کتاب : صحافت _ دو صدی کا احتساب

کتاب : صحافت _ دو صدی کا احتساب

(بزمِ صدف کی تازہ کتاب’صحافت:دو صدی کا احتساب(٢٠٢٢ء-١٨٢٢ء) کا مختصر تعارف)

ڈاکٹر تسلیم عارف
شعبۂ اردو، جی ایل اے کالج، پلامو

اردو صحافت کی دوصدی بس مکمل ہونے ہی کو ہے اور اس سلسلے سے ملک بھر میں سے می ناروں کا ایک سلسلہ چل نکلا ہے لیکن اس بھیڑ میں بزمِ صدف انٹرنیشنل اپنے منفرد انداز کی وجہ سے نمایاں نظر آتا ہے۔ پچھلے سال نومبر میں بزمِ صدف نے ”اردو صحافت کے اہم موڑ: دو صدی کا احتساب“ کے عنوان سے [سے می نار] منعقد کیا تھا جس میں ملک کے طول و عرض سے بہترین ری سرچ اسکالرس کی انجمن سجائی گئی تھی۔ اسی  سے می نار میں بزمِ صدف کے ڈائرکٹر پروفیسر صفدر امام قادری نے یہ اعلان کیا تھا کہ وہ اس سے می نار کے مقالے شایع کرائیں گے اور ملک وبیرونِ ملک سے دوماہ کے اندر مضامین بھیجنے کی گزارش کی۔ اس طرح اردو صحافت کی دوصدی کے تعلق سے یہ سے می نار یوں ہی ختم نہیں ہو گیا بلکہ ایک ٹھوس کام کی بنیاد بھی ڈالی [گئی]۔ اب جب کہ اعلان کے مطابق یہ کتاب بہ عنوان ’صحافت: دو صدی کا احتساب (٢٠٢٢ء-١٨٢٢ء) منظرِ عام پر آئی ہے تو واقعی اس کی ضخامت اور مضامین کا تنوّع دیکھ کر دل کو کافی مسرت ہو رہی ہے۔
پروفیسرصفدر امام قادری موجودہ عہد میں مجاہدینِ اردو کی صفِ اول میں جگہ پاتے ہیں۔ بزمِ صدف کے ڈائرکٹر کے طور پر انھوں نے تصنیف و تالیف اور ترتیب کا ایک نگار خانہ سجا دیا ہے۔ اب اردو صحافت کی دو صدی کے احتساب کی بات تھی تو یہ کیوں کر ممکن تھا کہ اس میں وہ اپنی پوری توجہ اس کام پر صرف نہ فرما دیں۔ کُل ٦٩/ مضامین پر مشتمل ٧٥٢/ صفحات پر پھیلی ہوئی اس کتاب کو دیکھ کر اردو کا سنجیدہ قاری ان کی مرتّبانہ صلاحیت کی داد دیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ صرف دو ماہ کی قلیل مدّت میں اتنی تعداد میں معیاری مضامین حاصل کرنا اور ان کی مناسب عناوین کے ساتھ درجہ بندی کرنا بھی ان کے حسنِ ترتیب پر دال ہے۔ یہ سوچ کر حیرت ہوتی ہے کہ اتنے قلیل وقت میں کس جاں فشانی سے یہ تمام مضامین حاصل کیے گئے اور ان کی اشاعت کا مرحلہ طَے پایا۔
اس کتاب کے مضامین کے تعلق سے یہ بات بھی اہم ہے کہ سے می نار میں پیش کیے گئے مقالے تو اس کتاب میں شامل کیے ہی گئے ہیں، بعد میں بھی کئی اہم عنوان سے مضامین کو کتاب میں شامل کیا گیا ہے۔ دو ماہ کا وقت دے کر سے می نار می پیش کیے گئے مقالوں کو مزید بہتر بنانے کا بھی وقت دیا گیا۔ اس لیے سے می نار کی عجلت اور وقت کی تنگی کی وجہ سے مضامین کی تشنگی مٹانے کا بھی سامان کر دیا گیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس کتاب کے اکثر مضامین میں تازگی کا احساس ہوتا ہے اور کچھ نئی باتیں ان موضوعات کے تعلق سے سامنے آتی ہیں جن پر اظہارِ خیال کیا گیا ہے۔ کتاب کے ٦٩/ مضامین کو ٢٤/ ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے جہاں قدیم و جدید صحافت، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا وغیرہ کا حسین امتزاج قائم کرنے کی کوشش نظر آتی ہے۔
ان مضامین میں سرِ فہرست ’روزنامہ انقلاب‘ کے ریزی ڈنٹ ایڈیٹر احمد جاوید کا سے می نار میں پیش کیا گیا کلیدی خطبہ ہے۔ احمد جاوید نے اس مضمون میں اردو صحافت کی ابتدا سے لے کر دورِ حاضر تک کی تاریخ کا معائنہ تو پیش کیا ہی ہے۔ اردو صحافت زوال کے اسباب کا سراغ لگانے کی بھی کوشش کی ہے۔ اس کے بعد عادل فراز اور صفدر امام قادری کے مضامین شاملِ کتاب ہیں جو اردو کے پہلے صحافی مولوی محمد باقر اور ان کی صحافت کے اَطوار کو ظاہر کرتے ہیں۔ دونوں مضامین تفصیل کے ساتھ مولوی محمد باقر کے سلسلے سے اپنا مدعا پیش کرتے ہیں اور اپنے مضامین کا حق ادا کر جاتے ہیں۔ انوکھا خدمت گار کے عنوان قایم کیے گئے باب میں محمد ذاکر حسین کاواحد مضمون شامل ہے جو منشی نول کشور کی طباعتی خدمات پر روشنی ڈالتا ہے۔ اردو صحافت کا پہلا نقش ’جامِ جہاں نما‘ کے تعلق سے ایک مکمل باب قایم کیا گیا ہے جس میں یوسف تقی کا بھرپور مضمون اس اخبار کے تعلق سے شامل کیا گیا۔
اس ابتدائی زمانے کے بعد انیسویں صدی کی اردو صحافت پر ایک مکمل باب کتاب میں شامل ہے جس میں سات مضامین شامل ہیں۔ یہ باب اردو صحافت کے ابتدائی دور پر خاطر خواہ روشنی ڈالتا ہے۔ اسی کے ساتھ اسی عہد کے اخبارات کو مرکزِ نگاہ میں رکھ کر ”چند قدیم اخبارات“ عنوان سے باب قایم کیا گیا ہے۔ اس ضمن میں پانچ مضامین شامل ہیں اور حیرت کی بات ہے کہ پانچوں مضامین نئی نسل کے لکھنے والوں کے ہیں۔ مضامین پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ہماری نئی نسل خصوصاً خواتین کافی اچھی تحریریں پیش کر رہی ہے۔مضامین میں جامعیت اور تحقیقی و تنقیدی اصولوں کی پاس داری کا احساس ہوتا ہے۔ یہاں صحافت کے محقق کی حیثیت سے قاضی عبدالودود کی خدمات کے علاوہ ’پٹنہ ہرکارہ‘، ’اخبارالاخیار‘، ’انڈین کرانیکل‘ اور ’الپنچ‘ جیسے اخبارات کی اہمیت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
اردو کے دیو قامت صحافیوں کے طور پر سرسید اور ابوالکلام آزاد پر مکمل ابواب بھی اس کتاب کی زینت میں چار چاند لگاتے ہیں۔ دونوں شخصیات کی صحافتی خدمات اور ان کے اخبارات و رسائل کے تعلق سے ہمیں کتاب میں چار چار مضامین ملتے ہیں۔ مثالی مدیران کے عنوان سے قایم کیے گئے باب میں پانچ مضامین شامل ہیں جس میں محمد علی جوہر، مولانا ظفر علی خاں، عبدالماجد دریابادی، حیات اللہ انصاری اور حفیظ نعمانی کی صحافتی خدمات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
’چند اہم اخبارات‘ کے عنوان کے تحت ’مدینہ اخبار‘، ’جمہور اخبار‘، ’قومی آواز‘ اور ’مورچہ‘ جیسے اخبارات کا تعارف و تجزیہ پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ادبی رسائل کو بھی اس کتاب [میں] فراموش نہیں کیا گیا۔ اس سلسلے سے کتاب میں باضابطہ باب قایم کرکے ’معارف‘،  ’صبحِ نو‘،  ’شاہراہ‘، ’اشارہ‘، ’بیسویں صدی‘ اور ’سوغات‘ جیسے رسائل پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔ اس باب کے آخر میں صفدرامام قادری کا طویل مضمون ’اردو کے ادبی جرائد: رجحان اور رویّے‘ شامل ہے جو اردو کے ادبی رسائل کی تاریخ اور ان کی خدمات پر توجہ صرف کرتا ہے۔
کتاب کے چند دل چسپ ابواب میں سے ’صحافتی زبان‘ اور’ویب انقلاب اور اردو صحافت‘ کا شمار کیا جا سکتا ہے۔ ’صحافتی زبان‘ میں تین مضامین شامل ہیں جو موجودہ عہد کے اردو اخبارات کی زبان کا تجزیہ پیش کرتے ہیں۔ ویب انقلاب اور اردو صحافت میں دو مضامین شامل ہیں جو اردو کے ویب پورٹل اور سوشل میڈیا میں اردو کے استعمال کے تعلق سے ہیں۔ ان دونوں ابواب کی اہمیت اس لیے بھی بڑھ جاتی ہے کہ اردو کا مستقبل کیسا ہونے والا ہے، اس کے تعلق سے ان ابواب میں جگہ جگہ اشارے موجود ہیں۔
جمشید قمر کی تحقیقی کاوش کو اس کتاب میں مکمل باب کی صورت میں پیش کیا گیا ہے جنھوں نے بہار کے اردو اخبارات کی تفصیل اور حکومت کی نظر میں ان کی حیثیت کے تعلق سے کافی عرق ریزی سے مواد پیش کیا ہے۔ نیا ڈسکورس کے تعلق سے جو باب ہے اس میں اردو صحافت کی دیگر جہات پر بحث کو جگہ دی گئی ہے۔ ان میں غضنفر، سہیل انجم، ریحان غنی، منور حسن کمال، احمد اشفاق اور محمد عارف اقبال کے مضامین شامل ہیں۔ تمام مضامین اپنی نوعیت کے اعتبار سے کافی اہم ہیں۔
اس مختصر سے تعارف میں تقریباً آٹھ سو صفحات پر مشتمل اس اہم کتاب کے تمام مشتملات پر روشنی ڈالنا کافی مشکل ہے۔ لیکن بزمِ صدف انٹرنیشنل کے سربراہ پروفیسر صفدر امام قادری، چیرمین شہاب الدین احمد اور مکتبۂ صدف مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انھوں نے اردو صحافت کی دو صدی کا احتساب کرتے ہوئے سمندر کو کوزے میں سمیٹنے کی کوشش کی ہے، اس کے لیے بزمِ صدف کی پوری ٹیم مبارک باد کی مستحق ہے۔ بزمِ صدف کے تحت منعقد پروگراموں کی یہ امتیازی خصوصیت ہوتی ہے کہ اس میں نہ تو روایتی قسم کے موضوعات دیے جاتے ہیں اور نہ ہی موضوعات کی یکسانیت کا شکوہ گِلا کیا جا سکتا ہے۔ یہاں مضامین کے معیار پر بھی کوئی سمجھوتہ نظر نہیں آتا۔ نورٌ علیٰ نور نئی نسل کے لکھنے والوں کو اس پلیٹ فارم سے کافی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ اسی لیے اس کتاب میں نئے لکھاریوں کی پوری جماعت نظر آتی ہے جو اپنے مضامین سے اردو کا وقار بلند کرتے نظر آتے ہیں۔ امّید ہے کہ اس کتاب کو اردو داں طبقے میں پذیرائی حاصل ہوگی اور اردو صحافت کے ان دو سو برسوں کے سفر اور اس کی دشوار گزار راہوں کے مخفی پہلوؤں تک ان کی رسائی ہو گی۔ مزید برآں ری سرچ اسکالروں کے لیے ایک ہی کتاب میں اردو صحافت کے تقریباً تمام اہم پہلوؤں پر مواد آسانی سے دستیاب ہو جائے گا۔
بزمِ صدف انٹر نیشنل کی با وقار ایوارڈ تقریب ٢٦/ مارچ کو حیدر آباد میں

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے