شخصیت : طارق شبنم

شخصیت : طارق شبنم

کالم نگار : ایس معشوق احمد

جموں و کشمیر میں اردو ادب کو پروان چڑھانے میں دو طرح کے ادبا و شعرا منہمک نظر آتے ہیں۔ ایک جو عملی طور پر اردو زبان کی درس و تدریس سے وابستہ ہیں، جن پر اردو کا احسان ہے کہ اس زبان کی بدولت ان کا آب و دانہ چل رہا ہے اور دوسرے وہ جو بہ ظاہر اردو سے کوئی سروکار نہیں رکھتے لیکن اردو کی محبت ان کے رگ و پے میں بسی ہوئی ہے۔اس محبت کی خاطر انھوں نے اردو زبان و ادب کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا رکھا ہے۔ وہ اسی زبان کے گن گاتے ہیں اور اس کی ترقی کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ ایسے ہی محبان اردو میں ایک نام طارق شبنم کا ہے جن کی رگ رگ میں اردو زبان رچ بس گئی ہے۔
ادبی حلقوں میں طارق شبنم کے نام سے مشہور ادبی شخصیت کا اصل نام طارق احمد شیخ ہے۔ والد کا نام محمد یاسین شیخ اور والدہ کا عائشہ بیگم ہے۔کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ میں 1970ء کو پیدا ہوئے۔ محکمہ ہارٹیکلچر میں ملازم ہیں۔ دوران ملازمت زرعی یونی ورسٹی کشمیر سے ہارٹیکلچر میں ڈپلوما کر چکے ہیں۔ کشمیری اور اردو دونوں زبانوں میں لکھتے ہیں۔ اصل میدان افسانہ نگاری ہے لیکن ان کے مذہبی، سماجی کالم اور تنقیدی تحریریں بھی دل چسپی سے خالی نہیں۔ کبھی کبھار خیالات کو شعر کا جامہ بھی پہناتے ہیں۔ طارق شبنم کہانی بننے کے فن سے واقف ہیں۔ اپنے افسانوں میں سماج سے جڑے مسائل، دکھ درد، نامساعد حالات کو موضوع بناتے ہیں۔ ان کے بیش تر افسانے کشمیر عظمی کے ادب نامہ میں چھپتے ہیں جو اپنے اسلوب، منفرد موضوع اور اصلاحی نقطہ نظر کی بدولت خاصے پسند کیے جاتے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ افسانہ بہت حد تک بدل گیا ہے اس کی تکینک، اسلوب اور موضوعات کو برتنے میں تبدیلی آئی ہے۔ لیکن آج بھی وہی افسانہ قاری کی توجہ کا مرکز بنتا ہے جس میں انسانی دکھ درد کی عکاسی ہو، سماج کو آئینہ دکھایا گیا ہو اور لوگوں کے مسائل کو بیان کیا گیا ہو۔ ایک ادیب اپنی ذات سے جڑے مسائل، گرد و نواح کے واقعات، مشاہدات و احساسات کو ادبی زبان عطا کرتا ہے۔ طارق شبنم نے بھی اپنے گرد و نواح کے مسائل کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا ہے۔ ان کے افسانوں کے موضوعات عام نوعیت کے ہوتے ہیں اور زبان بھی رواں اور دل چسپ ہوتی ہے۔ یوں کہہ سکتے ہیں کہ طارق شبنم عوام کا ادیب ہے، عام زبان میں کہانی عام آدمی کے لیے لکھ رہے ہیں۔ پیچیدہ، گنجلک اور بھاری بھرکم الفاظ استعمال نہیں کرتے. عام زبان میں اپنا مدعا و مقصد قارئین تک پہچانتے ہیں۔ ان کے زیادہ تر افسانے سماجی موضوعات کے پیرہن میں قاری کے سامنے آتے ہیں۔ وادی کے معتبر بزرگ افسانہ نگار نور شاہ صاحب طارق شبنم کے افسانوں کے موضوعات اور افسانہ نگاری کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ:
"طارق شبنم کے اکثر افسانوں کے موضوعات سماج کے درماندہ اور پس ماندہ لوگوں کے مسائل سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان میں محبت کی چاشنی بھی ملتی ہے اور انسانی نفرتوں کی عکاسی بھی نظر آتی ہے۔ طارق شبنم کے اکثر افسانوں کے کردار کشمیر کی کھردری زمینی سطح سے ابھرتے ہیں۔ کبھی کبھی ان کے افسانے پڑھ کر لگتا ہے جیسے وہ اپنے گھر کی کھڑکی سے باہر کی دنیا میں جھانک رہے ہوں، باہر بکھری ہوئی کہانیوں کو اپنی نظروں میں سمٹینے کی کوشش کر رہے ہوں، حالات و واقعات کا جائزہ لے رہے ہوں۔ پھر وہ کھڑکی بند کرکے قلم و کاغذ لے کر اپنے موضوعات میں رنگ بھرنے لگ جاتے ہیں۔ اپنے افسانوی کرداروں کو زندگی دینے لگتے ہیں، تب بہت حد تک سچائی کا عنصر ان میں شامل ہوجاتا ہے۔ یہی سچائی ان کی کہانیوں کو زندگی کی حقیقتوں کے قریب لاتی ہے اور انسانی زندگی کے درد ناک اور المناک مسائل کی تصویر کشی کراتی ہے۔"
طارق شبنم کا اب تک ایک افسانوی مجموعہ 2020ء میں "گمشدہ دولت" کے عنوان سے منظر عام پر آیا ہے۔ اس افسانوی مجموعے میں کل 27 افسانے شامل ہیں۔ اس مجموعے میں شامل افسانے مختلف سماجی، معاشی، ذہنی تناؤ، کشمیر کی ابتر صورت حال اور انسان کی لاچاری اور بے بسی جیسے موضوعات کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہیں۔افسانوں کی خوبی یہ ہے کہ ہر افسانے کی زبان آسان اور عام فہم ہے جو پڑھنے میں لطف دیتی ہے۔اس افسانوی مجموعے پر اظہار خیال کرتے ہوئے وادی کے مشہور ناقد ڈاکٹر ریاض توحیدی لکھتے ہیں کہ:
” مجموعہ کے افسانوں کے مطالعہ سے ظاہر ہے کہ افسانہ نگار نہ صرف کہانی بننے کے فن سے واقف ہے بلکہ وہ اپنے مشاہدے اور کہیں کہیں پر تخیل کی بنیاد پر افسانہ تخلیق کرنے کے ہنر سے بھی آشنا ہیں"
"بے درد زمانہ" کی سندری کا شوہر کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا ہے۔ سندری سرکاری اسپتال میں تشخیصی ٹیسٹ کرانے پہنچ جاتی ہے لیکن اسے وہاں دنوں اور مہینوں کے حساب سے ٹالا جاتا ہے۔سرکاری اسپتال میں سفارش اور اثر رسوخ والے ایک دن میں ٹیسٹ کراکے نکل جاتے ہیں لیکن غریب اور بے بس لوگوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔ انھیں وہاں بے عزت کیا جاتا ہے اور مشورہ ملتا ہے کہ پرائیوٹ میں کرالو ایک دن میں ہوجائے گا۔ سندری مچھلیاں اور جھمکے آدھی قیمت میں بیج کر پرائیوٹ کلینک پہنچ جاتی ہے لیکن کچھ پیسے کم ہونے کے سبب وہاں بھی بے عزت کی جاتی ہے۔ اس افسانے میں نہایت ہی اہم موضوع یعنی سرکاری اسپتالوں میں غریب مریضوں کے ساتھ روا سلوک کو اجاگر کیا گیا ہے۔ اب ایسے واقعات روز کا معمول بن گئے ہیں کہ سفارش والے ہی نوکری حاصل کرتے ہیں اور حد تو یہ ہے کہ سفارش والے مریضوں کا ہی سرکاری اسپتال میں علاج ہوتا ہے۔ اسی ایک افسانے میں معاشرے کے دوہرے پن کو موضوع نہیں بنایا گیا بلکہ طارق شبنم اپنے اکثر افسانوں میں سماجی مسائل کو موضوع بناتے ہیں اور بڑی چابک دستی سے اصل مسئلے کی طرف قاری کی توجہ مبذول کراتے ہیں۔

طارق شبنم اردو کی ترویج میں دل وجان سے منہمک ہیں اور ان اداروں سے بھی وابستہ ہیں جو اردو ادب کو فروغ دے رہے ہیں۔ ولر اردو ادبی فورم بانڈی پورہ کشمیر کے صدر، اردو اکادمی جموں و کشمیر کے ضلع صدر بانڈی پورہ، جموں کشمیر فکشن رائیٹرس گلڈ کے ممبر، عالمی افسانہ فورم کے ممبر اور حلقہ ادب اجس بانڈی پورہ کے ممبر ہیں۔
طارق شبنم کے افسانے اور دیگر تحریریں کشمیر کے اخبارات و رسائل کشمیر عظمٰی، سرینگر ٹائمز، چٹان، تعمیل ارشاد، اطلاعات، آفتاب، شیرازہ، نگینہ انٹرنیشنل، دیدبان، لفظ لفظ کے علاوہ لازوال (جموں)، قومی تنظیم (رانچی)، نیا نظریہ (اجین بھوپال)، تریاق (ممبئی )، عالمی میراث( پونے)، تحریک ادب (بنارس)، ندائے گل( پاکستان )، سخن شناس( فرینکفرٹ جرمنی) میں اہتمام سے چھپتی ہیں۔
طارق شبنم کے کچھ افسانے جیسے ٹھنڈا جہنم اور سرسوں کے پھول بنگالی زبان میں ترجمہ ہو کر بنگلہ دیش اور کلکتہ میں چھپ چکے ہیں اور کافی پسند کیے گئے ہیں۔ طارق شبنم کے جن افسانوں کو ادبی حلقوں میں پذیرائی ملی ان میں گمشدہ دولت، بے درد زمانہ، مسیحا کی تلاش، سنہرا پھندا، نسخہ کیمیا، اندھیرے اجالے، صدمہ، کہانی کا المیہ، ڈھونگی لٹیرے، چڑھتے سورج کے پجاری، مسیحا کی تلاش قابل ذکر ہیں۔
طارق شبنم نے اب تک ایک سو ساٹھ کے قریب افسانے اور ایک سو چالیس کے قریب ادبی، مذہبی اور سماجی مضامین/ کالم لکھے ہیں۔ ان کا ایک اور افسانوی مجموعہ "بے سمت قافلے" زیر طبع ہے۔ اس کے علاوہ ولر اردو ادبی فورم فیس بک گروپ پر افسانہ ایونٹ 2020 میں شامل ہوئے افسانوں کو کتابی شکل دی ہے اور ” منتخب افسانے" کے عنوان سے یہ کتاب منظر عام پر آچکی ہے۔ امید ہے کہ”بے سمت قافلے" بھی جلد ہی قارئین کے ہاتھوں میں ہوگی اور دبستان کشمیر کے ادبی سرمایے میں اضافے کا سبب بنیں گی.
گذشتہ کالم یہاں پڑھیں:شخصیت : ڈاکٹر اشرف آثاری

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے