ماں

ماں

مسعود بیگ تشنہ

ماں توٗ کبھی حالتِ امن بھی رہی ہے!
کبھی نہیں نا!!
چھاتی کے دودھ سے گائے کے دودھ تک
تیرا ہی خون پانی ہوا نا!
تیری نیندیں پرائی اور خواب بے خواب
تیری بھوک، تیرا وقت صحرا میں سراب
پیٹ سے پیٹھ تک بچوں کا بوجھ
کھلونوں سے کتابوں تک لمبا سفر

جب کہیں کوئی جنگ چھڑتی ہے
تیرے گھر، تیرے شہر کے پاس یا کسی ملک میں
تو تجھے حالتِ جنگ میں ہونے کا احساس
کیوں مار ڈالتا ہے؟
توٗ جسے اپنے لیے
حالتِ امن سمجھتی رہی
وہ بھی حالتِ جنگ ہی تھی نا!

ہاں، یہی سچ ہے
ماں تو سدا حالتِ جنگ میں رہتی ہے
ماں تجھے سلام!

(8 مئی 2022 ،اِندور، انڈیا)
صاحب نظم کی گذشتہ تخلیق : رمضان مبارک

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے