اسلام نے جنگ کے آداب مقررکیے ہیں، جنگ کسی مسئلےکاحل نہیں جناب!

اسلام نے جنگ کے آداب مقررکیے ہیں، جنگ کسی مسئلےکاحل نہیں جناب!

حافظ محمد ہاشم قادری مصباحی، جمشید پور
موبائل: 09386379632
جب سے دنیا قائم ہے تبھی سے جنگ و جدال بھی جاری ہے۔ راجاؤں، بادشاہوں نے، دنیا کے طاقت ور حکمرانوں نے اپنی اَنا اپنی طاقت وغرور گھمنڈ میں کم زور ملکوں پر اپنے ظلم و جبر کا پنجہ گاڑے ہیں، کم زور ملکوں، وہاں کے باشندوں کی سانسوں تک میں پہرہ لگائے ہوئے ہیں۔ پُرانی تاریخ کو چھوڑتا ہوں نئی تاریخ جس کے ہم اور آپ گواہ ہیں اسی کو دیکھیں عراق، لیبیا، سیریا، ویتنام، فلسطین، افغانستان وغیرہ میں امریکا، روس، فرانس و دیگر دوسرے سپر پاور ملکوں نے کیسے یلغار کی، کس طرح سے ان ظالم و جابر حکمرانوں(ہٹلروں) نے اپنی طاقت کی بنیاد پر کم زور ملکوں پر ظلم و جبر کا خونی کھیل کھیلے ہیں۔
لاکھوں نہیں! جی ہاں جناب لاکھوں نہیں کروڑوں کروڑ کم زور معصوموں، بے گناہ انسانوں کی لاشوں کا ڈھیر لگانے والوں نے شہر کے شہر و پورے ملک کو اُجاڑ دیا، انسانی لاشوں کا پہاڑ بنایا، پھر بھی انھیں سکون نہیں، ہر روز جنگ کا ایک نیا میدان تلاش کرتے رہتے ہیں۔
ترقی یافتہ دنیا کے کار نامے: پہلی عالمی جنگ کے جانی نقصانات اور دوسری عالمی جنگ میں انسانوں کی ہلاکت خیزیوں کی لسٹ قارئین کی خدمت میں(مختصراً) پیش ہے۔ واضح رہے کہ ان اعداد وشمار میں قیدی اور زخمی انسانوں کا حساب نہیں جس زمانے میں یہ فہرست شائع کی گئی تھی اس کے بعد بھی سینکڑوں مقامات میں جنگیں ہوئی اور آج بھی جاری ہیں۔
پہلی عالمی جنگ : (1)روس 17لاکھ، (2) جرمنی 16لاکھ، (3) فرانس 13لاکھ، (4) برطانیہ 7 لاکھ، لمبی فہرست ہے۔ ٹوٹل انسانی جانوں کا زیاں، تہتر لاکھ بتیس ہزارہے۔ دوسری عالمی جنگ : (1)روس دو کروڑ دس لاکھ، (2)جر منی 16لاکھ، (2)پولینڈ نو لاکھ، (3) چین 30لاکھ، (4) جاپان پچاس لاکھ، (5) سلاویکیہ تیس لاکھ پچاس ہزار، لمبی فہرست، ۔ٹوٹل چار کروڑ 34 لاکھ 43 ہزار۔ ( اسلام اور امن عالم، باب: 3 ص 130 سے133، مصنف :مولانا بدرِ عالم بدر القادری صاحب ایمسٹر ڈم، ہالینڈ) محض اپنے حصولِ اقتدار، حصولِ دولت اور بے بنیاد پاس داری اور اپنی انا کی خاطر دنیا کو خون و آہن کے ا لاؤ میں ڈھکیلنے والے ظالم و جابر حکمرانوں نے انسانوں کی آہیں، خونی آنسو، ویرانی، ہلاکت وبر بادی کے سوا دنیا کو کیا دیا؟
اسلام میں انسانی خون کا احترم: اسلام نے انسانی جان کے ضیاع کو بدترین جرم قرار دیا ہے۔ سیدناحضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ قیامت کے روز سب سے پہلے لوگوں کے خون کا فیصلہ کیا جائے گا۔(بعض روایات میں ہے کہ سب سے پہلے نماز کا سوال ہوگا۔ بعض روایات میں ہے سب سے پہلے ’’قتل‘‘ ناحق کے بارے میں سوال ہوگا۔) دنیا میں اگر انسان زندہ ہے، اس کی جان، عزت، آبرو محفوظ ہے تبھی وہ تعمیر انسانیت کا کام کرسکتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ اسلام نے ساری دنیا کو امن و محبت کا پیغام دیا. ایک انسان کے قتل کو ساری انسانیت کا قتل قرار دیا۔ قرآن مجید میں ہے:
مَن قَتَلَ نَفْساً بِغَیْْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِیْ الأَرْضِ فَکَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعاً وَمَنْ أَحْیَاہَا فَکَأَنَّمَا أَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعاً
ترجمہ: جس نے کسی جان کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے بدلے کے بغیر کسی شخص کو قتل کردیا اور جس نے کسی ایک جان کو (قتل سے بچاکر) زندہ رکھا اس نے گویا تمام انسانوں کو زندہ رکھا۔ (سورہ مائدۃ: 5، آیت32)
بنی اسرائیل کو یہ فر مایا گیا اور یہی فر مانِ الٰہی ہمارے لیے بھی ہے کیونکہ گزشتہ امتوں کے جو احکام بغیر تردید کے ہم تک پہنچے ہیں وہ ہمارے لیے بھی ہیں۔ یہ آیت مبارکہ اسلام کی اصل تعلیمات کو واضح کرتی ہے کہ اسلام کس قدر امن و سلامتی کا مذہب ہے اور اسلام کی نظر میں انسانی جان کی کس قدر اہمیت ہے۔
دراصل اس وقت دنیا تین حصوں میں بٹی ہوئی ہے(1) طاقت ور سُپر پاور ملکوں نے اپنے کو دنیا کا بے تاج بادشاہ بنالیا ہے، خود کی نظروں میں اپنے کو ہیرو مان رہے ہیں۔(2) کم زور اور اپنے نظریات پر چلنے والے ممالک جو اپنی کم زوری پر جو بھی سہولیات ہیں اُنہی پر جی رہے ہیں، دوسروں کی دبنگائی سے دبے سہمے اپنی زندگی کے دن کاٹ رہے ہیں۔ (3)وہ ترقی یافتہ ممالک جوطاقت ور دبنگوں کی دبنگائی کو کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں لیکن وہ دنیا کے ظلم کو دیکھتے سمجھتے ہیں اس کے باوجود نہ ان کی مخالفت کرتے ہیں نہ ہی کسی کی مدد کرتے ہیں بلکہ دوغلی پالیسی اختیار کرتے ہوئے یو این اُوuno میں ویٹو پاورVeto Power کا استعمال خوب  کرتے ہیں، یا پھر ووٹنگ میں حصہ ہی نہیں لیتے۔ بس چند لفظـ” گول مول" مظلوم کی حمایت میں بول کر اپنی دوغلی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے خود ہی اپنے ہاتھوں ہی اپنی پیٹھ تھپتھپاتے ہیں. جب انسان اپنی غلطیوں کا "وکیل" بن جائے اور دوسروں کی غلطیوں کا "جج" بن جائے تو پھر ایسا ہی ہوتا ہے۔
کَمَا تَدِیْنُ تُدَانُ:
حضور اکرم ﷺ کی زبان مبارکہ سے نکلا یہ جملہ ساری دنیا میں مثال بن گیا۔ جس کے معنیٰ ہیں: ’’جیسا کروگے ویسا بھگتوگے‘‘ دنیا میں اچھے اعمال کرنے پر دونوں جہاں میں اچھا نتیجہ ملے گا ان شاء اللہ تعالیٰ۔ (حدیث: بخاری شریف، 4474 – 4474 ، سنن ابی داوود:1458)
ایک زمانہ وہ بھی گزرا ہے جب 2003 میں عراق میں صدام حسین کا تختہ پلٹنے کے لیے "یوکرین" نے امریکا کے ساتھ اپنی فوج عراق بھیجا تھا، جس میں لاکھوں عراقی فوجی اور عام آدمی مارے گئے تھے۔ اور آج وہ زمانہ ہے، جب روس نے "یوکرین" میں تباہی مچا رکھی ہے اور یوکرین امریکا اور ساری دنیا  سے مدد کی بھیک مانگ رہا ہے، پر کوئی مدد بھیجنے کو تیار نہیں۔ اسی لیے کہتے ہیں ظلم اتناہی کرو جتنا سہ سکو۔ پورے یورپ کو پرو ٹینیم دینے والا ملک "یوکرین" آج روس سے یک طرفہ مار  کھارہا ہے کیونکہ کسی بھی مصیبت سے بچانے کا وعدہ کرنے والے امریکا، برطانیہ، فرانس میں سے کوئی بھی مدد کے لیے نہیں آرہا ہے، یہی ہوتا ہے جب آپ کے پاس سب کچھ ہو لیکن دفاع کے لیے ایک مضبوط فوج نہ ہو؟ یہ سبق ہے نام نہاد اسلامی ملکوں سعودی عرب، دبئی و دیگر ملکوں کے لیے جو امریکہ کے آسرے پر کلبوں میں مدہوش پڑے ہیں۔ اگر "یوکرین" کم زور اور مظلوم ملک ہے تو دنیا کے منافقین شام، لیبیا، عراق، افغانستان اور فلسطین کی مظلومیت کا رونا کیوں نہیں روتے۔۔۔؟ موجودہ دور میں ایٹمی اور کیمیائی ہتھیاروں کی وجہ سے جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں۔۔۔؟ اس لیے جنگ جلد سے جلد بند ہونی چاہیے۔
اِسلام میں جنگی قوانین کے اُصول وضوابط:
؎ جنگ میں قتل سپاہی ہوں گے ٭ سرخ رُو ظِلِّ الٰہی ہوں گے
محمد علی موجؔ رام پوری
دنیا وی کہاوت ہے جنگ میں سب جائز ہوتا ہے لیکن مذہب اسلام اس نظریہ کی نفی کرتا ہے، جس جنگ میں تشدد، دہشت اور ظلم شامل ہو اسلام اس کوبالکل مسترد کرتا ہے۔ اسلام کوبد نام بھی کیا جاتا ہے کہ اسلام تلوار کے ذریعہ پھیلا ہے یہ سراسر جھوٹ ہے، الزام ہے پروپیگنڈہ ہے۔ اسلام نے اپنے دفاع کے لیے جنگیں لڑی ہیں، جنگ کے بارے میں اسلامی تعلیمات کا مطالعہ ضرور فر مائیں۔ رحمتِ عالم ﷺ نے جنگ کے لیے شریفانہ ضوابط بھی مقرر فر مائے ہیں اور اپنے فوجیوں اور کمانڈروں پر ان کی پابندی لازمی قرار دیتے ہوئے کسی حال میں ان سے باہر جانے کی اجازت نہیں دی ہے۔ قتال کے سلسلے میں رحمۃ اللعالمین ﷺ نے جو ہدایات دی ہیں وہ اِنسانی تاریخ میں منفرد اہمیت کی حامل ہیں، دنیا کی کوئی قوم کوئی تاریخ اس کی مثال دینے سے قاصر ہے۔ (1)نبی کریم ﷺ نے اہل قتال کا فرق واضح کرتے ہوئے فر مایا: ’’کہ غیر اہل قتال کو نقصان نہ پہنچایا جائے، عورتوں، بچوں، بوڑھوں، بیماروں، گوشہ نشینوں، زاہدوں اور مندروں کے مجاوروں اور پجاریوں کو قتل نہ کیا جاے۔ (2) رسولِ کریم ﷺ مجاہدین کو رخصت کرتے ہوئے فر ماتے: ’’ کسی بوڑھے، بچے، نابالغ لڑ کے، اور عورت کو قتل نہ کرو، اموال غنیمت میں چوری نہ کرو، جنگ میں جو کچھ ہاتھ آجائے سب ایک جگہ جمع کردو، نیکی اور احسان کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں کو پسند فر ماتاہے‘‘۔ ( سنن ابی داوود، کتاب الجھاد) ایک حدیث پاک میں ہے کہ’’ نبی کریم ﷺ نے کسی غزوے میں ایک مقتول عورت دیکھی تو رسول ﷺ نے عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے سے منع فرمایا۔‘‘( صحیح بخاری، کتاب الجھاد والسیر،باب قتل النساء فی الحرب، 3: حدیث:1098 2852, مسلم حدیث: 1744,1364)
اس کے علاوہ بھی بہت سی حدیث پاک موجود ہیں، قرآن مجید میں واضح احکام موجود ہیں۔ خلیفہ اول حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے شام کی طرف فوجیں روانہ کیں تو ان کو دس ہدایتیں دی تھیں کہ(1) کسی عورت کو قتل نہ کرنا. (2) بچے کو قتل نہ کرنا (3)کسی پھل دار درخت کو نہ کاٹنا (4) بوڑھے کو قتل نہ کرنا(5) آبادی کو ویران نہ کرنا (6) بکری اور اونٹ کو زخمی نہ کرنا، مگر یہ کہ انھیں کھانا ہو. (7) شہد کی مکھیوں کو نہ جلانا. (8) امانت میں خیانت نہ کرنا. (9) اور نہ ان کو بھگانا (10) بزدلی نہ دکھانا. ان احکام کے مطالے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام نے جنگ و جہاد کو ان تمام وحشیانہ افعال سے پاک کردیا جو اس عہد میں جنگ کا ایک غیر منفک جز بنے ہوئے تھے اور ابھی بھی بنے ہوئے ہیں۔ وحشیانہ افعال اور جنگ میں سب جائز ہے کے خلاف آئین جنگ کے اُصول بنادیے۔
جتنی جلد ہو جنگ بند ہونا چاہیے:
یہ نئی جنگ انسانیت پر ظلمِ عظیم ہے. روس نے یوکرین پر پوری قوت سے حملہ کردیا ہے، یہ ایک دن میں نہیں ہوا مہینوں سے اس کی تیاری ہورہی تھی. سرحد پر فوجیں تعینات، بکتر بند گاڑیاں اور جنگی جہازوں کو الرٹ پر رکھنا، دوسرے سپر پاور ملکوں امریکہ، چین، فرانس، جر منی، برطانیہ وغیرہ کی گیدڑ بھبکیاں دکھاوے والی کچھ نہ کرسکیں اور روس نے اپنے ہی پڑوسی پر حملہ کردیا۔ جدید زمانے میں جدید جنگی ساز و سامان سے جنگ لڑنا انسانی جانوں کا ضیاع اور خون بہانہ بہت آسان ہے لیکن بہت افسوس ناک اور تکلیف دہ بھی ہے. اسے لکھنے کے لیے میرے پاس لفظ ہی نہیں۔ پھر ہمارے ملک کے شہری طلبہ جو وہاں پھنسے ہوئے ہیں ان کی جان پر بنی ہوئی ہے. اب تک دو ہندستانی طالب علم کی جان جاچکی ہے۔ کئی کئی کلومیٹر پیدل چل کر دوسرے ملکوں کی سرحدوں میں پہنچے ہیں. اُن کا حال سن کر دیکھ کر دل بیٹھا جاتا ہے۔ہمارے ملک میں الیکشن لڑا جارہا ہے، صرف ہوا ہوائی میں ان کی مدد کا اعلان ہو رہا ہے جو بتایا جارہا ہے وہ بہت ہے لیکن ان کے لانے کی رفتار بہت  دھیمی  ہے۔ دشمن اسلام کی دوغلی پالیسی:
روس اور یوکرین کی جنگ کو آج ایک ہفتہ سے زیادہ ہوگیا، امریکا بہادر اور اس کے اتحادیوں نے پہلے تو یوکرین کو چڑھایا، ہر طرح کی مدد کی جھوٹی تسلی دی، ورغلا کر روس کے خلاف لڑائی کا ماحول بنادیا اور جب روس نے یوکرین پر جنگ مسلط کردی تو یہ سارے بی جمالو دور سے کھڑے ہوکر تماشہ دیکھ رہے ہیں۔ معلوم ہونا چاہیے کہ یوکرین بھی 32 ملکوں کے ساتھ عراق میں اپنا ٹینک لےکر مسلمانِ عراق کے خلاف امریکا بہادر کی چمچہ گیری میں جنگ کرنے پہنچ گیا تھا اور معصوم انسانوں کے قتل عام میں حصہ لیا تھا اور آج جب خود مکافاتِ عمل میں پھنس گیا تو مدد  کے لیے دنیا سے گہار لگا رہا ہے۔ اسلام دشمنوں کی دوغلی پالیسیوں کو بھی دیکھیں کہ جب یہ سب مل کر عراق، افغانستان، لیبیا، سیریا، فلسطین کو تباہ کر رہے تھے تو تمام عالمی ادارے خاموش تھے مگر یوکرین کے لیے زبانی ہی سہی بول نہیں چیخ رہے ہیں۔ مظلوم فلسطینیوں اور دیگر ممالک کے مسلمانوں کا خون تو پانی ہے، بس خون کی قیمت تو صرف یورپین اور یہودیوں کا ہی ہے. ایک وقت ایسا آئے گا جب قدرت ہر خونِ ناحق کا انتقام لے گی اور اس وقت قادر مطلق کی گرفت سے کوئی نہیں بچ پائے گا.
؎ جو چپ رہے گی زبان خنجر
لہو پکارے گا آستیں کا
امیر ؔمینائی
hhmhashim786@gmail.com,9279996221
الحاج حافظ محمد ہاشم قادری صدیقی مصباحی خطیب و امام مسجدِ ہاجرہ رضویہ اسلام نگر کپالی وایا مانگو جمشید پور جھارکھنڈ پن کوڈ:831020

صاحب تحریر کی گذشتہ نگارش: تین نورانی راتیں اور خوش فہمی

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے