امام اور مؤذن کی دل آ زاری، بدترین گناہ

امام اور مؤذن کی دل آ زاری، بدترین گناہ

حافظ محمد ہاشم قادری مصباحی، جمشید پور

مومن کی عظمت و شان کا ذکر قرآن و احادیث میں موجود ہے، مومن کو ستانا گناہِ عظیم ہے، ایسا کرنے والے کو اللہ تعالیٰ رُسوا فرماتا ہے.
مسلم معا شرے میں آج انگنت برائیاں سرایت (پیوست) ہو گئی ہیں، ایک دو ہوں تو گنایا جائے، دو چار دس ہوں تو اس کا رونا رویا جائے، دین سے دوری و سماجی برائیاں شباب پر ہیں. ﷲ خیر فرمائے. آمین. اہل علم خاص کر علما کی ذ مہ داری بنتی ہے کہ برائیوں کے سد باب کے لیے اپنی قوت کے مطابق کوشش جا ری رکھیں۔ دنیا میں اسلام کے ماننے والے کتنے ہیں؟ یہ بات اہم نہیں ہے بلکہ اہم بات یہ ہو گی مذہب کے ماننے والے لوگ، کیا اپنی مذہبی کتاب قر آن مجید کے بتا ئے ہوئے راستے پر چل رہے ہیں؟ کیا یہ اپنے پیغمبر ﷺ کی تعلیمات کو سینے سے لگائے ہوئے ہیں؟ مذہب چاہے کوئی بھی ہو اس کے ماننے والوں میں بنیادی کردار’’انسانیت‘‘ ہونا چاہیے۔ اگر آدمی انسان نہیں بنتا ہے تو معاشرہ جنگل میں بدل جاتا ہے۔ اگر لوگ من مانی کر نے لگیں گے تو مذ ہب کے لا لے (دشوار ہو نا، مشکل ہو نا) پڑ جائیں گے۔ عبادت گاہیں تو کھلی رہیں گی، روحانیت غائب ہو جائے گی، عبادت گا ہوں اور اس کے اطراف کا امن و سکون بر باد ہو جائے گا. قرآن کریم میں انسا نیت کی خدمت پر بہت زور دیا گیا ہے. انسانوں کے ساتھ حسن سلوک کر نے، مظلو موں کی مدد کر نے (خواہ وہ دوسرے مذ ہب کا ہی ہو) کا حکم دیا گیا ہے، قرآن کریم نے مسلما نوں کو یہ تعلیم دی ہے۔ وَتَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَ التَّقْویٰ وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ۔ (القرآن، سورہ مائدہ5، آیت3) نیکی اور تقویٰ کے کا موں میں ایک دوسرے کا تعاون کرو اور گناہ و ظلم و زیادتی کے کا موں میں کسی کا تعا ون نہ کرو اور اﷲ سے ڈرتے رہو۔ بے شک اﷲ کی سزا بہت سخت ہے۔
نبی رحمت ﷺ کاظلم وزیا دتی کے خلاف معا ہدہ:
آقا ﷺنے ظا ہری بعثت سے پہلے مظلو موں کی مدد کے لیے معاہدہ فر مایا، عرب میں لوگوں کی جان و مال، عزت محفوظ نہ تھی۔ ظالموں کا ہاتھ پکڑنے والا کوئی نہیں تھا، ظلم ہوتا ہوا دیکھتے رہتے اور مظلوم کی مدد نہ کرتے، اسے روکنے والا کوئی نہ تھا، ظلم کا بازار گرم تھا اسے روکنے اور ٹھنڈا کر نے کے لیے کوئی آگے نہیں بڑھتا تھا۔ حرم شریف مکہ جیسے شہر کی حالت بھی اچھی نہیں تھی۔ اس صورت حال سے آپ کو بہت تکلیف، قلق، اور صد مہ رہتا تھا۔ اس لیے اسے رحمت عالم ﷺ نے بدلنا چا ہا، آپ نے بعض درد مند کو مشورہ کے لیے عبداﷲ بن جدعان کے گھر جمع کیا اور فیصلہ کیا کہ ظلم و زیادتی کو ہر قیمت پر روکا جائے چاہے اس کے لیے جو بھی قر بانی دینی پڑے دی جائے گی لیکن مظلو موں پر ظلم روکا جائے گا کسی بھی شخص خواہ ( دوسرے مذہب کا ہی ہو) چاہے وہ مکہ کا رہنے والا ہو یا باہر سے آیا ہواہو، ظلم نہیں ہونے دیا جائے گا اور مظلو موں کی مدد کی جائے گی۔ آپ ﷺ اس معاہدہ(Agreement) میں شریک تھے۔ یہ معاہدہ آپ کی ظاہری بعثت سے پہلے ہوا تھا۔ لیکن بعثت کے بعد بھی آپ اس معاہدہ کی تعریف کرتے ہوئے خوش ہوتے آپ نے فرمایا: میں عبداﷲ بن جد عان کے گھر میں اس معاہدہ میں شریک ہوا، آپ نے فر مایا اس معاہدہ کے عوض مجھے سرخ اونٹ (عرب کی سب سے قیمتی اور بڑی دولت) مل جائیں تو بھی پسند نہیں۔ اگر اسلام کے آنے کے بعد بھی مجھے اس کی دعوت دی جائے تو میں اسے قبول کروں گا۔ (ابن سعد، طبقات،ج،1ص129،ابن ہشام، سیرۃ النبی، ج 1، ص144 سے145) آپ ﷺ نے اس کی تعلیم دی کہ جو شخص بھی ہماری ہم دردی اور مدد کا محتاج ہو اس کی مدد کرنی چاہیے۔ قرآن کریم اور احادیث کے ذخیرہ میں بہت سی احادیث پاک مو جود ہیں، حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فر مایا: رحم اور ہم دردی تو اس شخص سے نکال دی جاتی ہے جو بد بخت ہے۔ ( مسند احمد:ج،2،ص301 ،تر مذی، باب ما جاء فی رحمت الناس) آقا ﷺ نے فر مایا تم میں بہترین شخص وہ ہے جس سے خیر کی توقع کی جائے اور جس کے شر سے لوگ محفوظ رہیں اور تم میں بد تر ترین شخص وہ ہے جس سے خیر کی توقع نہ کی جائے اور جس کے شر سے لوگ محفوظ نہ رہیں۔( مسند احمد،ج2-،ص368)۔
مومن کو ستانا اور توبہ نہ کرنا سخت عذاب کا باعث:
مومن کو ستانے پرقرآن مجید میں سخت عذاب کی وعید (سزا دینے کا وعدہ،Warning ) آئی ہے. ﷲ تعالیٰ کا فر مان ہے۔ تر جمہ: بے شک جن لو گوں نے مسلمان مردوں اور عور توں کو ستایا پھر توبہ (بھی) نہ کی تو ان کے لیے جہنم کا عذاب اور جلنے کا عذاب ہے۔ (القرآن، سورہ البروج85،آیت10) آج مسلم سماج میں کم زوروں کو طرح طرح سے ستانا ایک عام بات ہوگئی ہے، اس خرابی، برائی، کمی کو رسول ﷲ ﷺ نے اعلان نبوت کے پہلے دور کیا. افسوس آج اس طرف توجہ نہیں دی جارہی ہے۔ اگر کم زوروں میں کوئی کم نصیب شخص بے چارہ امام ہو تو پھر کیا کہنے. اس کو ستانے کے ساتھ ساتھ اس کی عزت کو ملیا میٹ کر نے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جاتی۔ بہت سے واقعات ایسے ہیں جو تحریر میں لانے کے لائق ہیں، بقرعید سے پہلے جمعہ 17 اگست 2018 کو مدھیہ پر دیش(انڈیا) کے ایک گاؤں چاند کھڑی، ضلع اندور کی مسجد میں بے چارے امام صاحب نے جمعہ کے خطبہ میں ’’غیبت‘‘ کے موضوع پر بیان فر مایا، صف اول کے کسی مسلمان بھائی کو وہ بیان پسند نہیں آیا، بس پھر کیا تھا، مصلیان کرام نے امام صاحب اور ان کے معصوم بچوں اور بیوی کو زبر دست بارش میں گھر سے باہر نکا ل دیا اور ظلم کی حد پار کرتے ہوئے بے چا رے امام کو گاؤں میں بھی نہیں رکنے دیا. اسی بے بسی میں امام صاحب بس اسٹینڈ جاکر گھر جانے پر مجبور ہو گئے، دودن بقرعید کے باقی تھے عید تک رکنے کی مہلت بھی نہیں دی ظالموں نے۔ امام صاحب میرٹھ، یوپی کے رہنے والے تھے، امام صاحب کی اہلیہ گود میں بچی کو لیے باپردہ کھڑی ہیں اور 2 چھوٹی چھوٹی بچیاں بارش میں بھیگ رہی ہیں اور زار وقطار رو رہی ہیں، انتہائی شرم اورحیرت کی بات ہے گا ؤں کے لوگ تماشہ دیکھ رہے ہیں کسی کے اندر ایمانی حرارت نہیں جاگی کہ امام صاحب کی مدد کرے۔ یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر بہت وائرل ہوا ( ثبوت کے لیے ویڈیو ہم سے منگا کر دیکھ سکتے ہیں) [نوٹ] مذکورہ امام صاحب کے ساتھ جو یہ نازیبا انتہائی شر مناک سلوک کر نے والے مسجد کے مومنین کرام ہی ہیں. امریکا، اسرائیل یا کسی باطل حکومت، یا اورلوگوں کا کام نہیں ہے. انسانیت سے گرا ہوا، اس طرح کا کمینہ پن مسلما نوں کے دبنگوں نے کیا، چور کی داڑھی میں تنکا، وہ قرآن کریم و احادیث، ﷲ ورسول کی بات کو ہضم نہ کر سکے [نزلہ] عضوئے بر ضعیف اپنی طاقت کا کا مظاہرہ کمزور امام پر کر کے دکھایا۔ ایک سکنڈ کے لیے سوچیں کیا غیبت کے احکام نازل فرمانے والا رب ذوا لجلال والاکرام! بھی امام صاحب کی طرح بے بس لا چار و مجبور ہے؟ (معاذ اﷲ ثم معاذ اﷲ ہزار بار توبہ) ہر گز ہر گز نہیں وہ تو قادر مطلق ہے اور پکڑ کی طاقت رکھتا ہے، قر آن کریم میں خدائے قہار و جبار کا اعلان ہے۔ ترجمہ: ﷲ کا ہی ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے، اور اگر تم ظاہر کرو جو کچھ تمھارے جی میں ہے یا چھپاؤ، ﷲ تم سے اس کا حساب لے گا تو جسے چاہے بخشے گا اور جسے چاہے گا سزا دے گا اور اﷲ ہر چیز پر قادر ہے. (القرآن، سورہ البقر2، آیت284) ( کنز الایمان) ﷲ ضرور ظالموں کی پکڑ فرمائے گا دل سے دعا ہے اﷲ ظالموں کی جلد خبر لے اور عبرت ناک انجام سے دوچار کرے. تمام مسلمانوں سے گزارش ہے کہ اپنے نفس کا جائزہ لیں اور خود احتسابی کرتے ہوئے اپنے گریبان میں جھا نکیں. امریکہ، اسرائیل، آر ایس ایس، بی جے پی کو برا کہہ کہہ کر وقت بر باد نہ فر مائیں اﷲ کی طرف توبہ سے رجوع کریں اور امام و موذن کی عزت و توقیر کریں۔ ان ظالموں کا کیا حال ہے معلوم نہیں، ﷲ ضرور ان کی پکڑ فر مائے گا ان شاء اﷲ، لیکن امام صاحب کو دوسری جگہ مل گئی الحمدﷲ۔ امام موذن کو ستانے والوں کے کئی عبرت ناک واقعات ہیں جو قابل ذکر ہیں، مقالہ طویل ہونے کا خوف ہے. 2واقعہ مطالعہ فر مائیں. ہمارے شہر جمشید پور کی ایک بڑی مسجد کے ایک ذمہ ار بے چارے موذن پر لعن و طعن جاری رکھنا اپنا فرض منصبی سمجھتے تھے۔ موذن صاحب چھٹی پر گھر گئے اور آں جناب نے فون کر دیا اب آپ واپس نہ آئیں ہم نے دوسرا موذن رکھ لیا ہے۔ بے چارے موذن صاحب واپس آئے اپنا ساراسامان لے کر جانے لگے تو لوگوں سے مصافحہ کیا تو اس گھمنڈی نے مصافحہ بھی نہیں کیا بلکہ ایک طنزیہ، زہریلی مسکراہٹ سے اپنی خباثت کا اظہار بھی کیا۔ خدا کی لاٹھی میں آواز نہیں ہو تی لیکن ایسی ضرب لگتی ہے بڑے بڑے فرعونوں کی فرعونیت غرق ہو جاتی ہے، صرف تیسرے دن ہی آں جناب کے بیٹے جو کہ ایک گورمنٹ کی نوکری میں تھے نوکری سے سسپنڈ کر دیے گئے اور جیل یاترا بھی کر نے چلے گئے۔ اب آں جناب کو ہوش آیا اور موذن کو ستانے کا احساس ہوا، تیر کمان سے نکل چکا تھا، لیکن موذن صاحب نے اپنی شرافت کا مظاہرہ فر مایا اور ان کی معافی طلبی پر معاف فرمادیا، دوسرا واقعہ بھی بڑا عبرت ناک ہے جس کی پوری تفصیل کے لیے ناچیز کا مضمون’’مظلوم امام!!! بے حس عوام احساس زیاں جاتا رہا‘‘ نیٹ پر ضرور مطالعہ فر مائیں۔ 38 سالہ تجر بہ کار امام! حضرت حافظ و قاری امام الدین صاحب عمر 55 سال، انتہائی شریف، کم سخن پابند صوم و صلاۃ، مگن پور، ضلع رام گڈھ، جھار کھنڈ میں 4سال سے امامت فر مارہے تھے، اپنے وطن چھٹی پر گئے اور دوسرے دن کمیٹی کے ذمہ دار نے فون کر دیا کہ دوسرا امام رکھ لیا ہے آپ کو آنے کی ضرورت نہیں وہ بے چارے ہکا بکا رہ گئے اور صبر کا دامن تھام لیا۔ پھر کیا ہوا ان کا صبر اس ظالم کے لیے ایسا قہر بنا کہ جائے عبرت ہے۔ اﷲ پکڑ کی قوت رکھتا ہے اور ظالموں کو نہیں بخشتا۔
ظالم اور مظلوم کا حکم:
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ترجمہ: ﷲ کسی(کی) بری بات کا بآ واز بلند (ظاہراً وعلانیۃً) کہنا پسند نہیں فر ماتا سوائے اس کے جس پر ظلم ہوا (اسے ظالم کا ظلم کا آشکار کر نے کی اجازت ہے)، اور ﷲ خوب سننے والاجاننے والا ہے۔ (القرآن، سورہ نساء4، آیت، 147) ظالم اور مظلوم دو نوں کو احساس دلایا جا رہا ہے۔ ظالم یہ نہ سوچے کے اس کے مظالم کا کسی کو علم ہی نہیں اور دنیا کی کوئی عدالت اسے سزا دے نہیں سکتی۔ یا دنیا کی کوئی طاقت اس کا کچھ بگاڑ نہیں سکتی، ﷲ تعالیٰ ظالم کے کر توتوں سے واقف ہے اور ظالم کی پکڑ کی قوت بھی رکھتا ہے، اﷲ کی عدالت سے اسے سزا مل کر رہے گی۔ اور مظلوم کو تسلی دی جارہی ہے کہ اگر کوئی دوسر تمھارا داد رسی نہیں کرتا تو صبر کرو اﷲ تعالیٰ تیرا فریاد رس ہے تیری مظلو میت اور بے کسی کا اسے خوب علم ہے اور وہ ضرور پکڑ فر مانے والاہے۔ وَ کَذٰلِکَ نُوَلِّیۡ بَعۡضَ الظّٰلِمِیۡنَ بَعۡضًۢا بِمَا کَانُوۡا یَکۡسِبُوۡنَ (القرآن، سورہ الا نعام 6، آیت 129) ترجمہ: اور یونہی ہم ظالموں میں ایک کو دوسرے پر مسلط کرتے ہیں بدلہ ان کے کیے کا ( کنز الا یمان) تفسير ابن کثیر میں اس آیت کریمہ کی تفسیر میں صاحب تفسیر یوں لکھتے ہیں، ظالم ظالموں کا مومن مومنوں کا دوست ہے – اللہ تعالٰی لوگوں کو جو ایک جیسے اعمال کرتے ہیں تو آپس میں ان کو دوست بنا دیتا ہے – ایمان تمناؤں اور ظاہری دیواروں کا نام نہیں، مالک بن دینار رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ میں نے زبور شریف میں پڑھا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں منافقین کا انتقام (بدلہ) منا فقین ہی کے ذریعہ سے ہی لوں گا، اور یہ قرآن کریم میں بھی ہے چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ہم اسی طرح ایک ظالم کو دوسرے ظالم کا دوست بنا دیتے ہیں. حديث پاک میں ہے حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ "جس نے ظالم کی مدد کی تو اسی ظالم کو اس پر مسلط (قابض، غالب، زور آور) کرد یتے ہیں – کسی شاعر نے کہا ہے – کوئی ہاتھ ایسا نہیں جس سے با لا تر ﷲکا ہاتھ نہ ہو = اور کوئی ظالم ایسا نہیں جس کو دوسرے ظالم سے سابقہ نہ پڑے، اوپر مذکورہ آیت مبارکہ کی تفسیر میں علامہ اسماعیل حقی علیہ الرحمۃ فرما تے ہیں – اس آیت کریمہ کے معنیٰ یہ ہوئے کہ جس طرح ہم نے خراب لوگوں کے دوست ان کے بہکا نے والے جن و شیا طین کو بنا دیا، اسی طرح ظالموں میں سے بعض کو بعض کاولی بنا دیتے ہیں – اور بعض، بعض سے ہلاک ہو تے ہیں اور ہم ان کے ظلم و شر کسی اور بغاوت کا بدلہ ظالموں سے ہی ظالموں کو دلا دیتے ہیں – (تفسير ابن کثیر) یہ ہے قدرت کا انتقام.
کعبہ کی عزت سے زیادہ مومن کی عزت :
مومن کی عظمت و شان کا ذکر قر آن واحا دیث میں موجود ہے، مومن کو ستانا گناہ عظیم ہے. مسلمان کو ستانے والے کو اﷲ رسوا فر ماتا ہے۔ حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنھما کی یہ حدیث اہل ایمان کے لیے کافی ہے، کہ رسو ل اﷲ ﷺ منبر پر تشریف لائے، بلند آواز سے پکارا اور فر مایا: ”يَا مَعْشَرَ مَنْ أَسْلَمَ بِلِسَانِهِ وَلَمْ يُفْضِ الْإِيمَانُ إِلَى قَلْبِهِ لَا تُؤْذُوا الْمُسْلِمِينَ وَلَا تُعَيِّرُوهُمْ وَلَا تَتَّبِعُوا عَوْرَاتِهِمْ فَإِنَّهُ مَنْ تَتَبَّعَ عَوْرَةَ أَخِيهِ الْمُسْلِمِ تَتَبَّعَ اللَّهُ عَوْرَتَهُ وَمَنْ تَتَبَّعَ اللَّهُ عَوْرَتَهُ يَفْضَحْهُ وَلَوْ فِي جَوْفِ رَحْلِهِ قَالَ وَنَظَرَ ابْنُ عُمَرَ يَوْمًا إِلَى الْبَيْتِ أَوْ إِلَى الْكَعْبَةِ فَقَالَ مَا أَعْظَمَكِ وَأَعْظَمَ حُرْمَتَكِ وَالْمُؤْمِنُ أَعْظَمُ حُرْمَةً عِنْدَ اللَّهِ مِنْكِ [صحیح ترمذی: 2023 ۔ تر جمہ: ’’اے اسلام لانے والے زبانی لو گوں کی جماعت! جن کے دلوں تک ایمان کما حقہ نہیں پہنچا ہے! مسلمانوں کو تکلیف مت دو، ان کو عار مت دلاؤ اور ان کے عیب نہ تلاش کرو، اس لیے کہ جو شخص اپنے مسلمان بھائی کے عیب ڈھونڈتا ہے، ﷲ تعالیٰ اس کا عیب نکالتا ہے، اور ﷲ تعالیٰ جس کے عیب نکالتا ہے، اسے رسوا وذلیل کر دیتا ہے، اگر چہ وہ اپنے گھر کے اندر کے اندر ہو، راوی ( نافع) کہتے ہیں: ایک دن ابن عمر رضی اﷲ عنھما نے خانہ کعبہ کی طرف دیکھ کر کہا: کعبہ! تم کتنی عظمت والے ہو! اور تمھاری حرمت (عزت) کتنی عظیم ہے، لیکن اﷲ کی نظر میں مومن ( کامل) کی حرمت تجھ سے زیادہ عظیم ہے۔ (ترمذی:حدیث،2023) مومن کی عزت اور اس کو باقی ر کھنا اپنے کو جہنم سے محفوظ ر کھنا ہے، حضرت ابو داؤد رضی اﷲ عنہ سے روایت کہ آپ ﷺ نے فر مایا جس نے مومن بھائی کو بے عزتی سے بچایا (عزت کو بچایا رسوا نہ کیا) خدائے پاک اس کے چہرہ کو قیامت کے دن جہنم سے بچائے گا۔ ( مکارم اخلاق خرائطی ج، 2ص841) حضرت براء بن عاذب رضی اﷲ عنہ سے مر وی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا سود کے بہتر دروازے ہیں۔ ادنیٰ دروازہ ماں سے ز نا کے برا برہے اور سب سے بڑا سود یہ ہے کہ اپنے مو من بھائی کی عزت کے پیچھے پڑ جائے۔ ( مطالب عالیہ ج،3ص2 مجمع الزوائد، ج8ص92) مومن کی حر مت کعبہ سے زیادہ بہت پیاری حدیث مطالعہ فر مائیں اور اپنے ایمان میں جلا پیدا فر مائیں. حضرت عبدﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے، میں نے رسول اﷲ ﷺ کو کعبہ شریف کا طوف کرتے دیکھا۔ آپ فر ما رہے تھے: اے کعبہ:’’ تو کتنا پا کیزہ ہے! اور تیری خوشبو کتنی پاکیزہ ہے۔ تو کس قدرعظیم ہے! تیرا احترام کتنا عظیم ہے! قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد(ﷺ) کی جان ہے! ﷲ کے یہاں مومن کی حرمت، تیری حر مت سے بڑھ کر ہے۔ یعنی اس کے مال اور جان اور یہ کہ اس کے بارے میں اچھا گمان رکھیں۔‘‘ ( سنن ابن ماجہ3932)۔
ان تمام روایتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ ہر مومن کی عزت کی حفاظت کی جائے۔ اس کو کسی وجہ سے رسوا نہ کیا جائے جس سے اس کی اہانت و رسوائی ہو۔ افسوس صدافسوس! کہ آج کامسلمان ﷲ و رسول کے فرا مین کوبالکل بھول گیا ہے اور اﷲ کے ڈرسے آزاد ہو گیا ہے. زمانہ الٹ گیا. قیامت کی نشانیاں ہیں، توبہ استغفرا ﷲ…… مسلمان ہی مومنوں کے امام کو بھی ذلیل کر نے میں عار، شرم ﷲ کے خوف سے آزاد ہیں۔ اگر امام نے بد یانتی پر بیان کر دیا تو پھر کیاتھا لاٹ صاحب(گورنر) کو برا لگ گیا اور بعد نماز جمعہ ہی مسجد کے اندر معافی منگوائی جو امام حافظ و قاری حاجی اور متقی پر ہیز گار ہے۔ 33 سال سے فی سبیل ﷲ (free) خدمات انجام دے رہاہے ،امام معافی مانگ کر مسجد کے اندر زارو قطار رو رہا ہے مقتدیوں کو ہمت نہیں ہوئی کہ ایسے لوگوں کو روکیں چپ چاپ دیکھتے رہے امام رو رو کر دعا مانگتا رہا اے اﷲ! اس قوم کو ہدایت دے کسی کا دل نہیں پسیجا۔ اﷲ ہی خیر فرمائے. ﷲ ہدایت دے، جس مومن کی عزت کعبہ سے بڑھ کر ہے آج ہمارا مسلم سماج اپنے ہی مومن امام کی عزت کو کس بے دردی سے پامال کررہا ہے۔اور کوئی روکنے اور بولنے والانہیں، ایسے لوگوں کو اپنے ایمان کا محا سبہ کر نا چاہیے۔ حدیث پاک میں ہے۔ حضور نبی کریم ﷺ نے فر مایا: مَنْ رَایِ مِنْکُمْ مُنْکَرًا فَلْیُغَیِّرُہُ بِیَدِہ، فَاِنْ لَمْ یَستَطِعْ فَلِبِسَانِہِ، فَاِنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِہِ، وَذَالکَِ اَضْعَفُ الْاِیْمَانَ۔۔تر جمہ:’’ تم میں سے جو شخص خلاف شریعت کام دیکھے تو اپنے ہاتھوں سے اسے روک دے اس کی اصلاح کرے، اوراگر وہ اس کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو زبان سے اس کا رد کرے، اور اس کی بھی استطاعت نہ رکھتا ہو تو دل سے اسے برا جانے اور یہ ایمان کا کمزورترین درجہ ہے۔‘‘ (مسلم شریف، کتاب الایمان باب بیان النھی عن المنکر من الایمان،1:69،رقم:49) اس حدیث مبارکہ میں ایمان کے درجات کو بڑے ہی احسن پیرائے میں بیان کیا ہے، اس قوم کا کیاہوگا جو اماموں پر ظلم روا رکھتی ہے، ﷲ خیر فر مائے آمین۔ مسلمانوں کی سوچ پر ماتم کریں، نوحہ پڑھیں اور ﷲ سےہدایت کی دعائیں مانگیں، جہاں یہ سوچ ظاہر کی جائے ہم تو بستی میں رہتے ہیں بستی کے لوگ ہی جنازہ قبرستان پہنچا ئیں گے امام تو با ہر کا ہے ہم تو بستی والوں کے ساتھ رہیں گے چاہیے وہ جیسا ہو، استغفراللہ اللہ خیر فر مائے اور یہ بھول گئے کہ جنازے کی نماز تو اما صاحب ہی پڑھائیں گے، جب لوگ یہ کہیں کہ میں کثیر العیال ہوں ہم کو کچھ ہو گیا تو میرے اہل و عیال کا کیا ہوگا، جہاں لوگ یہ کہیں کہ کہ میں تو بو ڑھا ہو گیا ہوں ہم کیا کریں، تب آپ سمجھ لیں کہ امام و خطیب وموذن کا اللہ ہی حا فظ و ناصر ہے.
خدا بچائے دوست کے تعصب سے:
دوست کا لفظ اپنے اندر بہت معنویت و گہرائی رکھتا ہے. دوست اچھے بھی ہوتے ہیں برے بھی ہوتے ہیں جان بچانے والے بھی ہوتے ہیں اور کہیں لے جاکر مروانے والے بھی ہوتے ہیں۔ حضرت علی کرم اﷲ وجہ الکریم فرماتے ہیں کہ دوست اور دشمن تین طرح کے ہوتے ہیں: جو تمھارا دشمن ہے اس کا دوست بھی تمھارا دشمن ہے اور وہ تمہارے دوست کا بھی دشمن ہے۔ اﷲ رب العزت نے بھی اپنے نیک بندوں کو دوست بنایا اور انھیں امتحان سے گزار کر انعامات کی بارش فر مائی۔ حضرت ابراہیم علیہ ا لسلام کو اﷲ رب العزت نے اپنا دوست بنایا ’’خلیل ﷲ‘‘ ﷲ کا دوست، حضرت ابراہیم علیہ السلام کا لقب۔ ’’حضرت موسیٰ کلیم اﷲ تھے، لقب‘‘۔ the friend(of god) Abraham (سیرۃالنبی ﷺ ج4،ص422) منافقت آج کل عام بیماری ہے. ﷲ ہم سب کو بچائے اس موذی گناہ سے کیو نکہ ﷲ نے منا فق کی سزا کا اعلان یوں فر مایا۔( القرآن،سورہ نساء4،آیت145) تر جمہ: بے شک منافق لوگ دو زخ کے سب سے نچلے در جے میں ہوں گے اور آپ ان کے لیے ہر گز کوئی مدد گار نہ پائیں گے۔ جو لوگ منافقت اور سازشیں اور تخریبیں کرتے ہیں وہ احکم الحاکمین ب ذوالجلال کے اس فرمان پر غور فرمائیں (القرآن:سورہ مجادلہ:58، آیت نمبر:10) ترجمہ: سرگوشی محض شیطان ہی کی طرف سے ہوتی ہے تاکہ وہ ایمان والوں کو پریشان کرے وہ (شیطان) ان (مومنوں) کا کچھ بگاڑ نہیں سکتا مگر ﷲ کے حکم سے، اور اﷲ ہی پر مومنوں کو بھروسہ رکھنا چاہیے۔ ہم تمام مسلمان ایک ہیں ایک ہی رہنا چاہیے. ہم مسلمان ایک دوسرے کے سلامتی کے ضامن ہیں. تمام مسلمانوں کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے۔ ہم تمام لوگ مسلمانوں کی عزت کو بچائیں سر سبز و شاداب رکھیں۔ ہماری صفوں میں چھپے ہوئے انتشار پسندوں سے چوکنا رہنا ہو گا اسی پسِ منظر میں ایک شاعر نے کیا خوبصورت پیغام دیا ہے۔
؂ کھلے دشمن کا استقبال ہمیں منظور ہے لیکن
خدا محفوظ رکھے دوست کے ذہنی تعصب سے
اور منور را نا بھی بہت خوب صورت بات کہہ رہے ہیں۔
؂ کہیں سچ بولنے سے شعریت مجروح ہو تی ہے
تکلف بر طرف قاتل کو قاتل کہہ دیا جائے
شاعر مشرق علامہ ڈاکٹر اقبال کچھ اس طرح فرماتے ہیں۔
؂ اگرچہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں
مجھے ہے حکم اذاں لاالہٰ الا اﷲ
اﷲ ہم تمام مسلمانوں کو امام کی حر مت، عزت و اہمیت کو سمجھنے اوران کی عزت کر نے کی تو فیق عطا فر مائے آمین ثم آمین۔
رابطہ:09279996221
حافظ محمد ہاشم قادری صدیقی مصباحی خطیب و امام مسجدِ ہاجرہ رضویہ اسلام نگر کپالی وایا مانگو جمشید پور جھارکھنڈ پن کوڈ831020،
hhmhashim786@gmail.com,
صاحب تحریر کی گذشتہ نگارش:اِمام کی محبت مسجد سے، اِنتظامیہ کی محبت امام سے

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے