ہم بچوں کے مالک نہیں بلکہ بچے ہمارے پاس امانت ہیں: مریم زیبا

ہم بچوں کے مالک نہیں بلکہ بچے ہمارے پاس امانت ہیں: مریم زیبا

عصری و مذہبی قدروں سے ہم آہنگ شخصیت ڈاکٹر مریم زیبا سے علیزے نجف کی ایک خصوصی گفتگو۔

انسانی زندگی کے بےشمار تقاضے ہیں اور ساتھ [ہی] اصول و ضوابط بھی ہیں. ان میں سے ایک یہ ہے کہ انسان احتساب خویش کے ساتھ زندگی گزارے اور اپنے احساسات و جذبات کو معتدل بنائے رکھنے کا سلیقہ سیکھے. یہ صفات مذہب کے اصولوں اور فطری قوانین کی پیروی کر کے ہی حاصل کی جا سکتی ہیں. انسان اپنے رویے و عمل کے ذریعے ہی اپنی شخصیت کو دوسروں پر آشکار کرتا ہے۔ ہر انسان منفرد صلاحیت کے ساتھ دنیا میں آتا ہے. ہر انسان کی تخلیق ایک مقصد کے تحت ہوئی ہے. اب انسان پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس انفرادیت کی نشوونما کرتے ہوئے خود کو نوع انسانی کے لیے مفید ثابت کرے اور اپنا مقصدِ تخلیق پورا کرے. یہ ایک ایسا سفر ہے جو لامحدود سالہا سال پہ محیط ہوتا ہے. بلاشبہ چند معدودے لوگ ہی اس پیچیدہ سفر کی صعوبتوں سے گذر کر اور اس بھٹی کی تپش کو گوارا کر کے کندن بننے کا شرف حاصل کرتے ہیں. وہ اس حدیث کی عملی تفسیر ہوتے ہیں: اطلبوا العلم من المھد الی اللحد گود سے گور تک علم حاصل کرو. یہ طلب علم کا سفر روایتی اور غیر روایتی دونوں ہی طرز سے ہمیشہ جاری و ساری رہتا ہے. ہمارے درمیان کچھ ایسے لوگ ہوتے ہیں جو ان خصوصیات سے متصف ہوتے ہیں. ایک ایسی ہی شخصیت سے آج میں محو گفتگو ہوں جن کی اب تک کی پوری زندگی تعلیم و تعلم میں گذری ہے. اس شخصیت کو لوگ ڈاکٹر مریم زیبا کے نام سے جانتے ہیں. ان کا علم عصر و مذہب کے ساتھ آفاقیت کے مدار میں سرگرداں ہے. ان کی شخصی زندگی ایک متوازن پیرایے میں ڈھلی نظر آتی ہے. ان کا زندگی کے تئیں کیا نظریہ ہے اور ان کے تجربات و مشاہدات کی حد کیا ہے اور ان کی ذات کے کتنے تعمیر کن پہلو ہیں آئیے ان سے بات کر کے جاننے کی کوشش کرتے ہیں. علیزےنجف!

علیزےنجف: آپ کی نظر میں مریم زیبا کون ہیں؟ اور ان کی زندگی کے اہداف کیا ہیں؟
مریم زیبا: میں پاکستان کے شمالی علاقہ جات سے تعلق رکھتی ہوں۔ تین بچوں کی ماں، دین کی ایک طالب علم اور پیشہ کے لحاظ سے میڈیکل ڈاکٹر ہوں۔ مجھے نفسیات، تعلیم و تربیت سے خصوصی دل چسپی ہے اور ان موضوعات پر لکھتی ہوں۔
ایک مسلمان ماں، بیٹی، بیوی، اور بہن کی حیثیت سے فرائض اللہ نے مقرر کیے ہیں، ان کے بارے میں جاننا، سمجھنا اور پورا کرنے کی کوشش کرنا میرا ہدف ہے۔
علیزےنجف: تعلیمی لیاقت بوقت موجود کیا ہے؟ تعلیمی مراحل میں کن کن نکات کو اہم جانا؟ طلبا کے لیے کوئی مشورہ؟
مریم زیبا: میں نے فاطمہ جناح میڈیکل کالج لاہور سے میڈیکل کی تعلیم حاصل کی اور ریڈیالوجی میں پوسٹ گریجویشن کا کچھ حصہ سعودی عرب سے کیا۔ ڈاکٹر بلال فلپس کی اسلامی آن لائن یونی ورسٹی سے اسلامیات میں بی اے کررہی ہوں۔
میرے خیال میں ہماری طرف تعلیم اور تربیت میں ایک خلیج ہے۔ ہم تعلیم کا ایک محدود نظریہ رکھتے ہیں اور اس کے آفاقی مطلب، افادیت اور طاقت کے بارے میں کم آگاہی رکھتے۔
اس خلیج کو پاٹنے کی ضرورت ہے۔ تعلیم کو صرف ڈگری کا حصول یا ذریعہ معاش سمجھنا درست نہیں۔ اس کے اصل معانی اور مقاصد سے آگاہ ہونا ضروری ہے۔ طلبا کو چاہیے کہ وہ جو قدم اٹھا رہے ہوں اس کے مقصد اور وجوہات کے بارے میں شعوری طور پر آگاہ رہنے کی کوشش کریں۔ بھیڑ چال کے بجائے سوچ سمجھ کر علم و تحقیق کے ساتھ اپنے محدود اختیار کا استعمال کریں۔
علیزےنجف: آپ میڈیکل کے شعبے سے تعلق رکھتی ہیں پھر ریڈیالوجی کی طرف راغب ہوئیں، ان دونوں شعبوں میں کام کے دوران کوئی ایسا تجربہ یا واقعہ جن کے نقوش آج بھی آپ کے ذہن میں تازہ ہیں، کیا ہمارے قارئین کے ساتھ اسے شیئر کرنا چاہیں گی؟
مریم زیبا: میرے خیال میں زندگی کا ہر مرحلہ مختلف اسباق اور انکشافات سے بھرا ہوتا ہے۔ یہ ہمارے محسوس کرنے کی کیفیت پر منحصر ہوتا ہے کہ کون سا واقعہ کہاں اور کیسے یادگار بن جائے۔ ابھی فی الحال مجھے کوئی خاص واقعہ یاد نہیں۔
علیزےنجف: آپ نے زندگی کی اب تک بےشمار بہاریں دیکھی ہیں. زندگی کے اس عملی سفر کے دوران آپ نے زندگی کو کیسا پایا اور وہ کیا خاص عناصر ہیں جو مثبت زندگی کی تعمیر کے لیے ازحد ضروری ہیں؟
مریم زیبا: الحمد اللہ۔ مجھے لگتا ہے کہ مختلف مراحل میں آپ کی مختلف ترجیحات ہوتی ہیں اور اسی لحاظ سے مختلف عناصر اہم ہوتے ہیں۔
ایک اہم چیز جو مجھے لگتی ہے وہ یہ کہ ہم خود کس قدر اپنی اصل ترجیحات کو جانتے ہیں۔ اور کس حد تک کھرے انداز میں اس کے حصول کے لیے کوشش کرتے ہیں۔
ہم اس عارضی دنیا میں فلاح حاصل کرنے آئے ہیں اور اپنے اس مقصد کو سامنے رکھنا ضروری ہے۔ مگر انسان ہونے کے ناطے ہم غفلت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اس سے بچنے کے لیے ہمیں تعلیم و تعلم میں خود کو مصروف رکھنا اور صالح صحبت رکھنا نہایت ضروری ہے۔ اللہ ہم سب کو آخری سانس تک صراط مستقیم پر استقامت عطا فرمائے۔
علیزےنجف: آپ کی شخصیت عصری تہذیب کے ساتھ مذہبی تعلیمات سے بھی ہم آہنگ ہے جو کہ قابل قدر ہے. آپ کی اس متوازن شخصیت کی تربیت میں سب سے زیادہ کس کا رول رہا ہے؟
مریم زیبا: جزاک اللہ خیر آپ کے حسن گمان کا۔ ورنہ حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا۔ دینی تعلیم کو مقدم ہونا چاہیے۔
میرے والدین کا رجحان مذہب کی طرف تھا۔ الحمداللہ انھوں نے بچپن سے نماز، قرآن مجید اور سیرت نبوی سے تعلق کو مضبوط بنانے میں محنت کی۔ رب ارحمهما کما ربیانی صغیرا
علیزےنجف: ایک بچے کی تربیت کے لیے کس طرح کے خاص ماحول کی ضرورت ہوتی ہے اور اس کو فراہم کرنے کے لیے ماں باپ کو کن پہلوؤں کو کبھی بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے؟
مریم زیبا: میرا یہ خیال ہے کہ ہر بچے کے لیے اس کا میسر ماحول اللہ کی طرف سے حکمت کے ساتھ طے کیا گیا ہوتا ہے۔ والدین اور قریبی احباب اگر تعمیری و مثبت نقطہ نظر رکھتے ہوں اور اسی میں زیادہ وقت لگاتے ہوں تو یہ تربیت کے لیے سب سے اہم ہے۔
والدین کا بچوں کی زندگی میں بامعنی انداز میں موجود ہونا، ساتھ وقت گزارنا، اپنی اور بچوں کی دینی تعلیم و تعلم میں ترجیحی بنیادوں پر مصروف رہنا ضروری ہے۔ والدین کے اندر ایک شکرگزاری کا رویہ ہونا میرے نزدیک اہم ہے، اس سے بچوں میں نارسائیاں اور حسرتیں کم سے کم ہوسکتی ہیں۔
ہم بچوں کے مالک نہیں بلکہ بچے ہمارے پاس امانت ہیں اور کل اللہ کو اس کا حساب دینا ہے۔ یہ احساس جواب دہی ہمیں صراط مستقیم پر رکھنے کے لیے ضروری ہے۔
علیزےنجف: آپ کی زندگی کا وہ سبق کیا ہے جو آپ نے زندگی گذار کر سیکھا، جو آپ کی کامیابی کی راہ میں ایک mantra کی حیثیت رکھتا ہے؟
مریم زیبا: اللہ کو اور اپنی حقیقت کو نا بھولو
اور
یہ مال و دولت و دنیا یہ رشتہ و پیوند
بتان وہم وگماں لاالہ الا اللہ
علیزےنجف: ایک عورت اپنی زندگی میں بہت سے رشتوں کا کردار ادا کرتی ہے جو کہ سارے ہی اہم ہیں لیکن بحیثیت ایک بیوی اور ماں کے اس کی ذمہ داریاں کافی اہم ہوتی ہیں اور یہ دونوں رشتے خاندانی منصوبہ بندی میں ایک اہم بنیادی کردار ادا کرتے ہیں. موجودہ وقت میں یہ دونوں رشتے ہی خلفشار کا شکار نظر آتے ہیں. آپ کے نزدیک اس کی کیا خاص وجہ ہے اور اس کو بہتر بنانے کے لیے کن عوامل کو دھیان میں رکھنا ضروری ہے؟
مریم زیبا: یہ سب رشتے نہایت اہم ہیں اور ان کی آبیاری کرنا، ان پر تعمیری انداز میں محنت کرنا دراصل نسلوں کی آبیاری ہے۔
آپ اپنے بلند تر مقصد سے جڑے ہوئے ہوں، اور اپنے خالق و مالک کے ساتھ بندگی کے تقاضے پورے کررہے ہوں تو یہ رشتے بھی متوازن رہتے ہیں۔ اور اگر آپ اصل سے ہٹ جائیں، آپ کا اپنے اور اس دنیا کے بارے میں نقطہ نظر آفاقی مقاصد سے ہم آہنگ نہ ہو تو پھر بگاڑ اور عدم توازن بڑھ جاتا ہے۔
اکثر خاندانی نظام کی بقا کو ہم خاندان کے بزرگوں یا قوام کی غیر مشروط اطاعت/ بندگی کے ساتھ جوڑتے ہیں۔ میرے خیال میں یہ صرف اللہ کی غیر مشروط بندگی کے ذریعے ممکن ہے۔ اللہ نے سماجی مرتبے اور مناصب ہمیں آزمانے کے لیے بنائے، یہ تقسیم معاملات کے ہموار طریقے سے چلانے کے لیے مقرر کیے گیے۔ اس کو قبول کرنا ضروری ہے. مگر ان کو استحصال کے لیے استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ ہماری طرف دین کا نام لے کر یہ کام کیا جاتا ہے جس سے لوگ دین سے برگشتہ ہوجاتے ہیں۔ گویا اصل مقاصد کا ادراک کرنا اور ان کو نظر کے سامنے رکھنا سب سے اہم ہے۔
علیزےنجف: آپ کی تعلیم و تربیت ایک مذہبی گھرانے میں ہوئی ہے. آپ کے نزدیک شخصی ارتقا میں مذہب کا کیا اور کتنا کردار ہوتا ہے؟
مریم زیبا: میرے خیال میں اصل کردار ہی مذہب کا ہے۔ اور ضروری یہ ہے کہ مذہب کے ساتھ آپ کا تعلق شعور کے ساتھ اپنایا گیا ہو، تعلیم و تعلم، غور و فکر، مشاہدہ اور تحقیق جاری رہے۔
علیزےنجف: آپ کو اپنی کون سی عادت بہت پسند ہے اور آپ کا خود کے ساتھ کیسا تعلق ہے؟
مریم زیبا: میرے مطابق میں زیادہ چیزوں کو بہت سنجیدہ نہیں لیتی یا یہ سمجھ لیں کہ بہت حساب کتاب نہیں کرتی، زرا لا ابالی ہوں۔۔۔اور یہ مجھے پسند ہے۔ اس سے میں بہت غمگین یا دکھی ہونے سے بچ جاتی ہوں۔ الحمد اللہ
میرا خود کے ساتھ تعلق ۔۔۔ یہ ایک ہر لمحہ بدلتا پیمانہ ہے، اگر اللہ سے تعلق/ ایمان مضبوط ہے، تو یہ تعلق بھی مثبت ہوتا ہے اور اگر ایمان کمزوری کی طرف ہو تو اس میں بھی منفی عنصر آجاتا ہے۔
علیزےنجف: آپ ایک کاؤنسلر بھی ہیں. ایک کاؤنسلر کو انسانی رویوں کی پہچان ہوتی ہے. کسی سے تعلق استوار کرنے سے پہلے آپ اس میں کن باتوں کا خاص خیال رکھتی ہیں؟
مریم زیبا: مجھے لگتا ہے کہ میں کھرے پن کو اپنانے کی کوشش کرتی ہوں اور ایسے لوگوں سے تعلق قائم کرنے میں زیادہ آرام دہ محسوس کرتی ہوں جو اس کی قدر کریں۔ جن کے ساتھ میرے مقاصد اور دل چسپیاں ملتی ہیں ان کے ساتھ راہ و رسم بڑھانے کی کوشش کرتی ہوں۔ ہر انسان اپنے اندر منفرد خوبیاں رکھتا ہے اور ہر کسی سے ہم کچھ نہ کچھ سیکھتے ہیں۔
علیزےنجف: پی آر سی کے بارے میں کچھ بتائیے. اس کا مقصد تاسس کیا تھا اور اب تک کی اس کی کارکردگی کی کیا نوعیت رہی ہے اور مستقبل کے تئیں آپ کی ٹیم نے کیا منصوبہ بندی کی ہے؟
مریم زیبا: پی آر سی کی بانی منیرا احمد ہیں جو اکیلی اس اصلاحی و تعمیری کام کی طرف چل پڑیں تھیں جو اب 8 کی ٹیم بن چکی ہے ماشاءاللہ۔ اس کی تاسیس کے بارے میں منیرا آپ کو بہتر بتاسکتی ہیں۔ پی آر سی خواتین کی تعلیم و تربیت اور شعور و آگاہی کے لیے بہت اچھا کام کررہی ہے۔ انفرادی سیشنز اور ورکشاپس کے علاوہ اپنے سوشل میڈیا گروپس، تحاریر، پوسٹرز اور وڈیوز کے ذریعے خواتین میں مقصدیت، علم و آگاہی کا پیمانہ بڑھانے، منفی نفسیاتی و روحانی رویوں کو بدل کر انھیں مثبت اور تعمیری انداز دینے کی جدوجہد میں مصروف ہے۔ بے شمار خواتین اور خاندانوں میں مثبت اور تعمیری تبدیلیاں لا چکی ہے الحمدللہ ۔
علیزےنجف: آپ کی بےشمار تحریریں سوشل میڈیا پہ لوگوں کی رہ نمائی کا ذریعہ بنی ہوئی ہیں. اس سے آپ کی قلمی صلاحیت کا انکشاف ہوتا ہے. میرا سوال یہ ہے کہ آپ نے اپنی اب تک کی تحریروں کو کیا کسی کتاب کی شکل میں مرتب کیا ہے یا مستقبل میں کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں؟ اگر ہاں تو وہ کس نوعیت کی ہوں گی؟
مریم زیبا: میں ان سب کو مرتب کرنا چاہتی ہوں۔ ایک کورس اور کتاب کی صورت میں مرتب کرنے کا ارادہ ہے ان شاءاللہ۔
یہ مجھے بڑی ذمہ داری لگتی ہے۔ کیونکہ جب میں اپنی پرانی تحاریر کو پڑھتی ہوں تو کافی چیزیں قابل اصلاح لگتی ہیں۔ ان کی نوک پلک درست کرتے رہنا چاہیے۔
علیزےنجف: ایک انسان جو کہ ایک مخصوص ماحول میں رہنے کی وجہ سے ایک محدود سوچ کا حامل ہو جاتا ہے، جس کو دوسرے لفظوں میں کنزرویٹو کہہ سکتے ہیں، اسے اپنی سوچ میں تبدیلی و لچک پیدا کرنے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟
مریم زیبا: اسے مشاہدہ، غور و فکر، اور علم و تحقیق کی طرف آنا چاہیے۔ اور پھر شعور و آگاہی کے ساتھ اپنے نقطہ نظر کو ترتیب دینا چاہیے۔ جو اس مثبت تعمیری سوچ کے حامل ہوں ان کے ساتھ جڑے رہیں۔
میرے خیال میں ان کو اپنی سوچ پر کوئی معذرت خواہانہ طرزعمل رکھنے کی ضرورت نہیں۔ ہم سب ان مراحل سے گزرتے ہیں۔
علیزےنجف: ہوم اسکولنگ کی بنیادی تعریف کیا ہے؟ اس بارے میں ہمارے قارئین کو مختصراً کچھ بتائیں. 
مریم زیبا: بنیادی تعریف یہ ہے کہ بچوں کی تعلیم و تربیت  فطری انداز میں ایک فطری ماحول میں اس طرح کی جائے کہ ان کے بنیادی معلم خود ان کے والدین ہوں۔ تیز رفتاری، نمبروں کی دوڑ اور سب سے آگے بڑھنے کی لگن، حکومتی اور سرمایہ دارانہ ایجنڈے اس میں مخل نہ ہوں۔
بچے زندگی میں آنے والے اگلے مرحلوں کے لیے تیاری کی مشق کریں۔ انھیں ذمہ دار امتی، اللہ کا نائب اور شہری بنانے کے لیے اپنے اصل مقصد کی تلاش، اس کو جاننے، شعور کے ساتھ اس کو اپنانے اور اس کے ساتھ اپنے شب و روز کو ہم آہنگ کرنے کی مشق کرائی جائے۔
علیزےنجف: آپ ہوم اسکولنگ کے نظریے کی تائید و توثیق کرتی ہیں. ہمیں جاننا یہ تھا کہ آپ کا رجحان اس سمت کیسے پیدا ہوا؟
مریم زیبا: میرے خیال میں اس کا اہم محرک یہ تھا کہ میں بچوں کی تعلیم و تربیت کو اپنی بنیادی ذمہ داری سمجھتی تھی، اسکول بھیجنا اور خود دوسرے غیر اہم کاموں میں مصروف رہنا، زیادہ وقت بچوں سے الگ گزارنے کی وجہ سے ان کے ساتھ قلبی تعلق کمزور ہونا۔۔یہ مجھے پریشان کرتا تھا۔ اس پر کچھ ریسرچ کیا تو مجھے ہوم اسکولنگ کے بارے میں پتہ چلا۔
علیزےنجف: آپ اپنے بچوں کی خود ہوم اسکولنگ کرتی ہیں، آپ ان ماؤں کے لیے جو ہوم اسکولنگ کے نظریے کو عملی طور پہ اپنانا چاہتی ہیں؛ انھیں کیا مشورہ دینا چاہیں گی اور کوئی عملی خاکہ جو آپ نے اپنے بچوں کے لیے تیار کیا ہو وہ شیئر کرنا چاہیں گی؟
مریم زیبا: جو ہوم اسکولنگ کی طرف آنا چاہتی ہیں انھیں سب سے پہلے اپنے تعلیم و تربیت کے متعلق نقطہ نظر کی جانچ پڑتال کرنی چاہیے۔ تعلیم کیا ہے؟ میرے نزدیک اس کا معیار کیا ہے؟ میں کیوں مروجہ نظام تدریس کے بجائے ایک مختلف انداز اپنانا چاہتی ہوں؟ میری ترجیحات کیا ہیں؟ یہ سوال اہم ہیں. کیوں کہ ان پر غوروفکر کرنا اور ان کے جواب جاننے کے لیے علم و تحقیق کرنا دراصل آپ کو ہمت، حوصلہ اور آگے بڑھنے کی لگن دے گا۔ یہ شعور و آگاہی لازمی ہے۔
میں نے جو خاکہ بنایا ہوا ہے وہ میرے اپنے شعور و آگاہی کے پیمانے کے مطابق ردوبدل سے گزرتا رہتا ہے۔ ابھی فی الحال یہی نیت ہے کہ بچے دنیا و آخرت میں کامیاب ہوں، اپنے اصل مقصد کو پہچان کر اس پر مداومت اختیار کرنے والے ہوں، امت کے فعال، مثبت، کارآمد فرد بنیں اور یوں میں اللہ کے مقرر کردہ فریضے مین سرخرو ہو سکوں ان شاء اللہ. 
علیزےنجف: ہوم اسکولنگ کا نظریہ بےشک بہت اچھا اور ایفیکٹو ہے لیکن زمینی سطح پہ ابھی مکمل طور پر نافذ العمل نہیں. ایسے میں تعلیمی اداروں کا کردار ابھی بھی بہت اہم ہے. آپ کے نزدیک موجودہ تعلیمی نظام کو کس خاص پیش رفت کی ضرورت ہے؟
مریم زیبا: مجھے لگتا ہے کہ اساتذہ اور تعلیمی اداروں کے منتظمین کے شعور و آگاہی کے پیمانے میں اضافہ اہم ہے۔ مادی فوائد اور ترقی کے بجائے تعلیم و تربیت کے اصل اور دور رس مقاصد ترجیح پر رہیں تو سمت میں اصلاح ممکن ہے۔
فرد کے شعوری پیمانے میں بہتری پر کام کرنے سے مزید راستے بھی کھل سکتے ہیں، جیسے موثر قانون سازی، نمبروں اور پوزیشن کی دوڑ کے بجائے کردار سازی کی طرف جھکاؤ۔
علیزےنجف: ایک کاؤنسلر ہونے کے ناطے لوگ آپ سے اپنے مسائل کے حل کے لیے رجوع کرتے ہیں اور اپنے مسائل کا تصفیہ چاہتے ہیں. اس دوران آپ نے کس مسئلے کا تناسب سب سے زیادہ محسوس کیا ہے جو کہ ہر دوسرے یا تیسرے انسان کو لاحق ہے؟
مریم زیبا: میرے محدود مشاہدے اور تجربہ کے مطابق سب سے بڑا مسئلہ ہمارا اپنے خالق و مالک کے ساتھ تعلق کا درست نہ ہونا، اپنی حقیقت سے بے خبر رہ جانا ہوتا ہے۔ اصل منبع و محور سے ہٹ جانے کی وجہ سے غیر ضروری چیزیں اہم ہوجاتی ہیں، اصل مغز نظر سے اوجھل رہ جاتا ہے اور ہم چھلکے سے ہی الجھتے رہ جاتے ہیں۔ اور مجھے لگتا ہے کہ یہ کوئی انہونی نہیں، ہم سب نفسیاتی و روحانی ارتقا کے سفر میں ان مراحل سے گزرتے ہیں۔
شعور و آگاہی اس کا تریاق ہے اور ہم ٹھہراؤ کے ساتھ غور و فکر اور علم و تحقیق کے ساتھ اس کی مشق کرتے ہیں۔ ایک کاؤنسلر/ خیر خواہ آپ کو اس سفر میں تعاون مہیا کرتا ہے۔
اس آگاہی کے بعد درست/ مثبت و تعمیری رویہ کے دوام کے لیے پھر آپ کو علم و تحقیق کو جاری رکھنا ہوتا ہے اور صالح صحبت درکار ہوتی ہے جو باہمی یاد دہانی کے ذریعے سپورٹ کریں۔
علیزےنجف: انسان کے ذاتی زندگی کے کئی پہلو ہیں. جسمانی، نفسیاتی، اخلاقی؛ ان کے درمیان توازن سے ہی متوازن شخصیت کی تشکیل ممکن ہے، لیکن المیہ یہ ہے کہ فی الوقت اس میں توازن ناپید ہوتا جا رہا ہے. آپ کے خیال میں ان کے درمیان کیسے متناسب ربط پیدا کیا جا سکتا ہے؟
مریم زیبا: انسان کے ذاتی زندگی کے مختلف پہلووں یعنی نفسیاتی، اخلاقی اور جسمانی صحت میں توازن۔۔۔ میرے خیال میں یہ اسی وقت پیدا ہوگا جب ہم خود اپنے مقصد تخلیق سے ہم آہنگ ہوں گے۔ یعنی خالق نے جس مقصد کے لیے ہمیں بنایا ہے اس کو جاننا اور اپنے شب و روز کو اس سے ہم آہنگ کرنا ہی ہمیں متوازن بنائے گا۔
علیزےنجف: زندگی میں اصول اور مقصد کا ہونا کس قدر ضروری ہے؟ کیا ہمارے انسانی معاشرے میں خاص طور سے ہند و پاک میں اصول و مقصد کو وہ مقام حاصل ہے جو کہ اسے میسر ہونا چاہیے؟
مریم زیبا: اللہ تعالی نے ہمیں عبث پیدا نہیں فرمایا، وہ ذات بابرکت ایسے عبث کاموں سے پاک ہے۔
ہماری طرف دین سے زیادہ روایات کو اہمیت دی جاتی رہی ہے اور اب اس گلوبل تمدن کے دباؤ کی وجہ سے یہ روایات بھی بے معنی ہوتی جارہی ہیں۔ اور مجھے لگتا ہے کہ احیاے دین کے لیے اللہ تعالی کی طرف سے یہ ایک پرفیکٹ انتظام ہے!
ہم تمدن کی فسوں کاری سے باہر آئیں اور اپنی اصل حقیقت اور مقصد کو پہچانیں۔
قلزم ہستی سے تو ابھرا ہے مانند حباب
اس زیاں خانے میں تیرا امتحاں ہے زندگی
مقصد کو علم و تحقیق اور مشاہدے کے زریعے اپنانا ضروری ہے۔ اس کے لیے ہمیں رک کر، ٹھہر کر اپنے اوپر غور کرنا چاہیے۔ یہ تیز رفتار دنیا اور اس کے تقاضے ہمیں یہ وقفہ نہیں دینا چاہتے ہیں۔ ہماری اصل جدوجہد یہی ہے کہ رک کر ٹھہر کر اپنے اوپر غور کریں. خود سے وہ اہم سوال پوچھیں اور علم و تحقیق کے زریعے ان کے جواب جانیں۔
علیزےنجف: آپ کی رائے میں اللہ سے تعلق کے بنیادی تقاضے کیا ہیں؟
مریم زیبا: علم و تحقیق، غور و فکر اور مشاہدے کے بعد اپنایا گیا دل کا ایمان و یقین، زبان سے اس کا اقرار مسلسل، اعضا سے عمل صالح کے ذریعے اس کی شہادت مسلسل. 
علیزےنجف: سوشل میڈیا و گیمز کی وجہ سے موجودہ نسل اسکرین اڈکشن کا شکار ہوتی جا رہی ہے جو کہ ان کی نفسیاتی و جسمانی صحت دونوں کو ہی متاثر کر رہی ہے. آپ کے نزدیک اس سے بچاؤ کے لیے کون سے طریقۂ کار کو ملحوظ رکھنا چاہیے؟
مریم زیبا: یہ جدید ایجادات مجھے دودھاری تلوار لگتے ہیں۔ مگر یہ سب اللہ کی مشیت سے ہے اور خیر کے پہلو رکھتے ہیں۔ جدید تحقیق کے مطابق سکرین/گیمز/سوشل میڈیا انسانی دماغ کے خاص حصوں پہ اسی طرح اثر کرتے ہیں جس طرح منشیات کرتی ہیں۔ یعنی ان میں نشہ آور اثرات موجود ہیں۔ اس کے ساتھ ہی یہ ادراک بھی اہم ہے کہ یہ ہتھیار تعلیم و تعلم اور شعور و آگاہی پھیلانے میں بھی خوب مددگار ہوسکتے ہیں۔
مجھے لگتا ہے کہ اگر ہمیں اپنا اصل مقصد، اپنی حقیقی حیثیت اور اس دنیا کی حقیقت یاد رہے تو اس کے مضر اثرات سے بچاؤ ممکن ہے۔
دن میں کچھ گھنٹے، ہفتے میں کچھ دن ڈیجیٹل ڈی ٹوکس کے لیے وقف کیا جائے۔ ایک طرح کا روزہ رکھا جائے۔ اس سے تیز رفتاری کے دور میں یکسوئی حاصل کرنا ممکن ہوجائے گا۔ اس یکسوئی کے وقفوں میں اپنی اصل ترجیحات کا تعین کرنے کی مشق کی جائے۔ بنیادی اہم رشتوں کے ساتھ تعلقات مضبوط کرنے کی سعی کی جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خیرکم خیرکم لاھله و انا خیر کم لاھلی (ترمذی و ابن ماجہ)
یعنی "تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے ساتھ اچھا ہو اور میں سب سے زیادہ اپنے گھر والوں کے ساتھ اچھا ہوں۔"
خیر/نیک ہونے کا معیار یہ ہے کہ آپ اپنے گھریلو زندگی میں، قریب ترین رشتوں میں کیسے ہیں؟ مجھے لگتا ہے کہ دور دور سے اچھی میٹھی بات کرنا آسان ہے۔ اصل پرکھ تو گھر میں قریبی تعلقات سے ہوتی ہے۔
اگر میں خلاصہ کروں تو یوں ہو؛ اس ایڈیکشن سے باہر آنے کے لیے ہمیں وقفہ لے کر گھر کے ماحول، اپنے قریبی رشتوں کو بہتر بنانا ہوگا اور اس کے لیے سب سے پہلے اپنا تعلق اپنے خالق سے درست طریقے سے استوار کرنا ہوگا۔ اپنے اصل مقصد اور اپنی حقیقت کو جاننے کے لیے، یاد رکھنے کے لیے غور و فکر، اور مشاہدے کے لیے وقت نکالنا، علم و تحقیق میں مصروف رہنا۔
علیزےنجف: سوشل میڈیا موجودہ نوجوان نسل کے لیے کس حد تک مثبت ہے اور کس قدر منفی اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
مریم زیبا: میرے خیال میں سوشل میڈیا ایک کارگر ہتھیار ہے۔ اللہ نے ہر فرد کو انتخاب کی آزادی دی ہے۔ اب تک مضبوط اجتماعی نظام نے انفرادی انتخاب ایک حد میں خود بخود تھی مگر سوشل میڈیا کی وجہ سے یہ حق انتخاب کھل کر سامنے آگیا ہے۔ سماجی روایات اور رشتوں کے دباؤ کا عنصر معدوم ہوتا جارہا ہے۔ ایک لحاظ سے یہ مثبت بھی ہے کہ اس ادراک کی صورت میں لوگوں میں احساس ذمہ داری بڑھ سکتی ہے، وہ خارجی دباؤ اور ڈر کے بجائے اپنے احساس ذمہ داری کے تحت فیصلے کریں۔ یہ شعور و آگاہی ابھی ابتدائی مراحل میں ہے اور دوسری طرف رکھ رکھاؤ، تہذیب و رواج اور سماجی نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ اس لیے ہم اپنے اردگرد ایک انارکی کی کیفیت دیکھ سکتے ہیں۔
ہمیں اس کے استعمال میں توازن کی روش اختیار کرنی چاہیے۔ اس دنیا کی حقیقت، اپنی حقیقت اور اصل مقصد کے بارے میں غوروفکر کرنے کے لیے وقت نکالنا، علم و تحقیق اور مشاہدہ کے بعد درست نقطہ نظر اپنانے کی مشق کرنا اہم ہے۔ اور اسی سے ہم توازن کے رویہ کو ممکن بناسکتے ہیں ان شاء اللہ. 
علیزےنجف: صنف شاعری اور نثر میں سے بامقصد پیغام رسانی کے لیے آپ کس کو زیادہ مؤثر سمجھتی ہیں؟
مریم زیبا: مجھے لگتا ہے دونوں کے اپنے سامعین ہیں۔ کچھ لوگوں کو سیدھی سادی بات اچھی لگتی ہے، کچھ دوسرے لوگ گہرے اور معنی خیز اشعار کو اہمیت دیتے ہیں۔ مجھے لگتا ہے ہم خود مختلف اوقات میں اپنے مزاج اور حالات کے زیر اثر کبھی آسان نثر پڑھنا چاہتے ہیں، کبھی ادبی چاشنی کی طرف جھکاؤ ہوتا ہے، کبھی نظم کی طرف رجحان ہوتا ہے۔
یعنی میرے خیال میں دونوں کی اپنی اہمیت ہے۔ مگر بامقصد پیغام کو عام فہم، سیدھا اور واضح ہونا چاہیے۔
علیزےنجف: میریٹل کاونسلنگ کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ کیا اس کے فقدان ہی کا نتیجہ ہے کہ ازدواجی رشتے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کے رہ گئے ہیں؟ ساتھ ہوتے ہوئے بھی ذہنی آسودگی سے محروم ہیں؟ اس مسئلے کو آپ کس طرح دیکھتی ہیں؟
مریم زیبا: مجھے لگتا ہے کہ بچوں کی تعلیم و تربیت کے دوران مروجہ اسکول کی تعلیم، نمبروں اور گریڈز کی دوڑ پر غیر ضروری توجہ دینے کی وجہ سے اہم کردار سازی میں کمی رہ جاتی ہے۔ بچوں کو ایک فطری بہاؤ میں اپنے اردگرد کے سماجی تعلقات کا مشاہدہ کرنے، غوروفکر کرنے اور اپنے علم و تحقیق کی طرف اپنے فطری میلان کی نمو کرنے کا وقت اور موقع دستیاب نہیں۔ یہی بچے بڑے ہوکر وقتی تعلقات یعنی شارٹ ٹرم ریلیشنز کو تو نبھا لیتے ہیں مگر لانگ ٹرم تعلقات کے لیے جو سمجھ داری صبر، حوصلہ اور ٹھہراؤ مطلوب ہوتا ہے وہ بلکل ابتدائی مراحل میں ہوتا ہے۔ اس لیے انھیں رشتے نبھانے میں مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔
میرے نزدیک ایک اہم وجہ اس طرزعمل/ٹرینڈ کا یہ ہے کہ ہم نے مادی ترقی اور دنیاوی کامیابی کو ہی سب کچھ سمجھا ہوا ہے۔ ہم مغرب کو دیکھیں تو سمجھ آتی ہے کہ مادی ترقی اور سرمایہ داری کو اوڑھنا بچھونا بنانے کے نتیجے میں خاندانی نظام ختم ہوتا جارہا ہے، شادی اور بچے کرنے/پالنے کا رواج کم ہوتے ہوتے معدوم ہونے لگا ہے۔ یعنی نسل انسانی کی بقا ہی خطرے میں ہے۔
تدبر کی فسوں سے محکم ہونہیں سکتا
جہاں میں جس تمدن کی بنا سرمایہ داری ہے
اپنے مشاہدہ و نقطہ نظر کو اگر ہم شعوری انداز میں وسیع کریں، اس طرزعمل کے نتائج کا ادراک کریں، اپنے اصل مقصد کا تعین، اسے سامنے رکھنے کی مشق کریں تو ان شاء اللہ اصلاح ممکن ہے۔ کاونسلر انہی اہداف کے حصول میں مدد دیتے ہیں۔ یعنی ایک اندھا دھند دوڑ کے بجائے اپنے رویہ کی اہمیت و نتائج کو سمجھ کر ان میں مثبت تبدیلی لائی جائے۔
علیزےنجف: اپنے بارے میں کوئی ایک ایسی بات بتائیں جو کہ بہت کم ہی لوگ جانتے ہیں؟
مریم زیبا: میرے خیال میں میرے دوست احباب میرے بارے میں جانتے ہیں۔ میں ایک بالکل عام سی خاتون ہوں۔ اکثر مجھے غیر ضروری اہمیت ملنے پر حیرت ہوتی ہے۔
علیزےنجف: انسانی زندگی میں رشتوں کا کیا کردار ہے؟ خاندانی زندگی میں رشتوں کو متوازن رکھنے کا کوئی ایک کارگر اصول بتائیں؟
مریم زیبا: میرے خیال میں نسل انسانی کی بقا، ہمارے کردار کے توازن اور جسمانی و روحانی صحت کے لیے رشتے اہم ہیں۔
اپنے گھریلو رشتوں میں توازن کے لیے اہم ترین گر یہ ہے کہ ہم اپنے خالق کے ساتھ اپنے رشتے کو کھرا اور مضبوط بنائیں۔ علم و تحقیق اور غوروفکر کے ساتھ اس پر محنت کریں۔ اس کلیدی رشتے کی اصلاح، مضبوطی تمام دوسرے رشتوں کی اصلاح ہے۔
علیزےنجف: کوئی ایک پیغام جو آپ اس انٹرویو کے ذریعے لوگوں تک پہنچانا چاہتی ہیں؟
مریم زیبا: اس عارضی اور مختصر زندگی میں ہم سب کو مسلسل یاددہانی کی ضرورت رہتی ہے۔ صراط مستقیم پر استقامت کے لیے ہمیں انفرادی علم تحقیق، دعا، غوروفکر کے ساتھ نیک، ہم خیال ساتھیوں کے ساتھ رابطے بھی مضبوط رکھنے چاہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ خسارے سے بچنے کے لیے چار اہم اصول یاد رہیں؛ ایمان، عمل صالح، آپس میں حق اور صبر کی تلقین۔
***
علیزےنجف کا تعلق سرائے میر اعظم گڑھ اتر پردیش سے ہے. یہ ایک شاعرہ، لکھاری، انٹرویو نگار اور کالمسٹ ہیں. یوں تو کئی اخباروں میں ان کے کالم شائع ہوئے ہیں لیکن روزنامہ انقلاب میں مستقل کالمسٹ کی حیثیت سے یہ تاحال لکھتی رہی ہیں. ان کے ادبی مضامین، غزلیں انٹرویوز کئی مؤقر جرائد و رسائل اور ویب پورٹل میں شائع ہو چکی ہیں اور یہ سلسلہ ابھی بھی جاری و ساری ہے. 

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے