طلوع و غروبِ آفتاب کی معنویت

طلوع و غروبِ آفتاب کی معنویت

عبدالرحمٰن
نئی دہلی
(سابق چیف مینیجر، الہ آباد بینک )
9650539878
rahman20645@gmail.com

اللہ تعالی، یعنی خالق کائنات، قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:
اِنَّ فِىْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَاٰيٰتٍ لِّاُولِى الْاَلْبَابِۙ ○
( آل عمران-3: 190)
یعنی بے شک، آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں، اور رات اور دن کے باری باری سے آنے (شب و روز کی گردش) میں عقل مند لوگوں کے لیے بہت نشانیاں ہیں۔
اسی سورہ کی اگلی آیت (191) میں واضح کیا گیا ہے کہ اللہ، رب العالمین کو یاد کرنے والے جب آسمانوں اور زمین کی خلقت، اور اس میں پوشیدہ معنویت پر غور کرتے ہیں تو وہ اس حقیقت کا اعتراف کیے بغیر نہیں رہ سکتے کہ اللہ تعالی نے کوئی بھی چیز عبث پیدا نہیں کی ہے، یعنی اس کی ہر تخلیق با حکمت اور انسانوں کے لیے افادیت سے لبریز ہوتی ہے۔
قرآن پاک کے مندرجہ بالا مختصر مطالعہ سے ہی "دو اور دو چار" کی طرح واضح ہو جاتا ہے کہ اللہ تعالی نے کائنات کو حکمت اور بامعنی پلاننگ (منصوبہ) کے تحت تخلیق کیا ہے اور ہر شے کے اندر، اپنی خاص تخلیق یعنی احسن تقویم، انسان کے لیے افادیت کے گوناگوں پہلو شامل کردیے ہیں۔ ہاں، مگر انسان کو ضرور اس نے اپنی معرفت کے لیے پیدا کیا ہے ( الذاریات-51: 56)۔
انسان کی زندگی میں اللہ تعالی کی معرفت کا آخری اظہار اس کی عبادت کی شکل میں ہوتا ہے۔ انسان کو عقل اور فرقان، یعنی چیزوں کے درمیان فرق کرنے کی صلاحیت، سے مزین کرکے دنیا میں پیدا کیا گیا ہے۔ اپنے اسی عقل و شعور کے توسط سے جب انسان، اپنی ذات اور دوسری تمام مخلوقات میں کار فرما ڈیزائن (design)، اور کائنات میں بکھری پڑی بے شمار متفرق نشانیوں (signs) پر غور و فکر کرتا ہے، تو وہ کائنات میں موجود پلاننگ (planning) اور ڈیزائن کو وجود بخشنے والے ڈیزائنر اور پلینر، یعنی خالق کائنات، یعنی اللہ، رب العالمین کا ادراک حاصل کرلیتا ہے۔
دراصل، یہی "ادراک" اللہ تعالی کی "معرفت" ہے۔
حقیقت میں، اللہ تعالی کی معرفت حاصل کرنا ہی، دنیا میں انسان کی کام یابی کا ہدف ہے۔ اپنے رب کی معرفت سے سرشار ہوجانے کے بعد، کوئی انسان کس طرح اپنے خالق و مالک اور پروردگار کے آگے خود کو ڈھیر کر دینے سے روک سکتا ہے۔ اللہ تعالی کے سامنے بندگی کے اسی مقام کو، عرف عام میں عبادت کہا جاتا ہے۔
رات اور دن کے باری باری آنے کے پس منظر میں، طلوع اور غروب آفتاب کوئی کتابی واقعہ نہیں، بلکہ خود انسانوں کا صبح و شام کا مشاہدہ ہے۔
"اور اس کی نشانیوں میں سے ہیں رات اور دن، اور سورج اور چاند، تم سورج اور چاند کو سجدہ نہ کرو، بلکہ اس اللہ کو سجدہ کرو جس نے ان سب کو پیدا کیا ہے" ( حٰم السجدہ-41: 37)۔
سورج اور چاند کی چمک دمک سے مرعوب ہوکر جو انسان ان کو اپنا معبود بنائے ہوئے تھے یا آج بھی بنائے ہوئے ہیں، ان کو آگاہ کیا گیا ہے کہ کائنات کی دوسری چیزوں کی طرح ہی سورج اور چاند بھی خدا کی مخلوق ہیں۔ اس لیے وہ قابل پرستش نہیں۔
رات اور دن، سورج اور چاند اللہ تعالی کی نشانیوں میں سے ہیں، اور اپنی نشانیوں کے بارے میں انسانوں کے لیے اس کی تاکید ہے کہ وہ ان پر غور و فکر کے عمل سے کائنات کی معنویت اور خالق کائنات کی معرفت حاصل کرنے کی سعی کریں (الاعراف-7: 185)۔
سورج کے طلوع ہونے سے لےکر اس کے غروب ہوجانے تک اور رات کے چھا جانے سے لے کر دن کے نمودار ہوجانے تک کا پورا واقعہ انسانوں کے لیے سبق، نصیحت اور رہ نمائی سے بھرا پڑا ہے۔ سورج کی روشنی ہی نہیں، بلکہ اس کی گرمی بھی انسان، حیوان اور تمام پیڑ پودوں کی نشوونما کے لیے اشد ضروری ہے۔
آفتاب کے طلوع اور غروب ہونے کا واقعہ صرف سورج کا ہی ظاہرہ نہیں ہے، بلکہ اصلی کمال تو کرہ ارض، یعنی زمین (planet earth) کا ہے، جس پر ہم رہتے ہیں۔ سورج کے سامنے زمین اپنے محور (axis) پر لگاتار گھومتی رہتی ہے، اور اپنا ایک چکر تقریباً 24 گھنٹے میں پورا کرتی ہے، جب کہ باریک بینی کی نظر سے یہ وقت 23 گھنٹے، 56 منٹ اور 4 اعشاریہ صفر نو ایک سیکنڈ پر مشتمل ہوتا ہے۔ زمین کے جو حصے سورج کے سامنے رہتے ہیں، وہاں دن رہتا ہے اور جو حصے سورج کے سامنے نہیں ہوتے، وہ رات کا تجربہ کرتے ہیں۔
حقیقت میں، زمین گھومتی رہتی ہے، مگر زمین پر آباد انسان، بہ شمول سارے جان داروں کا مشاہدہ یہی ہوتا ہے کہ زمین نہیں، بلکہ طلوع ہونے کے بعد، سورج ہی مختلف منازل طے کر رہا ہے، یعنی صبح، دو پہر، شام اور پھر رات کا وقوع پذیر ہونا۔
در اصل، زمین کا اپنے محور پر گھومنا ہی، گویا سورج کا زمین کے گرد گھومنا محسوس ہوتا ہے۔ اپنے محور پر گھومنے (rotation) کے ساتھ ساتھ زمین، نظام شمسی کے مرکز یعنی سورج کے گرد بیضوی مدار (elliptical orbit) میں بھی گھومتی (revolution) ہے۔ سورج کے گرد گھومنے میں جو وقت لگتا ہے، وہی ہماری زمین کا ایک سال (year) ہوتا ہے۔ اس سال کی مقدار 365 اعشاریہ دو پانچ دن ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ ہماری زمین، اپنے محور پر، سورج کے گرد اپنے مدار کی نسبت سے 23 اعشاریہ پانچ ڈگری جھکی ہوئی ہے۔ زمین کا جھکا ہونا اور سورج کے گرد زمین کا چکر لگانے کے عمل کو خالق کائنات نے انسانوں کی فلاح کے لیے اپنی عظیم مہربانیوں سے وابستہ کردیا ہے۔ بہت سے دوسرے فائدوں کے علاوہ، دن اور رات کا چھوٹا بڑا ہونا اور مختلف موسموں کا وجود میں آنا اسی وجہ سے ہوتا ہے۔
اللہ تعالی نے انسانوں کو آباد کرنے سے پہلے ہی، کرہ ارض کو استثنائی طور پر آکسیجن، فضا (atmosphere)، پانی، اناج اور ہر طرح کی غذائی اشیا، کے ساتھ ساتھ, چرندے، پرندے، درندے, جنگلات، ندی نا لے، سمندروں اور پہاڑوں سے مزین کردیا ہے۔ معلوم کائنات میں زمین(Planet earth) ایک منفرد سیارہ ہے، جو جمالیات و خصوصیات میں جنت کی مثل ہے، سوائے اس فرق کے ساتھ کہ جنت ہر اعتبار سے ایک "معیاری" دنیا ہوگی۔
طلوع و غروب آفتاب کی معنویت اور انسانوں کے لیے اس میں پوشیدہ رہ نمائی کے عوامل پر تجزیاتی غور و فکر سے پہلے، یہ مناسب ہوگا کہ کائنات کا ایک اجمالی جائزہ لیا جائے۔
تقریباً چودہ بلین (billion)، یعنی 14 ارب سال پہلے ایک بہت بڑے دھماکہ کی صورت میں خدا کی قدرت کا ظہور ہوا، جس نے کائنات کو وجود بخشا۔ اس ربانی واقعہ کو انسانی زبان میں بگ بینگ (Big Bang) کہا جاتا ہے۔ اسی واقعہ کے پس منظر میں، ستارے (stars)، سیارے (planets) اور سیارچے یا بہ الفاظ دیگر چاند (moons) نام کے کھربوں کی تعداد میں اجرام فلکی (astronomical or celestial bodies) وجود پذیر ہوئے، اور جھنڈ کے جھنڈ وسیع کائنات میں پھیل گئے۔ خدا کی قدرت کا مزید شاہ کار یہ ہے کہ جو کائنات خود انسانی تصور و تخیلات سے بھی وسیع ہے، وہ آج بھی اپنی وسعتیں مزید بڑھاتی ہوئی نظر آرہی ہے۔
ستاروں کے مختلف جھرمٹ (clusters) جو خود اربوں کی تعداد پر مشتمل ہیں کہکشاں (galaxies) کہلاتے ہیں۔ انہی کہکشاؤں میں ایک معروف کہکشاں ہے، جس کا نام ہے ملکی وے (Milky way). اسی ملکی وے میں ہمارا شمسی نظام (Solar system) واقع ہے۔ اس نظام کے اندر جس ستارے کو مرکزی حیثیت حاصل ہے، اس کو ہم سورج (Sun) کے نام سے جانتے ہیں۔
یوں تو سورج کے گرد متعدد چھوٹے بڑے اور مختلف قسم کے اجرام فلکی (Celestial bodies) اپنی اپنی مدار میں گردش کررہے ہیں، ان میں سے خصوصی طور پر بڑے طول و عرض کے اجرام (bodies ) سیارے (Planets) کہلاتے ہیں۔ آج کی تاریخ میں ان سیاروں کی مستند تعداد آٹھ ہے۔
سورج سے فاصلے کے اعتبار سے ان سیاروں کے نام اور ان کی ترتیب اس طرح سے ہے:
عطارد (Mercury)، زہرہ (Venus)، زمین (Earth)،
مریخ (Mars)، مشتری (Jupiter)، زحل (Saturn)، یورینس(Uranus) اور نیپچیون(Naptune)۔
سنہ 1930عیسوی میں پلوٹو(Pluto) نام کے سیارہ کی کھوج کے بعد ہمارے نظام شمسی کو نو سیاروں پر مشتمل سمجھا جانے لگا تھا۔ 1990 کی دہائی تک معلومات کا یہی سلسلہ جاری رہا، جب تک کہ ماہر فلکیات (Astronomers) کے درمیان پلوٹو کے سیارہ ہونے کو لے کر بحث نہ ہونے لگی۔ یہ سلسلہ جاری رہا، یہاں تک کہ سنہ 2006ء میں سیارے کی حیثیت سے پلوٹو (Pluto) کو خارج کر دیا گیا۔
نتیجتاً، موجودہ سائنسی حقائق کی روشنی میں، آج ہمارا سولر سسٹم، صرف آٹھ سیاروں پر مشتمل ہے۔
اجرام فلکی، جو سیاروں کے گرد گھومتے ہیں، "سیارچے" کہلاتے ہیں۔ ایک سیارچہ کو ذیلی سیارہ یا چاند (Moon or natural satellite) بھی کہا جاتا ہے، جب کہ عرف عام میں، جس آسمانی جسم (Celestial body) کو ہم "چاند" (Moon) کہتے ہیں، وہ وہی ہے جو ہماری راتوں کو "چاندنی رات" بناتا ہے، سمندروں میں مد و جزر (flux and reflux) پیدا کرتا ہے، اور زمین کے گرد چکر لگاتے ہوئے، اپنا ایک چکر 29 یا 30 دن میں پورا کرتا ہے ۔
چاند کے مختلف منازل کو دھیان میں رکھ کر جو کیلینڈر (Lunar calendar) ترتیب دیا گیا یے، وہ فطری کیلینڈر (natural calendar) کہلاتا ہے، کیوں کہ یہ دوسری رائج جنتریوں (almanacs/calendars) کے برعکس، کسی بھی قسم کی انسانی مداخلت سے پاک ہے۔ اس کی اسی فطری نوعیت کا کمال ہے کہ ماہ رمضان، عید الفطر، حج بیت اللہ اور عید الاضحٰی ہر سال مختلف موسم (weather) اور آب و ہوا (climate) کا تجربہ کرتے ہیں۔
قدرتی یا فطری طور پر، زمین کے پاس ایک ہی چاند ہے، جب کہ مریخ کے پاس "دو"۔ مریخ کو سرخ سیارہ (Red planet) بھی کہا جاتا ہے۔ عطارد اور زہرہ کے حصہ میں کوئی بھی چاند نہیں ہے، جب کہ مشتری، زحل، یورینس اور نیپچیون میں سے ہر ایک کے گرد چکر لگانے والے ذیلی سیاروں کی تعداد دو سے کہیں زیادہ ہے۔
جب سے ملک اور بیرون ممالک، مواصلاتی نظام (Communication systems) کو مضبوط کرنے کی غرض سے، سائنس دانوں کی کاوشوں کے زیر اثر، مصنوعی سیاروں (artificial satellites) کا نظام وجود میں آیا ہے، تب سے اب تک، ہزاروں کی تعداد میں، مصنوعی اجرام فلکی زمین کے مدار میں داخل کیے جا چکے ہیں۔ علمی جدوجہد کے پیش نظر، ہماری زمین کے ذیلی سیارے، چاند پر انسان بہت پہلے اپنا قدم رکھ چکا ہے، اور متعدد ماہر فلکیات (Astronomers) اپنے خلائی جہازوں کے توسط سے خلا میں زمین کی مدار میں گھومتے ہوئے، مختلف تجربات (experiments) کر رہے ہیں۔ اس طرح، آج کا انسان اپنی سائنسی جدوجہد کے نتائج کے طور پر، اپنی تہذیب و تمدن کے میدان میں بے مثال ترقی حاصل کررہا ہے۔
سورج کا طلوع اور غروب ہونا اللہ تعالی کی بڑی نشانیوں میں سے ہے۔ اس واقعہ میں بڑا سبق، نصیحت اور رہ نمائی موجود ہے۔
انسانی نفسیات (human psychology) کے ذیل میں دو بڑے مراحل سے انسان کا سابقہ پیش آسکتا ہے۔ یہ وہ مراحل ہیں جو اس کو دنیا اور آخرت، دونوں جگہ ناکامی سے دوچار کرسکتے ہیں۔ وہ یہ ہیں:
مایوسی (hopelessness) اور استکبار (arrogance)۔
حالانکہ، اللہ تعالی نے اپنی کتاب قرآن پاک میں واضح کردیا ہے کہ انسانی دنیا کو امتحان کی مصلحت کے تحت خلق کیا گیا ہے، اس لیے یہاں اگر کسی کے لیے "بے حساب رزق" فراہم کرنے کا بندوبست کیا گیاہے (آل عمران-3: 37)، تو وہیں، انسانوں کو "خوف، بھوک، اور جان، مال اور پیداوار کے نقصان" میں مبتلا کرکے آزمایا بھی ضرور جائے گا، جب کہ صبر کرنے والوں کے لیے خوش خبری کا اعلان ہے۔( البقرہ2: 155)۔
مگر، انسان آخر انسان ہے۔ "وہ بے شک، بڑا ظالم اور جاہل ہے" (الاحزاب-33: 72)۔
بار بار بہکتا رہتا ہے اور قدرتی وسائل اور ربانی نعمتوں میں ادنا کمی پر بھی صبر و تحمل کے بجائے، اداسی اور مایوسی کا شکار ہوجاتاہے، جب کہ اللہ تعالی کا حکم ہے کہ اس کے بندے اس کی رحمتوں سے مایوس نہ ہوں ( لا تقنطوا من رحمة الله)۔
اس کے برعکس، عیش و آسائش اور مختلف نعمتوں کی فراوانی کی صورت میں، انسان اکثر اپنے منعم کی عنایتوں کے اعتراف اور اس کی نعمتوں کے شکر سے سرشار ہونے کے بجائے، غرور اور گھمنڈ (pride or arrogance) کی نفسیات میں مبتلا ہوجاتاہے۔ اس نفسیات کو قرآن "استکبار" کا نام دیتا ہے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ "مستکبر انسان" کے لیے، قرآن و حدیث میں سنگین نوعیت کی وعیدیں بیان کی گئی ہیں۔
مایوسی کی سب سے بڑی علامت ہے رات کا اندھیرا۔ سورج کی سر پرستی میں زمین کی گردش یہ باور کرانے کے لیے کافی ہے کہ "رات" آگئی ہے تو "صبح" کا آنا بھی یقینی ہے۔ بس، تھوڑا سا "صبر" اور "طلوع آفتاب" کا نظارہ سامنے موجود!
سورج کے طلوع ہونے کے وقت نو مولود بچوں کی بےچارگی، اداسی اور کم زور حالت جیسی کیفیت میں جینے والے اشخاص کے لیے یہاں واضح پیغام موجود ہے کہ تھوڑا سا صبر کرنے والوں کے لیے، دوپہر کے سورج کا پر شکوہ عروج ان کا مقدر ہو سکتا ہے۔
اسی طرح، چاند کے مشاہدہ میں بھی بڑا سبق، نصیحت اور رہ نمائی چھپی ہوئی ہے۔ ایک ہلکی سی لکیر سے شروع ہوکر آہستہ آہستہ بڑھنا، ایک دن چاند کو "بدر منیر" یعنی "چودھویں کا چاند" (full moon) کا درجہ عطا کردیتا ہے۔
استکبار کی نفسیات میں جینے والے گویا کہ دوپہر کے سورج کا مشاہدہ کررہے ہیں۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب اچھے اچھے بھی ان کی طرف آنکھ اٹھاکر نہیں دیکھ سکتے، اور وہ اس دھوکے میں مبتلا ہوجاتے ہیں کہ موجودہ "سر بلندی" کا مقام ان کا حق ہے، جس سے وہ کبھی محروم ہونے والے نہیں۔
مذکورہ افراد، اگر تفکر کے ساتھ سورج کا مشاہدہ کرنے کا مزاج بنا لیں، تو بہت جلد ان کی اپنی عقل ان کو مستقبل بینی کی شاہ راہ پر لے آئے گی، اور وہ خود اس حقیقت کا ادراک کرنے لگیں گے کہ سورج کی "آنکھ نہ ملانے والی" دوپہر بہت جلد ڈھلنا شروع ہوجاتی ہے، اور کچھ ہی عرصہ میں اس کی وہی بچپن (طلوع) کی بے چارگی، پھر اس کے ماضی قریب کی گستاخانہ طمطراق کا احاطہ کرنے لگتی ہے، جب کوئی بھی اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس کو چڑا (taunt) سکتا ہے. آخر کار، اسی بے چارگی کے عالم میں، آفتاب غروب ہوجاتاہے۔
سورج کے نکلنے سے لے کر ڈوبنے تک کے سفر کا مشاہدہ ہی قرآن کے اس بیان کی تصدیق کرنے کے لیے کافی ہے کہ عزت اور ذلت کا معاملہ صرف اور صرف اللہ تعالی کے اختیار میں ہے( آل عمران-3: 26)۔
بے حد وسیع اور پر حکمت کائنات سے قطع نظر، اگر انسان صرف نظام شمسی کے سورج، زمین اور چاند کی کارکردگی (functioning) کا ہی تفکر اور تشکر کی نظر سے مشاہدہ کرنے لگے، تو یقینی طور پر، اس کو صرف اللہ تعالی کی رضا کی خاطر "صبر اور شکر" کی زندگی جینے میں کوئی مشکل در پیش نہیں ہوگی۔ دنیا میں اگر صبر پریشانیوں سے محفوظ رکھتا ہے، تو شکر نعمتوں کو بڑھاتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ، صابر و شاکر مومنین کے واسطے آخرت میں جنت کے لیے اللہ تعالی کا وعدہ ہے، اور بے شک، اللہ رب العزت اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا (الروم-30: 6)۔
(07.03.2022AD, 03.08.1443 AH)
صاحب تحریر کا یہ مضمون بھی ملاحظہ فرمائیں:کام یابی کا پیمانہ؟

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے