چلہ کلاں آ گیا

چلہ کلاں آ گیا

(20 دسمبر‬‮)

الطاف جمیل ندوی

چلہ کلاں کے لغوی معنی”40بڑے" ہے۔ یعنی شدت کی سردی کے چالیس ایام۔ ایسی ٹھنڈ جو خون کو بھی جما دے۔ شاید”کانگڑی" اور”فیرن" اسی وجہ سے ایجاد ہوئے۔ منفی ڈگری درجہ حرارت میں پانی کے نلکے جم کر پھٹ جاتے ہیں۔ معروف جھیل ڈل جم جاتی ہے۔ یوں تو چلہ پرانے زمانے میں اولیاے کرام کی جانب سے دنیا و ما فیھا سے بے خبر اور دور کسی پاک جگہ، پہاڑ یا جنگل میں اللہ کو یاد کرنے کی مناسبت سے جانا جاتا رہا ہے۔ چلہ یعنی چالیس دن۔ چالیس دن اللہ تعالیٰ کی عبادت۔ رہبانیت اگر چہ اسلام میں منع ہے ،یعنی انسان کو دنیا ترک کرنے اور جنگل اور بیابانوں کی راہ لینے کی ہر گز اجازت نہیں۔ ہمیں حقوق اللہ اورحقوق العباد دونوں کی ہدایت ہے۔ اللہ اور اس کے بندوں کے حقوق لازمی ہی نہیں بلکہ لازم و ملزوم ہیں۔ بلکہ اللہ کے بندوں کے حقوق پر بہت زیادہ توجہ دی گئی ہے اور تاکید ہے۔ یہ بھی کہانیوں میں درج ہے کہ چلہ کے دوران لوگ غائب بھی ہو جاتے تھے۔ کچھ لوگ جنات پر غلبہ پانے کے لیے بھی چلے کاٹتے تھے۔ لیکن زیادہ تر چلوں کا تعلق عبادت سے جوڑا گیا ہے۔ آج کے دور میں دین کی تبلیغ پر جانے والے چالیس ایام تبلیغ کے لیے لگائیں تو وہ اسے بھی چلہ قرار دیتے ہیں۔ لیکن زیر بحث چلہ کلاں، دراصل سردی سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کا کشمیر کی ثقافت اور تہذیب سے تعلق ہے۔ شدید سردی کے 40دن۔ یہ دن 22دسمبر یا 9 پوہ سے شروع ہوتے ہیں۔ کڑاکے کی سردی۔ پھر چلہ خورد ہے۔ پھر چلہ بچہ۔ چلہ کا فارسی میں مطلب چالیس ہے۔ یوں چلہ خورد کا مطلب کم سردی کے چالیس دن ہو سکتا ہے۔تا ہم چلہ خورد چلہ کلاں کے بعد 20 دن کو کہتے ہیں۔ چلہ خورد کے بعد کے 10 ایام کوچلہ بچہ کہا جاتا ہے۔ اس طرح 21 دسمبر سے 31 جنوری تک چلہ کلاں، یکم فروری سے 20 فروری تک چلہ خورد (چھوٹے )، 21 فروری سے یکم مارچ تک چلہ بچہ ہوتا ہے۔ ”چلہ کلاں" ایک بار پھر 21 دسمبر سے آ گیا ہے۔جسے ہم خوش آمدید کہتے ہیں۔ دھند یا کہر، چلہ کلاں نہیں۔ بلکہ ان کا بھی اسی موسم میں راج رہتا ہے۔ اس کی وجہ سے پنجاب اور کے پی کے میں نظام زندگی درہم برہم ہو جاتی ہے۔ حادثات رونما ہوتے ہیں۔ جی ٹی روڈ اور موٹر ویز پر گاڑیاں چلانا مشکل ہو جاتاہے۔ جہازوں اور ٹرینوں کے شیڈولز میں خلل پڑتا ہے۔ ایران اور کشمیر میں چلہ کلاں ایک اہم جشن کا نام ہے۔ جشن بہاراں کی طرح شدید سردی کی آمد کا جشن۔ چلہ کلاں کیا ہے۔ یہ دو الفاظ کا مجموعہ ہے۔ دونوں فارسی کے الفاظ ہیں۔ ظاہر ہے ان کا فارس یا ایران سے ایک خاص تعلق ہے۔ اس لیے بھی کہ کشمیر کو ایران صغیر کہتے ہیں۔ اب چلہ کلاں کشمیر میں زبان زد عام ہے، راولپنڈی اور اسلام آباد، لاہور، دہلی تک اس کا چرچا پہنچتا ہے۔ دھند اس کی مشترکہ روایت ہے۔ یہ شہرت اس لیے نہیں کہ کشمیر میں 166دن سے ہڑتالیں، کرفیو، مظاہرے ہو رہے ہیں۔ کشمیریوں پر پیلٹ، پاوا کی فائرنگ ہو رہی ہے۔ زہریلی گیسوں کی شیلنگ کی جاتی ہے۔ ہزاروں افراد ہسپتالوں میں پڑے ہوئے ہیں۔ سینکڑوں کو بینائی سے محروم کیا گیا ہے۔ ان میں بچوں کی تعداد زیادہ ہے۔ پیلٹ فائرنگ کے شکار سیکڑوں طلبا و طالبات اس بار امتحانات نہ سکے۔ بھارت نے ان کا مستقبل تاریک کر دیا ہے۔ بھارت کی جمہوریت کشمیر میں نظر نہیں آتی۔ وہاں کشمیریوں پر بدترین مظالم اور قتل عام کی پریشانیوں سے زیادہ سیاست دانوں کو کرسی کی فکر ہے۔ یہ خطہ ان دنوں شدید سردی کی لپیٹ میں ہے۔ خون کو جما دینے والی سردی۔ کشمیر کے لداخ ریجن میں دراس ایسا علاقہ ہے جس کا درجہ حرارت منفی 40 ڈگری تک پہنچ جاتا ہے۔ کرگل جنگ کے دوران اس علاقہ سے گزر ہوا تو چلہ کلاں کا احساس سختی سے ہونے لگا۔ گلگت بلتستان کی دوسری طرف بھارت کے قبضہ میں یہ علاقہ سائیبیریا کے بعد دوسرا سرد ترین علاقہ ہے۔ سائیبیریا میں جب شدید سردی ہوتی ہے تو وہاں کے پرندے فرار ہو کر وادی کشمیر بھی آ جاتے ہیں۔ وادی میں ”ہوکر سر"، جھیل ڈل، جھیل ولر اور دیگر جھیلیں ان مہمان پرندوں کی چہک سے گونج جاتی ہیں۔ راولپنڈی اسلام آباد میں بھی ان مہمان پرندوں کو دیکھا جا سکتا ہے۔ ان پرندوں کے ساتھ دل فریب داستانیں وابستہ ہیں۔ لیکن انھیں جاسوس پرندے یا سراغ رساں کبوتر نہ سمجھا جائے۔ سائیبیریا اور کشمیر کا تعلق قدیم لگتا ہے۔ اب روس اور پاکستان کے تعلقات میں بہتری آ رہی ہے اور معاہد بھی ہو رہے ہیں۔ یہ مثبت پیش رفت ہے۔ کڑاکے کی اس سردی کو کشمیری خوب انجوائے کیا کرتے تھے۔ برفباری، ہاتھ میں کانگڑی (دہکتے کوئلوں سے بھری مخصوص انگیٹھی، جس کا بھارتی فورسز کے خلاف کوئلہ بم کے طور پر بے تحاشا استعمال ہوا)۔ فرن(چوغہ) زیب تن۔ سماوار (کشمیری تھرماس جس میں کوئلے دہکتے ہیں) کی چائے۔ سردیوں میں وادی میں تعلیمی اداروں کو اڑھائی ماہ کی تعطیل ہوتی ہے۔ آج کل سری نگر میں معروف جھیل ڈل بھی جم چکی ہے۔یہاں کبھی چلہ کلاں کے جشن کا اہتمام ہوتا تھا۔ ایران میں آج بھی جشن بہاراں کی طرح چلہ کلاں منایا جاتا ہے۔ ایران میں چلہ کلاں کے جشن کے دوران تعطیلات ہوتی ہیں۔ ایرانی جشن مناتے ہیں۔ اس تعلق کی ایرانیوں کو شاید کوئی خبر نہ ہو۔ وہ گیس پائپ لائن دہلی سے آگے کشمیر پہنچا دینے کا بھی سوچیں یا کشمیر کو راولپنڈی سے ہی کوئی کنکشن پہنچانے پر غور کیا جائے۔ شاہ ہمدان کا کشمیر۔ امام خمینی بھی کشمیری تھے۔ لیکن امریکہ سے ایٹمی معاہدے کے بعد ایران نے پاکستان کے ساتھ تعلق پر از سر نو غور کیا ہے۔ کمال ہے امریکہ نے ایران اور بھارت کو پاکستان کا نعم البدل بنانے کی مہم جوئی شروع کی ہے۔ بھارت اسی تعلق کی وجہ سے ایران میں بھاری سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ یہ”دربار مو" ہے۔ حکمرانوں کے دربار اور درباری سری نگر میں سردی کی آمد کے ساتھ ہی اپنے دفاتر سمیت جموں منتقل ہو جاتے ہیں۔ صرف حکمرانوں کے تحفظ کے لیے۔ دہائیوں بعد بھی یہ روایت چلی آ رہی ہے۔ آج دفاتر سری نگر سے 300 کلو میٹر دور جموں میں ہیں۔ یہ سول سکریٹریٹ سے وابستہ دفاتر ہیں۔گرمیوں کے 6ماہ سری نگر میں اور سرما کے 6ماہ جموں میں۔ ان دفاتر کا عملہ ہی نہیں بلکہ پورا ساز و سامان منتقل ہوتا ہے۔ شاہی دربار کی منتقلی۔ راجوں مہاراجوں کا مزاج اور روایات آج بھی کشمیری قوم پر مسلط ہے۔ اسے عمر عبد اللہ اور اب محبوبہ مفتی بھی نہ بدل سکیں۔ ان کے مزاج بھی راجوں مہاراجوں والے ہیں۔ اب چلہ کلاں نے جموں کا بھی رخ کر لیا ہے۔ جموں جو سیالکوٹ کا کبھی جڑواں شہر تھا.
الطاف جمیل کی گذشتہ نگارش:کتاب: دہلیز (مجموعہ انشائیہ)

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے