عید کی صبح اکیلی ہے مرے کمرے میں

عید کی صبح اکیلی ہے مرے کمرے میں

نظم نگار: عذرا نقوی
انتخاب کلام: ظفر معین بلے جعفری

عید کی صبح اکیلی ہے مرے کمرے میں
بڑی دل گیر ہے، رنجیدہ ہے
اب یہاں صبح کے چھ بجتے ہیں
اور بہت دور وہاں، دور بہت
میرے اس شہر میں اب وقت بھلا کیا ہوگا ؟
اب تو شاید مرے گھر آنگن میں چہچہاتے ہوئے خوشیوں کے پرندے اتر آئے ہوں گے
جھلملانے لگے رنگین، دل آویز سے منظر مری نم آنکھوں میں
ننھی بیٹی کے دوپٹے میں لگی بیل کی جھلمل میں وہاں
عید کی صبح چمکتی ہوگی
میرا بیٹا نئی پوشاک پہن کر بڑے انداز سے نکلا ہوگا
جانتا ہوں مری بیوی کی ہتھیلی پہ حنا رچتی ہے
سرخ مہندی سے سجے ہاتھوں میں
چوڑیاں اس نے دھنک رنگ کی پہنی ہوگی
شیر خورمہ کا پتیلا ابھی تیار کیا ہوگا مری اماں نے
اور عیدی کے لیے ابوّنے
جیب سے پرس نکا لا ہوگا
عید گاہوں میں وہی پہلی سی رونق ہوگی
جیسی ہوتی تھی مرے بچپن میں
ابھی کچھ دیر میں ان سب سے مری فون پہ باتیں ہوں گی
فون آواز وں سے، لہجوں کی حلاوت سے، محبت بھرے پیغاموں سے
میری تنہائی کا درماں ہوگا
پھر دعا کر کے یہی مہرباں نیند کی آغوش میں کھو جاؤں گا
یوں ہی آتی رہیں گھر آنگن میں
شہر کی گلیوں میں بازاروں میں
عیدکی رونقیں ہر سال یوں ہی رونقِ رمضان کے بعد
***
عذرا نقوی کی یہ نظم بھی ملاحظہ فرمائیں :انھیں مجھ سے شکایت ہے

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے