئے، عمل میں بھی لانے کی کوشش کرنی چاہیے۔

    علیزے اور ایشم کی گفتگو زندگی کے متعدد پہلوؤں کا احاطہ کرتی ہے، مگر میں اپنی بات کو گفتگو کے عنوان تک ہی محدود رکھنا چاہتا ہوں۔
    موجودہ دور کے پس منظر میں جس کا انتخاب کیا گیا ہے، واقعی ایک بے حد اچھا موضوع ہے کہ "جذباتی آگہی کی بے حد ضرورت ہے۔”

    انسان کو اللہ تعالی نے بہترین تقویم پر پیدا کیا ہے، اور اسی تقاضے کے تحت اس کی زندگی بھی ہمہ جہتی (multi dimensional) ہے۔ ان میں جذبات (emotions) ایک بنیادی جہت ہیں۔ اِموشن کے سہی تناسب کے ساتھ انسانی کلام، بلا شبہ، ایک بلند مقام حاصل کر لیتا ہے۔

    محترمہ ایشم نے نہ صرف نفسیات (psychology) میں اعلی تعلیم حاصل کی ہے، بلکہ شروع سے ہی ان کا رجحان (aptitude) بھی اسی میدان میں رہا ہے۔ جب کسی شخص کی زندگی میں علم اور ذوق، دونوں خصوصیات کا برابر مقدار میں اختلاط ہوجاتا ہے، تب یہ امید بڑھ جاتی ہے کہ ایک بہترین ‘ماہر نفسیات’ وجود پذیر ہو سکتا ہے۔
    میڈم ایشم کے ساتھ گفتگو کے سفر سے بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ وہ ماشاء اللہ، ایک کام یاب ماہر نفسیات ہیں۔ اللہ تعالی ان کو مزید ترقیاں عنایت فرمائے۔ ان کا اس طرح سوچنا کہ ‘اللہ سچا دوست ہے’ ، ‘اللہ ہے نا’ اور ‘اللہ کافی ہے’، ان کی شخصیت کو مزید مستحکم کرتا ہے۔

    معاشرہ میں نفسیاتی پیچیدگیوں کے تعلق سے محترمہ علیزے کے ذریعے پوچھے گئے سوال کے جواب میں محترمہ ایشم کا یہ جواب لا جواب ہے کہ ” ہمیں اپنے سچ، اپنے اصل سے آگاہی نہیں دی گئی”۔
    اس معاملہ میں جھوٹ کی کیفیت ہمیں اضطراب و انتشار کا شکار رکھتی ہے، حالات کا سہی تجزیہ ہے۔
    میڈم علیزے کے اس سوال کے جواب میں کہ "نفسیاتی صحت کو بہتر بنانے کے بنیادی اصول کیا ہیں” ، میڈم ایشم نے ذیلی سطور میں درج ایک اچھا جواب مرحمت فرمایا ہے :
    ” نفسیاتی صحت کو بہتر بنانے کے لیے خود سے سچا ہونا، اپنی اصل سے سچا ہونا، معتدل ہونا بہت ضروری ہے۔ مزید یہ کہ اپنی زندگی کے روحانی، نفسیاتی، معاشرتی، جسمانی، معاشی پہلووں پر مکمل ذمہ داری کے ساتھ کام کیا جائے۔ ہمارے نفسیاتی، اخلاقی، روحانی ہر طرح کے انحطاط کی وجہ یہی ہے کہ ہم اپنی ذمہ داری سے آشنا ہی نہیں یا غافل ہیں۔ اور پھر اس کو پورا نہ کرنے کے طرح طرح کے جواز تراشتے ہیں۔ بس اگر ہم اپنی اپنی ذمہ داری قبول کر لیں تو ہم انسان ہی نہیں یہ معاشرہ بھی سنور جائے گا.”

    ہمارے معاشرے میں جذباتی صحت کے حوالے سے موجود آگہی کے متعلق بھی اچھا جواب دیا گیا ہے:
    ” جذباتی آگہی کی بے حد ضرورت ہے۔ ہمیں سب سے بڑا جھوٹ اپنے جذبوں سے بولنا سکھایا جاتا ہے۔ اور اس کی ابتدا سوکالڈ معاشرے کے پریشر سے نبرد آزما ہم اپنے والدین اور خاندان سے سیکھتے ہیں۔ ہمیں ایکٹ آوٹ کرنا سکھایا جاتا یے یا جذبات کی قطعی نفی سکھائی جاتی ہے، یہ جذبات کے ساتھ بہت زیادتی ہے۔ والدین پر کام کرنے کی بہت ضرورت ہے۔ اسی لیے میرے نزدیک pre-marital counseling بھی بے حد ضروری ہے”۔

    یہ جملہ کہ "والدین پر کام کرنے کی بہت ضرورت ہے” مجھے بے حد پسند ہے، کیوں کہ ہمارے بچپن اور لڑکپن میں تشکیل پا رہی نفسیات کی مستقبل میں ظہور پذیر ہونے والی کیفیت اور صحت کا دارومدار والدین کے ذریعے کی گئی پرورش اور تربیت پر ہوتا ہے۔ اس تناظر میں، جذباتی آگہی اور جذباتی صحت کے موضوع پر ابھی مزید گفتگو کی ضرورت تھی۔ اس مقام پر اور نفسیات کے اس اہم پہلو پر سوالات کا سلسلہ منقطع کردینا، گویا عجلت سے کام لینا ہے۔ جذبات کی نفسیات کو مزید گہرائی سے مزید سوالات کے ذریعے سمجھنے کی مزید کوشش زیر نظر حسین گفتگو کو حسین ترین بنا سکتی تھی۔

    معاشرہ کے افراد کا کچھ زیادہ ہی جذباتی ہونا اور ان کا مختلف جذبات کے مابین سہی امتیاز نہ کر پانا دورِ حاضر کا ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ کسی علمی و فکری سوجھ بوجھ کے بغیر اپنی پسند/ ناپسند یا اپنے/ پرائے کی پہچان ہی جذبات بن کر رہ گئی ہیں، جب کہ جذبات کسی کے مدارج و مراتب کو مکمل طور پر پہچاننے کا حسن ہیں۔ اپنی ان پڑھ ماں یا باپ سے جب ان کا پڑھا لکھا بیٹا کسی مسئلہ پر بات کرے گا، تب ماں باپ کی علمی سطح اس کے پیش نظر نہیں ہوگی، بلکہ ان کے مدارج و مراتب اس کے جذبات کا رخ متعین کریں گے۔ اسی طرح، ہر چھوٹی بڑی شخصیات کے مابین عقل و شعور کے ساتھ جذبات کا اظہار معاشرہ کو ہمیشہ صحت مند بنانے رکھ سکتا ہے۔ مگر موجودہ حالات تو اس کے بلکل برعکس نظر آتے ہیں۔ پھر اس کا حل کیا ہے؟

    علم نفسیات کی روشنی میں، اس کا جامع حل ہے بچوں کی خاص طور پر، سات سال تک کی عمر کے دوران جامع پرورش!
    آخر یہ جامع پرورش کیا ہے، اس کو سمجھنے کی کوشش کی جانی چاہیے۔
    آج کے علمی اور سائنسی دور میں بھی مسلمانوں کے بیشتر پریواروں میں دیکھا جاسکتا ہے کہ چھوٹے بچے اپنے والدین کا "کھلونا” بن کر رہ گئے ہیں۔ یہ صورت حال درست نہیں، کیوں کہ بچے کھلونا نہیں بلکہ ذمہ داری ہوتے ہیں۔ دینی ہدایات یا دنیاوی معلومات، کسی بھی زاویہ سے بچوں کی بہترین پرورش اور تعلیم و تربیت کا بندوبست ہونا ہی چاہیے، نہ کہ ان کو اپنی تفریح کا سامان بنایا جائے۔ اس لیے بچوں کی پرورش کے لیے والدین کی تربیت بھی ضروری ہوجاتی ہے۔ اس پس منظر میں، اگر معاشرہ متوقع اور نو مولود والدین کے لیے کوئی تربیتی کورس وضح کردے تو یہ سہی سمت میں اٹھایا گیا ایک سہی قدم ہوگا۔

    ماں باپ بننے کی جو فطری خوشی کسی انسان کو حاصل ہوتی ہے، دراصل وہی خوشی، اصلی خوشی ہے۔ پوری بات کو اس نظر سے دیکھنا چاہیے:
    بچہ کی پیدائش، آپ کی خوشی؛
    بچہ کی پرورش، آپ کا فرض۔
    اس تناظر میں والدین کی تربیت یہ ہے کہ وہ سنجیدگی کے ساتھ سمجھیں کہ ان کا معصوم بچہ جو ابھی بول بھی نہیں سکتا، وہ اپنی ماں، باپ اور گھر کے دوسرے افراد کے جملہ اقوال و افعال کو ریکارڈ کررہا ہوتا ہے، جس کی بنیاد پر وہ اپنی بعد کی زندگی کو تشکیل دینے والا ہے۔ خاص طورپر ماں کو اور ساتھ ہی باپ کو بھی وہ اپنا "آئڈیل” تصور کرنے لگتا ہے اور اسی بنیاد پر وہ ان کی ہر سہی/ غلط بات کو سہی تسلیم کرتا ہے۔ اس لیے والدین کے لیے فرض کے درجہ میں ضروری ہوجاتاہے کہ وہ طے کریں کہ وہ اپنے بچے کو کیا دیکھنا یا کیا بنانا چاہتے ہیں۔ پیش سے پیشتر، اپنے نونہال کی ولادت کی خوشی میں، وہ جھوٹ، مکاری، خیانت اور وعدہ خلافی جیسی برائیوں سے توبہ کرلیں۔ سب سے پہلے بچہ کی اخلاقیات کو درست کرنے کے لیے عملی طور پر خود کو با اخلاق بنالیں۔ گھر میں اور باہر رشتوں کے مدارج و مراتب کا ادراک بچے کو اس کے والدین عملی نمونہ کے طور پر پیش کریں، تاکہ بچہ کے جذبات اول دن سے سہی سمت میں پرورش پائیں۔

    واضح ہوجاتا ہے کہ بچہ کی پرورش اور تعلیم و تربیت کی ذمہ داری بھی، اس کی ولادت کی خوشی سے کم نہیں ہے۔ بخوبی اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے کے بعد ہی آپ بھی اپنے پروردگار سے ‘افزائشِ نسلِ آدم’ کی ربانی اسکیم کی کام یابی کا کوئی تمغہ حاصل کرسکتے ہیں۔
    ٭ عبدالرحمٰن

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے