کام یابی کا  پیمانہ؟

کام یابی کا پیمانہ؟

عبدالرحمٰن
نئی دہلی
(سابق چیف منیجر، الہ آباد بینک)
رابطہ : 9650539878
rahman20645@gmail.com

کچھ عرصہ قبل ایک نوجوان دوست کا بذریعہ واٹس ایپ ایک ہندی میسج موصول ہوا۔ وہ پیغام یہ ہے:
زندگی کا ہر پل لا جواب ہو نہ ہو،
زندگی کے ہر سوال کا جواب ہونا چاہیے؛
اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کتنی دیر لگے،
انسان زندگی میں کام یاب ہونا چاہیے۔
اس خوش نما شاعری کے آخری مصرعے میں لفظ "کامیاب" نے میرے اندر ایک علمی اشتیاق پیدا کیا، اور میں سوچنے لگا کہ کسی انسان کا کام یاب ہونا آخر ہے کیا؟
کچھ دیر بعد میں نے اپنے دوست کو اس کی پوسٹ کے جواب کے طور پر ایک سوال ارسال کر دیا۔ وہ مصرع یہ تھا:
۔۔۔ ہماری نظر میں کامیابی کیا ہے، سنگیان ہونا چاہیے۔
یہاں، ہندی لفظ "سنگیان” کا مطلب ہے "ادراک"۔
کوئی بھی انسان بہ آسانی سمجھ سکتا ہے کہ جب کوئی شخص "کامیاب" یا "کامیابی" کی اصطلاح استعمال کرتا ہے تو اس کا مطلب عام طور پر وہی ہوتا ہے جو اس وقت کے معاشرے میں شائع و ذائع ہوتا ہے۔
آج کل، ہمارے معاشرے میں، کام یاب ہونے کے معنی ہیں ــ دولت مند ہونا، شہرت یاب ہونا، سیاست یا انتظامیہ کے کسی عہدے پر فائز ہونا وغیرہ وغیرہ۔ اسی کے ساتھ اور کسی علمی تجزیہ کے بغیر، معاشرہ میں تسلیم شدہ طور طریقے، رسم و رواج اور اخلاقی اقدار، عام طور پر، سبھی افراد بغیر کسی بحث و تنقید کے، پورے اطمینان کے ساتھ قبول کرتے رہتے ہیں۔ نتیجتاً، معاشرہ میں "بھیڑ چال" (herd mentality) یا بھیڑ کی نفسیات (mob mentality) کا اصول خود بہ خود، راضی بہ رضا، نافذ ہوجاتا ہے۔
اس ضمن میں، اپنے طالب علمی کے زمانہ کی ایک خوب صورت مثال یاد آتی ہے، جس کو سبق آموز ہونے کی وجہ سے یہاں نقل کیا جاتا ہے:
علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے ایک مطالعاتی سفر (study tour) میں میری کلاس کے دوسرے سیکشن سے میرا ایک دوست، تاج محل کے دیدار اور اس کی فن کاری کے مطالعہ کے لیے آگرہ جاتا ہے۔ اس وقت تک میں نے خود تاج محل نہیں دیکھا تھا۔ اس کی واپسی پر، علمی تجسس سے لبریز میں نے اس سے سوال کیا کہ دوست، تاج محل کیسا لگا؟
اس نے جو غیر علمی جواب دیا اس سے بہ خوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ معاشرے کے رنگ کی پرت اس پر کتنی مضبوطی سے چڑھ چکی تھی۔ اس نے جواب دیا:
"کیسا لگنے کی کیا بات ہے، تاج محل تو ہے ہی خوب صورت۔"
اس غیر متوقع جواب کے بعد، میں نے اس سے اپنا اظہار خیال اس طرح کیا کہ "ڈیر، مزا نہیں آیا, تمھارا جواب نہ تو علمی ہے اور نہ ہی مشاہداتی"۔
کام یابی کے تعلق سے، عہدہ اور پوزیشن (مقام) جو بھی ہوں، مال و دولت کی ریل پیل (کثرت) کو ہی آج کل معاشرہ میں مرکزی حیثیت حاصل ہے، حالانکہ انسانی فطرت اس کے مطابق نہیں۔
اس بات کے فطرت کے مطابق نہ ہونے کی آسان پہچان یہ ہے کہ سبھی انسانوں کو ایک دوسرے سے مختلف ہونے کے باوجود، ایک یا ایک ہی جیسی چیز کیسے جاذب نظر ہو سکتی ہے؟
ہم سبھی، خاص طور پر، پڑھے لکھے افراد کو بھیڑ چال یا "ریوڑ ذہنیت" کی نفسیات (psychology) کا علمی تجزیہ کرتے ہوئے اپنی ذہنی "کھڑکیوں" سے باہر بھی جھانکنا چاہیے، جہاں نیچے دیکھنے پر اگر کیچڑ نظر آتی ہے تو اوپر دیکھنے پر ستارے بھی نظر آتے ہیں۔
اگر ہم اپنے اطوار و اقدار اور رسم و رواج کو عملی جامہ پہنانے سے پہلے، علمی تجزیہ کے مراحل سے گزارنا شروع کر دیں، تو خود ہمارا مشاہدہ بھی یہ سمجھنے میں ہماری مدد کرسکتا ہے کہ مختلف اشخاص کے لیے کام یابی کے پیمانے بھی مختلف ہوسکتے ہیں۔
کام یابی کے پیمانوں کا مختلف ہونا ہی تخلیق کائنات کے ڈیزائن کے عین مطابق ہے، کیوں کہ اللہ تعالی نے انفرادیت و خصوصیات کے معاملے میں انسانوں میں بعض کو بعض پر فوقیت دی ہے، تاکہ انسانی دنیا کی ترقی کا سلسلہ قیامت کے واقع ہونے تک بدستور جاری رہے۔
اس تناظر میں سبھی انسانوں کی اپنی اپنی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی کام یابی کا تعین کریں، نہ کہ بھیڑ کی نفسیات کا اتباع کرنے لگ جائیں۔
کام یابی کا پیمانہ جدا جدا ہونے کا ہی یہ کمال ہے کہ "جو جا کے نہ آئے وہ جوانی" کی کامیابی کا پیمانہ اس سے بلکل مختلف ہوتا ہے "جو آکے نہ جائے وہ بڑھاپا" کا ہوتا ہے، جب کہ بچپن اور لڑکپن میں کام یابی کے معیارات کچھ الگ ہی ہوتے ہیں۔
پیدل چلنے والے کو سائیکل سوار کام یاب نظر آتا ہے، تو سائیکل سوار کو موٹر سائیکل والا۔ موٹر سائیکل والا کار کے مالک کو "کاش" کی نظروں سے دیکھتا ہے، تو کار والے کو مزید مہنگی کار خریدنے میں ہی اپنی کام یابی پوشیدہ نظر آتی ہے۔ ایک کار والا، کئی کاروں کا مالک بننا چاہتا ہے، اور ایک مکان والا کئی مکانات کا۔
اسی طرح، زندگی کی تمام چیزوں کے ساتھ یہی معاملہ ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔ بہ ذات خود، یہ کوئی بری چیز نہیں ہے، بلکہ یہ سب انسانی تہذیب و تمدن (civilization) کی بقا اور فروغ کے لیے ضروری بھی ہیں، مگر، ان کا وقوع پذیر ہونا، بلا شبہ، ربانی شکر و اعتراف کے مطابق اور کسی بھی قسم کی بربادی (wastage) یا فضول خرچی(extravagance) کے بغیر ہونا چاہیے، کیوں کہ اپنے شکر گزار بندے تو اللہ تعالی کو پسند ہیں، جب کہ فضول خرچ انسان، اس کی نظر میں شیطان کے بھائی ہوتے ہیں ( الاسراء-17: 27)۔
چند دن پہلے ایک خبر پڑھی کہ ایک ہونے والی ساس نے اپنے ہونے والے داماد کی ضیافت کی خاطر ایک، دو یا چار، پانچ نہیں، بلکہ 365 پکوان (dishes) تیار کیے تھے۔ کون عقل مند اس احمقانہ فیصلہ کی تحسین کرے گا؟
کچھ اسی قسم کی بے معنی مشغولیات میں ہمارا معاشرہ بھی الجھا ہوا نظر آتا ہے۔ آج کے بیش تر انسان حرص اور ہوس کی نفسیات کے اس درجہ شکار ہو گئے ہیں کہ جائز اور ناجائز، صحیح اور غلط، یہاں تک کہ ضروری اور غیر ضروری کے درمیان بھی تفریق کرنے سے عاجز پائے جاتے ہیں۔ جھوٹی شان کی خاطر چند اشیا کے حصول میں ہی وہ اپنا بیش قیمتی وقت اور طاقت صرف کر دیتے ہیں، اور علم کے وسیع میدان میں جہاں انسانوں کی اخروی فلاح کے لیے، علمی معرکہ آرائی کی ضرورت اور گنجائش تھی، ناکام ہوکر رہ جاتے ہیں۔ قرآن مجید کے الفاظ میں: ” تمھیں کثرت مال کی ہوس اور فخر نے (آخرت سے) غافل کردیا، یہاں تک کہ تم قبروں میں جا پہنچے" (التکاثر-102: 1-2)۔
کام یاب ہونا یا کامیابی حاصل کرنا انسان کی نفسیات کا عجیب و غریب پہلو ہے۔
اسپورٹس (sports) کے میدان میں، بھارت رتن اور معروف کرکٹر بلے باز (batsman)، سچن تیندولکر کے لیے اگر 100 سنچری (ٹیسٹ: 51 اور ون ڈے: 49)، کام یاب ہونے کا پیمانہ تصور کی جائیں، تو سیکڑوں ایسے بلے باز لائن میں کھڑے نظر آجائیں گے، جو صرف ‘ٹیم انڈیا` میں سلیکشن کو ہی اپنی زندگی کی سب سے بڑی کام یابی مان کر جی رہے ہیں۔
بالی ووڈ (Bollywood)، یعنی ممبئی میں واقع ہندستان کی بین الاقوامی شہرت یافتہ فلم انڈسٹری میں، اگر "بادشاہ" اور "شہنشاہ" جیسے القاب موجود ہیں، تو وہیں سیکڑوں کیا، بلکہ ہزاروں نوجوان بے چینی کے ساتھ منتظر ہیں کہ کب کسی فلم میں کسی بہ ظاہر چھوٹے سے رول کے لیے ہی سہی، ان کا بھی انتخاب ہوجائے، اور وہ اپنی کامیابی کے خواب کی تعبیر حاصل کر سکیں۔
کسی کے لیے بہت زیادہ دولت کمانا، کسی کےلیے بہت زیادہ شہرت کمانا، کسی کےلیے دن میں کئی کئی مرتبہ پوشاک بدلنا، کسی کے لیے اچھے اچھے دعوتی کھانے تناول کرنا، کسی کو تنگ حالی میں بھی قرض لے کر عیش کرنا اگر کامیابی کے پیمانے ہیں، تو وہیں، کئی دوسرے لوگوں کے لیے، دولت ہونے کے باوجود سادگی سے رہنا، اپنی دولت کا بیش تر حصہ ضرورت مندوں پر خرچ کرنا، ملک و ملت کی فلاح کے لیے ہمیشہ سر گرداں رہنا اور علمی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا کام یاب ہونے کی نشانیاں ہیں۔
کسی چپراسی کو بابو بننے کی خواہش ہے، تو کسی شخص کا کسی کمپنی کا چیئرمین بننے کے بعد بھی خوش نہ رہنا، اس کا مزاج۔ مطلب یہ کہ جتنے انسان، کام یابی کے اتنے ہی پیمانے. 
یہاں تک کہ فٹ پاتھ پر زندگی بسر کرنے والوں سے لے کر ان لوگوں تک کی زندگی میں کام یاب ہونے کے معنی مختلف ہیں، جو تقریباً، ہر بڑے شہر میں کوٹھی/ بنگلے کے مالک ہیں۔
انسان اللہ تعالی کا بہترین شاہ کار ہے ( التین-95: 4)۔ یہ بھی خالق کائنات کی قدرت کا ہی ظہور ہے کہ ہر انسان کی انگلیوں کے نشان دوسرے تمام انسانوں سے مختلف ہوتے ہیں، یعنی ہر انسان مختلف خوبیوں کا مالک ہے، اور اسی لیے سب انسانوں کی کامیابی کے پیمانے بھی مختلف ہیں۔ اسی فارمولے کے تحت سبھی لوگ دنیا میں اپنی اپنی زندگی بسر کر رہے ہیں، گویا کہ اپنی اپنی آزمائش کا پرچا حل کر رہے ہیں۔ یہاں یہ تجسس پیدا ہوتا ہے کہ کیا رب کائنات نے، دنیاوی امتحان میں اپنے بندوں کی کام یابی کے لیے کوئی اشارہ (clue) فراہم کیا ہے، تاکہ وقت رہتے وہ چوکنّے (alert) ہوجائیں اور اپنے امتحان میں نمایاں کامیابی حاصل کریں، اور نتیجتاً، آخرت کی جنتی دنیا میں ان کا استقبال کیا جا سکے۔
دن رات کے درمیان پانچ وقت، مسجدوں سے بلند ہونے والی اذان کی آواز میں اشارہ موجود ہے۔ اللہ تعالی کی بڑائی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی گواہی کے بعد اذان میں دو خاص باتوں کا اعلان کیا جاتا ہے۔ وہ دونوں خاص پیغام یہ ہیں:
۱۔ آؤ نماز کی طرف
۲۔ آؤ کامیابی کی طرف
یعنی، نماز میں کام یابی ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ اس نے جن اور انسانوں کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے (الذاریات-51: 56)۔ جس میں لفظ عبادت کی تفسیر لفط معرفت سے کی گئی ہے، یعنی اللہ، رب العالمین کو پہچاننا۔ یہاں تک بہ خوبی واضح ہوجاتا ہے کہ انسانوں کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے رب کی معرفت حاصل کریں، یا بہ الفاظ دیگر، اللہ تعالی کے وجود کو اپنی خود کی ڈسکوری (دریافت) بنائیں۔
قرآن پاک میں اللہ تعالی نے جگہ جگہ کھلے الفاظ میں اپنی رہ نمائی فراہم کی ہے کہ اس کے بندوں کی "سچی کام یابی" کس چیز میں ہے۔ زیر نظر مضمون کو رہ نمائی کی جہت فراہم کرنے کے لیے، چند قرآنی حوالے یہاں درج کیے جاتے ہیں:
(1) "آخر کار ہر شخص کو مرنا ہے اور تم سب اپنے اپنے پورے اجر قیامت کے روز پانے والے ہو۔ کام یاب دراصل وہ ہے جو وہاں آتش دوزخ سے بچ جائے اور جنت میں داخل کردیا جائے۔ رہی یہ دنیا، تو یہ محض ایک ظاہر فریب چیز ہے" (آل عمران-3: 185)۔
(2) "۔۔۔ سچوں کو ان کی سچائی نفع دیتی ہے۔ ان کے لیے ایسے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں، یہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے۔ یہی بڑی کام یابی ہے" (المائدہ-5: 119)۔
(3) "اس دن جو سزا سے بچ گیا اس پر اللہ نے بڑا رحم کیا اور یہی نمایاں کام یابی ہے" (الانعام-6: 16)۔
(4) "اللہ کے ہاں تو انہی لوگوں کا درجہ بڑا ہے جو ایمان لائے اور جنھوں نے اس کی راہ میں گھر بار چھوڑے اور جان مال سے جہاد کیا، وہی کام یاب ہیں" (التوبه-9: 20)۔
(5) "وہ مہاجر و انصار جنھوں نے سب سے پہلے دعوت ایمان پر لبیک کہنے میں سبقت کی، نیز وہ جو بعد میں راست بازی کے ساتھ ان کے پیچھے آئے، اللہ ان سے راضی ہوا وہ اللہ سے راضی ہوئے، اللہ نے ان کے لیے ایسے باغ مہیا کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے۔ یہی عظیم الشان کام یابی ہے" (التوبه-9: 100)۔
(6) "سنو جو اللہ کے دوست ہیں، جو ایمان لائے، جنھوں نے تقویٰ کا رویہ اختیار کیا ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں، دنیا اور آخرت دونوں زندگیوں میں ان کے لیے بشارت ہی بشارت ہے، اللہ کی باتیں بدل نہیں سکتیں۔ یہی بڑی کام یابی ہے" (یونس-10: 62-64)۔
(7) "اے ایما ن لانے والو، اللہ سے ڈرو اور ٹھیک بات کیا کرو، اللہ تمھارے اعمال درست کر دے گا اور تمھارے قصوروں سے درگزر فرمائے گا۔ جو شخص اللہ اور رسول کی اطاعت کرے اس نے بڑی کام یابی حاصل کی" (الاحزاب-33: 70-71) ۔
(8) "بے شک وہ جنھوں نے کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے اور پھر اس پر ثابت قدم رہے تو ایسے لوگوں کے لیے نہ کوئی خوف ہے اور نہ ہی وہ غمگین ہوں گے" (الاحقاف-46: 13)۔
(9) "دوزخ میں جانے والے اور جنت میں جانے والے کبھی یکساں نہیں ہو سکتے، جنت میں جانے والے ہی اصل میں کامیاب ہیں" ( الحشر-59: 20)۔
(10) "اے ایمان والو، اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے بچاؤ جس کے ایندھن آدمی اور پتھر ہوں گے" (التحریم-66: 6)۔
(11) "جو لوگ ایمان لے آئے اور جنھوں نے نیک عمل کیے، وہ یقیناً، بہترین خلائق ہیں۔ ان کی جزا ان کے رب کے ہاں دائمی قیام کی جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی، وہ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے، اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے۔ یہ کچھ ہے اس شخص کے لیے جس نے اپنے رب کا خوف کیا ہو" (البینه-98: 7-8)۔
ابھی تک کی ساری بحث کا نچوڑ یہی ہے کہ انسانوں کے فکری استوا اور استطاعت کے بہ قدر ہی ان کی کام یابی کے پیمانے طے ہونے چاہئیں۔ بہ صورت دیگر، معاشرہ میں افراتفری کا ماحول پیدا ہو سکتاہے۔ اس لیے، صحیح معنی میں "اصل کام یابی" وہی ہے جو علمی و فکری استطاعت اور عملی جدوجہد کے نتائج کے طور پر حاصل ہو۔ اس طرح حاصل ہونے والی کام یابی ہی ذہنی ارتقا اور سکون و اطمینان کا باعث ہوتی ہے۔ معاشرہ کے "بڑے" لوگ اس معاملہ میں اہم کردار ادا کرسکتےہیں۔
اگر دولت کسی کے لیے کام یابی کی علامت ہو سکتی ہے، تو علم کے بلند و بالا منازل طے کرنا بھی کسی دوسرے شخص کے لیے اس کے کام یاب ہونے کی نشانی ضرور ہونی چاہیے۔
یقیناً، علمی جدوجہد تقاضا کرتی ہے کہ احساس کم تری کی نفسیات (psychology of inferiority complex) سے حفاظت اور کیفیت خود اعتمادی (self confidence) کی نشو و نما فروغ پائیں۔ چوں کہ نفسیاتی پیچیدگیوں سے پاکیزگی اور خود اعتمادی کی صفت کی پرورش علم کے بغیر ممکن نہیں، اس لیے، صحیح حکمت عملی یہ ہونی چاہیے کہ معاشرے میں "مرکزی مقام" علم کو حاصل ہو، نہ کہ دولت کو۔
اللہ تعالی کی کائناتی پلاننگ کے تحت، علم کا مقام لا محدود ہے، جب کہ بہ قدر ضرورت تو دولت بھی اللہ تعالی کی بہت بڑی نعمت ہے، بلکہ دولت کمانا، اللہ کا فضل تلاش کرنا ہے، مگر اس کے بعد اس کی افادیت زائل ہونے لگتی ہے۔ دولت مند افراد کے متقی نہ ہونے کی صورت میں، دولت، عام طور پر، تکبر، جھوٹی نمائش اور تفریح، شیطانی مشغولیات، فضول خرچی، بدعنوانی، ذخیرہ اندوزی اور معاشرہ میں دوسری ہزاروں برائیوں کے فروغ کا سبب بنتی ہے۔ ساتھ ہی دولت کو مرکزی مقام دینے کا مزید سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ علمی جدوجہد بھی بیش تر معاملات میں دولت پیدا کرنے کا ہی ایک اور ذریعہ بن کر رہ جاتی ہے۔
اس طرح، اس حقیقت کے پیش نظر کہ علم والے ہی اللہ سے ڈرتے ہیں، انسان خالق کائنات کی معرفت اور اس کی ہدایت سے محرومی کا خطرہ مول لے لیتا ہے، یعنی ہمیشہ ہمیش کی "نا کامی"۔
یہ انسان کی نفسیاتی کم زوری ہے کہ عیش کے وقت شکر گزاری تو دور، وہ یہ بھی بھول جاتا ہے کہ پریشانی کے عالم میں، وہ اسے دور کرنے کے لیے اللہ تعالی کے حضور گڑ گڑایا کرتا تھا (یونس-10: 12)۔
میرے ریٹائرمنٹ کے فنکشن میں، مجھ سے ایک سوال کیا گیا تھا کہ "آپ کے کئی ساتھی جنرل منیجر ہوگئے، جب کہ آپ چیف منیجر کے عہدے تک ہی پہنچ پائے ہیں؟"
اس سوال کا ایک آسان جواب جو میں نے دیا وہ یہ تھا: "پہلی بات تو یہ ہے کہ نعمتوں کا شکر کرنے والوں کی نظر میں، چیف منیجر کی پوزیشن بھی تو کوئی معمولی پوزیشن نہیں، کیوں کہ ہزاروں افسر اس مقام کے بھی متمنی رہتے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ میں اس حقیقت سے بھی واقف ہوں کہ میرے کئی ساتھی آج بھی تقریباً، اسی عہدے پر ہیں، جس پر کبھی ان کی تقرری ہوئی تھی"۔ بات دراصل، عہدے کی نہیں، بلکہ شکر اور اطمینان کی ہے۔
وہ پوزیشن ہر دوسری پوزیشن سے بڑی ہے جس میں کسی انسان کو اپنے خالق و مالک کے تئیں کیفیت تشکر حاصل ہو۔ اللہ تعالی کی نعمتوں کے لیے، اس کا شکر بجا لانے والے، ہمیشہ مطمئن زندگی گزارتے ہیں۔
چوں کہ، اللہ تعالی نے اپنے تخلیقی منصوبہ کے تحت سبھی انسانوں کو الگ الگ صلاحیت و خصوصیات سے مزین کیا ہے، اس لیے، شخصیت سے لے کر حیثیت تک، ہر چھوٹی بڑی چیز میں، کم یا زیادہ کا فرق ہمیشہ باقی رہے گا۔ حقیقت میں، "کم اور زیادہ" کی یہی ربانی حکمت عملی، انسان کا امتحان ہے۔
اس پس منظر میں، ہر وہ کام، عہدہ اور مقام آپ کے کام یاب ہونے کی نشانی ہے جس کے ساتھ آپ کے، اپنے رب کے لیے شکر کے جذبات و احساسات زندہ رہیں ۔
آپ کی جو پوزیشن آپ کے اندر مایوسی (hopelessness) یا استکبار (arrogance) کی نفسیات پیدا کردے وہ کام یابی نہیں، تباہی ہے ــ نہ صرف آخرت کی نظر سے، بلکہ موجودہ دنیا کے تناظر میں بھی!
***
(27.02.2022 AH; 25.07.1443 AD) 
صاحب مضمون کی گذشتہ نگارش:خوشامد: منافقت کا دوسرا نام

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے