26/ جنوری قومی یادگار کے اظہار کا دن

26/ جنوری قومی یادگار کے اظہار کا دن

حافظ محمد ہاشم قادری مصباحی، جمشیدپور

26/ جنوری یومِ جمہوریہ کے طور پر ہرسال منا یا جاتاہے، کیونکہ اسی روز مرتب کردہ آئین اسمبلی کے ذریعہ نافذ العمل کیا گیا تھا. اس دن کاپس منظر یہ بھی ہے کہ 1930 میں لاہور کے مقام پر دریائے راوی کے کنارے انڈین نیشنل کانگریس نے اپنے اجلاس میں جس کی صدارت جواہر لال نہرو نے کی تھی، ڈومنین اسٹیٹس کی بجائے مکمل آزادی کے حصول کو اپنا نعصب العین قراردے کر 26جنوری کو یومِ آزادی کے طور پر منانے کا فیصلہ کیاتھا۔ اس روز شان دار فوجی پریڈ اورجھانکیوں کی نمائش کے علاوہ چراغاں اور جشن کی تقریبات مناکر ہندستانی عوام کو باورکرایا جاتاہے کہ وہ تحریک آزادی کے اصولوں کی روشنی میں مکمل طورپر آزاد خود مختار ہیں، اتنا ہی نہیں بلکہ خوش حالی اور فارغ البالی کی زندگی کی طرف رواں ہیں۔ لیکن عملی دنیا کی حقیقت یہ ہے کہ ملک نہ تو مکمل طورپر آزادہے اور نہ ہی عوام الناس کو اپنی خوش حالی اورفارغ البانی کا کہیں نام ونشان مل رہا ہے۔ یہ دُرست ہے کہ سیاسی طورپر غیر ملکی حکمرانی کاخاتمہ ہوچکاہے اور سفید فام حکمرانوں کی بجائے گندمی رنگ کے حکمران برسر اقتدار ہیں جو ہر وہ نارواکام کر رہے ہیں جس میں دور غلامی میں بڑھ چڑھ کرفر نگی ملوث تھے۔ یہ ملک ابھی تک پس ماندگی، ناخواندگی، بیماری، استحصال اور دوسری طرح کی غلامیوں میں جکڑا ہوا ہے۔ سماجی طورپر منتشر، سیاسی طورپر استحصال زدہ اور معاشی لحاظ سے اس وقت بھی ملک برابر نیم آبادیاتی ہے، کیونکہ معیشت پر سامراجی طاقتوں، ان کے مقامی دلالوں اوربڑے بڑے لینڈ لارڈوں کی مشترکہ گرفت مکمل طور پر موجودہی نہیں بلکہ مضبوط ومستحکم ہے۔ تمام ترمعاشی پالیسیاں ورلڈ بنک، ملٹی نیشنل کمپنیوں، انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ، ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن اور انٹرنیشنل کنشوژیم کے کنٹرول میں ہیں۔ چونکہ ملکی دولت کازیادہ تر حصہ سامراجیوں، گماشتہ مقامی سرمایہ داروں اوربڑے بڑے لینڈ لارڈوں کی تحویل میں چلاجاتاہے، اس لیے محنت کش عوام کنگال و معاشی طورپر ناآسودہ ہیں۔ اندریں حالات آزادی اور جمہوریت کا جوخواب ہندستانی عوام نے بڑے ذوق وشوق سے دیکھاتھا وہ ادھوراہے، تشنۂ تعبیر ہے اور اسے پورا کرنے کے لیے سخت جدوجہد اور بے لوث سیاسی و معاشی قیادت کی اشد ضرورت ہے۔ اس میں دو رائے نہیں کہ ہمارے سروں پر مسلط خود غرض اور استحصالی حکمران و سیاست دان بے شک اپنی منزلِ مُراد… یعنی لوٹو اور پھوٹو… پرپہنچ چکے ہیں لیکن عوام منزلِ تمنا سے کوسوں دورہیں۔
جس قوم کو خود کفالت اور خودانحصاری کی پالیسی ترک کرکے لبرل معاشی پالیسی کے نام پر ملک کو عالمی سرمایہ دار منڈی کے ساتھ نتھی کر دیا گیا ہو، جس ملک کی معاشی و مالی پالیسیاں ورلڈ بنک، ملٹی نیشنل کمپنیوں، مانیٹری فنڈ، ورلڈ بنک اور ورلڈٹریڈ آرگنائزیشن جیسے سامراجی ادارے طے کرتے ہوں، جہاں بیرونی سرمایہ داروں کولوٹ کھسوٹ کی کھلی چھوٹ دے دی گئی ہو، جب مالی و معاشی بحران کا دیو ہاہاکار مچا رہا ہو، جب برآمدات اور درآمدات میں تفاوت کے باعث تجارت میں عدم توازن موجود ہو، جب روپیہ کی قیمت 1960 کے مقابلہ میں چار پیسے رہ گئی ہو، جب آئے دن غیر ملکی سکہ کے مقابلہ میں ہندستانی روپیہ کی قیمت کم ہوتی جارہی ہو، جب صنعت و حرفت میں غیر ملکی غلبہ ہو، جب معاشی پالیسیاں طے کرنے کی آزادی اور خودبینی وخود نگری کا اختیار حاصل نہ ہو تو اس ملک، قوم اور معیشت کو آزاد کیسے قرار دیاجاسکتاہے؟ جب کھلم کھلا غیر ملکی سامراجی طاقتیں اس ملک کی معیشت و سیاست پر قبضہ کرنے کے لیے آپس میں برسرپیکار ہوں، تو اسے آزاد معیشت و جمہوری سیاست کا نام کیسے دیا جاسکتاہے؟ یہ سب نیم نوآبادیاتی معاشرہ کی خصوصیات ہیں جو ہم اپنے سروں پر سوار دیکھتے ہیں۔ اس لیے بلاشبہ ہندستانی معاشرہ، نیم نوآبادیاتی معاشرہ ہے بھلے ہی حکمران کسی شک وشبہ کے بغیر میڈیا کے زور پر اسے آزاد اور حاکمیت اعلا کا حامل معاشرے کا نام دیں۔
سوال یہ ہے کہ جب متذکرہ بالا سیاسی و معاشی پالیسیوں کے طفیل صنعتوں پر بیرونی اور ان کے مقامی گماشتہ سرمایہ داروں کا قبضہ ہو، جب زمین کے غالب حصہ پر لینڈ لارڈ قابض ہوں تو عوام کی حالت بہتر کیسے ہوسکتی ہے؟ ان غلط و ناہنجار پالیسیوں کی ہی وجہ ہے کہ ملک میں غربت، مفلسی، بیکاری، بیروزگاری، مہنگائی، حق تلفی، رشوت، بھرشٹاچار، کنبہ پروری، اقربا نوازی، اور خاندانی راج جیسی بری چیزیں سر بازار بک رہی ہوں، تو مزدور، کسان اور درمیانہ طبقہ کے لوگ کیوں نہ کنگال ہوتے رہیں۔ اس مخمصے کو کن معنوں میں آزادی، خوش حالی اور تعمیر و ترقی کا دور کہا جا سکتا ہے جسے یوم جمہوریہ Pre. Suppose کرتا ہے اور اسے عوام کی جیت سے کیسے منسوب کیاجاسکتاہے؟ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ ملک میں دولت کے بیش تر حصہ پر سامراجی مقامی گماشتہ سرمایہ دار اور لینڈلارڈ قابض ہیں اور محنت کش نیم فاقہ کشی کی زندگی بسرکرنے پرمجبور ہیں۔ آزادی کا پھل سامراجی، گماشتہ سرمایہ دار، لینڈلارڈ اور سیاسی پارلیمانی شہزادے کھا رہے ہیں اورمفلوک الحال عوام مصائب و آلام کے شکارہیں۔ اس لیے یہ کس زبان و بیان کے پیرایے میں کہاجاسکتاہے کہ آزادی کے 74 سال بعد آج عوام جشن و خوشیاں منائیں کیونکہ وہ حقیقی طورپر آزادی اور معاشی مساوات سے ہم کنار ہیں؟ حقیقتِ حال یہ ہے کہ عام آدمی حسب سابق ذلت کے گہرے غار میں پڑا ہوا، استحصال، گراں بازاری اور بے نوائی کے سبب کراہ رہا ہے۔ خدارا بتایئے کہ اس ناگفتہ بہ صورت حال کوخوش حالی اور فارغ البالی سے کیسے منسوب کیاجاسکتاہے؟ ہاں، اقتدار کے رسیا نیتا اگر کانٹوں کو پھول اور مشکالت ومصائب کو راحتیں قرار دیں تو بھی امر واقع یہی ہے کہ لوگ در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں، بھلے ہی حکمران ذرائع نشر و اشاعت کے ذریعہ رات دن خیالی جنتوں اور افسانوی خوش حالی کا ڈھنڈورہ پیٹیں۔
ہندستان ایک مختلف القومیتی ملک ہے جس میں مختلف مذاہب اور عقائد رکھنے والے لوگ صدیوں سے حب الوطنی کے بے لوث جذبے کے ساتھ رہتے بستے ہیں۔ اس ملک کااتحاد، سا لمیت، یگانگت صحیح معنوں میں اس وقت قائم رہ سکتی ہے جب یہاں حقیقی معنوں میں وفاقی نظام قائم ہو، تمام مذاہب اور عقائد و افکارکو تحفظ حاصل ہو، ہر نسل اور زبان و ثقافت کو پھلنے پھولنے کی راہیں ہموار ہوں تو پھر ملک کی جمہوریت اور آزادای کے کیا کہنے ! اس کے برعکس جب کہ چھوٹی قومیتوں اور دیگر اقلیتوں کے آئینی و انسانی حقوق پائمال کرکے عملاً وحدانی طرز حکومت قائم کردیاگیاہے، جس سے سب مالیات اور ذرائع مرکز کی تحویل میں ہیں اور ریاستیں مرکز کی دستِ نگرہیں، مذہبی اقلیتوں میں احساس عدم تحفظ پایا جائے اور وہ بوجوہ خوفزدہ اور دبے کچلے ہوں، کرسی کے لیے ضمیروں کو بیچ کھا نے والے حکمرانوں نے اپنے حقیر سیاسی اغراض کے لیے پورے ملک کو ذات برادریوں میں تقسیم کر رکھاہو کہ جس سے قومی یک جہتی بھی خطرے میں ہے، اس تناظر میں 26 جنوری کی خوشیاں ایک بے سمت سفر اور ایک بے مقصد اچھل کود ہے تاوقتے کہ حقیقی معنوں میں فیڈرل نظام قائم نہیں ہوتا تب تک قومی یک جہتی کیسے قائم ہوسکتی ہے؟ یہ الگ بات ہے کہ ہوس اقتدار رکھنے والے رنگے سیار اپنا الو سید ھا کر نے کے لیےگلا پھاڑ پھاڑ کر قومی اتحاد کے ڈنکے بجاتے رہیں۔ دنیا جانتی ہے کہ اس ملک میں انسانی حقوق پائمال ہورہے ہیں، شہری آزادیاں غارت ہورہی ہیں اور آزادی تحریر و تقریر کی نفی ہورہی ہے، معصوم وبے گناہ لوگ دن دہاڑے مارے جارہے ہیں، بے گناہ تختہ مشق بن رہے ہیں اور مجرموں کو خود غرضانہ سیاست کی چھتر چھایا حاصل ہونے کی بنا پر حکام کی زبانوں پرتالے، آنکھوں پر پٹیاں اور ضمیروں پر بےپرواہی کی دھول جمی ہوئی ہے۔ ایک جانب منظر نامہ یہ ہے اور دوسری جانب سخت گیرانہ کالے قوانین دھڑا دھڑ بنائےجارہے ہیں۔ یہ سب ان خوابوں کی نفی ہے جوعوام نے انگریز سامراج کے خلاف دیوانہ وار جد وجہد کے دوران دیکھے تھے گو اس انارکی کو بے ضمیر حکمران آزادی کا نام ہی دیں۔ سیاسی و معاشی آزادی کی حقیقی منزل پر پہنچنے، ملک میں خوش حالی لانے اور قومی یک جہتی قائم کرنے کے لیے سامراجیوں، گماشتہ سرمایہ داری اور لینڈ لارڈازم کی گرفت کوتوڑنا اشد ضروری ہے۔ جب تک ملک ان کی گرفت سے آزاد نہیں ہوتا تب تک آزادی اورجمہوریت کاگن گان بے معنی ہے۔ ایسا موجودہ لٹیرے نظام کی تخریب اور عوامی جمہوریت کے قیام سے ہی ممکن ہے۔ لٹیرے حکمران طبقوں کے مختلف گروہ موجودہ استحصال اور لوٹ کھسوٹ کے نظام کے ہی نقیب ہیں۔ ان میں بے شک کسی قدر بھی لڑائی جھگڑے بھی ہوں، پھر بھی ایک ہی تھیلے کے چٹے بٹے ہونے کی بنا پر وہ اس لٹیرے نظام پرکوئی آنچ نہیں آنے دیتے اور نہ اسے بدل کر پورے سسٹم کو ایک انقلابی سانچے میں ڈھالنے کے لیے تیار ہو رہے ہیں۔ اس لیے لازم ہے کہ ان کے مایا جال سے آزادی حاصل کرکے پارلیمانی نظام کے ابہامات سے آزاد ہوکر ایک انقلابی تحریک کے ذریعہ عوامی جمہوری انقلاب کرکے ہی سچی آزادی اور جمہوریت سے ہم کنار ہوا جاسکتاہے اورصحیح معنوں میں یوم جمہوریہ منانے کی ایک نظریاتی اور عملی بنیاد فراہم ہو سکتی ہے۔ اس منزل کو حاصل کیے بغیر یوم جمہوریہ کے نام پر اُچھل کود کرنا محض عوام کی آنکھوں کوخیرہ کرنے اور زمینی حقائق کو عوامی نظروں سے پوشیدہ رکھنے کی مکروہ چال ہے جسے عوام کو اچھی طرح ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے۔ موجودہ صورت حال میں ہم جیسے دل جلے لوگ تو فقط یہی کہہ سکتے ہیں؎
مالی نے اس لیے چمن کو خون سے سینچاتھا
کہ اس کی اپنی نگاہیں بہار کو ترسیں
ملیں اس لیے ریشم کے ڈھیر بنتی ہیں
کہ دختر ان وطن تار تار کو ترسیں
اس موقع پرضرورت اس امرکی ہے کہ عوام ان مقاصد کو سمجھیں جن کی خاطر ان سے پیش تر کی نسلوں نے انمول قربانیاں دے کر سچی آزادی اور حقیقی جمہوریت کے قیام کے لیے کوششیں کی تھیں، لاتعداد جان بہ حق لوگوں کا لہو پکارپکار کر موجودہ نسل کو غور وفکر کی دعوت دے رہاہے کہ ابھی اس ملک میں سچی آزادی اور حقیقی جمہوریت کا قیام عمل میں نہیں آیا ہے۔ اس منزل تاباں پر پہنچنے کے لیے انھیں انتھک محنت کرناہوگی اور اپنے آباواجداد کے نقش قدم پر چل کر قربانیوں کا راستہ اختیار کرناہوگا۔ بہ صورت دیگر انھیں موجودہ ذلت زدہ حال میں ہی زندگی بسر کرناہوگی۔ بھارت کا دستور جب مرتب کیا گیا تو بنیادی حقوق (Fundamental Rights) کی دفعات میں دفعہ 25-26-27-28-29-30 میں ہر شہری کو مذہب کی آزادی، اپنے مذہبی رسم و رواج پر عمل کی آزادی، اپنے تہوار منانے اور اپنے مذہبی اور تہذیبی خصوصیات کے ساتھ رہنے کی آزادی، اپنے مذہب کی تبلیغ و ترویج کی آزادی، مذہبی تقریبات کی آزادی، اپنے مذہب، زبان اور اپنی تہذیب کے تحفظ اور فروغ کے لیے ادارے قائم کرنے کی آزادی دی گئی ہے۔
انگریزی حکومت میں مسلمانوں نے اپنے مسائل اسلامی طریقے پرحل کرنے کی درخواست دی تو انگریزی حکومت نے مسلمانوں کی درخواست منظور کر لی اور شریعت ایکٹ 1937 پاس کیا۔ جب ہمارا ملک آزاد ہوا تو ڈاکٹر امبیڈکر کی رہ نمائی میں دستور ساز کمیٹی تشکیل دی گئی۔ اس کمیٹی نے شریعت ایکٹ 1937 کو جوں کا توں برقرار رکھا. اسی کو مسلم پرسنل لا کہتے ہیں جو آج بھی ہمارے عدالتی نظام میں رائج ہے۔
26 جنوری ہندستان میں "یومِ جمہوریہ" کے یادگار دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ ہندستان نے برطانیہ کے تسلط سے یوں تو 15۔ اگست 1947ء کو آزادی حاصل کی تھی، لیکن ہندستان کا آئین 26۔ جنوری 1950ء کے دن قائم کیا گیا تھا، لہذا حکومتی سطح پر یہی دن (26۔ جنوری) ہندستان کے جمہوری مملکت ہونے کے مبینہ اظہار کا دن قرار دیا جاتا ہے۔ اسی دن ڈاکٹر راجندر پرساد ہندستان کے پہلے صدر جمہوریہ کے طور پر منتخب کیے گئے۔ ”یومِ جمہوریہ" کے اسی قومی دن [پر] ہر سال ہندستان کے دارلحکومت نئی دہلی میں ایک عظیم فوجی پریڈ کی نمائش ہوتی ہے۔ آرمی، نیوی اور ایر فورس کی قوتوں کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ صدرِ ہندستان، جو کہ ہندستانی مسلح فوج کا کمانڈر انچیف بھی ہوتا ہے، اس موقع پر فوج کی سلامی لیتا ہے۔ یومِ جمہوریہ کی اس پریڈ میں شرکت کے لیے مہمانِ خصوصی کے طور پر کسی دوسرے ملک کی اہم شخصیت کو دعوت دی جاتی ہے۔ اس سال فرانس کے صدر اور کچھ ملک کے سربراہان کو بطور مہمان خصوصی مدعو کیا گیا تھا۔
یومِ جمہوریہ کو سارے ہندستان میں تعطیل منائی جاتی ہے۔
ساری ریاستوں کے دارالحکومت میں مختلف رنگین تقریبات منعقد کی جاتی ہیں۔ علی الصبح پرچم کشائی کی تقریب ریاستی گورنر کے ہاتھوں انجام پاتی ہے.
حافظ محمد ہاشم قادری صدیقی مصباحی خطیب و امام مسجدِ ہاجرہ رضویہ اسلام نگر کپالی وایا مانگو جمشید پور جھارکھنڈ831020,
*09386379632,*
*hhmhashim786@gmail.com*
صاحب تحریر کی گذشتہ نگارش:صفائی نصف ایمان ہے! مسلمان اور صفائی؟

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے