بشری رحمان: بلبل پاکستان

بشری رحمان: بلبل پاکستان

نیلما ناہید درانی

بشری رحمان سے میری پہلی ملاقات لبرٹی مارکیٹ میں ان کے "وطن دوست" کے دفتر میں ہوئی۔۔۔1986 میں۔۔۔ میری پہلی کتاب چھپی تھی۔ "جب تک آنکھیں زندہ ہیں" میں ان کو اپنی کتاب دینے اور تقریب رونمائی کے لیے مدعو کرنے گئی تھی۔
اس سے پہلے بشری رحمان پی ٹی وی پر چلنے والے اپنے ڈرامہ سیریل "لازوال" سے شہرت پا چکی تھیں۔ ان کے کئی ناول اور افسانوں کے مجموعے بھی چھپ چکے تھے۔
پہلی ہی نظر میں ان کی خوب صورت شخصیت، دل فریب مسکراہٹ، غزالی آنکھوں اور رس بھرے لہجے نے مجھے اپنا گرویدہ کر لیا۔ اور میں ان کے عشق میں مبتلا ہو گئی۔
وہ میری کتاب کی رونمائی میں شریک ہوئیں اور میری شاعری کے بارے اظہار خیال کیا۔ جس کی صدارت جناب اشفاق احمد نے کی تھی مہمان خصوصی جناب شجاعت حسین تھے جو اس وقت وفاقی وزیر اطلاعات تھے۔ بانو قدسیہ، امجد اسلام امجد اور منو بھائی مضامین پڑھنے والوں میں شامل تھے۔ جب کہ پروگرام کی نظامت دلدار پرویز بھٹی نے کی تھی۔
بشری رحمان اور سائرہ ہاشمی نے ایک ادبی تنظیم "بزم ہم نفساں" بنا رکھی تھی۔ جس کے تحت وہ ہر ماہ اپنی رہائش گاہ پر شاعروں ادیبوں کو مدعو کرتی تھیں۔ اور اپنے ہاتھ سے کھانے بنا کر کھلاتی تھیں۔ مجھے بھی ہر محفل میں بلایا جاتا۔ انھی محفلوں میں مجھے پیرزادہ قاسم، مختار مسعود، محسن بھوپالی اور حافظ صباح الدین جامی (جو اس وقت انسپکٹر جنرل پولیس تھے) کو سننے کا موقع ملا۔
بشری رحمان ایک ادبی ماہنامہ "وطن دوست" بھی شایع کرتی تھیں۔ جو مجھے ہر مہینے موصول ہونے لگا۔ اس رسالے میں ان کا سیرت نبی پر لکھا مضمون ہوتا۔ عشق رسول میں گندھی موتیوں جیسے لفظوں میں پروئی ہوئی اتنی دل کش تحریر میں نے کبھی نہیں پڑھی تھی۔ میں سکول کے زمانے میں ہی اپنے گھر کی لائبریری اور محلے کی آنہ لائبریری سے کتابیں پڑھ کر خوب عالم فاضل بن چکی تھی۔ گو بشری رحمان کی نثر میں ابولکلام آزاد جیسی فصاحت و بلاغت نہیں تھی۔ مگر اک سرشاری اور والہانہ پن موجود تھا۔
بشری رحمان کی ایک عادت خط لکھنا بھی تھی. شاید ان کو معلوم تھا کہ ان کی لکھائی بہت خوب صورت ہے۔ شاید جن لوگوں نے سکول کے زمانے میں تختیاں زیادہ لکھی ہوں وہ خوش خط ہوتے ہیں۔جیسے لفظوں سے موتی پروئے ہوئے ہوں۔ ان کے لکھے ہوئے کارڈ اکثر موصول ہوتے۔ میری طبیعت کی لاپروائی کہ میں چیزیں سنبھال کر نہیں رکھتی۔ اس لیے ان کو محفوظ نہیں کر سکی۔
میری دوسری کتاب "جب نہر کنارے شام ڈھلی" کی تقریب رونمائی میں بھی شریک ہوئیں۔ اظہار خیال بھی کیا۔ لیکن ان کی یہ دونوں تقاریر اور مضامین میرے پاس محفوظ نہیں رہے۔ مجھے یقین ہے کہ ان کے پاس ضرور محفوظ ہوں گے کیونکہ وہ تقریر کرتے ہوئے ایک چھوٹا ٹیپ ریکارڈر ساتھ رکھتی تھیں۔ اور اسے روسٹرم پر رکھ کر اپنی گفتگو ریکارڈ کر لیتی تھیں۔
جب میں ایران جانے لگی تو ان سے پوچھا۔ آپ کے لیے کیا لاوں۔ انھوں نے ایک سفری جائے نماز کی فرمائش کی جو تین ٹکروں میں ہوتی ہے۔ میں نے مشہد مقدس سے ان کے لیے وہ جائے نماز خریدی۔
بشری رحمان صوم و صلوات کی پابند تھیں اور نماز تہجد بھی ادا کیا کرتی تھیں۔ سیرت نبی کی تحریر بھی وہ ایام رمضان میں تہجد اور سحری کے اوقات کے درمیان تحریر کرتی تھیں۔
انھوں نے مجھے اپنے ناول، افسانوں کے مجموعے اور سفر نامے دیے۔ میں عام طور پر خواتین کے ناول نہیں پڑھا کرتی۔
عصمت چغتائی، قرت العین حیدر، جمیلہ ہاشمی اور امرتا پریتم کے علاوہ۔
رضیہ بٹ اور اے ار خاتون جیسی خواتین کی تحریریں جن میں پائیں باغ میں شروع ہونے والی محبتوں کے تذکرے ہوتے ہیں مجھے کبھی متاثر نہیں کرتی تھیں۔
لیکن بشری رحمان کی محبت کا اثر تھا کہ ان کی کہانیوں کے کئی کردار مجھے اچھے لگنے لگے۔ ایک کہانی میں ایک عورت کا تذکرہ کچھ اس طرح کیا کہ اس کے ہاتھوں پیروں میں مہندی رچی ہوتی تھی۔۔۔گو وہ ایک منفی کردار تھا۔۔۔مگر ہاتھوں پیروں کی مہندی اتنی بھائی کہ میں نے بھی اپنے ہاتھ پاوں مہندی سے رنگنے شروع کردیے۔۔۔وہ مہندی میری پہچان بن گئی۔۔۔
بشری رحمان خود بھی پیروں پر مہندی لگاتی تھیں۔ان کا کہنا تھا گھر میں ننگے پاوں پھرنے سے پاوں میلے دکھتے تھے اس لیے پاوں کے تلووں پر مہندی لگاتی تھیں۔
1994 کی ادبی کانفرنس میں اسلام آباد میں بھی ان سے ملاقاتیں رہیں۔ لیکن میری ایک عادت ہے میں کسی سے زیادہ قریب نہیں ہوتی خاص طور پر ان لوگوں سے جو مجھے اچھے لگتے ہیں۔ تاکہ ان سے محبت برقرار رہے اور میں ان سے اوب نہ جاوں۔
پنجابی کانفرنس پٹیالہ میں بھی وہ شریک سفر تھیں۔۔۔ہم اے سی مارکیٹ میں شاپنگ کے لیے گئے تو مجھے معلوم ہوا ہماری پسند بھی ایک جیسی ہے۔میں نے اور انھوں نے اپنے لیے ایک جیسے کڑے خریدے۔اور میں نے اپنی بیٹی کے لیے ایک لہنگا خریدا۔ ویسا ہی لہنگا بشری رحمان نے اپنی ہونے والی بہو کے لیے لیا۔۔۔۔میں نے اپنے بیٹے کے لیے گٹار خریدنا تھا۔۔۔آلات موسیقی کی دکان پر گئے تو گٹار کے دام زیادہ تھے۔۔۔میرے پاس انڈین کرنسی کم تھی۔۔۔میں پریشان تھی کہ کیسے خریدوں۔۔۔وہ لوگ پاکستانی روپے یا ڈالر وصول نہیں کرتے تھے۔۔۔۔مجھے مایوس دیکھ کر بشری رحمان نے پوچھا کتنے پیسے کم ہیں مجھ سے لے لو۔۔۔ ان کی اس مدد سے میں نے بیٹے کے لیے گٹار خرید لیا۔۔۔۔ہوٹل پہنچ کر میں نے اگلے دن ان کی رقم لوٹا دی۔۔۔لیکن اس مشکل وقت پردیس میں اس طرح کام آنا ان کی اعلا ظرفی تھی۔۔۔ (یہاں میں آگا ہ کرتی چلوں۔۔۔۔اس کانفرنس میں چونکہ وزیر اعلی پنجاب چوھدری پرویز الہی ۔۔۔وزیر اعلی مشرقی پنجاب کیپٹن امریندر سنگھ کی دعوت پر گئے تھے. اس وفد میں شریک ہونے کی وجہ سے ہماری سخت سیکیورٹی کی جارہی تھی ۔۔بازاروں میں جانے گھومنے پھرنے کی اجازت نہیں تھی۔۔۔شاپنگ کے لیے بھی ایک دن ملا تھا۔۔۔وہ بھی پولیس کے پہرے میں۔۔۔دوبارہ بازار جانے کی کوئی صورت نہیں تھی۔)
بشری رحمان تین بار پنجاب اسمبلی کی رکن بنیں۔ایک بار قومی اسمبلی کی رکن بھی رہیں۔ وہ چونکہ صاحب مطالعہ تھیں۔۔۔گفتگو کے فن میں بھی ماہر تھیں۔۔۔اس لیے اسمبلی اجلاس کے دوران چہکتی رہتیں۔۔۔اور ان کی نوک جھونک چلتی رہتی۔۔۔اسی خوش گفتاری کی بنا پر ان کو اسمبلی کی طرف سے ” بلبل پاکستان" کا خطاب دیا گیا.
امین خیال نے خواتین شاعرات کی ایک کتاب مرتب کی "ناراں تلے دیاں تاراں" یہ ایک تحقیقی کتاب تھی جس میں بہت سی گمنام شاعرات کا ذکر بھی شامل تھا۔۔۔اس کتاب میں میری لیہ میں رہنے والی پھوپھی۔۔۔۔طاھرہ سلطانہ۔۔۔۔اور بشری رحمان کی والدہ کا ذکر بھی تھا۔۔۔ اس نایاب کتاب کو الیاس گھمن نے بڑے اہتمام کے ساتھ چھاہا تھا۔ اور اس کے سر ورق پر میری اور بشری رحمان کی تصاویر بھی تھیں.
بشری رحمان نے شاعری شروع کی تو خواتین کالجوں میں ان کو مشاعروں کی صدارت کے لیے بلایا جانے لگا۔۔۔۔یوں ہم لاہور کے خواتین کے کالجوں کی تقریبات میں بھی اکثر اکھٹے شریک ہوتے رہے۔
بہاولپور کے صادق گرلز کالج کی تقریبات میں مجھے اور بشری رحمان کو شرکت کا موقع ملا۔ بشری رحمان تو بہاولپور سے تعلق رکھتی تھیں اور شاید اسی کالج سے تعلیم یافتہ تھیں۔ شہناز نقوی نے اس مشاعرے کی تصاویر محفوظ کر رکھی ہیں۔ جب بشری رحمان واپس لاہور جانے لگیں تو انھوں نے بہت اصرار کیا کہ میں ان کے ساتھ واپس چلوں. کیونکہ وہ ڈرائیور کے ساتھ اکیلی سفر کر رہی تھیں۔لیکن مجھے بہاولپور شہر دیکھنا تھا۔ فرید گیٹ سے بہاولپور کی کڑھائیوں والے کپڑے اور جیولری خریدنی تھی۔ اس لیے میں ان کے ساتھ نہیں گئی۔اور واپسی کا سفر ڈائیوو کے ذریعے کیا.
بشری رحمان جب قومی اسمبلی کی ممبر بنیں ان دنوں ان سے رابطے کم ہو گئے۔ ان دنوں میری دوست بشری حزیں بھی قومی اسمبلی کی ممبر بن چکی تھی۔ اس سے قبل میں بشری حزیں کو اپنے ساتھ بشری رحمان کے گھر منعقد ہونے والی محفلوں میں لے جا چکی تھی۔ بشری حزیں بھی اسلام آباد چلی گئی. اس سے بھی رابطہ کم ہوگیا۔
2009 میں ۔۔۔۔ یو این مشن میں سوڈان چلی گئی۔۔۔۔اور پھر 2013 تک پاکستان سے باہر ہی رہی۔۔۔۔میری لاہور واپسی دسمبر 2013 میں امی کے تابوت کے ساتھ ہوئی۔۔۔۔تب مجھے بشری رحمان کی یہ بات یاد آئی۔۔۔جب مائیں مر جاتی ہیں تو ان کا کمرہ اور کرسی خالی رہ جاتی ہیں مگر ہمارے دل ہمیشہ کے لیے خالی ہو جاتے ہیں.
کچھ عرصہ بعد بشری حزیں نے لاہور میں بشری رحمان کے اعزاز میں ایک مشاعرے کا اہتمام کیا. صدارت بشری رحمان کی تھی. لاہور کے تقریبا تمام شعرا اور شاعرات شریک تھے۔ یہ ایک خوب صورت تقریب تھی۔ جو رات گئے تک جاری رہی۔ جس میں بشری رحمان کی شخصیت پر مجھے بھی بات کرنے کا موقع ملا۔
پلاک میں خواتین کے مشاعرے کی صدارت بشری رحمان کر رہی تھیں۔ جب مجھے کلام سنانے کے لیے بلایا گیا۔ میں ڈائس کی طرف جانے لگی تو بشری رحمان نے کہا۔ اسے دیکھو مجھے ملے بغیر ہی جارہی ہے۔
میں پلٹ کر انھیں ملنے گئی ثروت محی الدین بھی ساتھ بیٹھی تھیں۔ میں نے دونوں سے ہاتھ ملایا تو کسی فوٹو گرافر نے وہ لمحہ اپنے کیمرے میں مقید کرلیا۔۔۔۔جو یادگار ہے۔۔۔
بشری رحمان مسعود کھدر پوش ٹرسٹ کے ساتھ بھی منسلک تھیں۔۔۔
کتابوں پر ملنے والے انعامات کی رقم وہ ہی ادا کرتی تھیں۔۔۔
ان سے آخری ملاقات مسعود کھدر پوش کے مشاعرے اور تقریب تقسیم انعامات پر ہوئی۔۔۔
میں نے ان سے اپنے بھائی کی کتاب کا انعام وصول کیا تو انھوں نے کہا۔ کبھی ملنے آ جایا کرو۔ مگر میری طبیعت کی لاپرواہی، میری مصروفیت یا کوتاہی کہ میں ان سے ملنے نہ جا سکی۔ مجھے ہر سال بچوں سے ملنے یورپ آنا پڑا۔ بشری رحمان کے شوہر رحمان صاحب کی وفات کی خبر بھی سنی۔مگر ان سے افسوس نہ کر سکی۔
ایک بار انھوں نے میسنجر پر میرا نمبر مانگا۔۔۔میں نے اپنا نمبر لکھ دیا۔۔۔مگر خود سے رابطہ نہیں کیا۔حالانکہ میسنجر پر بھی کال ہو سکتی تھی۔۔۔۔میں نے سوچا تھا اس بار پاکستان جا کر ان کے اعزاز میں راستی کی ایک شام رکھوں گی ۔۔۔
پھر ایک دن ان کی علالت کی خبر پڑھی فیس بک پر۔۔۔ان کی صحت و سلامتی کے لیے دعائیں کیں۔۔۔۔
6 فروری کو صبح فون کی گھنٹی بجی۔۔۔عفت علوی نے ایبٹ آباد سے فون کیا تھا۔۔۔۔بشری رحمان۔۔وفات پا گئی ہیں۔۔۔ان کے بارے میں آپ کے تاثرات چاہیں۔۔۔پھر لاہور ریڈیو کے پروڈیوسر مدثر قدیر کا پیغام آیا۔۔۔بشری رحمان کے بارے میں اپنے تاثرات بیان کریں۔۔
کانوں کو یقین نہیں آرہا تھا۔۔۔وہ اس طرح اچانک بغیر ملے کیسے جا سکتی ہیں۔۔۔مگر وہ جاچکی تھیں ۔۔۔ اس فانی دنیا سے اپنے رحمان کے تعاقب میں۔۔۔۔
ان کا ادبی دنیا میں کیا مقام تھا یہ میں نہیں جانتی۔۔۔لیکن لاہور کی ایک خوب صورت، دل ربا خوش گفتار اور دل کش خاتون جس سے ادبی محفلیں سج جایا کرتی تھیں رخصت ہوئی ہے۔۔۔ جس کی تحریریں اور خوب صورت یادیں اسے زندہ رکھیں گی.
لے او یار حوالے رب دے میلے چار دناں دے
اوس دن عید مبارک ہو سی جس دن فیر ملاں گے
***
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں :بشریٰ رحمٰن: آسماں تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے