حجاب و پردہ عورت کا حسن اور زیور ہے

حجاب و پردہ عورت کا حسن اور زیور ہے

محمد مقتدر اشرف فریدی، اتر دیناج پور، بنگال

اللہ کریم کا بے پایاں فضل و احسان ہے کہ اس نے ہمیں مذہب مہذب اسلام کی دولت سے مشرف فرمایا۔ ایک مومن بندہ کے لیے ایمان ہی سب سے بڑی دولت و نعمت ہوتی ہے اور ہر مومن کے لیے اسلامی احکام و قوانین واجب العمل ہوتے ہیں۔ اسلام ایک ہمہ گیر اور ہمہ جہت مذہب ہے۔ مذہب اسلام اپنے ماننے والوں کو زندگی کے ہر شعبے میں رہ نمائی فراہم کرتا ہے، جس پر عمل کر کے انسان دونوں جہاں میں سرخ روئی و سرفرازی حاصل کر سکتا ہے۔ ہمارا پیارا اسلام مرد و عورت دونوں کو ستر پوشی کا حکم دیتا ہے، اور خواتین کو حجاب و پردہ کی تاکید و تلقین کرتا ہے۔ اسلام نے جہاں مردوں کو نگاہیں جھکا کر چلنے اور شرم گاہوں کی حفاظت کا حکم دیا وہیں عورتوں کو بھی نگاہیں نیچی، حجاب و پردہ کی پابندی اور اپنی پاک دامنی و پارسائی کی حفاظت و صیانت کا حکم صادر فرمایا کہ اسی میں ان کی عزت و عفت کی بقا و تحفّظ ہے۔ پردہ عورت کی عزت کو محفوظ رکھتا ہے، ہوس پرست انسانوں کی حریص نگاہوں سے بچاتا ہے، عورت کی عزت و عفت کو تقدّس و پارسائی عطا کرتا ہے، بد نگاہی سے بچانے کے لیے دیوار آہنی ثابت ہوتا ہے اور یقینا پردہ عورت کے حسن کو مزید نکھار بخشتا ہے۔ آج ہمارا معاشرہ مختلف قسم کی برائیوں کی دل دل میں غرق ہے. انہی میں سے ایک بے پردگی کا بڑھتا ہوا رجحان بھی ہے۔ مغربی تہذیب کی دل دادہ عورتیں پردہ کو معیوب سمجھتی ہیں اور کچھ عورتیں ایسی ہیں جو حجاب کا اہتمام تو کرتی ہیں مگر وہ شرعی حجاب نہیں ہوتا ہے بلکہ فینسی حجاب ہوتا ہے۔ اس قدر جاذب نظر، دل کش، نقش و نگار سے مملو، چمک دار، بھڑکیلا، خوب صورت اور دیدہ زیب برقع اور اسکارف کہ پردہ کا پردہ اور لوگوں کی ترغیب و توجہ کا مرکز بھی، الغرض اتنا چست کہ جسم کی ساخت و بناوٹ نمایاں نظر آئے اور لوگوں کو راغب کرنے والا ہو، ایسا حجاب شرعا درست نہیں ہے۔ حجاب ایسا ہونا چاہیے کہ جس میں مکمل پردہ ہو، بے پردگی کا کوئی شائبہ نہ ہو، اس کی فٹنگ ایسی نہ ہو کے جسم کا کوئی حصہ نمایاں طور پر نظر آئے، نقش و نگار والا اور زرق برق، دل کش و دیدہ زیب نہ ہو، اور جسم کے سارے حصے اور تمام بالوں کو چھپانے والا ہو۔ در حقیقت یہی شرعی حجاب اور مکمل پردہ ہوتا ہے۔ ہمارا اسلام مسلم عورتوں کو شرعی حجاب و پردہ کی تلقین و تاکید کرتا ہے۔ آج اس امر کی شدید ضرورت ہے کہ ہر مسلم خاتون شرعی حجاب اور مکمل طور پر پردہ کرے۔
پردہ قرآن کی روشنی میں:
قرآن کریم میں اللہ تعالی فرماتا ہے:
اور مسلمان عورتوں کو حکم دو اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور پاک دامنی کی حفاظت کریں اور اپنی خوب صورتی ظاہر نہ کریں مگر جتنا خود ہی ظاہر ہے اور دو پٹے اپنے گریبانوں پر پر ڈالے رہیں اور اپنا سنگھار ظاہر نہ کریں مگر اپنے شوہروں کے لیے۔(سورہ نور، آیت نمبر:31)
ایک مقام پر اللہ کریم فرماتا ہے:
اے نبیﷺ اپنی بی بیوں اور صاحب زادیوں اور مسلمان عورتوں سے فرمادو کہ اپنی چادروں کا ایک حصہ اپنے منہ پر ڈالے رہیں یہ اس سے نزدیک تر ہے کہ ان کی پہچان ہو تو ستائی نہ جائیں اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ (سورہ احزاب، آیت نمبر: 59)
جو عورت آزادی کے نام پر بلا ضرورت گھروں سے باہر نکلتی اور بے پردگی کا مظاہرہ کرتی ہے اسے معلوم ہونا چاہیے کہ اسلام نے عورتوں کی حرمت و ناموس کی حفاظت و صیانت کے لیے انھیں گھروں میں رہنے اور پردہ کا اہتمام کرنے کا حکم دیا ہے۔ اللہ کریم فرماتا ہے: اور اپنے گھروں میں ٹھہری رہو اور بےپردہ نہ رہو جیسی اگلی جاہلیت کی بے پردگی (سورہ احزاب، آیت نمبر:33)
اسلام نے ضرورت کے موقع پر عورت کو گھر سے باہر نکلنے کی اجازت بھی دی ہے، لیکن اس طرح کہ وہ پردہ کے آداب و شرائط کو ملحوظ خاطر رکھ کر بہ قدر ضرورت باہر نکلے اور اپنے آپ کو ہوس ناک نگاہوں کا نشانہ بننے سے بچائے۔
قرآن کریم میں نا محرموں سے گفتگو کرنے کا طریقہ کار بتایا گیا کہ: اگر اللہ سے ڈرو تو بات میں ایسی نرمی نہ کرو کہ دل کا روگی کچھ لالچ کرے۔(سورہ احزاب، آیت نمبر:32)
ان متذکرہ بالا آیات سے معلوم ہوا کہ مذہب اسلام نے خواتین کی عزت و عفت اور تقدس کی حفاظت کے لیے انھیں حجاب و پردہ کا حکم دیا ہے۔ لہذا ہر عورت کے لیے حجاب ضروری ہے۔ مکمل حجاب و پردہ کا اہتمام کریں، اپنی نگاہیں نیچی رکھیں، اپنی زینت، بناؤ سنگھار نا محرم مردوں کے سامنے ظاہر نہ کریں اور انداز گفتگو میں نرمی نہ کریں۔
پردہ احادیث کی روشنی میں:
ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا ارشاد فرماتی ہیں کہ میں اور حضرت میمونہ رضی اللہ تعالٰی عنہا رسول اکرمﷺ کے پاس تھیں کہ اچانک عبد اللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ (نابینا تھے) تشریف لائے. رسول اکرمﷺ نے فرمایا کہ ان سے پردہ کرو. ہم نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ کیا یہ نابینا نہیں؟ اس کے جواب میں رسول اللہﷺ نے فرمایا کیا تم دونوں بھی نابینا ہو؟ کیا تم ان کو نہیں دیکھ رہی ہو؟۔(سنن ابو داؤد)
ایک خاتون نبی کریمﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوئیں جن کا نام ام خلّاد تھا، انھوں نے چہرے پر نقاب ڈالا ہوا تھا، اپنے بیٹے کے بارے میں دریافت کرنے آئی تھیں جب کہ وہ شہید ہو گیا تھا۔ بعض صحابہ کرام نے کہا آپ اپنے بیٹے کے بارے میں پوچھنے آئیں ہیں اور آپ نے نقاب بھی ڈال رکھا ہے؟(ایسی پریشانی میں بھی پردے کا یہ اہتمام ؟) انھوں نے کہا: میں نے بیٹا ضرور کھویا ہے لیکن حیا ہرگز نہیں کھوئی۔ (سنن ابو داؤد، الرقم: 2488)
متذکرہ بالا آیات و احادیث سے ثابت ہوا کہ اسلام نے عورتوں کی عزت و ناموس کی حفاظت، پاک دامنی و پارسائی کی بقا اور بد نگاہی سے تحفّظ کے لیے انھیں پردہ کا حکم دیا ہے۔ در حقیقت مکمل حجاب و پردہ ہی ایک عورت کا حسن و جمال اور قیمتی زیور ہوتا ہے۔ آیات قرآنیہ اس امر پر شاہد ہے کہ مرد و عورت دونوں پر فرض ہے کہ وہ اپنی شرم گاہوں اور پاک دامنی کی حفاظت کریں اور اپنے آپ کو بد نگاہی و بد کاری سے بچائیں.
صاحب تحریر کی گذشتہ نگارش:خواجہ غریب نواز کا حسن کردار اور اخلاق کریمانہ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے