ٹرینڈ ہمیشہ کسی ایجنڈے کے تحت ہی چلاۓ جاتے ہیں

ٹرینڈ ہمیشہ کسی ایجنڈے کے تحت ہی چلاۓ جاتے ہیں

مشتاق نوری

سوشل میڈیا کی پرکشش رابطہ مہم نے آج پوری دنیا کو اپنی بانہوں میں بھر لیا ہے۔جس سے دنیا ایک نئی نویلی دلہن کی طرح چھوئی موئی سی سمٹ کر سکڑ کر ایک عالمی گانو بن گئی ہے۔اس برقی نیٹ ورکنگ سسٹم سے کسی بھی چیز یا بات کو راتوں رات ہائی لائٹ کرنا اتنا ہی آسان ہے جتنا آج سے کوئی بیس پچیس برس پہلے دیہی لوگوں کے لیے دور دراز مقامات تک پیغام رسانی کرنا مشکل تھا۔اب تو ٹرینڈ کا دور چل رہا ہے۔گھریلو و علاقائی میٹر کو بھی قومی اِیشو بنانے کے لیے ٹویٹر کے اسٹیج پر لے جاکر ہنگامہ کیا جانا عام ہو چلا ہے۔اب جو چیز ٹرینڈ میں ہے کوئی ضروری نہیں کہ وہ سہی و درست ہی ہو۔ کبھی کبھی غلط اور فریب دینے والی چیز بھی ٹرینڈ میں آجاتی ہے۔ اس بات کو ایک آسان مثال سے سمجھیے۔آج مین اسٹریم میڈیا سے لے کر سوشل میڈیا تک ہر جگہ آئی ٹی سیل اور بھاجپا معاونین براجمان ہیں بل کہ پیدائش کے پہلے دن سے ہی ان سورسیز پر ان کا قبضہ ہے۔(ہم لوگ تو اس دنیا میں آج آۓ ہیں) پچھلے چھے سات سالوں میں سب نے مودی کے بارے میں کیسے کیسے ٹرینڈ چلاۓ اور چلا رکھے ہیں دنیا دیکھ رہی ہے۔ ان میں ایک یہ بھی ہے کہ "مودی کل یوگ میں رام کے اوتار ہیں”۔ اب اس بات کو اتنی بار اتنے طریقے سے ری پیٹ کیا جاتا ہے کہ عام تو عام خاص ہندو بھی اس فرضی نعرے کو حقیقت ماننے لگے ہیں۔ یہ بات ذہن نشیں رکھنے کی ہے کہ ٹرینڈ ہمیشہ کسی ایجنڈے کے تحت ہی چلاۓ جاتے ہیں۔ اس کے پردے کے پیچھے کیا کھچڑی پک رہی ہے یہ جاننا بھی اہم ہے۔ مودی کو رام اوتار بنانے کے پیچھے کون سا ایجنڈا کار فرما ہے، ملکی حالات و قومی سیاست پر نظر رکھنے والے سمجھتے ہیں۔
ٹرینڈ سوشل میڈیا کا اچھالا گیا ایک نیا لفظ ہے مگر اس کے اردو و ہندی متبادل پہلے بھی ہمارے ہاں موجود رہے ہیں۔ ٹرینڈ مطلب کسی چیز کا چلن عام ہونا۔ رجحان بڑھنا۔ دوسری بات یہ کہ کوئی ضروری نہیں کہ ٹرینڈ صرف سوشل میڈیا کے ذریعے ہی پھیلے۔ اسے تحریر و تقریر اور رابطہ مہم کے ذریعے بھی پھیلایا جاتا رہا ہے۔ آپ آدھی صدی قبل کے ہمارے مذہبی لٹریچرز کو پڑھ جائیں تو پائیں گے کہ ان میں مناظرہ کلچر پر کافی زور دیا گیا ہے۔ بل کہ یہ کہیے کہ مسلکوں کی آدھی سے زیادہ قوت اسی کلچر کی نذر ہوگئی ہے، جس میں مسافران تلاش حق مجادلہ، مکابرہ، مباہلہ تک پہنچ جاتے ہیں۔ مگر بے نتیجہ لوٹ آتے ہیں۔ یہ بھی ایک ٹرینڈ کے زیر اثر ہی تھا۔ اسی رجحان کا نتیجہ کہیے کہ مدرسے کے دنوں میں اس مناظرہ سبجیکٹ میں کافی دل چسپی رکھنے کے سبب "مناظرہ رشیدیہ” کا بندہ حافظ ہوگیا تھا۔(اب تو یاد نہیں رہا) مفتی احمد یار نعیمی کی جاء الحق، مشتاق احمد نظامی کی دیوبندی کا نیا دین، علامہ ارشد القادری کی زیر و زبر جیسی مناظرہ کلچر کو پروموٹ کرنے والی کئی کتب مطالعہ میں رہتی تھیں۔
ٹرینڈ کبھی عادت بگاڑ دیتا ہے۔ یہ میں کیوں کہ رہا ہوں؟ اس لیے کہ ہم نے ہزاروں دینی جلسے، مولود کی محافل، وعظ و نصیحت کی بزمیں، فکر و تدبیر کانفرنسیز دیکھے۔ ان میں کلام اللہ کی تلاوت تو ہوتی ہے مگر حمد و ثنا کے کلام کبھی پڑھتے نہیں دیکھا۔ شاید باید کہیں ہوگیا ہو۔ سیدھے نعت خوانی پہ آجاتے ہیں۔ آج کل تو سیدھے منقبت خوانی (بقول شخصے، منفعت خوانی) سے سُر سادھا جاتا ہے تو اسی پر آکر تان ٹوٹتی ہے۔ نعت خوانی بھی دوئم درجے پہ آنے لگی ہے۔
یہاں کوئی بڑی آسانی سے یہ کہہ دے گا کہ رسول کی تعریف خدا ہی کی تعریف ہے. الگ سے حمد کی ضرورت نہیں۔ یا یہ کہ کلام اللہ کی تلاوت کے بعد حمد کوئی ضروری نہیں۔ جب کہ مزاج دین و شریعت سے آگاہ ارباب فکر و نظر خوب جانتے ہیں کہ ان باتوں میں کوئی دم نہیں ہے۔ ایسی بات وہی کرے گا جو اپنی عبودیت کے تقاضے اور اپنے معبود کے حقوق سے سر محفل غافل بھی ہو اور جاہل بھی۔یہ تو دانستہ یا غیر دانستہ حمد باری کو غیر اہم سمجھنے کا جرم ہے۔ جو کسی قبیل سے بھی خالص موحد مومن کو زیب نہیں دیتا۔
کم سے کم ہم نے اتنا تو جرم کیا ہی ہے کہ کلام اللہ کی اقتدا بھول بیٹھے۔ پہلی سورت سورۂ فاتحہ حمد ہی تو ہے۔ حمد بھولنے کی وجہ یہی رجحان ہے جو ہم نے نوٹ پھینک کر اچھال کر بنایا ہے۔ واضح رہے کہ سماج تو دین و سنیت کے تقاضوں سے ناواقف ہے اس لیے اسے مس گائڈ کرنا یا غیر مطلوب راہ پر ڈال دینا ربانی قانون میں جرم عظیم ہے۔ یہ سوچنے و کرنے کی ذمہ داری قوم و ملت کے سرخیلوں کے سر جاتی ہے۔
میرا دو سال کا ایک ہی بیٹا ہے۔(اللہ اسے صحت و عافیت بخشے آمین)وہ اپنی ماں کے ساتھ نانیہال گیا۔ خیر سے بچے کے نانا ماموں سب مولوی لائن سے ہی ہیں۔ اور کٹر رضوی بھی۔ اب جو لوٹا ہے تو ہر وقت وہ نعرہ لگاتا رہتا ہے "بستی بستی قریہ قریہ”۔
اگرچہ سننے والوں کو اچھا لگتا ہوگا۔مگر دین کا مزاج و منشا سمجھنے والے کو یہ اٹپٹا سا لگے گا۔کیوں کہ عمر کے پہلے پڑاؤ میں مسلمان کے بچوں کو خدا کا نام بتانا سکھانا چاہیے۔ کہا جاتا ہے کہ بچوں کے ذہن و دماغ سادہ تختی کی طرح ہوتے ہیں آپ اس پر جو اور جیسا لکھنا چاہیں گے وہی نقش رہے گا۔ یہاں ادبا عرض ہے کہ بچے پہلے موحد تو ہولیں۔بعد میں مشربی و مسلکی ہو لیں گے۔ کسی بزرگ سے محبت و عقیدت اچھی چیز ہے مگر یہ حق خدا و رسول کا پہلے ہے اور سب سے زیادہ ہے۔ بل کہ قرآن نے تو "اشد حبا للہ” کہہ کر مومنین سے بڑا شدید مطالبہ کیا ہے۔ میری تو حیرت کی انتہا تب ہوگئی جب میں نے ایک جنازے میں یہی نعرہ لگاتے سنا۔یہ کیوں ہورہا ہے؟ اس لیے کہ آج کل اسی کا ٹرینڈ چل رہا ہے۔جسے کسی صورت بھی محمود نہیں کہا جاسکتا۔
میں سر دست ایک مکتب کا معلم ہوں (مکتب میں پڑھانا کوئی عیب نہیں بل کہ بزرگوں کی سنت ہے اور یہ بھی کوئی ضروری نہیں کہ ہر کوئی جامعہ یا کالج ہی میں پڑھاۓ) میرے علاقے میں کئی پیران کرام آتے ہیں۔ان میں سب سے زیادہ "دربھنگہ” سے سید شمس اللہ جان معروف بہ "بابو حضور” ہیں۔میرے والدین کو ان کے والد گرامی سید نور علی المعروف "حضور عالی” سے شرف بیعت حاصل ہے۔ہمارے سیمانچل میں عام لوگ ان حضرتین کو اصل نام سے کم "بابو حضور” و "حضور عالی” سے زیادہ جانتے ہیں۔ گھر گھر انہی کے نام کا نعرہ گونجتا ہے۔
کچھ دنوں پہلے کلاس ختم کرنے کے بعد میں نے بچوں سے پوچھا کہ ہمارے "حضور” کا مزار کہاں ہے؟ تو اس میں ۸۰؍ فی صد بچوں کا جواب تھا "دربھنگہ میں”۔ان میں ۸ ویں ، ۹ ویں، ۱۰ ویں درجے کے بھی طلبہ و طالبات تھے۔
یہ سن کر اندھے قسم کے مریدوں کو اچھا لگتا ہوگا مگر کسی دل والے آگاہ شریعت سے پوچھیے کہ کیسا لگا تب پتا چلے گا۔ معلوم ہے ایسا جواب کیوں آیا؟ کیوں کہ ہم نے اسی طرح کا ٹرینڈ چلا دیا ہے۔ ہماری ذمہ داری تھی کہ پہلے بچوں کو دین کی بنیادی تعلیم سے آراستہ کرتے، سیرت کو پڑھاتے، جلسوں میں، گفتگو میں، نجی محفلوں میں پیغمبر کا نام اور کام کوٹ کرتے مگر یہ ہم سے نہ ہوسکا۔ بجاۓ اس کے ہم نے ٹرینڈ ہی بدل دیا۔
مظفر پور میں ایک بہت بڑے خدا رسیدہ بزرگ حضرت تیغ علی رحمہ اللہ علیہ کا آستانہ ہے۔ سارا مظفر پور انہیں "دادا سرکار” کے نام سے یاد کرتا ہے۔ادھر ان کے نام کا ایسا کریج بڑھا ہوا ہے کہ کسی بھی عمر رسیدہ سے پوچھو کہ کیسے ہیں یا کیا حال ہے تو بس ایک ہی جواب "دادا سرکار کا کرم ہے”۔جیسے لوگ خدا کو تو بھول ہی گئے ہوں۔ آپ لاکھ اسے جائز ٹھہرا لیں مگر دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ "خدا کا کرم ہے” کہنے میں لطف دو بالا ہے کہ نہیں؟ ادھر کے سارے جلسے جلوس میں فیضان دادا سرکار و صدقۂ تیغی اس شدت سے ری پیٹ کیا جاتا ہے کہ عام لوگ طے نہیں کر پاتے کہ اصل میں کرم خدا کا ہے کہ دادا سرکار کا۔ یہی غلط ٹرینڈ ہے۔
بزرگوں سے عقیدت بھلی چیز ہے مگر دائرے میں۔ آپ کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ خدا و رسول کا حق چھین کر کسی اور کو دے دیں۔ مشرق وسطی کے لوگ ہمارے بزرگوں کو نہیں جانتے تب بھی ان کا ایمان سلامت ہے۔ اور ہم ان کے بزرگوں کو نہیں جانتے ہم بھی اہل ایمان سے ہیں۔اس میں کوئی شرعی گرفت نہیں۔ مگر خدا و رسول کو جاننا ماننا مشرق والوں کے لیے اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ مغرب والوں کے لیے۔ بعد المشرقین میں خدا و رسول کا حق کہیں کم کہیں زیادہ ہو ایسا ہرگز نہیں ہے۔ہمارے بچوں کی سماعت خدا و رسول کے اسما سے مانوس ہو یہ دین کو مطلوب ہے ۔ اسی لیے بوقت تولد کان میں اذان پڑھی جاتی ہے تاکہ دنیا میں آتے ہی پہلے خدا و رسول کا نام سنے۔ ان کے سادہ لوح ذہن نور خدا سے جگمگا اٹھیں ۔نور بصیرت بڑھے تو خدا کی کائنات پر غور کرکے عرفان الہی کا حصول آسان بنا سکیں ۔اب اگر کوئی فنا فی الشیخ مرید بجاۓ اذان کے اپنے شیخ کا نعرہ سناۓ تو اس بچے پر ایک طرح کا یہ ظلم ہی ہے اور دین کی خطوط سے عملی روگردانی بھی۔ ہمارے لیے یہ بھی جاننا پرکھنا اہم ہے کہ ہر ٹرینڈ کے پیچھے بھاگنا عقل مندی نہیں۔اس سے تھوڑی دیر کے لیے تھوڑی سی دنیا حاصل تو ہوجاۓ گی مگر آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔
(۱۹؍جنوری ۲۰۲۱ء)
صاحب مضمون کی یہ تحریر بھی ملاحظہ فرمائیں : یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے