کتاب: دہلیز (مجموعہ انشائیہ)

کتاب: دہلیز (مجموعہ انشائیہ)

مصنف : ڈاکٹر گلزار احمد وانی
مبصر : الطاف جمیل ندوی

ڈاکٹر گلزار احمد وانی وادی کے ادبی حلقوں میں کسی بھی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ اُن کا تعلق وادی کشمیر کی اُس سرزمین سے ہے، جس نے سوچھ کرال اور مہجور جیسے بلند پایہ شعرا کو جنم دیا۔میری مراد ہے ضلع پلوامہ۔ آپ اس ضلع کے ٹینگہ پونہ علاقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ پیشے سے سرکاری اُستاد ہیں۔ معلم ہونے کے ساتھ ساتھ اللہ رب العزت نے ادبی ذوق سے بھی نوازا ہے جس کی بدولت وقتاً فوقتاً اُن کی مختلف موضوعات پر کتابیں منظر عام پر آتی رہتی ہیں۔ اُردو و کشمیری دونوں زبانوں میں طبع آزمائی کرتے ہیں۔ اُن کی پہلی تصنیف ’شہریارؔ کی شعری خدمات‘ کے نام سے منظر عام پر آئی۔ بعد میں تصنیف و تالیف کا یہ سلسلہ برابر جاری رہا اور تاحال مسابقتی امتحانات، تنقید، انشائیہ جیسے موضوعات پر اُن کی کئی کتابیں منصۂ شہود پر آگئیں جن میں ’نقوشِ اردو (نیٹ، سیٹ، جے آر ایف کے لیے)،’یاوُن کاشُر گرامر‘،’تدریس اُردو (بی ایڈ اُردو گائیڈ)‘’، تخلیق اور تفہیم‘، ’برگ و بار(تنقیدی مضامین)، ’غالبؔ اور اقبال کا خصوصی مطالعہ‘، ’دہلیز (مجموعۂ انشائیہ)‘ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔موصوف کے بارے میں ڈاکٹر فرید پربتی مرحوم اور معروف افسانہ نگار نور شاہ کے یہ تاثرات رقم کرنے کے لائق ہیں:
”ڈاکٹر گلزار احمد وانی کا تعلق اُردو ادب کی جدید تر نسل سے ہے۔ وہ سلجھا ہوا ادبی ذوق اور تنقیدی بصیرت رکھتے ہیں۔“ (فرید پربتی)
”گذشتہ چند برسوں کے دوران ریاست جموں و کشمیر کے جو قلم کار تحقیق و تنقید کے میدان میں نمایاں کام انجام دے رہے ہیں اُن میں ڈاکٹر گلزار احمد وانی کا نام اہمیت کا حامل ہے۔ اُن کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ اپنی تخلیقات میں تہذیب اور شائستگی کے ساتھ کھلے ذہن کا دامن تھامے رکھتے ہیں۔“ (نور شاہ)
خیر صاحبِ کتاب کے مختصر تعارف کے بعد اب آئیں ایک نظر اُن کی تصنیف ’دہلیز‘ پر دوڑاتے ہیں۔
دہلیز دراصل ڈاکٹر گلزار احمد وانی کا مجموعہ انشائیہ ہے۔ اس سے قبل سال ٢٠١٠ میں اُن کے انشائیوں کا پہلا مجموعہ ’وادی امکاں‘ کے نام سے شائع ہوچکا ہے۔ زیر نظر کتاب میں اُن کے ۲۲ انشائیے شامل ہیں جن کے عنوانات یوں ہے:
غبارے، آئینہ، چہرہ، تکیہ، صاعقہ و رعد کا عالم، کُرسی، تحلیل، ٹی وی انٹینا، بجلی کی آنکھ مچولی، ہماری اُردو، کیلنڈر، امتحان، کہیں دور کہیں پاس، سویرے جو میری آنکھ کھلی، شام، روزِن دیوار و در، دہلیز، خواب، نمک، سایہ،رومال،محرومی۔
مجموعے میں شامل پہلا ہی انشائیہ ’غبارے‘ اس سے قبل وادی کے موقر روزنامہ کشمیر عظمیٰ میں شائع ہوا ہے۔ انشائیہ کا موضوع دیکھ کر ایک قاری تذبذب کا شکار ہوجاتا ہے کہ موصوف نے کن غباروں کے بارے میں قلم اُٹھایا ہے لیکن جوں جوں وہ پڑھتا جاتا ہے، اُس پر یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ غبارے جیسی بچوں کے کھیلنے کی چیز سے کام لیتے ہوئے موصوف نے رشوت خوروں پر طنز کے نشتر برسائے ہیں۔ غباروں میں بچے ہوا بھرتے ہیں تو وہ پھول جاتے ہیں،ٹھیک اسی طرح رشوت کھا کھا کر رشوت خوروں کے پیٹ بھی پھول جاتے ہیں۔ہاں، فرق صرف اتنا ہے کہ غباروں کے اندر ہوا جذب کرنے کی ایک حد ہوتی ہے لیکن اس کے برعکس رشوت خوروں کے پیٹ میں کتنی بھی ’ہوا‘ کیوں نہ بھری جائے لیکن وہ نہیں بھرتے۔
مجموعے میں شامل انشائیے پڑھ کر ایک قاری کے لیے یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے کہ مصنف کا مشاہدہ کافی گہرا ہے۔ مجموعے میں شامل کئی انشائیوں کے نام روز مرہ زندگی سے لیے گئے ہیں مثلاً آئینہ، تکیہ، نمک، رومال،کیلنڈر،کُرسی وغیرہ۔یہ اُن کے گہرے مُشاہدے، تجربے، تخیل اور زبان پر دسترس کا کمال ہے کہ بہ ظاہر معمولی نظر آنی والی چیزوں کے سہارے اُنھوں نے ایسے شہ پارے تخلیق کیے ہیں کہ ایک قاری متاثر ہوجاتا ہے.
کتاب کی ضخامت زیادہ نہیں ہے۔ سال ٢٠٢٠ء میں شائع ہونے والی یہ کتاب کُل128صفحات پر مشتمل ہے اور قیمت بھی فقط 89روپیہ ہے۔ مجموعے کا دیباچہ، جسے ڈاکٹر محمد یٰسین گنائی نے تحریر کیا ہے، بھی لایق مطالعہ ہے۔ یہ دراصل ایک تحقیقی مضمون ہے جس سے صنف انشائیہ سے تعلق رکھنے والے حضرات اپنی پیاس بجھا سکتے ہیں۔
الطاف جمیل ندوی کا یہ تبصرہ بھی پڑھیں :دکھتی رگ ایک مطالعہ ایک تجزیہ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے