قبرستانوں کا برا حال ذمہ دار کون؟

قبرستانوں کا برا حال ذمہ دار کون؟

حافظ محمد ہاشم قادری مصباحی، جمشید پور
رابطہ: 09279996221

اللہ رب العزت ہی تمام جہانوں کا پیدا فر مانے والا ہے. ہر جان دار اور بے جان چیزوں کاخالق و مالک اور نگہبان ہے. ہر چیز اس کے قبضے اور ما تحتی ہے۔ سب کا کارساز اور وکیل وہی ہے۔ زمین و آسمان کی کنجیوں (KEYS) اور خزانوں کا وہی مالک ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ (القر آن، سورہ زمر 39، آیت،61) ترجمہ: اللہ ہی ہر چیز کاخالق (پیدا کرنے والا) ہے اور وہ ہر چیز پر نگہبان ہے۔ اسی نے موت و حیات کو پیدا فرمایا ہے۔ (القرآن، سورہ الملک۷۶،آیت ۲، ۱) ترجمہ: وہ ذات نہایت با برکت ہے جس کے دست (قدرت) میں (تمام جہانوں کی) سلطنت ہے، اور وہ ہر چیز پر پوری طرح قادرہے جس نے موت اور زند گی کو (اس لیے پیدا فرمایا کہ وہ تمھیں آزمائے کہ تم میں سے کون عمل کے لحاظ سے بہتر ہے، اور وہ غا لب ہے بڑا بخشنے والا ہے۔ رب کریم نے موت و حیات کو اس لیے پیدا فر مایا کہ وہ اپنے بندوں کی آزمائش فرمائے گا کہ اس نے احکام الٰہی کی پا بندی کی کہ نہیں، اس نے دنیا ہی کو سب کچھ سمجھ لیا ہے اب جو دنیا میں آیا ہے اس کی ذمہ داری ہے وہ دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت کی زندگی کی بھی فکر کرے. صرف دنیا کمانا، شان دار مکان بنانا اور دنیا کو بہتر سے بہتر کرنا ہی مقصد حیات بنالینا یقینا خسارے کا کام ہے۔
اللہ نے انسا نوں اور جنوں کو اپنی عبادت کے لیے پیدا فرمایا اور یہ بھی اعلان فرمایا کہ میں تمھیں روزی دیتا ہوں تم سے نہیں ما نگتا (قر آنی مفہوم). انسان یہ جانتے ہوئے بھی ایک نہ ایک دن مرنا ہے پھر بھی دنیاوی زند گی سجانے سوار نے میں مگن ہے جب کہ سب کو مرنا ہے اور سبھی کو زمین میں ہی دفن ہونا ہے اور سب کو وہی دو گز زمین ملے گی بادشاہ ہو یا فقیر، لاڈ صاحب ہوں یا مزدور سب کو زمین کے  گڈھے میں ہی دفن ہونا ہے۔ میت کو دفن کر نا فرض کفا یہ ہے اور یہ جا ئز نہیں کہ میت کو زمین پر رکھ دیں اور چاروں طرف سے دیواریں کھڑی کر کے بند کر دیں، قبر کی لمبائی میت کے قد کے برابر اور چوڑائی آدھے قد کے برابر اور گہرائی کم از کم آدھے قد کے برابر ہو (وقار الفتاویٰ کتا ب الصلاۃ الجنازہ ص26،ج1) قبروں کے اندر باہر کسی طرح کی سجاوٹ کرنا منع ہے، اب وہاں نہ صوفہ ہے نہ (LED) بلب کی روشنی ہے نہ نائٹ بلب اپنے اپنے اعمال کے مطا بق وہیں سے جزا و سزا کا دور شروع ہو جائے گا. انتہائی عبرتناک حدیث پاک ہے، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: آقا ﷺ نمازمیں یہ دعا پڑھتے، اے اللہ قبر کے عذاب سے میں تری پناہ مانگتا ہوں۔ زند گی اور موت کے فتنوں سے تری پناہ مانگتا ہوں۔ دجال کے فتنوں سے تری پناہ مانگتا ہوں، گناہوں اور قرض سے تری پناہ مانگتا ہوں (ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا) نے نبی کر یم ﷺ سے کہا کہ آپ تو قرض سے بہت ہی پناہ ما نگتے ہیں! اس میں آپ ﷺ نے فرمایا کہ جب کوئی مقروض ہو جاتا ہے تو وہ جھوٹ بولتا ہے اور وعدہ خلاف ہو جا تا ہے (بخاری حدیث832) اس طرح اور بھی حدیثیں ہیں (بخا ری:حدیث 216) دنیا میں شاہی زندگی گزارنے کے بعد اب اعمال کے اعتبار سے اللہ رب العزت قبر کو کشادہ فر مائے گا، انسا ن کے اعمال کے مطابق قبر انسان کو دبوچے گی، اتنی طا قت سے کہ سیدھی طرف کی پسلی بائیں طرف چلی جائے گی اور بائیں طرف کی سیدھی طرف چلی جائے گی اور مردہ تکلیف سے زور سے چیخے گا کہ میلوں اس کی آواز جائے گی، سوائے انسان کے ہر مخلوق اس کی آوز سنے گی، آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر انسان مردے کی چیخ سن لے تو بے ہوش ہو جائے گا۔ (حدیث کا مفہوم)
سب سے پہلے تدفین حضرت ہا بیل کی ہوئی:
جب قا بیل نے ہابیل کو قتل کر دیا تو چو نکہ اس سے پہلے کوئی آدمی مرا نہیں تھا اس لیے قابیل حیران تھا کہ بھائی کی لاش کو کیا کروں، چنانچہ کئی دنوں تک وہ لاش کو پیٹھ پر لادے پھرا۔
پھر اس نے دیکھا کہ دو کوے آپس میں لڑے اور ایک نے دوسرے کو مار ڈالا۔ پھر زندہ کوے نے اپنی چو نچ اور پنجوں سے زمین کرید کر ایک گڑ ھا کھو دا اور اس میں مرے ہو ئے کوے کو ڈال کر مٹی سے دبا دیا۔ یہ منظر دیکھ کر قابیل کو معلوم ہوا کہ مردے کی لاش کو زمین میں دفن کرنا چا ہیے۔ چنانچہ اس نے قبر میں بھائی کی لاش کو دفن کر دیا۔ اللہ نے مردے کو زمین میں دفن کرنے کا طریقہ قرآن میں بتایا ہے(القر آن،سورہ الما ئدہ 5، آیت31، آیت 75، سورہ 75، آیت 34، سورہ، 80، آیت 21 وغیرہ) قبر کے اندر کی دیواریں وغیرہ کچی مٹی کی ہوں، آگ کی پکی ہوئی اینٹیں استعمال نہ کی جائیں اگر اندر میں پکی ہوئی اینٹ کی دیواریں ضروری ہوں تو پھر اندرونی حصہ مٹی کے گا رے سے اچھی طرح سے لیپ دیا جا ئے (ردالمختار،کتاب الصلا ۃ، باب صلاۃ الجنازۃ، فی دفن المیت،ج 4،ص167 و عالمگیری ج، 1 ص 144) قبر کے اندر چٹائی وغیرہ بچھانا ناجائز ہے کہ بے سبب مال ضائع کرنا ہے، قبر اونٹ کی کوہان کی طرح ڈھال بنائیں چوکھونٹی ڈھال رکھیں اور قبر کو اینٹوں سے پکی نہ کریں، قبر ایک بالشت یا تھوڑا اور اونچی ہو زیادہ اونچی نہ بنا ئیں بعد دفن قبر میں پانی چھڑ کنا مسنون ہے۔ (ردالمحتار،ج3 ص149،148،فتا ویٰ رضو یہ ج9،ص373)۔
مردے کے لیے دعاے مغفرت سنت ہے ضرور کریں:
حضرت سید نا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فر ما یاہے کہ بے شک اللہ تعالیٰ ایک نیک بندے کا درجہ بلند فر مائے گا تو وہ کہے گا کہ اے میرے رب کہاں سے یہ مرتبہ مجھ کو ملا؟ تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ تیرے بیٹے نے تیرے لیے مغفرت کی دعا مانگی ہے اس لیے تجھے یہ در جہ ملا ہے(مشکوٰ ۃالمصا بیح، کتاب الدعوات، باب الاستغفار والتوبہ، ج1، ص 440، حدیث2345)۔ ایصال ثواب و دعائے مغفرت کی اور بھی حدیثیں ہیں مطالعہ فرمائیں۔
قبر وں کی بے حر متی نہ کریں :
حضور اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خاں علیہ الرحمہ نے منع فرمایا ہے اب زمانہ منقلب ہوا، لوگ جنازہ کے ساتھ اور دفن کے وقت قبروں پر بیٹھ کر لغویات و فضولیات اور دنیوی تذکروں بلکہ خندہ و لہو میں مشغول ہوتے ہیں تو انھیں ذکر خدا و رسول کی طرف مشغول کرنا عین ثواب ہے (فتا ویٰ رضویہ،ج9،ص 37 و17) بلکہ میت کے لیے بہ کثرت دعا مانگو حضور ﷺ سے قبل نماز و بعد نماز دونوں وقت میت کے لیے دعا فرمانا اور مسلما نوں کو دعا کا حکم دینا ثابت ہے۔(صحیح مسلم کتاب الجنائز۔ فتا ویٰ رضویہ، ج 9، ص17) مومن قبروں کے اندر بھی تلاوت کرتا ہے. ایک حدیث پاک میں ہے ایک صحا بی نے ایک جنگل میں زمین کے اندر سے سورہ ملک پڑ ھنے کی آواز سنی حضور ﷺ سے عرض کیا آپ نے فر مایا کی وہاں کسی مو من کی قبر ہے، زندگی میں سورہ ملک پڑھا کر تا تھا اب بھی قبر میں پڑھ رہا ہے۔ (تفسیر نورالعرفان ص897) قبرستان یا قبروں کی حرمت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ قبروں پر نماز جنازہ بھی پڑھنا ہرگز جائز نہیں، نہ ان پر کوڑا کر کٹ ڈالنا جائز، ممانعت کریں، بند و بست کریں، ہاں اگر وہاں اس کے قریب کوئی قطعہ زمین ایسی ہو جہاں قبریں نہ تھیں تو وہاں نماز کی اجازت ہے، میت اگر تابوت کے اندر ہے تو نماز اس میں جائز ہے۔(فتا ویٰ رضویہ، کتا ب الجنا ئز،ج9 ص49)
آزاد خیال Liberal مسلمان خدا سے ڈریں! کورونا وائرس میں مرے ہوئے برادرانِ وطن کی آخری رسومات میں مسلمانوں کا حصہ لینا دیکھنے سننے میں تو اچھا لگتا ہے، مصیبت کی گھڑی میں ایک دوسرے کی مدد کا اسلام بھی حکم دیتا ہے۔ پر کسی برادرانِ وطن (ہندو بھائی) کے جنازے کو اُس کے مذہبی رسم و رواج اور اُس کے وہ بول جو ان کے مذہبی کلمات ہیں، بولتے ہیں کہاں تک درست ہے؟ پھر رب تعالیٰ کے اس فرمان پر مسلمان کیسے عمل کریں گے۔ ترجمہ: تم فرماؤ! اے کافرو!۔ میں ان کی عبادت نہیں کرتا جنھیں تم پوجتے ہو۔ اور تم اس کی عبادت کرنے والے نہیں جس کی میں عبادت کرتا ہوں۔ اور نہ میں اس کی عبادت کروں گا جسے تم نے پوجا۔ اور نہ تم اس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی میں عبادت کرتا ہوں۔ لَکُمْ دِیْنُکُم وَلِیَ دِیْنِ۔ تمھارے لیے تمھارا دین ہے اور میرے لیے میرادین ہے۔ (القرآن،سورہ : الکافرون109، آیت1 سے 6 تک)۔ ایسے لوگوں کو مذہب اسلام کی تعلیمات سے ضرور آ گاہی حاصل کرنی چاہیے۔
مسجدوں اور قبرستانوں میں ہسپتال بنائیں:
 آج کل دین سے نا بلد کچھ لوگ یہ آوزیں اُٹھارہے ہیں، حد ہوگئی آزاد خیالی liberal پنا کی، کتنے اسکول، کالج، ویدھیا لیہ، آنگن باڑی، کلب وغیرہ وغیرہ خالی پڑے ہوئے ہیں، اندھوں کی نظر ادھر کیوں نہیں جاتی؟ مسجد قبرستان ہی اِنھیں دیکھائی پڑتے ہیں،”حُبِّ علی نہیں حُبِّ معاویہ ہے یہ" قبرستانوں میں ایسے نااہل جوشیلے ذمہ دران، متولیان ہیں ان حضرات کو اپنی زمینیں اور اپنے گھر نہیں دکھتے، اپنے گھروں میں کووڈ وائرس مریضون کا لاکر کیوں علاج نہیں کراتے۔ ان آزاد خیال مسلمانوں نے اسلام کو تماشہ بنادیا ہے۔ جب مسجد میں بیٹھ کر کھانا نہیں کھا سکتا ہے، جب قبرستان میں مسلمان اپنے رشتے دار کی قبر پر ”قبروں کے“ اُوپر سے جاکر فاتحہ نہیں پڑھ سکتا تو پھر قبرستانوں میں سڑکیں کیسے بنوا سکتا یا ہسپتال Hospital کی تعمیر کیسے کروا سکتا ہے اور کیسے جائز ہوسکتا ہے۔ کیا جائز ناجائز کی کوئی پرواہ نہیں؟ اسلامی تعلیم یا نقطۂ نظر جاننے کی کوئی ضرورت نہیں، صرف واہ واہی سے مطلب ہے، حرام و ناجائز جائے بھاڑ میں۔ مسئلہ: ”اپنے کسی رشتہ دار کی قبر تک جانا چاہتا ہے مگر قبروں پر سے گزرنا پڑے گا تو وہاں جانا منع سخت ہے، دور ہی سے فاتحہ پڑھ دے، قبرستان میں جوتا، چپل پہن کر نہ جائے۔ ایک شخص کو حضور ﷺ نے جوتے پہنے دیکھا، فر مایا: ”جوتے اُتار دے، نہ قبر والے کو تو ایذا دے، نہ وہ تجھے۔“۔(در مختار، کتاب الصلاۃ،باب صلاۃ الجنازہ، ج:3 ص185، بہارِ شریعت حصہ4ص848) قبرستان کے مسئلے جاننے کے لیے بہار شریعت حصہ 4 اور فقہ اسلامی کی کتابوں کا مطالعہ فرمائیں)
ایسے واہ واہی لوٹنے والوں کے لیے رب کا فر مان ہے: ترجمہ: تم فر ماؤ کیا ہم تمھیں بتادیں کہ سب سے ناقص عمل والے کون ہیں؟ وہ لوگ جن کی ساری کوشش دنیا کی زندگی میں برباد ہوگئی حالانکہ وہ یہ گمان کر رہے ہیں کہ وہ اچھا کام کر رہے ہیں۔(سورہ کھف،:18 آیت 104 سے103تک) بد کار سے زیادہ بدنصیب وہ نیکو کار ہے جو سخت محنت اُٹھاکر نیکیاں کرے مگر اس کی نیکی اس کے کام نہ آئے، وہ دھوکہ میں رہے کہ میں نیکو کار ہوں، ہم اس سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں۔ (تفسیر صراط الجنان) آیت ھذا!۔
ہم سب کی دینی واخلا قی ذمہ دا ری ہے کہ مل بیٹھ کر اس سلگتے ہوئے مسئلہ پر دھیان دیں اور ضرور قدم آگے بڑھائیں خدا نخواستہ کہیں ایسا زمانہ آجائے کہ مردہ لے کر لوگ گھوم گھوم کر مردہ دفن کرنے کے لیے زمین تلاش کرتے پھریں، کوئی عجب نہیں کی مسلم دشمن عناصر ایسا قا نون بنادیں کہ مسلمانوں کو بھی شمشان میں جلایا جائے جیسے کی آواز اٹھائی جا رہی ہے کہ قانون بنایا جائے وغیرہ وغیرہ. خدارا مسلمانوں جاگو اور اپنے دین اور ایمان و ثقافت قبرستانوں کی دیکھ بھال، حفاظت کرو، اگر ہر آمی نہیں بولے گا تو خرابی اور بڑھے گی خواب غفلت سے بیدار ہوں، غیرت ایمانی سے اس میں حصہ لیں، اللہ ہم سب کو عمل کی تو فیق دے آمین.
hhmhashim786@gmail.com
حافظ محمد ہاشم قادری کی گذشتہ نگارش یہاں پڑھیں: اسلام نے جنگ کے آداب مقررکیے ہیں، جنگ کسی مسئلےکاحل نہیں جناب!

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے