بیٹیوں کے نقاب نوچنے کا ذمہ دار کون؟

بیٹیوں کے نقاب نوچنے کا ذمہ دار کون؟

مشتاق نوری

کسی بھی سیکولر اسٹیٹ کے لیے یہ امر حیرت ناک ہے اور خوف ناک بھی کہ جہاں ایک باہری پورن اسٹار کو ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے۔ جو جسم و روح دونوں اعتبار سے ننگی ہے اسے Celebrity کا اول درجہ دینے میں فخر محسوس کیا جاتا ہے، اسی ملک میں پردہ پسند مسلم لڑکیوں کو ہراساں کرکے ان سے ان کے نقاب نوچنے کی ناپاک جسارت کی جا رہی ہے۔یہ آئین کے دیے گئے بنیادی حقوق کو دبانے کی ناپاک جسارت ہے۔ اس کے پیچھے کون سا مائنڈ سیٹ کام کر رہا ہے یہ سب جانتے ہیں۔
یہ حجاب اتارنے کی ناپاک جسارت کوئی پہلی بار نہیں ہوئی ہے. اس سے پہلے بھی کئی بار اس طرح کے سنگین معاملے رجسٹر ہوۓ ہیں پر ہم نے کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا تھا۔ مگر اس بار کرناٹک کی بھاجپا حکومت نے کچھ زیادہ ہی بھگوا دہشت پھیلانے کی کوشش کی ہے۔ اس نے اس میں طلبا و طالبات کو استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔ اس معاملے کو نزاعی بنانے کی بھرپور کوشش ہے۔ اگر یہ اشو اتنا سنگین ہوتا ہے اور طول پکڑتا ہے تو پانچ صوبوں میں ہونے والے اسیمبلی الیکشنز میں بی جے پی کو فائدہ ہوگا خاص کر اتر پردیش میں۔
پچھلے سات سالوں میں ہم نے جتنے درد سہے ہیں جتنی چوٹیں کھائی ہیں جتنے آنسو بہاۓ ہیں اگر لکھا جاۓ تو قلم کا ضبط ٹوٹ جاۓ۔ اب یہ درد حد سے سوا ہوتا جا رہا ہے۔ جب جب اقلیتی طبقے کو محصور و مجبور کرنے کی کوشش ہوتی ہے اسے الجھانے کا چکر چلایا جاتا ہے تب تب مجھے اندھے بہرے قانون پر غصہ آتا ہے۔ مجھے ایسے نام کے سیکولرازم سے چڑھ ہونے لگتی ہے۔ تب مجھے لگتا ہے جو لوگ دو قومی نظریہ کے حامی تھے وہ بالکل درست تھے۔
آپ کیا سمجھتے ہیں کہ آگے آپ کے مسائل کم ہوں گے، آپ چین سے بیٹھ پائیں گے؟ جی نہیں! دور دور تک ایسے آثار نظر نہیں آتے جن سے یہ امید پال لی جاۓ کہ دس بیس سال کے بعد ہی سہی حالات سدھریں گے اور ہماری قوم چین کی سانس لے پاۓ گی۔ کئی بار تو میں اپنے بچوں کے مستقبل کا سوچ کر خوف زدہ ہوجاتا ہوں کہ آج ہمارے ساتھ ایسا ہے تو کل ان کے ساتھ کیسا ہوگا۔ حالات کا جائزہ لینے سے یہ بہ آسانی سمجھ میں آجاتا ہے کہ آج ملک کے ۹۰ فی صد ہندو اپنے بچوں کو ریڈیکلائز کر چکے ہیں۔ اور یہ Radicalism ایک زہر ہے جو ہوا کے ساتھ بہتے بہتے comunalized riots پھر Terrorism کا روپ لے لیتا ہے۔ در اصل یہ ریڈیکل رویہ ہی دہشت گردی کا راستہ کھولتا ہے۔
ایک ملک میں رہ رہے دو الگ الگ سماج کے درمیان کسی طرح کا بھی ٹکراؤ نہ کسی سماج کے حق میں ہے نہ ملک کے حق میں مگر یہ بات نہ قانون کے رکھ والوں کو سمجھ میں آتی ہے اور نہ اکثریتی طبقے کو۔
ہوش کے ناخن لینے کا وقت ہے۔
کرناٹک میں آج حجاب پر پابندی ہے کل کسی اور اسٹیٹ میں ہوگی، پرسوں کسی اور میں. تو کیا کریں گے آپ؟ معلوم ہے اس طرح کے سنگین معاملے جنم ہی کیوں لیتے ہیں، کیوں کہ ہم نہ صرف کم زور ہیں بلکہ ہمارے پاس بچیوں کی تعلیم کا ایسا کوئی انتظام ہی نہیں ہے۔ ہمارا کھوکھلا پن انھیں دکھتا ہے۔آج حجاب پر پابندی ہے تو چیخ پڑے ہیں جب کہ ہمارے بچے ہندو اسکولوں میں جا کر صبح صبح شرکیہ عقائد پر مبنی ہندوانہ ترانے پڑھتے ہیں۔ کیا ہم لوگوں نے کبھی اس کا نوٹس لیا؟
یہ قوم کی کتنی بڑی بے مائیگی ہے کہ آزادی کے بعد سب کو سنبھلنے، کھڑا ہونے اور تعمیر جدید کرنے کے مواقع ملے۔ ہمارے لیے بھی ترقی اور قوم سازی کے وسیع تر امکانات تھے مگر ہم نے بے ہوشی میں اور کچھ نے عیش کوشی میں دن گزار دیے۔ ہندو ازم قوم سازی میں ہم سے کوسوں دور نکل گیا۔ اس نے ملک بھر میں اسکول کالج کے جال بچھا دیے۔ اور ہم نے کیا کیا؟ ہم لوگ تو اپنے مدارس کو بھی اپڈیٹ نہیں کر سکے۔ مدارس کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ نہ کر سکے۔ انہی مدرسوں میں ملحقہ خواتین کیمپس کی تشکیل کی طرف ہمارا دھیان کبھی گیا ہی نہیں۔ہم نے وقت و حالات کی نبض دیکھی ہی نہیں۔ آج بھی قریات و امصار میں چل رہے مکاتب کا معیار جوں کا توں پڑا ہے۔
ایسا نہیں تھا کہ پیسے کی قلت تھی۔ ہمیشہ پیسے کی ریل پیل رہی۔ مشکل یہ تھا کہ جن کے پاس قوم کا سرمایہ گروی رہتا تھا انھوں نے ایسا سوچا ہی نہیں۔ خواتین کی تعلیم ہمارے ہاں پہلے سے موضوع بحث رہی۔ آج تو اس کی ضرورت مزید بڑھ گئی ہے کہ آپ اگر بچیوں کو دین سے جوڑے رکھنا چاہتے ہیں، انھیں ملحد ہونے، ہندو سنگ بھاگ جانے سے روکنا چاہتے ہیں تو آپ کو مخلوط تعلیمی نظام سے ہٹ کر ان کے لیے علاحدہ، سیپریٹ اسکولنگ سسٹم کا انتظام کرنا ہوگا۔ حجاب کے ساتھ اجازت مل بھی گئی تو کیا فرق پڑنے والا ہے۔ آج حجاب کا بہانہ ہے اگر کل کو یہ کہہ دیا کہ یہ ہمارے پُروجوں(باپ دادا) کا بنایا اسکول ہے ہمارے حساب سے چلے گا تب آپ کیا کریں گے؟ تب تو کورٹ کچہری بھی خاموش تماشائی بنی نظر آئے گی۔
ایک سوال کہ تعلیمی اداروں میں یہ حجاب والا اشو ختم ہوگا یا چلتا رہے گا، تو اس کا آسان اور سیدھا سا جواب ہے کہ اگر آپ ان کے بناۓ گیے اسکولوں کالجوں پر بھروسہ کر کے بیٹھے رہیں گے تو یہ اور پھیلے گا۔ ہاں! یہ اشو تب ختم ہو جاۓ گا جب ہم اپنے اسکولس، کالیجز کی تعمیر شروع کر دیں گے۔
بریلوی، دیوبندی، سلفی اور شیعی نمائندہ ادارے یہ چاروں ہر صوبے میں ہر دو سال پر اولا دو دو کالج کھولنے کی ٹھان لیں، ۲۰۳۰ آتے آتے ہمارے پاس کم از کم ۳۰ سے زائد کالج ہو جائیں گے۔ ان میں ہمارا نظام رائج ہوگا۔ دوسری قوم کی نظر میں ہم ہیرو بھی بن جائیں گے اور اپنی قوم کا سر اونچا ہوگا۔ یہ کام مشکل سے زیادہ آسان اس لیے بھی ہے کہ آج تعلیم گاہیں کمرشیلائزڈ ہب ہیں. اس لیے کالج بنانے سے دونوں ہاتھ میں لڈو ہوں گے۔ اگر مدرسہ چلانے والے چاہ لیں تو کام بھی ہوگا دام بھی ہوگا اور نام بھی۔اور بیٹیوں کی تعلیم و تربیت کا اسلامی تصور تشکیل پاۓ گا.
بات آئی تو لکھتا جاؤں کہ کچھ سالوں پہلے ویشالی ضلع میں ایک دن کچھ سامان لینے کے لیے میں ایک دکان پر پہنچا. ددکان ار کی بہو بیٹھی تھی، ٹھیک اس کے دائیں سائڈ میں ایک کیلینڈر چسپاں تھا جس پر شیو + پاروتی کی تصویر تھی۔ میں نے کہا ایک مسلم کو یہ رکھنا جائز نہیں تو اس کا جواب سن کر میں سن رہ گیا، کہنے لگی "یہ دونوں میرے favourite ہیں. اسکول کے دنوں سے ہی ان کی فوٹوز رکھتی ہوں". اس جواب پر میں زیادہ کیا بولتا وہاں تو ہر تقریر بے اثر تھی۔ یہ صرف اسی کے ساتھ خاص نہیں ہے. سماج میں ہزاروں لڑکیاں ہیں جو اپنی سہیلیوں سے، استانیوں سے، پڑوسن سے متأثر ہو کر دین بیزار یا پھر ہندوتو پسند بن جاتی ہیں۔ اس کی روک تھام کے لیے "اپنا اسکول، اپنا قانون" کی تھیوری ہی کارگر نسخہ ہے اور بس۔
***
(خادم التدریس دار العلوم حلیمیہ ڈانگی بستی، کشن گنج)
۹؍ فروری ۲۰۲۲ء
صاحب تحریر کی گذشتہ نگارش:ٹرینڈ ہمیشہ کسی ایجنڈے کے تحت ہی چلاۓ جاتے ہیں

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے