صفائی نصف ایمان ہے! مسلمان اور صفائی؟

صفائی نصف ایمان ہے! مسلمان اور صفائی؟

حافظ محمد ہاشم قادری مصباحی، جمشید پور
موبائل:09386379632
اسلام نے صفائی کو لازم و ملزوم کردیا ہے. یہاں تک کہ صفائی کو نصف ایمان قرار دیا، آقائے دو عالم ﷺ نے ارشاد فر مایا: اَلطَّھُوْرُ شَطْرُالْاِیْمَانِ صفائی آدھا ایمان ہے۔(مسلم شریف،:223مشکوٰۃ المصابیح ص:31)
cleanliness is half of the faith طہارت اور صفائی کو آدھا ایمان اس لیے فر مایا کہ طہارت سے ظاہری صفائی ہوتی ہے اور ایمان سے باطن کی صفائی ہوتی ہے۔ صفائی کی اہمیت دین کے ساتھ دنیا کے لیے بھی ضروری ہے، صفائی کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگا یا جا سکتا ہے کہ انسان اللہ کی تمام مخلوق میں اشرف المخلوقات میں شامل ہے۔انسان جیسے ہی پیدا ہوتا ہے بہت غلاظت میں لپٹا رہتا ہے۔ پیدائش کے عمل کے بعد اُس کی نار کاٹی جاتی ہے جس کے ذریعے ماں کے پیٹ میں بچہ کو غذا ملتی تھی، نار کے کاٹنے کے بعد ہی دائی یا نرس یا گھریلو عورتیں سب سے پہلے بچہ کو نہلاتی ہیں، پاک و صاف کرتی ہیں پھر کپڑے سے پوچھ کر اُس کو ماں کی گود میں دیاجاتا ہے۔ اس کے بر عکس جانور اُس بچہ کی گندگی کو چاٹ لیتا ہے، صاف صفائی ہی انسان کو جانوروں سے امتیاز کرتی ہے۔
ہر ذی عقل شخص اس بات سے بہ خوبی واقف ہے کہ امیر ہو یا فقیر سبھی کے لیے صفائی ستھرائی ضروری ہے، صفائی اِنسانی وقار کو عظمت و شرف عطا کرتی ہے۔ گندگی سے لوگ دور بھاگتے ہیں. گندے انسان سے لوگ نفرت کرتے ہیں، گندگی انسان کی عزت و عظمت کی بد ترین دشمن ہے۔ دین اسلام نے جہاں انسان کو صفائی کی جانب توجہ دلائی، صفائی کو نصف ایمان بتایا وہیں انسان کو کفر و شرک کی نجاستوں سے پاک رہنے کی تلقین کی تاکہ انسان تمام طرح کی نجاستوں غلاظتوں سے پاک رہے اور بہ طور اشرف المخلوقات ہونے کے وہ عزت و رفعت کے ساتھ رہے اور انسانی اخلاق و پاکیزگی کی اعلا تعلیمات کے ذریعے انسانیت کا وقار بلند رکھے۔بدن کی پاکیزگی ہو یا لباس کی پاکی ستھرائی، ظاہری ہَیَّت کی عمدگی ہو یا طور طریقے کی اچھائی، مکان اور دوکان کی صاف صفائی ہو یا اور دوسرے سازو سامان کی صفائی ہو یا سواری کی دُھلائی الغرض ہر ہر چیز کو پاک و صاف و ستھرا اور جاذبِ نظر رکھنے کی دین اسلام نے خصوصی تعلیم اور ترغیب دی ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے: إِنَّ اللّہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ وَیُحِبُّ الْمُتَطَہِّرِیْنَ ترجمہ:بے شک اللہ بہت توبہ کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے اور خوب صاف ستھرے رہنے والوں کو پسند فر ماتا ہے۔(القرآن،سورہ البقرۃ:2 آیت222 )
حضرت سہل بن حنظلہ رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے، نبی کریم ﷺ نے ارشاد فر مایا: ’’جو لباس تم پہنتے ہو اسے صاف ستھرا رکھو اور اپنی سواریوں کی دیکھ بھال کیا کرو اور تمھاری ظاہری ہَیَّت ایسی صاف ستھری ہو کہ جب لوگوں میں جاؤ تووہ تمھاری عزت کریں۔( جامع صغیر،حرف المہزۃ، ص: 22، حدیث257:) حضرت علامہ عبد الرؤف مناوی رحمۃ اللہ علیہ فر ماتے ہیں:اس حدیث پاک میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ہروہ چیز جس سے انسان نفرت و حقارت محسوس کرے اس سے بچنا چاہئے۔(فیض القدیر،حرف المہزۃ،ج:1/ص249 حدیث: 257) علمائے کرام کی توجہ مبذول ہونی چاہئے پان کھا کر اس کی پیک چھوٹی بالٹی میں، اُگلدان میں تھوکتے ہیں، بدبو سے روم اور ارد گرد کی حالت انتہائی خراب رہتی ہے، دیکھی نہیں جاتی، پھر وہی بچوں سے صاف کر اتے ہیں اور جہاں رہتے ہیں اُس کے اطراف میں پان کی غلاظت (پیک،تھوک) تھوک کر گندہ کیے رہتے ہیں۔ بدن و کپڑے کی صفائی کے ساتھ روم بستر چادر وغیرہ کی صفائی پر بھی توجہ دینی چاہئے۔
تندرستی کے لیے صفائی ضروری:
تندرستی و بیماری سے بچاو کے لیے صفائی بہت ضروری ہے، جسم کی صفائی کے لیے روزانہ غسل کرنا چاہیے، اگر جسم صاف نہ رکھا جائے تو مسامات بند ہو جاتے ہیں، جس سے طرح طرح کی بیماریاں پیدا جاتی ہیں۔ جسم کی صفائی اس قدر ضروری ہے کہ یہ مذہبی فرائض میں شامل ہے۔ چنانچہ اسلام سبھی انسانوں کو کھانے سے پہلے ہاتھ دھونے اور کھانے کے بعد ہاتھ دھونے اور منھ صاف کرنے کا حکم دیتا ہے۔یاد رہے آج کل ٹشو پیپر tissue paper سے لوگ ہاتھ اور منھ صاف کرتے ہیں جس سے ہاتھ صحیح طرح سے صاف نہیں ہوتا، ہاتھ میں کھانے کا اثر باقی رہتاہے، وقت گزرتے اس میں جراثیم پیدا ہوجاتے ہیں۔ قدرت نے پانی جیسی انمول شے سے نوازا، ہم اس کی بے قدری کررہے ہیں. یاد رہے بغیر پانی سے ہاتھ اور منھ قطعی نہیں صاف ہوتا، دانتوں میں کھانے کے ذررات لگے رہتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ صفائی رکھنے سے انسان ہمیشہ تندرست، صحت مند رہتا ہے، صاف ستھرے انسان کی ہر جگہ عزت اور قدر ہوتی ہے اور اس کے برعکس میلے کچیلے انسان سے ہر شخص دور رہتا ہے اور نفرت کا اظہار کرتا ہے۔
ہر چیز کی صفائی پر خاص توجہ دیں: ہم سب کو خاص کر مسلمانوں کو چاہیے جسم و لباس کی صفائی کے ساتھ ساتھ ہمیں گلی، محلوں، سڑکوں کی صفائی کا بھی خیال رکھنا چاہیے. کیوں کہ اچھے ماحول اچھے گھرانوں سے ہی انسان اپنی پہچان کرواتا ہے۔ اور اس سے اللہ بھی خوش ہوتا ہے۔ وَاللّہُ یُحِبُّ الْمُطَّہِّرِیْنَ اور اللہ خوب پاک ہونے والوں کو پسند فر ماتا ہے۔(القرّن،سورہ، توبہ:9آیت108) معلوم ہوا کہ رب تعالیٰ صفائی رکھنے والوں سے محبت رکھتا ہے جیسا کہ اوپر مذکورہ آیت میں بیان آچکا ہے اور اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ صفائی رکھنے والوں کو پسند بھی فر ماتا ہے. اس سے بڑی نعمت اور کیا ہو سکتی ہے؟۔ [ یُحِبُّونَ أَن یَتَطَہَّرُواْ :وہ لوگ خوب پاک ہونا پسند کرتے ہیں۔]: یہ آیت مسجد قبا والوں کے حق میں نازل ہوئی، سید عالم ﷺ نے اُن سے فر مایا: اے گروہِ انصار! اللہ عَزَّ وَجَلََّّ نے تمھاری تعریف فر مائی ہے، تم وضو اور استنجے کے وقت کیا عمل کرتے ہو؟ اُنھوں نے عرض کی: یا رسول اللہ ﷺ، ہم بڑا استنجا تین ڈھیلوں سے کرتے ہیں، اس کے بعد پانی سے طہارت کرتے ہیں۔(تفسیر مدارک،ص:455)
بجبجاتی نالیاں، سُکڑتی سڑ کیں مسلم محلوں کی پہچان:
شان دار مکان، مکان کے سامنے کھڑی شان دار گاڑی، گھر کا کچڑا dustbin ڈسٹ بنس میں پھینکنے کے بجائے گھر ہی کے دائیں بائیں جلانے میں کون سی عقل مندی ہے. افسوس صد افسوس 150روپیے مہینہ کچڑا پھنکنے والی گاڑی کو نہیں دیتے، کچڑا گھروں کے سامنے ہی پھینک کر دروازہ بند کر لیتے اور اپنی آنکھ کے بند کرکے دوسروں کی آنکھ بھی بند سمجھتے ہیں. کچڑا جلاکر ماحولیات کو بھی خراب کرتے ہیں. وہی کچڑا اُڑ اُڑ کر پھر گھروں میں واپس آتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں گلیوں، سڑکوں یا پارکوں میں کچڑا پھینکنا ایک عام سی بات بن چکی ہے۔
اگر دیکھا جائے عوامی مقامات پر ڈسٹ بِن شاذ و نادر ہی پائے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ اگر ڈسٹ بِن ہوں تو بھی ان کا صحیح استعمال نہیں کرتے ہیں۔ بلکہ وہ کوڑا باہر پھینکنا پسند کرتے ہیں. اس کے نقصانات پر غور کیے بغیر سڑک پر ہی پھینک دیتے ہیں، اس سے صفائی اور حفظانِ صحت کے بارے میں ہمارا رویہ ظاہر ہوتا ہے۔ اسی طرح چلتے ہوئے لوگ دیواروں پہ پان کی پیک تھوک دیتے ہیں، جو نہایت معیوب عمل ہے وغیرہ وغیرہ۔ بڑے افسوس و شرم کے ساتھ مجھے لکھنے میں کوئی عار نہیں محسوس ہورہا ہے. سُکڑتی سڑکیں، گندگی سے بج بجاتی نالیاں مسلم محلوں کی پہچان بن گئی ہیں۔ اپنی زمین کی ایک اِنچ زمین کو نہ چھوڑ کر پورے پر مکان بنالینا، سڑکوں پر سیڑھیاں بنوانا اس کے ارد گرد سڑک پر پکی پلاسٹر کرلینا پھر گھر کے آگے گاڑیاں کھڑا کرنا عام سی بات ہے، گند گی کا انبار اور الزام حکومت پر عجیب بات ہے؟ صاف صفائی کا حکم تو ہمارا مذہب اسلام دے رہا ہے۔ آج ہمارے مذہب کا حکم دوسرے مذہب کے لوگ نام بدل کر رکھ رہے ہیں اور ’’سوچھ بھارت‘‘ کی یوجنا چلا رہے ہیں اس یوجنا پر دوسرے محلوں میں کیسے کام ہورہا ہے کم لکھنا زیادہ سمجھنا آپ کی ذمہ داری پر چھوڑتا ہوں؟ خدارا خدارا صفائی ستھرائی پر خاص توجہ دیں تاکہ آپ کا معاشرہ صحت مند ہو۔ کوڑا کو سڑ کوں میں نہ پھیکیں کوڑے کو، کوڑے دان میں ڈالیں۔ اس سے محلہ صاف رہتا ہے، بیماریاں کم ہوتی ہیں۔ مچھر نہیں ہوتے اگر آپ صفائی پسند ہیں تو آپ اپنے پڑوسیوں کو بھی اس کی جانب توجہ دلائیں وغیرہ وغیرہ۔
صفائی اور صحت لازم و ملزوم:
کہتے ہیں جان ہے تو جہان ہے!
؎ تنگ دستی اگر نہ ہو غالبؔ
تندرستی ہزار نعمت ہے
مگر انسان سب سے زیادہ بے پرواہ صحت و تندرستی کے معاملے میں ہی کرتا ہے۔ ہندستان کے مسلمان کچھ زیادہ ہی بے پرواہ ہیں۔ ایک غیر مسلم جس کے یہاں ایمان کا کوئی تصور نہیں اس کے گھر میں چولھے کو ’’چوکا‘‘ پوتے یا دھوئے بنا کھانا نہیں بنتا، وہ غسل کیے بنا’’بھوجن‘‘ کھانا نہیں کھاتا۔ گرو نانک کاعقیدت مند اپنے’’دُووار‘‘ ( دروازہ) کو صرف اس لیے دھوتا ہے کہ دروازے پر اگر گندگی ہوگی تو ’’گرو‘‘ داخل نہیں ہوں گے اورحضرت محمد ﷺ کے اُمتی جانثار بھول گئے کہ گندگی کی جگہ رحمت کے فرشتے نہیں آتے!۔ اسی گندگی کی وجہ سے ہی ہزار طرح کی بیماریوں میں مبتلا ہوتے ہیں۔ ہر اسپتال میں مسلمان مریضوں کی تعداد اِن کی آبادی سے تین گنا زیادہ ہے۔ اس کی اصل وجہ ہے ہم صفائی سے کوسوں دور محلوں کی صفائی ستھرائی کا اہتمام نہیں کرتے۔ بیماری کی وجہ سے عمر بھی گھٹ جاتی ہے۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق ’’ملک ِہندستان میں اوسطاً سب سے زیادہ عمر کیرالہ کے لوگوں کی ہوتی ہے، کیونکہ وہی سب سے زیادہ صاف صفائی کا اہتمام رکھتے ہیں۔ جولوگ صاف صفائی کا اہتمام کرتے ہیں وہ کم بیمار پڑتے ہیں۔‘‘ اللہ ورسول کے فر مان پر عمل پیرا ہوں. اللہ ہی عمل کی توفیق رفیق عطا فر مائے.
رابطہ: حافظ محمد ہاشم قادری صدیقی مصباحی خطیب و امام مسجدِ ہاجرہ رضویہ اسلام نگر وایا مانگو جمشید پور جھارکھنڈ پن کوڈ 831020, hhmhashim786@gmail.com, 9279996221-
صاحب تحریر کی گذشتہ نگارش:حوا کی بیٹیوں کی عزت تار تار، کون ہے ذمے دار؟

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے