روئی ہے عندلیبِ چمن پھوٹ پھوٹ کے

روئی ہے عندلیبِ چمن پھوٹ پھوٹ کے

 مظفر نازنین، کولکاتا

ڈاکٹر کلیم عاجز صاحب جو ہندستان ہی نہیں بلکہ عالمی شہرت یافتہ، پدم شری ایوارڈ یافتہ شاعر تھے۔ ان کی پیدائش ۱۱/اکتوبر، ١٩٢٥ء کو موضع تلہاڑا، ضلع نالندہ میں ہوئی۔ یہ وہ دور تھا جب ہندستان میں آزادی کی لڑائی چل رہی تھی اور وطن عزیز ہندستان فرنگیوں کی طوقِ غلامی سے آزاد ہونے کے لیے نبرد آزما ہوچکا تھا۔ ایسے ہی ماحول میں کلیم عاجزؔ صاحب نے آنکھیں کھولی تھیں۔ ان کی غزلیں کلاسیکی لہجے کے لیے ممتاز اور مقبول ہوئیں. عالم طفلی میں ہی والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ ١٩٤٦ کے المناک حادثے میں جب بہار میں فساد کی آگ بھڑک اٹھی اور ان کے کچھ عزیز شہید کردیے گئے۔ اس کربناک حادثے کا اثر ان کے ذہن پر بہت گہرا ہوا۔ ڈاکٹر کلیم عاجز کی شاعری کا خمیر اس ذہنی کرب، درد و رنج، مصائب و آلام سے تیار ہوا ہے۔ ان کی غزلیں اس عہد کی ترجمانی کرتی نظر آتی ہیں۔ ان کی غزلوں میں ایک نیا طرز ہے۔ موصوف ایک کامیاب مدرس، بہترین شاعر تھے۔ آخر کار ١٤/فروری، ٢٠١٥ء کو اپنے لاکھوں پرستاروں کو روتا بلکتا چھوڑ کر داعیِ اجل کو لبیک کہا۔ ایک درجن سے زائد تصانیف ورثے میں چھوڑیں ہیں۔
موصوف نے ١٩٥٦ء میں پٹنہ یونی ورسٹی سے بی اے آنرز اور ١٩٥٨ء میں پٹنہ یونی ورسٹی سے ٹاپ کیا۔ انھیں گولڈ میڈل ملا۔ پھر پٹنہ یونی ورسٹی سے ایم اے کی ڈگری حاصل کی اور ١٩٦٥ء میں اسی یونی ورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری تفویض ہوئی۔ ان کے پی ایچ ڈی کا مقالہ ”بہارمیں اردو ادب کا  ارتقا“ (Evolution of Urdu Literature in Bihar) تھا۔ انھوں نے ایک درجن سے زائد نثری و نظمی تصنفیات ورثے میں چھوڑی ہیں جن میں بطورِ خاص ”وہ جو شاعری کا سبب ہوا“، ”مجلس ادب“، ”جہاں خوشبو ہی خوشبو تھی“، یہاں سے کعبہ، کعبہ سے مدینہ“، ”جب فصل بہار آئی“، ”ایک بدیس، ایک بدیسی“ جو امریکہ کا سفر نامہ ہے، ”ابھی سن لو مجھ سے“ ان کی خود نوشت ہے۔ وہ پٹنہ یونی ورسٹی میں ریڈر کے عہدے پر فائز تھے۔ کلاسیکی لب و لہجہ کے لیے مقبول شاعر ہیں۔ درجہ نہم میں انھوں نے کچھ اشعار لکھ کر مولوی ثمر آرہوئی سے اصلاح لی تھی۔ یہی ان کی پہلی اور آخری اصلاح تھی۔ موصوف نے غزل کو تقویت بخشی۔ اور غم جاناں اور غم دوراں کی ترجمانی فنی مہارت کے ساتھ کرتے ہیں۔ ان کے دل کی آہ و بکار، نالہ و شیون ذیل کے اس شعر سے ظاہر ہے، بلکہ شیشے کی مانند عیاں ہے ؎
مجھ کو بننا پڑا شاعر کہ ادنیٰ غم دل
ضبط بھی کر نہ سکا پھوٹ کے رویا بھی نہیں
ان کی نظم کے چند اشعار ملاحظہ کریں ؎
یوں تو قدم قدم پہ شریک سفر ملے
رہرو ملے رفیق ملے، راہبر ملے
گوشیخ زادے اور برہمن پسر ملے
سب آستین دراز ملے کم نظر ملے
جتنے بلند جتنے تناور شجر ملے
بے شاخ سایہ دار ملے بے ثمر ملے
ارباب ذی و قار کا تو پوچھنا ہی
جتنے بلند بام ملے تنگ در ملے 
ملنے کو اک نظر بھی نہ درد آشنا ملی
کہنے کو کیسے کیسے وسیع النظر ملے
زندگی کی حسرتوں کو لیے ساری عمر گذاری۔ جو ذیل کے شعر سے ظاہر ہے ؎
اک عمر گذری حسرتِ فصلِ بہار میں
اب تک تڑپ رہے ہیں اسی انتظار میں
ڈاکٹر کلیم عاجزصاحب کی غزلیں گویا اک ناکام محبت کی آہ، ایک ٹوٹے ہوئے دل کی صدا، ایک غم کے مارے کی پکار اور ایک شکستہ دل کی داستان ہے جو انھوں نے الفاظ کے گوہر کی شکل میں صفحہ قرطاس پر بکھیر دیا ہے۔ ہر ہر لفظ ایک آبگینہ ہے۔ ان کے کلام میں کتنی گہرائی اور گیرائی ہے اس کے Depth کو Dynamic Level تک سمجھنے کے لیے عقلِ سلیم اور چشمِ بینا کی ضرورت ہے۔ زمانے کے ستم کو سہتے ہوئے اس عظیم شاعر کے قلم سے کیا کچھ نکلتا ہے۔ ذیل کے اشعار سے ظاہر ہے ؎
یوں تو کبھی منھ پھیر کے دیکھو بھی نہیں ہو
جب وقت پڑے ہے تو مدارات کرو ہو
دن ایک ستم، ایک ستم رات کروہو
 وہ دوست ہو دشمن کو بھی تم مات کرو ہو
دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
ایک ایسی درد بھری غزل جس کو سن کر کوئی سنگ دل بھی اشکبار اور نم دیدہ ہونے پر مجبور ہوجائے۔
یہ غزل قارئین کی فن شناس نظروں کی نذر کرتی ہوں ؎
مری شاعری میں نہ رقص جام نہ مے کی رنگ فشانیاں
وہی دکھ بھروں کی حکایتیں وہی دل جلوں کی کہانیاں
یہ جو آہ و نالہ و درد ہیں کسی بے وفا کی نشانیاں
یہی میرے دن کے رفیق ہیں یہی میری رات کی رانیاں
یہ مری زباں پہ غزل نہیں میں سنا رہا ہوں کہانیاں
کہ کسی کے عہد شباب پر مٹیں کیسی کیسی جوانیاں
کبھی آنسوؤں کو سکھا گئیں مرے سوز دل کی حرارتی
کبھی دل کے ناؤ ڈبو گئیں مرے آنسوؤں کی روانیاں
ابھی اس کو اس کی خبر کہاں کہ قدم کہاں ہے نظر کہاں
ابھی مصلحت کا گذر کہاں کہ نئی نئی ہیں جوانیاں
یہ  بیان حال یہ گفتگو ہے میرا نچوڑا ہوا لہو
ابھی سن لو مجھ سے کہ پھر کبھو نہ سنو گے ایسی کہانیاں
ان کی غزلوں میں نازک خیالی، ان کی آواز میں درد بھری آہیں شاعر کی ذاتی زندگی پر روشی ڈالتی ہیں۔ اور اس اعلا پایہ شاعر کا کلام ان کی حساسیت، الم ناکی اور کرب ناکی کا غماز ہیں۔ سر زمین ہند کے یہ عظیم شاعر ڈاکٹر کلیم عاجزؔ جو ہمارے درمیان نہیں لیکن ان کے کلام، ان کے لہجے، ان کے انداز اور خصوصاً غزلوں کو انھوں نے جو تقویت بخشی ہے بلاشبہ رہتی اردو دنیا تک امر رہے گی۔ ان کی یہ کاوش نئی نسل کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔
ایک بہت اہم کلام جو بلاشبہ ڈاکٹر کلیم عاجز مرحوم کے احساسات کی بہترین ترجمانی اور جذبات کی بہترین عکاسی کرتا ہے جو ان کی Tragedic Life کی عکاس ہے۔ اسی کا غماز ہے، کے چند اشعار معزز قارئین کرام کی فن شناس نظروں کی نذر کرتی ہوں ؎

لکھ اے کلیم حال دل اپنا اٹھا قلم
اشکوں کی رو شنا ئی بنا آہ کا قلم

یہ بوجھ کیا اٹھاے کوئی دوسرا قلم
تیری زبان، تیری کہانی، تیرا قلم

دو چار آبلے ہی سہی آج پھوڑ دے
تھوڑا سا دل کا خون قلم سے نچوڑ دے

ارباب ذوق بھی ہیں، سخن ور بھی ہیں یہاں
خود گیر و خود نگر بھی ہیں، خود گر بھی ہیں یہاں

رہ رو بھی، رہ شناس بھی، رہ بر بھی ہیں یہاں
دریاے آگہی کے شناور بھی ہیں یہاں

ہیں ان میں اہل ناز بھی، اہل نیاز بھی
پہلو میں ان کے ہوگا دل پر گداز بھی

ان دوستوں کے دل میں اترتے چلو کلیم
یادوں کے زخم بن کے ابھر تے چلو کلیم

خوشبو بنو، فضا میں بکھرتے چلو کلیم
اور چپکے سے یہ عرض بھی کرتے چلو کلیم

کیا کیا حسیں صبح حسیں شام آے گی
لیکن ہماری یاد بھلائی نہ جائے گی

In short, we can say that the entire poems of Janab Dr. Kalim Ajiz saheb have great depth. They are full of tragedic adventure and definitely poet has passed his entire life in tragedy. The poet has seen th tragedy through his own eyes in 1946 when his dearones were killed.
Mobile – 9088470916 Email – muzaffar.niznin93@gmail.com
مظفر نازنین کی گذشتہ نگارش: کہتے ہیں کہ غالبؔ کا ہے اندازِ بیاں اور

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے