دوست، دشمن اور بیوی

دوست، دشمن اور بیوی

ایس معشوق احمد

ہر شخص کی زندگی کو بنانے، سنوارنے اور بگاڑنے میں تین لوگوں کا ہاتھ ہوتا ہے۔ ان تینوں کے طفیل گرد و غبار میں اٹا شخص تختہ مینا تک پہنچ سکتا ہے اور ان ہی کی بدولت انسان طاوس آتش پر سے گر کر خاک میں راکھ کی مانند گھل مل سکتا ہے۔ ان تین ہستیوں میں دوستوں کی قربت، دشمنوں کی نفرت اور بیوی کی الفت شامل ہے۔ پروردگار کے حسین و جمیل تحفوں میں سے انسان کے لیے ایک تحفہ خاص نیک اور پاک سیرت دوست کا ہے۔ اس کی صحبت میں انسان نہ صرف نیک اور پارسا بن سکتا ہے بلکہ ان تمام لذتوں سے محروم ہو سکتا ہے جو گناہ میں پوشیدہ ہے۔ مرزا کہتے ہیں کہ نیک سیرت دوست کی صحبت میں بڑی خرابی یہ ہے کہ وہ نہ صرف اچھے کاموں کی ترغیب دیتا ہے بلکہ عین جوانی میں برے کاموں سے روکنے کا فرمان بھی جاری کرتا ہے جو اس ظالم بادشاہ کے حکم سے کم نہیں جس نے بادشاہ بنتے ہی خوب صورت عورتوں کو دیکھنے سے منع کیا ہو۔
اس شخص پر خدا کا خاص کرم اور عنایت ہے جس کو ایسے دوست کی صحبت نصیب ہوئی جو واقعی بگڑا ہوا ہو۔ دوست بگڑا ہو تو ارمان ہی پورے نہیں ہوتے بلکہ ان سارے گناہوں سے نفرت ہوجاتی ہے اور انسان ان کو حقارت کی نظر سے دیکھتا ہے جن کے جوانی میں ارمان اور بڑھاپے میں حسرت ہوتی ہے۔دوستوں سے بے تکلفی ہوتی ہے اور یہ آزادی بھی کہ گندے سے گندا لطیفہ ان کو سنایا جا سکتا ہے اور وقت ضرورت ننگی سے ننگی گالی ان کو دی جا سکتی ہے۔ گویا اخلاق کو بگاڑنے، کردار کو خراب کرنے اور انسان کو رسوا کرنے کا جو رول ایک بے تکلف دوست نبھاتا ہے وہ کوئی جانی اور سنگین دشمن بھی ادا نہیں کر سکتا۔ انسان جس طرح دوستی بنا سوچے اور غیر ارادی طور پر کرتا ہے اسی طرح دشمنی پر بھی اس کا اختیار نہیں۔ وہ سچی اور کھری باتیں کرکے اپنے دشمنوں کی تعداد کو بڑھا سکتا ہے اور دوستوں کی تعداد کو گھٹا سکتا ہے۔ مستقبل میں سب سے زیادہ خطرناک دشمن وہ دوست ثابت ہوسکتا ہے جس سے ماضی میں قریبی دوستانہ مراسم رہے ہوں. آخر راز بھی کوئی سرمایہ ہوتا ہے اور راز جاننے والا اس اثاثے کو آرام سے لوٹ سکتا ہے۔ کمینے دوست سے وہ دشمن بہتر ہے جو صرف دشمنی کرتا ہے دوستی نہیں نبھاتا کہ دوستی کا دعوی کرنے اور بنیاد کھوکھلی کرنے کا کام دشمن نہیں کرتے۔
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ کم ظرف دوست سے با اصول دشمن اچھا ہے جو کھل کر دشمنی کرتا ہے۔ یہ سچ ہے کہ آستین کے سانپ سے اس سانپ کا سر کچلنا آسان ہوتا ہے جو ڈسنے کے ارادے سے سامنے کھڑا ہو جائے۔ جس طرح زندگی کو پر رونق بنانے کے لیے دوست کا ساتھ اور ملاقات ضروری ہے اسی طرح چاق و چوبند اور ہوشیار رہنے کے لیے دشمنوں کی حاجت ہوتی ہے۔ دشمن نہ صرف آپ کے لیے کامیابی کا ضامن ہے بلکہ وہ آپ کو ان ناممکن کاموں کو کرنے کی سعی اور طاقت دیتا ہے جو بنا دشمن کے آپ سے ہو ہی نہیں سکتے۔ دوست اور دشمن کے بعد بیوی ہی وہ واحد مخلوق ہے جس کے سامنے بندہ نادم ہوکر اس کا خادم بن جاتا ہے۔ جانی دشمن سے خطرناک اگر کوئی مخلوق ہے تو اس کا نام عقل مندوں اور دانش وروں نے بیوی رکھا ہے۔ مرزا کہتے ہیں کہ بیوی کے طعنوں، دوستوں کے مشوروں اور دشمنوں کی کام یابی سے جل کر انسان میں وہ طاقت آجاتی ہے کہ یہ کسی بھی ناممکن اور محال کام کو سہل اور آسانی سے انجام دے سکتا ہے۔ ان تینوں کی بدولت ہی انسان وہ کام کر گزرتا ہے جس کی سکت اور کرنے کا حوصلہ اس میں پہلے نہ تھا۔ خدا بخشے مشتاق یوسفی نے لکھا ہے کہ دشمنوں کے حسب عداوت تین درجے ہیں۔ دشمن، جانی دشمن اور رشتے دار۔ رشتہ داروں سے تو ہم تنگ نہیں، ہو سکتا ہے کہ یوسفی صاحب کو انھوں للچایا، بہلایا، پھسلایا اور ستایا ہو۔ہاں جانی دشمنوں کی تفصیل دوست اور بیوی کے بغیر کچھ ادھوری سی نظر آرہی ہے۔ ان دونوں کا شمار اس میں ہوجائے تو فہرست مکمل ہوجائے۔ مرزا کہتے ہیں کہ آدمی کو دوست اور بیوی سے بچنے کی تدبیر کرنی چاہیے کیونکہ ان دونوں سے وہ بے خبر ہوتا ہے. اس نے اپنی ساری توجہ دشمن سے بچنے پر صرف کی ہوتی ہے۔
ہر شخص کی زندگی میں دوست کا سایہ، دشمن کی چھایا اور بیوی جیسی مایا ہوتی ہے۔ یہ نہ ہوں تو زندگی بے لطف اور خزاں رسیدہ سی لگتی ہے۔ ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ اسے زندگی میں اس کا ساتھ نصیب ہو جس کا مکھ، دکھ سکھ میں اسے فرحت اور خوشی دے۔ کسی بھی انسان کی زندگی میں کچھ ہو نہ ہو بیوی ضروری ہوتی ہے۔ جو اسے ہر کام سے روکنے اور ہر بات پر ٹوکنے کی مجاز ہوتی ہے۔ شوہر کو مجازی خدا کہا جاتا ہے لیکن جب سے زمانے نے کروٹ لی اور دساتیر بدلنے لگے اور کچھ زبردستی بدلے گئے، اس کی حیثیت بھی وہ نہ رہی اور یہ خدا سے بندا اور بندے سے غلام بن کر ایسے سہما سہما اور ڈرا ڈرا رہنے لگا جیسے ہرن شیر کو دیکھ کر ڈر اور سہم جاتی ہے۔ جنگل میں شیر ہرن کو ڈراتا ہے لیکن یہاں ہرن نے اس شیر کو نہ صرف ڈرایا ہوا ہے بلکہ کبھی اس کا شکار کرتی ہے تو کبھی وہ سب آشکار کرتی ہے جو پردۂ خفا میں وفا کی چادر اوڑھے ہوئے تھا۔ زندگی کی گاڑی تب ہی آگے بڑھتی ہے جب اس میں بیوی نام کا تیل ڈال دیا جائے ورنہ یہ گاڑی پریشانی کے دھکوں، الجھن کی رکاوٹوں اور انتشار کی اڑچن کا شکار ہوجاتی ہے اور اس طرح بند پڑتی ہے جیسے تھانے میں کوئی ضبط شدہ گاڑی ہچکیاں اور سسکیاں لے لے کر خستہ ہوجاتی ہے۔ مرزا کہتے ہیں کہ شباب کا دوست نیک سیرت نہیں ہوتا، دشمن خوب صورت نہیں ہوتا اور بیوی بدصورت نہیں ہوتی بشرطے کہ دوسرے کی ہو۔خاندانی دشمن، جان نثار دوست اور قدر شناس بیوی نصیب والوں کی جھولی میں آتے ہیں۔
لڑائی جھگڑے سے زندگی کی رونق ہے، اس سے انسان کے ذہن کا بوجھ ہلکا ہوتا ہے اور دل میں حسد کی آگ اور جلن کے شعلے ٹھنڈے پڑ جاتے ہیں۔ پر سکون زندگی گزارنے کے لیے فتنہ فساد اور بحثا بحثی سے آشنائی ضروری ہے۔ یہ آشنائی اور شناسائی صرف تین لوگ کراتے ہیں، دوست، دشمن اور بیوی۔ یہ دل کا بوجھ ہلکا کرنے اور بلڈ پریشر کو بڑھانے کے آزمودے نسخے ہیں۔ ان کی موجودگی سے انسان کی وہی کیفیت ہوتی ہے جو پانی میں مگرمچھ کے سامنے، جنگل میں شیر کے سامنے اور اندھیرے کمرے میں سانپ بچھو کا سامنا ہونے کے بعد ہوتی ہے۔ دشمن کا وجود ہی زندگی میں پریشانی کا سبب نہیں بنتا بلکہ دوست اور بیوی کا ہونا بھی انسانی سکون کے لیے مضر ہے۔ مرزا کہتے ہیں کہ دوست، دشمن اور بیوی تینوں کا ایک ہی کام ہے، ذہنی سکون کو غارت کرنا۔ دوستوں کے طعنوں، دشمنوں کی حرکتوں اور بیوی کے مشوروں سے بڑا اثر ہوتا ہے۔ ان کے مشوروں اور حرکتوں سے سست ترین انسان بیدار اور صحت مند انسان بیمار ہوسکتا ہے۔
کچھ لوگ گوشہ نشین ہوتے ہیں۔ ان کی زندگی پرسکون اس لیے ہوتی ہے کہ انھیں کسی دوست کا ساتھ، دشمن کی ذات اور بیوی کی بات کا تجربہ نہیں ہوتا۔ زندگی کے سرد و گرم سے آشنا شخص دنیا میں کوئی ایسا نہیں ہوگا جس کا ان تینوں سے واسطہ نہ رہا ہو۔ بعض کی زندگی ان کے وجود سے جنت کا نمونہ بنتی ہے اور بعض کی زندگی ان کی موجودگی سے جہنم سے بدتر ہوجاتی ہے۔ اچھا دوست اللہ کی خاص رحمت اور اچھی بیوی خاص عنایت ہے. دشمن کا درجہ زحمت کا ہی رہتا ہے چاہے اچھا ہو یا بدتر۔ مرزا کہتے ہیں کہ دشمن کے بعد جانی دشمن صرف دو ہیں، دوست اور بیوی۔ یہ دونوں دشمنی کرنے پر آ جائیں تو بڑے سے بڑے دشمن کا مرتبہ اس سے چھین لیتے ہیں۔
زندگی کے جلوے دوست اور بیوی سے ہیں اور زندگی پر حملے دشمن کی بدولت ہوتے ہیں۔ سچا پکا دوست جو دکھ سکھ میں کام آئے، با اصول دشمن اور بردبار بیوی کا وجود صرف قصوں کہانیوں میں ہی ہوتا ہے اصل زندگی میں ان ہی کا سامنا رہتا ہے جن کا سامنا ہم سب کو ہے۔ کسی بھی فرد کی زندگی میں صرف یہی تین لوگ انقلاب اور بدلاؤ لا سکتے ہیں۔ ان کے سوا نہ کسی کو حق ہے اور نہ ہمت کہ وہ انسان کو پریشان، متحرک، چاق و چوبند، درست اور چست حالت میں رکھ سکیں۔ جہاں سانپ ڈسنا چھوڑ دیتا ہے وہاں سے دشمن ڈنک مارنے کی کوشش کرتا ہے۔جہاں دشمن ناکام ہو جائے وہاں دوست خار چھبو کر اپنا حق دوستی ادا کرتا ہے، جہاں دونوں ناکام ہو جائیں وہاں بیوی ہی پھانس کھمبو کر زندگی کو اجیرن بنانے کے لیے کافی ہے۔ مرزا کہتے ہیں کہ صبح شام خفیہ دشمن، منافق اور حاسد دوست اور پس قسمت بیوی سے نجات مانگنی چاہیے۔ تینوں زندگی کو زہر ناک، غضب ناک، کرب اور اذیت ناک بنا دیتے ہیں.
صاحب انشائیہ کی یہ تحریر بھی پڑھ سکتے ہیں:شخصیت : ڈاکٹر نذیر مشتاق

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے