کتاب: ترنم ریاض کے افسانوں کا تجزیاتی مطالعہ

کتاب: ترنم ریاض کے افسانوں کا تجزیاتی مطالعہ

مرتب : زاہد ظفر
قیمت : 460
صحفات: 365
سنہ اشاعت: ٢٠٢٢
ناشر: جے این کے پبلیکیشنز
مبصر : ایس معشوق احمد

ترنم ریاض اردو فکشن کی توانا اور پرتاثیر نسوانی آواز ہیں۔ انھوں نے نسوانی مسائل اور جذبات کی ترجمانی جس موثر طریقے سے کی ہے اس کی مثال اردو ادب میں خال خال ہی ملتی ہے۔انھیں دختر کشمیر یوں ہی نہیں کہا گیا ہے۔ انھوں نے اپنے قلم سے کشمیر کی المناک اور درد ناک تصویر دنیا کو بے باکی اور ہنری مندی سے دکھائی۔ منفرد خیالات کو منفرد انداز میں پیش کرنے میں وہ بلا کی قدرت رکھتی تھیں۔ انھوں نے شاعری کو ذریعہ بنا کر دل کی باتیں دلوں تک پہنچائی اور نثر میں خوب صورت ڈھنگ سے مختلف علامتوں کا استعمال کرکے اپنی ذات اور عورت کے  محسوسات کو موثر طریقے سے پیش کیا ہے۔ ان کے افسانے ان کے تجربات، جذبات اور احساسات کا بہترین نمونہ ہیں، جن میں انھوں نے اپنا احتجاج بھی درج کیا ہے اور لوگوں کے دکھ درد کی ترجمانی بھی کی ہے۔ عام بات ہے کہ دوسروں کے دل کا حال وہ جانتا ہے جو حساس دل رکھتا ہے۔ ترنم ریاض ایک حساس فن کار تھیں جس نے لوگوں کے دلوں کی دھڑکنوں کو سنا اور اپنے افسانوں میں ان آوازوں کو بہترین انداز میں لوگوں کے کانوں تک پہنچایا۔ پچھلے سال( 20 مئی 2021) اس درد آشنا فکشن نگار کا انتقال ہوا اور دیگر ریاستوں کے ساتھ ساتھ وادی کشمیر میں بھی ان کے فکروفن پر انھیں خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے کتابیں منظر عام پر آئیں۔ وادی کے ہونہار قلم کار زاہد ظفر نے بھی ” ترنم ریاض کے افسانوں کا تجزیاتی مطالعہ" کے عنوان سے کتاب ترتیب دی جس میں ترنم ریاض کے مختلف افسانوی مجموعوں سے بہترین افسانوں کا انتخاب کیا ہے اور ان پر مختلف اہل نظر قلم کاروں سے تجزیے لکھوائے ہیں۔
اس کتاب کو جی این کے پبلی کیشنز نے چھاپا ہے. کتاب کا انتساب ” جموں و کشمیر کے افسانہ نگاروں کے نام" کیا گیا ہے۔ کتاب کا پیش لفظ وادی کے معروف ناقد ڈاکٹر ریاض توحیدی نے لکھا ہے۔ جس میں وہ اس کتاب کے حوالے سے لکھتے ہیں:
” ‘ترنم ریاض کے افسانوں کا تجزیاتی مطالعہ` ایک قابل ستائش پہل ہے جو کشمیر کے ہی ایک ہونہار اسکالر زاہد ظفر کی محنت اور صلاحیت کا ثمر ہے۔قابل تعریف بات یہ بھی ہے کہ خود زاہد ظفر ترنم ریاض کی افسانہ نگاری پر پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ اس لیے انھوں نے کتاب میں شامل افسانوں اور مضامین کے انتخاب میں محققانہ فراست کا عمدہ ثبوت فراہم کیا ہے۔ چونکہ قرات کے بعد یہ اطمینان ہوجاتا ہے کہ مشمولات میں معیاری افسانے، مضامین اور تجزیے شامل ہیں جو کہ اس کتاب کی معیار بندی میں اضافہ کر رہا ہے۔
"اپنی بات" کے عنوان سے مرتب نے ترنم ریاض سے تعلق اور ان کے انتقال کے بعد خراج عقیدت پیش کرنے کا موقع جان کر کتاب کو ترتیب دینے کا ذکر کیا ہے، ساتھ ہی دوستوں اور تجزیہ نگاروں کا شکریہ بھی ادا کیا ہے۔ کتاب کے بیک میں پروفیسر سید زین رامش، نور شاہ اور وحشی سعید کی آرا درج ہیں۔کتاب کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پہلے حصے میں چار مضامین شامل کیے گئے ہیں۔ پہلا مضمون پروفیسر قدوس جاوید کا "کشمیر کی درد آشنا: ترنم ریاض" ہے۔ اس مضمون کی ابتدا میں ترنم ریاض کے ناول برف آشنا پرندے کا اقتباس، پیدائش سے لے کر پروفیسر ریاض پنجابی سے شادی، ایوارڈ سے نوازے جانے کا ذکر، ترنم ریاض کے مختلف ممالک میں کانفرنسوں میں شرکت کی روداد، ان کے شعری مجموعوں کا ذکر، تصانیف کی تفصیل اور ناول برف آشنا پرندے کا جائزہ لیا گیا ہے۔ پروفسیر قدوس جاوید اس ناول کے بارے میں رقم طراز ہیں:
"برف آشنا پرندے کشمیر سائیکی، سماج اور ثقافت کا رزمیہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔برف آشنا پرندے کا انفراد و امتیاز یہ ہے کہ اس ناول میں پہلی بار سکھ دور سے لے کر ڈوگرہ دور تک کے جبر و صبر کے واقعات کمال فنی و جمالیاتی دروبست کے ساتھ بیان کیے گئے ہیں۔ تاریخی، سیاسی، سماجی اور ثقافتی نشیب و. فراز اور انتشار و بحران نے کشمیری عوام کی نفسیات، جذبات اور محسوسات پر کس قدر منفی اثرات مرتب کیے ہیں ترنم ریاض نے اس کی تصویر کشی ناول کے کرداروں شیبا، پروفیسر دانش، پروفیسر شہاب، نجم خان، سلیم میاں، ثریا بیگم، سیمیں، خدا بخش،. سکینہ بیگم اور باب صاحب وغیرہ کے حوالے سے بڑی خوبی سے کی ہے۔"
کشمیر کی درد آشنا : ترنم ریاض صحفہ 18
حصہ اول کا دوسرا مضمون ڈاکٹر ریاض توحیدی کا "ترنم ریاض کی فکشن نگاری تخلیقی و ثقافتی جہات" ہے۔ ڈاکٹر توحیدی نے اس مضمون میں ترنم ریاض کی فکشن نگاری کو کشمیری ثقافت کی افسانوی نمائندگی قرار دیا ہے۔ ناول برف آشنا پرندے، شعری مجموعہ پرانی کتابوں کی خوشبو، افسانوں میں کشمیر کی تہذیب و ثقافت کی منظر کشی جہاں جہاں ہوئی ہے ان کی مثالیں مضمون میں دی گئی ہیں۔ ڈاکٹر توحیدی ترنم ریاض کی افسانہ نگاری کا تنقیدی جائزہ لینے کے بعد اس رائے کا اظہار کرتے ہیں:
"ڈاکٹر ترنم ریاض صاحبہ کی فکشن نگاری کی انفرادیت کی بات کریں تو ان کے افسانے اور ناول، افسانوی اسلوب کی دل کش فنی اور تخلیقی عکاسی کرتے ہیں جن کا مطالعہ قاری کے اندر یہ احساس جگاتا ہے کہ فکشن پڑھ رہا ہے جو کسی بھی افسانہ نگار کی ایک اہم خوبی قرار دی جا سکتی ہے۔ ان کے بیش تر افسانوں کا موضوعاتی کینوس سماجی مسائل اور وجودی کرب پر پھیلا ہوا ہے جس میں کئی قسم کے تخلیقی رنگ نظر آتے ہیں اور ساتھ ہی کردارنگاری میں کسی بھی کردار کی تخلیقی ساخت فنی چابک دستی کی ماہرانہ عکاسی کرتی ہے‘کیونکہ وہ کردار نہ صرف افسانوی کردار ہونے کا حق ادا کرتے ہیں بلکہ پیامی سطح پر اپنے لب و لہجے اور عمل سے سماجی یا طبقاتی موضوعات و مسائل کی فنی نمائندگی بھی کرتے ہیں۔"
"ترنم ریاض کی فکشن نگاری تخلیقی و ثقافتی جہات" صحفہ 31
اس حصے کا تیسرا مضمون "ترنم ریاض کی ریاضت و معرفت ( ابابیلیں لوٹ آئیں گی ) عشرت ناہید کا ہے۔ اس مضمون میں ترنم ریاض کے دوسرے افسانوی مجموعے ابابیلیں لوٹ آئیں گی میں شامل افسانوں پر تنقیدی نگاہ ڈالی گئی ہے اور ساتھ ہی ترنم ریاض کی ریاضت کو بھی موضوع بنایا گیا ہے۔ عشرت ناہید اس افسانوی مجموعے کے بارے میں لکھتی ہیں :
” ترنم ریاض کے افسانوی مجموعے ابابیلیں لوٹ آئیں گی میں شامل افسانے انسانیت کے سبق کو بھلا دینے والے انسانوں کی داستانیں معلوم ہوتے ہیں، انسان کے انسان پر کیے جانے والے ظلم و جبر اس کے استحصال کے خونچکاں واقعات کو سمیٹے ہوئے ہیں"
ترنم ریاض کی ریاضت و معرفت_ صحفہ 33
چوتھا اور آخری مضمون ڈاکٹر قسیم اختر کا ” ترنم ریاض کی افسانوی ریاضیت و انفرادیت" کے عنوان سے شامل کیا گیا ہے۔ اس مضمون میں ترنم ریاض کی افسانہ نگاری کا جائزہ لیا گیا ہے اور ‘ مائیں ، بابل، شہر جیسے افسانوں سے اقتباسات کے علاوہ وارث علوی کی رائے سے اپنی بات کو مستند بنانے کی سعی کی گئی ہے۔ ترنم ریاض کے اسلوب کے حوالے سے ڈاکٹر قیسم اختر لکھتے ہیں:
"سچی بات تو یہ ہے کہ انھوں نے اپنے اسلوب کو ثقیل کرنے یا پھر لفظی طور پر دھونس جمانے کی کوشش نہیں کی ہے بلکہ فطری انداز سے انھوں نے اپنے افسانوں کو آگے بڑھایا ہے۔ ان کے اسلوب کا فطری پن ایک بڑی نعمت ہے۔"
” ترنم ریاض کی افسانوی ریاضیت و انفرادیت" صحفہ 50
کتاب کے دوسرے حصے میں ترنم ریاض کے مختلف افسانوی مجموعوں میں سے پندرہ افسانوں کا انتخاب کیا گیا ہے اور ان پر مختلف قلم کاروں سے تجزیے لکھوائے گئے ہیں۔ پہلے افسانہ شامل کتاب کیا گیا ہے، اس کے فورا بعد اس پر تجزیہ نگار کا تجزیہ دیا گیا ہے۔ جو افسانے کتاب میں شامل کیے گئے ہیں ان کی فہرست یوں ہے۔ ہم تو ڈوبے ہیں صنم (تجزیہ ڈاکٹر عالیہ کوثر)، بی بی( تجزیہ رفیع حیدر انجم )، تجربہ گاہ (تجزیہ سیدہ شائستہ مبارک بخاری)، آدھے چاند کا عکس (تجزیہ ڈاکٹر فریدہ بیگم)، ماں صاحب (تجزیہ دانش اثری)، چار دن (تجزیہ انور ظہیر رہبر)، برآمدہ (تجزیہ نیلوفر ناز نحوی)، برف گرنے والی ہے (تجزیہ زاہد ظفر)، باپ (تجزیہ ارشد کسانہ)، پالنا (تجزیہ فریدہ نثار انصاری)، اچھی صورت بھی کیا (تجزیہ محمد ارمان حسن)، مٹی (تجزیہ ڈاکٹر گلزار احمد وانی)، تعبیر (تجزیہ ایس معشوق احمد)، کشتی (تجزیہ فیصل کسانہ) اور یمبرزل (تجزیہ عرفان رشید )۔
ہر تجزیہ نگار نے اپنے حصے میں آئے افسانے کا مکمل جائزہ لینے کی حتی الامکان کوشش کی ہے اور اپنے تجزیے میں افسانے کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے۔ افسانے کی فنی خوبیوں کے ساتھ ساتھ افسانہ کس افسانوی مجموعہ میں شامل ہے یہ معلومات بھی تجزیے کا حصہ ہے۔ سینئر تجزیہ نگاروں کے ساتھ ساتھ نوجوان اسکالر نے بھی محنت سے افسانوں کا تجزیہ کیا ہے لیکن کتاب میں تجزیہ نگاروں کی ترتیب کو درست نہیں رکھا گیا ہے۔ بعض معتبر ناقدین کے تجزیے نوجوان اور ابھرتے ہوئے قلم کاروں کے بعد رکھے گئے ہیں۔ مجموعی طور پر ترنم ریاض کے منتخب افسانوں کی فنی خوبیوں کو سمجھنے کے لیے یہ کتاب کارآمد ہے۔ زاہد ظفر مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انھوں نے محنت اور محبت سے ترنم ریاض پر خوب صورت تجزیاتی کتاب ترتیب دی ہے جس سے ان کے افسانوں کو سمجھنے میں آسانی ہوگی۔ ترنم ریاض کے مداح اس کتاب کو ہاتھوں ہاتھ لیں گے اور قوی امید ہے کہ ادبی حلقوں میں اسے قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے گا.
ایس معشوق احمد کی گذشتہ نگارش:دوست، دشمن اور بیوی

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے