واجدہ تبسم

واجدہ تبسم

ڈاکٹر محمد اطہر مسعود خاں
غوث منزل،تالاب ملا ارم
رام پور یو پی،انڈیا
موبائل نمبر:91 9719316703

واجدہ تبسم کو میں نے بہت پہلے پڑھا تھا، جب ان کے افسانے بڑے اہتمام کے ساتھ ’بیسویں صدی‘ اور ’شمع‘ میں شائع ہوتے تھے لیکن کبھی باقاعدہ مطالعہ کا موقع نہ ملا تھا۔ اب مسرور صغریٰ کی کتاب ’واجدہ تبسم:اذکار و افکار‘ کا مطالعہ کیا اور ان کے تھیسس سے متعلق سناپسس کو پڑھا تو ذوق و شوق سے رضا لائبریری میں واجدہ تبسم کے افسانوی مجموعوں کی تلاش کی اور ان کے کئی خوب صورت افسانے پڑھے۔ ان کے افسانوں کا پہلا تاثر جو ذہن میں پہلے سے تھا وہ یہ تھا کہ ان کے افسانے جنس پر مبنی ہیں اور ان میں لذتیت موجود ہے۔
یہ درست ہے کہ ان کے افسانوں میں جنس بھی ہے اور لذتیت بھی لیکن لذت کا عنصر اسلوب کا حصہ ہے جو پلاٹ کو آگے بڑھانے میں مدد دیتا ہے تو قاری کو مطالعے کی طرف نہ صرف راغب کرتا ہے بلکہ اس کا انہماک بھی برقرار رکھتا ہے۔ واجدہ تبسم کے افسانے ایک درد مند دل کی آواز ہیں۔ ہر افسانے کے اختتام پر یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس کو سرسری پلاٹ کے ساتھ چلتے پھرتے نہیں لکھا ہے بلکہ ایک خوب صورت خاکے اور پلاٹ کے ساتھ تحریر کیا گیا ہے۔ انسانی قدروں کی عظمت، زبان کی سچائی، ایفائے وعدہ پر جان دینے کی سعی، محبت پر نثار ہونے کا جذبہ، ان کے کئی افسانوں کے موضوعات ہیں۔
ان کے کئی افسانے بے شک دل میں گدگدی، خیالات میں خلجان اور جذبات میں ہیجان پیدا کرتے ہیں لیکن ایسے افسانوں میں بھی سماج کے لیے ایک پیغام ہے اور سماج نے عورت کو جس طرح پیش کیا ہے یا اس کے ساتھ کیسا رویہ اختیار کیا ہے اس کا بے باکانہ اظہار ہے۔ مجھے ذاتی طور پر واجدہ تبسم کے افسانوں میں جو چیز سب سے اچھی لگی ہے وہ ان کے افسانوں کے غیر متوقع اور تجسس سے بھر پور کلائمکس ہیں۔ ان کے بیشتر افسانوں کا انجام درد کی ایک کسک ضرور چھوڑ جاتا ہے۔
کہیں نہ کہیں یہ احساس بھی ضرور پیدا ہوتا ہے کہ واجدہ تبسم نے جس ماحول اور معاشرہ کو دیکھا اور پرکھا اس کی سچی تصویر پیش کر دی۔ اگرچہ زیب داستان کے لیے افسانہ نگار کو کبھی زبان و بیان، کبھی اسلوب نگارش، کبھی پلاٹ اور موضوع اور کبھی کرداروں کے حوالے سے یا ان کے ذریعے سے تحریر کو اس انداز میں پیش کرنا پڑتا ہے کہ قاری اس تحریر میں کھو جاتا ہے اور افسانہ کو ختم کیے بغیر نہیں رہتا اوروہ اس افسانہ کو ختم بھی اس شوق کے ساتھ کرتا ہے کہ جلدہی دوسرے افسانہ کا مطالعہ شروع کرے۔ واجدہ تبسم کے افسانوں کا قاری نظام رام پوری کے ایک شعر کی طرح بندھ جاتا ہے:
انگلیاں اس کی میرے ہاتھ میں ہیں جام کے ساتھ
ہاتھ چھوڑے نہ بنے جام گرائے نہ بنے
صاحب تحریر کی گذشتہ نگارش: روہیل کھنڈ اردو لغت: ایک جائزہ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے