خواتین کا عالمی دن

خواتین کا عالمی دن

مظفر نازنین، کولکاتا

ہر سال 8/ مارچ کو عالمی یومِ نسواں (International Women’s Day) کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اور لڑکیوں کو ان کے وجود کا احساس دلایا جاتا ہے کہ سماج میں لڑکیوں کی کتنی اہمیت ہے۔ کہتے ہیں وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ، یعنی عورت کے وجود کے بغیر اس حسین دنیا کا وجود ممکن نہیں۔ تو آخر وہ کون سی خوبی ہے جو عورت کو ایک کام یاب عورت بناتی ہے۔ چاہے وہ کسی بھی روپ میں، کسی بھی شکل میں ہو۔ عورت کبھی بیٹی، کبھی بیوی، کبھی بہن، کبھی ماں کی حیثیت رکھتی ہے۔ وطن عزیز ہندستان میں ہر مذاہب کے ماننے والے لوگ رہتے ہیں۔ ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی، جین، بدھ، لیکن ہمارا ہندستانی سماج male dominated society کہلاتا ہے۔ یہاں عموماً لڑکیوں پر ظلم و تشدد ہر روز اخباروں میں پڑھنے کو ملتے ہیں۔ لڑکیوں کو کم زور اورادنا سمجھا جاتا ہے۔ ان کے لیے اعلا تعلیم کی اہمیت نہیں دی جاتی ہے۔ انھیں career oriented بنانا معیوب سمجھا جاتا ہے۔ کم عمری میں لڑکیوں کی شادی اور اعلا تعلیم سے محرومی ان کی شخصیت کو مسخ کر دیتی ہے۔ عموماً متوسط گھرانے میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ یہ تلخ حقیقت ہے۔ لڑکیوں کو بھی خدائے تعالیٰ نے ذہن و فہم، عقل و شعور، علم و آگہی عطا کیا ہے۔ سلیقہ، شعار، ادب اور تہذیب ان میں بھی ہوتی ہے۔ لیکن افسوس صد افسوس ان کے تمام افکار و خیالات کو male dominated سوسائٹی میں ختم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس طرح پنپنے سے پہلے ہی ان کے کریئر کی جڑ کو کاٹ دیا جاتا ہے۔ ان کے پرواز کے لیے اٹھتے ہوئے پروں کو کاٹ دیے جاتے ہیں۔ یہ تلخ حقیقت ہے جو ذہن ایکhighly qualified girl student کی شکل میں ابھرنی چاہتی تھی اسے مسخ کر دیا جاتا ہے۔ میکہ میں ان کے دل میں اٹھنے والی خواہشات والد، والدہ، بھائی اور چند قریبی رشتے داروں کی نذر ہو کر خاک کے تلے دب جاتے ہیں۔ والدین اگر غریب ہوں یا امیر ہوں اس سے فرق نہیں پڑتا ہے۔ چاہے وہ بستی یا گلی کوچے میں رہیں یا عالی شان محلوں میں، کوئی فرق نہیں ہوتا۔ معاملہ زیادہ کشیدہ ہوتا ہے جب وہ بچی کے اوپر اپنا غلط فیصلہ مسلط کر دیتے ہیں۔ بچیوں کے career کو spoil کرنے میں بڑا ہاتھ والدین اور قریبی رشتے داروں کا ہی ہوتا ہے ؎
پھول تو دو دن بہارِ جاں فزا دکھلا گئے
افسوس ان غنچوں یہ ہے جوبن کھلے مرجھا گئے
ضرورت ہے نظریے کو بدلنے کی۔ ضرورت ہے ہندستانی سماج میں ترمیم کرنے کی۔ ہندستانیوں کو چاہیے کہ سوچ کے زاویے بدل ڈالیں۔ اگر ہمارے آباو اجداد تعلیم یافتہ نہیں تھے یا ان کی سوچ تھی کہ لڑکیوں کی تعلیم محض مدرسے تک محدود ہونی چاہیے تو ان کے سوچ پر قدغن لگانا بے حد ضروری ہے۔ اگر ہمارے بزرگ عصری تعلیم کی اہمیت کو نہیں سمجھتے اور عصری تعلیم سے منھ موڑ لیتے ہیں تو ہمیں اپنے عقل کی روشنی میں فیصلہ کرنا چاہیے کہ کیا صحیح ہے کیا غلط۔
نہ صرف نچلے طبقے میں بلکہ اونچے طبقے میں بھی جہاں لوگ معاشی طور پر خود کفیل ہوتے ہیں۔ اعلیٰ تعلیم سے انحراف کیا جاتا ہے اور لڑکیوں کو درجہ ششم یا درجہ دہم تک تعلیم دلوا کر ان کی شادی کر دی جاتی ہے۔ اور یہ سمجھا دیا جاتا ہے کہ ان کے ضمن میں خانہ داری ہے اور امورِ خانہ داری ہی زندگی کا لازمی جز ہے۔ لڑکیاں کوئی بے جان puppet نہیں کہ جدھر چاہو ادھر رخ موڑ دو۔ یا پیروں تلے رونددی جائیں۔ کچھ اعلا بزنس فیملی میں خصوصاً مسلمانوں کے گھر میں ہر طرف دولت  کا انبار ہے۔ گھر میں آرام، آسائش کے سامان مہیا ہیں۔ دوسے ڈھائی ہزار کروڑ کا سالانہ turn over ہے لیکن گھر میں لڑکیوں کی تعلیم کا جائزہ لیں تو صرف آٹھویں یا دسویں جماعت تک پاس۔ اس کی وجہ ہے کہ اس طرح کے بزنس گھرانے میں تعلیم اور کیرئیر کی کوئی اہمیت نہیں۔ بلکہ لڑکیوں کو career oriented بنانا ہی معیوب سمجھا جاتا ہے اور یہ ترغیب دی جاتی ہے کہ صرف خانہ داری تک ہی انھیں محدودرکھا جائے۔ اس سوچ میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ اس دنیا کی خوب صورتی اور عالم کی نیرنگیاں وجودِ زن سے ہیں۔ اگر عورتوں کا وجود نہ ہو تو یہ دنیا بالکل بے معنی ہے۔ عورت ہی کی شخصیت ہے جو عظیم الشان سلطنت کی بنیاد ہوتی ہے۔ کام یاب عورت وہ ہے جس کی شناخت اس کی اپنی اولاد کے ذریعہ ہوتی ہے۔ شان دار، کام یاب اور خوش گوار ازدواجی زندگی کا راز صرف دولت نہیں ہے۔ دولت سے بلا شبہ آرام دہ بستر خریدے جا سکتے ہیں۔ لیکن صحت اور نیند نہیں۔ دولت کے ذریعہ کتابیں خریدی جا سکتی ہیں، علم نہیں۔ دولت کے ذریعہ branded cosmetics خریدے جا سکتے ہیں، حسن نہیں۔ دولت کے ذریعہ بینک بیلنس شان دار ہو سکتا ہے، زبان ادب، تہذیب، سلیقہ، شعار نہیں۔ دولت دراصل تعلیم کا متبادل ہو ہی نہیں سکتا۔ ایسا سمجھنے والے بہ ذات خود بین الاقوامی نادانوں کے بادشاہ ہیں۔ جب کہ آج سے دو سو سال قبل سر سید، جو عظیم مصلح تھے، ان کی ایک نابغۂ روزگار اور عہد آفرین ہستی تھی۔ انھوں نے کہا تھا کہ مسلمانوں کے ایک ہاتھ میں قرآن ہو اور دوسرے ہاتھ میں سائنس کی تعلیم ہو۔ تعلیم ہی وہ حربہ ہے جو کام یابی اور ترقی کا ضامن ہے ؎
رہ گئی رسم اذاں روح بلالی نہ رہی
فلسفہ رہ گیا، تلقین غزالی نہ رہی
سال میں ایک دن انٹرنیشنل ویمنس ڈے منا کر کیک کاٹنے سے کچھ حاصل نہیں۔ بلکہ لڑکیوں کی عزت کرنی چاہیے اور ان کی ترقی کے لیے پیش رفت ہونی چاہیے۔
Respect every women, irrespective of caste and creed. Educate every girl child.
اعلا تعلیم یافتہ، سلیقہ مندی کے ساتھ خانہ داری کا ہنر کچھ اور ہوتا ہے۔ جہاں شوہر اور بیوی دونوں فریق کو اپنے فرض کا بہ خوبی خیال رکھنا چاہیے۔ ایک بچے کی تعلیم و تربیت میں والد اور والدہ دونوں کا بڑا رول ہوتا ہے۔
آج عالمی یومِ خواتین منایا جا رہا ہے۔ اس موقع پر اتنا ہی کہنا کافی ہوگا کہ والدین اور سر پرستوں کی ذمے داری ہے کہ اپنی بچیوں کی تعلیم و تربیت پر خاص توجہ دیں۔
لڑکے اور لڑکیوں کے ساتھ مساوی سلوک کیا جائے۔ کیوں کہ اس عمل کے لیے سرکاری سرپرستی کا کوئی دخل نہیں ہے۔ سرکار مختلف پروگرام کے تحت اسکالرشپ اور وظیفے فراہم کرسکتی ہے۔ لیکن گھر کے ماحول میں تبدیلی لانے کے لیے ان معاشرتی تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے بہی خواں  اور ہمدردان قوم کی پیش رفت ضروری ہے۔ لڑکیوں کو career oriented اور خود کفیل بنانا ہوگا۔ اور ساتھ ہی اخلاقیات کی تعلیم بھی دینی ہوگی۔ ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ کسی بھی طریقے سے اخلاقی قدروں کی پامالی نہ ہو۔ اپنی ذات سے دوسروں کو فیض پہنچانے کی کوشش کریں۔ جس طرح ایک خاموش قندیل دور تک روشنی پھیلا سکتی ہے۔ ٹھیک اسی طرح سوسائٹی میں لڑکیوں کی حیثیت ہے ؎
جہاں رہے گا وہیں روشنی لٹائے گا
کسی چراغ کا اپنا مکاں نہیں ہوتا
لڑکیوں کی ذہانت، یادداشت بہت تیز ہوتی ہے۔ اس کو نکھارنے اور تراشنے کی ضرورت ہے۔
موبائل کا memory full ہو سکتا ہے لیکن لڑکیوں کے ذہن کی یادداشت تر وتازہ ہوتی ہے۔ وہ fullنہیں ہوتی بلکہ ضرورت پڑنے پر تحت الشعور سے نکل کر شعوری سطح پر منتقل ہو جاتی ہے۔
آج کے دور میں parentingبڑا رول ہے:
Parenting is the most challenging role these days. When a child is born. He/She has great influence of environment. These influence effect the child’s nature, behaviour, character, academics. The manifestation develop in the child’s personality is the effect of the environment & parenting.
Never say anything negative about anyone’s religion. Never cause harm to any one. Always respect elders. A child should learn to respect elders.
خدا کرے روشنی کی ایسی کرن پھوٹے جس کی تابانیوں سے ہمارا معاشرہ درخشاں اور تابندہ ہو جائے۔ تب ہی عالمی یومِ خواتین (انٹرنیشنل ویمنس ڈے) منانے کا مقصد ہو سکے گا۔ 
Mobile + Whatsapp: 9088470916
E-mail: muzaffarnaznin93@gmail.com
مظفر نازنین کی گذشتہ نگارش:صنف انشائیہ کا عاشق "معشوق”

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے