ایک مسکراتی ہوئی نستعلیق نظم

ایک مسکراتی ہوئی نستعلیق نظم

منظوم خراج : نجمہ منصور
انتخابِ کلام : ظفر معین بلے جعفری

پیاری صدیقہ بیگم
لوگوں کی نظر میں تم
بہت اچھی دانشور ہو
کاغذ اور قلم کے ساتھ تمھارا رشتہ
اتنا ہی گہرا ہے
جتنا روح کا بدن سے
لفظ کا کتاب سے
اور خواب کا آنکھ سے
مگر میں نے جب جب
تمھاری تصویر کو دیکھا
تمھاری زندہ مسکراہٹ سے
میرے اندر
ایک نہ ختم ہونے والی
خنک روشنی پھیل گئی
خاموش مناجات کی صورت
میں تمھیں
بس عقیدت سے دیکھتی
اور دیکھتی رہ جاتی
اکثر سوچتی
شاید کسی روز
ان بند ہونٹوں سے پھوٹتی
دھیمی مسکراہٹ کے پیچھے
چھپے اسرار کو
میری سوچ کی بے چہرگی
مس کریں تو
شاید تمھاری
"پلکوں میں آنسو`
اور دبی”ہچکیاں"
مجھے تمھاری ذات کے
گھنے چھتنار تلے
بیٹھنے دیں
اور میں ایک نظم لکھوں
ایک مسکراتی ہوئی نستعلیق نظم
تمھارے پیکر کو منعکس کرتی ہوئی

پیاری صدیقہ
میں جانتی ہوں
ادب میں مشہور ہونا
اور بات ہے
جب کہ ذی رتبہ ہونا اور
مگر تم وہ راہبہ تھی
جو تن تنہا
کسی ستائش اور صلے سے بے نیاز
اپنی ذات میں خود
ادب لطیف تھی
پرکھوں کی حرمت کی خاطر
اپنے ہاتھوں سے
لفظوں کے مشکیزے
بھرتی رہی
زندگی کے تلاطم خیز لمحوں میں
تمھارے ہونٹوں پر پھیلی
دھیمی مسکراہٹ
تمھارے لیے اور
مجھ جیسوں کے لیے
دودھیا روشنی کا ہالہ بنی
موتیوں کی صورت
دمکتی رہی

اور آج صدیقہ بیگم تم
منوں مٹی تلے
محو استراحت ہو
لیکن آج بھی تمھاری
وہ بھیگی ہوئی
دھیمی مسکراہٹ زندہ ہے
میرے دل میں
میرے لفظوں میں
اور میری یادوں میں بھی
اور میں
میں تمھارے لیے نظم لکھ رہی ہوں
مسکراتی ہوئی نستعلیق نظم
بالکل تمھاری طرح

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے