شخصیت : ڈاکٹر نذیر مشتاق

شخصیت : ڈاکٹر نذیر مشتاق

کالم نگار : ایس معشوق احمد

حبیب جالب کا شعر ہے کہ __
دل پر شوق کو پہلو میں دبائے رکھا
تجھ سے بھی ہم نے ترا پیار چھپائے رکھا

بعض شوق کوشش کے باوجود نہیں دبتے اور نہ پیار چھپانے سے چھپ جاتا ہے۔ اردو زبان اتنی میٹھی، شیریں اور خوب صورت ہے کہ اس سے محبت ہو ہی جاتی ہے۔ اس محبت کا اظہار کوئی غزلیں، نظمیں لکھ کر کرتا ہے تو کوئی قصے، کہانیوں کو تخلیق کرکے دل میں لگی محبت کی آگ کو بجھانے کی کوشش کرتا ہے۔ محبت اور شوق انسان کو ان راہوں کی سیر کراتا ہے جن سے وہ نا آشنا اور بے خبر ہوتا ہے۔ اکثر خوب صورت چیزیں دل کو بھاتی ہیں اور انسان ان کو پانے کی کوشش ضرور کرتا ہے۔ اردو زبان سے محبت ہوجائے تو مریضوں کی دیکھ بھال کرنے والا مصروف ترین شخص بھی وقت نکال لیتا ہے اور اس زبان میں لکھ کر اس سے انسیت اور محبت کا حق ادا کر دیتا ہے۔
موجودہ دور میں کشمیر میں افسانہ، سائنسی کالم اور افسانچہ نگاری کے حوالے سے قابل اعتبار نام ڈاکٹر نذیر مشتاق کا ہے۔ اصل نام نذیر احمد لون ہے۔میڈیکل شعبے سے وابستہ ہیں۔ لاکھوں لوگ نے آپ کے طفیل صحت جیسی نمعت دوبارہ پائی ہے۔ آپ 11 نومبر 1951ء میں پانی پورہ زلوارہ سوپور میں پیدا ہوئے۔ ڈاکٹر نذیر مشتاق نے لکھنے کی شروعات بچپن میں ہی کی۔ آٹھویں جماعت میں زیر تعلیم تھے جب قومی سطح کے مقابلے میں حصہ لیا اور پہلا انعام حاصل کیا۔ مضمون کا عنوان تھا "جنھیں دن میں پانچ بار پکارا جاتا ہے"۔ یہ مضمون بچوں کے رسالے "نور" میں شائع ہوا۔
ڈاکٹر نذیر مشتاق صاحب ایک بہترین افسانہ نگار، کامیاب کالم نگار، انعام یافتہ ڈرامانگار، ناول نگار، افسانچہ نگار اور ترجمہ نگار ہیں۔ ستر کی دہائی میں آپ نے افسانے لکھنے شروع کیے. آپ کا پہلا افسانہ "بدنصیب" 1970 ء میں روزنامہ آفتاب میں چھپا تھا۔ ڈاکٹر صاحب کا مشاہدہ گہرا ہے۔ اپنی زندگی میں لاکھوں مریضوں کو دیکھ چکے ہیں۔ ان کی بیماری، مسائل، دکھ درد اور نفسیات سے ہی واقف نہیں بلکہ قاری کی نبض کے بھی شناسا ہیں، اس لیے جانتے ہیں کہ مجھے کیا لکھنا ہے۔ اپنے افسانوں اور افسانچوں میں سماجی مسائل، معاشرے میں پنپ رہی برائیوں، منفی رحجانات، انسان کی نفسیاتی الجھنوں اور اس کے مختلف روپ کو نہایت آسان لیکن دل کش اسلوب میں بیان کردیتے ہیں۔ آس پاس کیا کچھ ہورہا ہے، کون سی برائیاں تیزی سے تناور درخت کی شکل اختیار کر رہی ہیں. کون ساتجربہ کار آمد ہے جو قاری کی توجہ اپنی طرف مبذول کرنے میں کامیاب ہوگا؛ سے واقف ہیں۔ ان کا خاص میدان افسانچہ نگاری ہے اور کثرت سے افسانچے لکھتے ہیں۔ ان کی مختصر افسانوں اور افسانچوں کی ضخیم کتاب ” تنکے" کے عنوان سے 2020ء میں شائع ہوچکی ہے۔ اس کتاب میں شامل افسانچوں کا ترجمہ پروفیسر محمد اسلم نے انگریزی زبان میں کیا ہے۔ تنکے کے افسانچوں میں زیست سے جڑے متنوع معاملات اور واقعات کی جامع اور منفرد انداز میں عکاسی کی گئی ہے۔ افسانچہ لکھنا فن کی پختگی کا غماز اور زبان پر قدرت کا تقاضا کرتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب ان خصوصیات کے حامل ہیں۔ ان افسانچوں کے مطالعے سے قاری حقیقی دنیا سے روشناس ہوتا ہے اور ان افسانچوں کے سارے کردار جانے پہچانے لگتے ہیں کیونکہ مصنف نے اپنے معمولات زندگی میں نظر آنے والے اصلی کرداروں سے جڑی کہانیوں کو افسانوی کرداروں میں پیش کیا ہے۔ ممتاز افسانہ نگار نور شاہ ڈاکٹر صاحب کے متعلق اس رائے کا اظہار کرتے ہیں کہ__
"نذیر مشتاق اپنے تجربات اور مشاہدات کی توسط سے انسانی نفسیات کی عکاسی کرنے میں کامیاب نظر آتے ہیں۔ کثرت سے افسانچے لکھنے کے باوجود وہ اپنے معیار اور اپنے انداز کو برقرار رکھنے کی مہارت رکھتے ہیں"۔
آپ کے مشہور و معروف افسانوں اور افسانچوں میں نفرت، چاند سی دلہن، اعتراف، آدم زاد، عبرت، پرائی، دیانت، بھکاری،  ضرورت، تگڑم، راز، ایوارڈ، نمازی، اندھیرا اور کشمیری میں "پراندرم" اور "مژ" قابل ذکر ہیں۔
ڈاکٹر نذیر مشتاق کے صحت کے حوالے سے لکھے گئے کالموں نے کافی شہرت پائی۔ ان کالموں میں صحت اور مختلف بیماریوں کے متعلق جانکاری نہایت دل کش اور منفرد اسلوب میں دی گئی ہے۔ میڈیکل سے متعلق گنجلک اور پیچیدہ اصطلاحات کا سہل اور عام فہم اردو میں وضع کرنا ان کا امتیازی کارنامہ ہے۔ ان معلومات افزا اور وقیع کالموں کا مجموعہ "صحت کامل" کے عنوان سے ایک ضخیم کتاب کی صورت ان کے جنم دن یعنی 11 نومبر 2015ء میں منظر عام پر آئی اور اس کی تقریب رونمائی ٹیگور ہال میں ہوئی جس میں کشمیر سے وابستہ ادیبوں، کالم نگاروں اور ڈاکٹر حضرات نے حصہ لیا۔ اس کتاب کو کافی شہرت اور مقبولیت حاصل ہوئی ہے۔
ڈاکٹر نذیر مشتاق کی کہانی "چاند سی دلہن" 1972ء میں ریڈیو پر نشر ہوئی اور مزید پانچ افسانے اور ریڈیو ڈرامے متواتر نشر ہوئے۔ آپ ٹیلی ویژن کے لیے بھی لکھتے رہے اور 1970ء میں پہلی کشمیری فلم "مژ” کے نام سے سامنے آئی۔ آپ نے اسٹیج ڈرامے، ٹیلی فلمیں، ٹیلی افسانے اور ٹیلی سریل بھی لکھے ہیں۔ ڈاکٹر نذیر مشتاق نے ڈی ڈی سرینگر کے لیے ٹیلی سریل زنجیر، درگاہ، کاش اور کشمیر ٹیلی سریل "سو کس تہ بہہ کس" لکھے۔ آپ نے جی ایم سی کے سالانہ دن کے لیے سال 2001ء میں اسٹیج ڈرامے "بوڈ مہنیو" اور”ناؤ"لکھے جو خاصے مقبول ہوئے۔ آپ نے بہ حثیت ترجمہ نگار ریڈیو کشمیر سرینگر میں اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لایا اور اردو سے کشمیری اور فارسی سے انگریزی زبان میں ترجمہ کرتے تھے۔ آپ ناول نگار بھی ہیں اور 1973ء میں "پیغام" کے عنوان سے آپ کا ناول شائع ہوا ہے۔
ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے لیے بہترین ڈرامے لکھنے کے عوض آپ کی بے حد پذیرائی ہوئی۔ ایک بہترین اور قابل مدیر کی خدمات اور ادبی کارناموں کے عوض آپ کو "میڈیکل کالج لٹریری کونسل نے" لائف ٹائم ایوارڈ فار لٹریری ایکٹیوٹیز "سے نوازا۔ اسٹیچ ڈراموں کے لیے میڈیکل کالج سرینگر نے ہی تین بار بہترین سکرپٹ رائٹر اور بہترین ڈائریکیٹر کے ایوارڈ سے نوازا۔ کشمیر یونی ورسٹی سرینگر نے گولڈن جوبلی تقریبات پر ڈاکٹر صاحب کو اردو زبان کی بے لوث خدمت پر ایوارڈ سے نوازا۔ اسلامک ریلیف اینڈ ٹرسٹ کی طرف سے ایوارڈ فار کنٹربیوشن ان میڈیکل فیلڈ ملا. 2018 میں آپ کو تعمیل ارشاد نے "بیسٹ کالم نگار" نامی ایوارڈ سے نوازا اور اسی سال نگینہ انٹرنیشنل نے ” best writer award" سے نوازا۔
ڈاکٹر نذیر مشتاق کی تخلیقات کشمیر کے معتبر اخبارات و رسائل کشمیر عظمی، تعمیل ارشاد، نگینہ انٹرنیشل، آفتاب کے علاوہ مشرقی خاتون (دہلی)، شبستان (دہلی)، ہفتہ روزہ شہر بین ٹائمز اور دیگر معتبر رسائل میں چھپتی ہیں۔
ڈاکٹر نذیر مشتاق میڈیکل شعبے سے وابستہ اداروں اور انجمنوں کے ممبر بھی رہے ہیں۔ کیس سٹوڈنٹس یونین میڈیکل کالج کے پانچ سال ممبر رہے، انڈین میڈیکل ایسوسی ایشن کے لایف ممبر ہیں، انڈین پبلک ہیلتھ ایڈمنسٹریٹرز کے لایف ممبر ہیں۔ ان اداروں کے علاوہ اردو کی ترویج میں منہمک فکشن رائٹرس گلڈ کے صدر بھی رہے ہیں۔ ڈاکٹری کے مصروف پیشے سے وابستہ ہونے کے باوجود اردو سے لگاؤ، انسیت اور محبت نے قرار نہ دیا اور اپنے قلم سے باغ اردو کو مزید تخلیقات کے پھولوں سے سجا رہے ہیں۔
گذشتہ کالم یہاں پڑھیں:شخصیت : طارق شبنم

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے