احمد ندیم قاسمی کا افسانہ ”کپاس کا پھول“ کا تجزیہ

احمد ندیم قاسمی کا افسانہ ”کپاس کا پھول“ کا تجزیہ

اظہار خضر

احمد ندیم قاسمی اندرونی دل دوزی (Pathos) کے ایک بڑے اور نمائندہ تخلیقی فنکار ہیں۔ افسانوں میں درد انگیزی کا سماں باندھنا اگر کوئی سیکھے تو ان سے سیکھے۔ درد مندی اور درد انگیزی کی یہ تخلیقی فضا بندی ان کے فکر و فن کا نشان امتیاز ہے۔ جو ان کو ایک درد مند فنکار کی صورت میں پیش کرتا ہے۔
قاسمی نے تقسیم کی ہولناکیوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھا، جھیلا اور محسوس کیا۔ ان کے بیشتر افسانوں میں تقسیم وطن کے سانحہ کی فنکارانہ مصوری بڑے ہی موثر انداز میں دیکھنے کو ملتی ہے۔ قاسمی کی تخلیقی سرگرمیاں جس زمانے میں اپنے عروج پر تھیں وہ زمانہ بڑا ہی پر آشوب تھا۔ چہار جانب قتل و غارت گری کا بازار گرم تھا۔ احمد ندیم قاسمی نے دل وقت کی دھڑکنوں کو فکر و فن کی سطح پر بڑی ہی شدت سے محسوس کیا۔ چنانچہ ان کی ان محسوسہ کیفیتوں کی تیزی و تندی ہی وہ بنیادی Tool ہے جس سے ان کے افسانوں میں ایک غیر معمولی قسم کی اثر انگیزی کی تخلیقی فضا بندی متشکل مجسّم ہوتی نظر آتی ہے۔
تقسیم کے Shocks اور After Shocks یہ دونوں ہی صورتیں ان کے افسانوں میں نظر آتی ہیں۔ انھوں نے اس حوالے سے فکر و سوچ کے کئی shades اپنے افسانوں میں پیدا کیے ہیں۔ تقسیم کے ہولناک نتائج اور اس کے مضمرات و اثرات کا تحلیل و تجزیہ وہ تاریخ، تہذیب اور سیاست کی چرمراتی صورت حال کے پیش نظر کرتے ہیں۔ محسوس ہوتا ہے کہ احمد ندیم قاسمی ایک بڑے دانش ور تخلیقی فنکار ہیں۔
اب یہ دیکھیے کہ زیر تجزیہ افسانہ ”کپاس کا پھول“ تقسیم کے After Shocks کے پس منظرمیں لکھا گیا ایک ایسا افسانہ ہے جس میں اندرونی دل دوزی کی تخلیقی فنکاری اپنے عروج پر نظرآتی ہے۔ اس افسانے میں وحشیانہ تشدد (Brutal violence) کی جو تخلیقی صورت گری کی گئی ہے، در اصل اس کے وسیلے سے اثر انگیزی کی دو صورتیں خلق کی گئی ہیں۔ درد انگیزی اور دردمندی- پورے افسانے کی زیریں لہروں میں یہ دونوں صورتیں ایک سیال تخلیقی صورت میں Flow کرتی محسوس ہوتی ہیں!
افسانے کی مرکزی کردار مائی تاجو ؔ ہے۔ ایک معاون کردار راحتاں ؔ بھی ہے جو مرکزی کردار کے لیے ایک Supporting  Tool  کا کام کرتا ہے۔
احمد ندیم قاسمی کے افسانوں میں کرداروں کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ یہ کردار ہی ہیں جن کے وسیلے سے قاسمی ترسیل فکر و فلسفہ کا کام لیتے ہیں۔
Abstract کردار نگاری کا طریقۂ نگارش ان کے افسانوں میں نہیں کے برابر ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قاسمی ادب کی سماجیات سے ہی اپنے فکر و فن کا تخلیقی آمیزہ تیار کرتے ہیں۔ وہ ایک ترقی پسند ادیب اور افسانہ نگار تھے۔ لیکن نِری ترقی پسندی اور نعرے بازی سے اجتناب کرتے ہوئے فن کی بنیادی جمالیاتی قدروں کو ملحوظ رکھا۔ واقعہ یہ ہے کہ اس عہد کے ذہین ترین ترقی پسند ادیبوں اور قلم کاروں نے اردو کی جملہ تخلیقی سرگرمیوں کو وقار و اعتبار بخشا۔ خیر اس گفتگو کو یہیں پر ختم کرتا ہوں اور گزشتہ سطور میں مذکورہ افسانے کے حوالے سے پیش کردہ بنیادی نکات کی روشنی میں چند باتیں پیش کیا چاہتا ہوں!
مائی تاجوؔ افسانے کی ایک المیہ کردار ہے۔ اس کی درد بھری تنہا زندگی ہی افسانے کے بیانیہ کا المیاتی حسن ہے۔ احمد ندیم قاسمی کی فنکارانہ چابک دستی کی داد دیجیے کہ انھوں نے مائی تاجوؔ جیسی کردار کو خلق کر کے زندگی سے جوجھنے کا سلیقہ اور شعور عطا کیا۔
مائی تاجو تنہائی پسند نہیں تھی بلکہ حالات کے تھپیڑے نے اسے تنہائی پسند بنادیا لیکن فکر و فن کی اس حیرت انگیز صورت حال پر غور فرما ئیے کہ مائی تاجوؔ کی تنہائی پسندی نے اس کو ترحم پسند بنا دیا۔ فکر و فن کے اس پہلو پرتفصیلی گفتگو آگے کی سطور میں ملاحظہ فرمائیے!
مائی تاجو کی درد بھری تنہا زندگی کی توجیہہ کے لیے افسانہ نگار فلیش بیک کی تکنیک کا سہارا لیتے ہوئے قاری کو مائی تاجوؔ کے اچھے دنوں کی سیر کراتا ہے! مائی تاجو کی خوب صورتی ہی اس کے عنفوان شباب کامرکز تھی!
”مائی تاجوؔ ان دنوں اتنی خوب صورت تھی کہ اگر وہ بادشاہوں کا زمانہ ہوتا تو ملکہ ہوتی۔“
لیکن قسمت کا بھی عجب کھیل کہ گاؤں کا ایک نوجوان پٹواری مائی تاجوؔ کو بیاہ کر کے لے آیا۔ باپ کی مرضی کے خلاف تاجو کو یہ بیاہ راس نہ آیا۔ پٹواری شادی شدہ تھا۔ پہلی بیوی کے زبردست احتجاج کے سامنے پٹواری مجبور ہو کر گاؤں چھوڑ کر چلاگیا اورپھر کبھی نہیں واپس آیا۔
مزید تفصیل سے گریز کرتے ہوئے صرف اتنا عرض کر دوں کہ تاجوؔ گاؤں میں تنہا ہو گئی۔ اکیلی ذات اور اس پر سے کوکھ میں پٹواری کا بچہ پل رہاتھا۔ یہ تو کہئے کہ پنچوں نے پٹواری کے مکان پر تاجو کا قبضہ دلا دیا۔ تاجوؔ اس امید میں جی رہی تھی کہ بچے کی پیدائش کے بعد اس کی تنہا زندگی میں عزم و حوصلہ کی ایک نئی جوت جگے گی۔ بچہ پیدا ہوا۔ نام حسن دین رکھا۔ سخت مزدوری کر کے اسے پالتی پوستی رہی۔ گبرو جوان ہو کر حوالدار تک پہنچا۔ لیکن دوسری جنگ عظیم چھڑ گئی اور حسن دین بن غازی میں مارا گیا۔ مائی تاجو کی زندگی کی یہ مختصر سی درد بھری داستان ہی زیر تجزیہ افسانے کی تخلیق کی عقبی زمین ہے۔ درد انگیزی اور درمندی کی تخلیقی فضا بندی افسانے میں اسی راستے سے پیدا ہو ئی!
اب یہ دیکھیے کہ بیٹے کی موت کے بعد مائی تاجو نے چکّی پیسنا شروع کر دی اور اس وقت تک پیستی رہی جب وہ ایک روز چکی کے پاٹ پر سر رکھے بے ہوش پائی گئی۔ یہ تو کہیے کہ پڑوس کے چودھری فتح دین کی بیٹی راحتاں مائی تاجو کو ایک غم گسار کی صورت میں مل گئی۔ مائی تاجو کے اندر انسیت، اپنائیت اور ترحم پسندی کی خصوصیتیں اسی راستے سے پیدا ہوئیں۔ راحتاں ؔ کے ساتھ مائی تاجوؔ کی یہ انسیت اور اپنائیت بالکل ایک فطری عمل تھا۔ اتنا ہی نہیں راحتاں ؔ کی غم گساری بھی دیکھنے کے لائق تھی۔ چنانچہ جب ایک روز راحتاں کی نظر بے ہوش مائی پر پڑی تو وہ تڑپ اٹھی۔ حکیم منور علی کی تشخیص یہ تھی کہ مائی خالی پیٹ سوتی ہے۔
افسانہ نگار، راحتاں کی غم گساری کی فنکارانہ مصوری کرتے ہوئے بیان کرتا ہے
”اس دن سے راحتاں کا معمول ہو گیا تھا کہ وہ شام کو ایک روٹی پر دال ترکاری رکھ کر لاتی اور جب تک مائی کھانے سے فارغ نہ ہوتی و ہیں پر بیٹھی مائی کی باتیں سنتی رہتی۔“
راحتاں ؔ کو مائی تاجو کی باتیں بھلی لگتیں۔ حالانکہ مائی تاجو ہر وقت اپنی موت کی ہی باتیں کرتی۔ کفن اور جنازے اس کے محبوب موضوع تھے۔ لیکن یہ بھی غور فرمائیے کہ مائی تاجو سے راحتاں کی انسیت کی یہ ایک عجیب وغریب صورت تھی۔ جس کو افسانہ نگار نے بیان کیاہے!
”ویسے راحتاں کو مائی تاجو سے انس ہی اس لیے تھا کہ وہ ہمیشہ اپنے مرنے کی ہی باتیں کرتی تھی“
افسانہ نگار کا یہ حقیقت پسندانہ تخلیقی اظہار فکر و فن کی ایک فطری صورت حال ہے۔ مائی کی باتوں سے راحتاں کی پسندیدگی، حقیقتوں کا اعتراف و اقرار ہے۔ شائستہ فکر و سوچ کی یہ بالیدگی افسانے کی دانشورانہ سطح کو بلند کرتی ہے۔ مائی اور راحتاں دونوں کی ایک دوسرے کے لیے انسیت و الفت کی یہ تخلیقی صورت گری، افسانے کے المیاتی حسن اور اس کی جمالیاتی قدروں کو تقویت و استحکام بخشتی نظر آتی ہے۔ اور یہی اس فسانے میں فکر و سوچ کی سطح پر قاسمی کا تخلیقی انفراد ہے۔
افسانہ نگار کے اس تخلیقی انفراد اور فنکارانہ کمال کو ذرا ملاحظہ فرمائیے جب وہ مائی تاجو کی زبانی زندگی کے آخری سامان سفر کی تفصیل کو بیان کرتا ہے:
”میں تو ہر وقت تیار رہتی ہوں کہ جانے کب اوپر سے بلاوا آجائے۔ جس دن میں صبح کو تمھارے گھر لسی لینے نہ آئی تو سمجھ لینا میں چلی گئی۔ تب تم آنا اور ادھر وہ چار پائی تلے صندوق رکھا ہے نا، اس میں سے میرا کفن نکال لینا۔ کبھی دکھاؤں گی تمھیں۔ وارث علی سے کہہ کر مولوی عبدالمجید سے اس پر خاک پاک سے کلمۂ شہادت بھی لکھوا لیا تھا۔ ڈرتی ہوں اسے بار بار نکالوں گی تو کہیں خاک پاک جھڑ نہ جاے۔ بس یوں سمجھ لو کہ یہ وہ لٹھا ہے جس سے بادشاہ زادیاں برقعے سلاتی ہوں گی۔ کپاس کے خاص پھولوں کی روئی سے تیار ہوتا ہے۔ یہ کپڑا ٹین کے پترے کی طرح کھڑ کھڑ بولتا ہے۔ چکّی پیس کر کمایا ہے۔ میں لوگوں کو عمر بھر آٹا دیتی رہی اور ان سے کفن لیتی رہی ہوں۔“
افسانے کے اس حصے میں مائی تاجو کا عارفانہ اور صوفیانہ انداز تکلم اس بات کا غماز ہے کہ مائی زمانہ کے تھپیڑوں سے نہیں جوجھ رہی ہے بلکہ زندگی کی ابدی اور دائمی حقیقتوں کے ادراک و عرفان کو اپنے وجود کا حصہ بنانے میں مصروف عمل ہے کہ یہی وہ راستہ ہے جو اس کی اکیلی ذات میں زندگی کی رمق پیدا کر رہا ہے۔ مزید یہ کہ راحتاں اس کی محسوسہ کیفیتوں کے لیے ایک Receiving Point کا کام کرتی نظر آتی ہے۔ جیسا کہ گذشتہ سطور میں عرض کیا جا چکا ہے کہ مائی کے لیے راحتاں ایک Supporting Tool کی حیثیت رکھتی ہے۔ اگر راحتاں نہ ہوتی تو مائی اپنا دکھ سکھ کس کو سناتی۔ مائی اور راحتاں ایک دوسرے سے Intact ہیں یا یوں کہیے کہ راحتاں، مائی تاجو کے وجود کا حصہ بن کر اس کی سوچ اور سمجھ کو توانائی بخشتی نظر آتی ہے۔ کردار نگاری کی اس ادغامی صورت حال میں مائی کو بنیادی حیثیت حاصل ہے اور یہی اس افسانے میں افسانہ نگار دکھانا بھی چاہتا تھا۔
اب یہ دیکھیے کہ مائی جو ہر وقت اپنی موت کا استقبال کر نے کے لیے تیار بیٹھی ہے۔ راحتاں کو بتاتی ہے کہ اس نے اپنے لیے کفن تیار کر رکھا ہے۔ ٹین کے پترے کی طرح کھڑ کھڑ کرتا لٹھے سے تیار اس کفن پر اس کو ناز ہے۔ وہ راحتاں کو بتاتی ہے کہ یہ وہ لٹھا ہے جس سے بادشاہ زادیاں برقعے سلاتی ہیں۔ لوگوں کو وہ عمر بھر آٹا دیتی رہی اور بدلے میں ان سے کفن لیتی رہی۔ مائی کے اس عبرت انگیز اور سبق آموز فعل سے راحتاں ؔ کے اندر جھر جھری سی پیدا ہوتی اتنا ہی نہیں وہ عش عش بھی کرتی۔
میرا خیال ہے کہ فکر و فن کے حوالے سے اس قسم کا طریقۂ نگارش حقیقتوں سے جوجھنے اور آنکھیں ملانے کا حوصلہ عطا کرتا ہے۔ افسانہ نگار کا تخلیقی مطمح نظر بھی کچھ ایسا ہی محسوس ہوتا ہے۔
خیر اس تجزیاتی گفتگو سے قطع نظر غور فرمائیے کہ مائی نے لٹھے کی جس جھل جھل کرتی سفید تھان سے اپنا کفن تیار کیا تھا وہ کپاس کے خاص پھولوں کی روئی سے تیار ہوتا ہے!
”یہ کپاس بھی عجیب پودا ہے۔ اس کے پھول کا رنگ الگ الگ ہوتا ہے۔“
کپاس کے پھول کا منفرد و جداگانہ Specification ہی مائی تاجوکے کفن کی تخصیص ہے۔ افسانے کا عنوان ”کپاس کاپھول“ مائی تاجو کی Selective فکر و سوچ کی ترجمانی کرتا نظر آتا ہے۔ تبھی تو افسانہ نگار نے مائی تاجو کی زبانی یہ مکالمہ ادا کروایا۔
”میں ڈرتی ہوں کہ کہیں کھدر کا کفن پہن کر جاؤں تو لوگ جنت میں بھی مجھ سے چکی ہی نہ پسوانے لگیں۔“
در اصل احمد ندیم قاسمی ہیومنزم کے بنیادی فکر و فلسفہ کو بھی اپنے افسانوں میں پیش نظر رکھتے ہیں۔ چنانچہ زیر تجزیہ افسانے میں قاسمی نے مائی کے جذبہ و احساس کو ہیومنزم کے پیمانۂ معیار و اقدار پر جانچا اور پرکھا ہے، اس نظریاتی فکر و فلسفہ سے قطع نظر کہ مائی کی سوچ کہنگی اور فرسودہ خیالی پر مبنی ہے یا روشن خیالی کی حامل ہے۔ مزید یہ کہ راحتاں ؔ، مائیؔ کی اس قسم کی گفتگو سے اوبتی نہیں ہے بلکہ محظوظ ہوتی ہے۔
اب یہ دیکھیے کہ کپاس کے پھول کا رنگ کتنا منفرد و جداگانہ ہے اور اس منفرد و جداگانہ رنگ کا اطلاق مائی تاجو کے کفن پر کس انداز و نوعیت سے ہوتا ہے۔ پھول کا جداگانہ رنگ اور مائی کے کفن کی جداگانہ Utility ذیل کی سطور میں انہی امور پر روشنی ڈالی جا رہی ہے۔
موضوع اور تھیم کے پیش نظر یہی اس افسانے کا Truning Point ہے جہاں آپ کو وحشیانہ تشدد کی انتہا دیکھنے کو ملے گی!
مائی تاجوؔ سرحد سے تین میل کے فاصلے پر واقع اس گاؤں میں رہتی تھی جہاں ہندستانی فوج اکثر دراندازی کرتی رہتی۔ اس روز بھی ہندستانی فوج گاؤں میں داخل ہو گئی۔ اور وحشیانہ تشدد اور بربریت کی انتہا کر دی۔ مائی کو تو سمجھ ہی نہیں آیا کہ اچانک یہ سب کیا ہو رہا ہے۔ وہ چیختی، چلاتی رہی کہ ارے بھائی یہ پاکستان ہے۔ یہاں تمھارا کیا کام! لیکن مائی کی آواز اس وحشت زدہ اور بربریت سے بھرے ماحول میں صدا بہ صحرا ہو گئی۔ بے چاری مائی کا وجود ہی کیا۔ بوڑھی، لاغر، لاٹھی ٹیکے افراتفری کے اس ماحول میں ادھر ادھر بھٹکتی پھر رہی تھی کہ اچانک اسے راحتاں کا خیال آیا۔
فوجیوں نے ظلم و تشدد کے بازار کو ایسا گرمایا کہ اس گرمی کی تاب کوئی نہ لا سکا۔ گلی میں شہاب الدین، نور اللہ، محمد بشیر، حیدر خاں، چودھری فتح دین اور اس کے بیٹے سبھوں کی لاشیں پڑی تھیں۔ کہ راحتاں فوجیوں کے بیچ گھری پڑی ہے! رونگٹے کھڑے کر دینے والے اس منظر کو ملاحظہ فرمایئے!
”راحتاں خوف سے فوجیوں میں گھری اپنی عمر سے چودہ پندرہ سال چھوٹے بچوں کی طرح چیخ رہی تھی۔ پھر ایک سپاہی نے اس کے گریباں میں ہاتھ ڈال کر جھٹکادیا تو کرتا پھٹ گیا اور وہ ننگی ہو گئی۔ فوراً وہ گٹھری سی بن کر بیٹھ گئی۔ مگر پھر ایک سپاہی نے اس کے کرتے کا باقی حصہ بھی نوچ لیا۔ اور قہقہے لگاتا ہوا اس سے اپنے جوتے پونچھنے لگا۔ پھر مائی تاجوؔ، راختاں ؔ پر گر پڑی اور ایک عجیب سی آواز میں جو اس کی اپنی نہ تھی بولی ”اللہ تیرا پردہ رکھے بیٹی، اللہ تیری حیا قائم رکھے۔“
راحتاں ننگ دھڑنگ فوجیوں کے بیچ یوں کھڑی تھی جیسے کپڑے پہنے کھڑی تھی۔
”اس کا رنگ مائی تاجو کے کفن کے لٹھے کا سا ہو رہا تھا۔“
مائی تاجوؔ کے کفن کے جداگانہ رنگ کی مماثلت راحتاں کے ننگے جسم سے کرکے افسانہ نگار نے اندرونی دل دوزی (Pathos) کی تخلیقی فنکاری کو اوج کمال پر پہنچا دیا۔
یہاں اس بحث میں پڑنا فضول ہے کہ ظلم کے اس بازارکو ہندستانی فوجیوں نے ہی گرمایا۔ کیونکہ فوجیوں کا اپنا ایک Invasive culture ہوتا ہے۔ اس میں کسی ایک ملک کی فوج کی تخصیص نہیں ہے۔ اور نہ ہی افسانہ نگار – احمد ندیم قاسمی کا یہ تخلیقی مطمح نظر ہے۔ قاسمی تو تقسیم کی ہولناکیوں کے اس دوراہے پر کھڑے تھے جہاں وہ Shocks اور After Shocks کے سانحے سے ایک بڑے تخلیقی فنکار کی صورت میں جھیل بھی رہے تھے اور جوجھ بھی رہے تھے!
ظلم و تشدد کی مزید تفصیل بیان کر کے طولانیِ بیان کا مرتکب ہونا نہیں چاہتا صرف اتنا سن لیجیے کہ گولیاں چلتی رہیں، دھماکے ہوتے رہے، گولے آگ برساتے رہے اور مائی کپاس کے کھیت سے گنے کے کھیت میں گھس گئی کہ اچانک ایک آواز آئی:
”مائی! آواز جیسے پاتال سے آئی تھی“
پھر آواز آئی
”مائیؔ! راحتاں کہہ رہی تھی ”’تم تو میری طرف دیکھے ہی جا رہی ہو! دیکھتی نہیں ہو، میں ننگی ہوں۔ مجھے کچھ دو“
مائیؔ نے زور زور سے ہنستے ہوئے اور زور زور سے روتے ہوئے راحتاں کو یوں اپنی گود میں کھینچ لیا جیسے ننھے سے حسن دین کو دو دھ پلانے چلی ہے۔
اب دھماکے جیسے کھیتوں کی چاروں مینڈوں پر ہو رہے تھے۔ مگر مائی ان سے بے نیاز راحتاں کا ماتھا چومے جا رہی تھی۔ ”ہائے! مجھے اپنا یہ کفن کیسا فالتو سا لگنے لگا ہے۔“
”کفن“؟ راحتاں تڑپ کر مائی کی گود سے نکلی- کفن اٹھا کر اسے جلدی سے کھولا اور اپنے پورے جسم پر لپیٹ کر یوں مسکرائی جیسے وہ دیوار پر سے مائی کو روٹی تھمانے آئی ہے۔“
افسانے کے اس حصے میں درد انگیزی اور مائی تاجو کی درد مندی کو محسوس کیجیے۔ اندازہ ہوگا کہ فکر و فن کی ان دونوں ہی صورتوں کے وسیلے سے افسانے کے المیاتی حسن کا رنگ بڑا ہی گہرا اور تندوتیز ہے۔ اور یہی اس افسانے کی جمالیاتی قدر ہے۔ اس سے قطع نظر عرض یہ کرنا ہے کہ مائی تاجو اس ہلاکت خیزی کے ماحول میں بھی اپنے اس کفن کو سینے سے چمٹائے رہی کہ جانے کب اس کی ضرورت آن پڑے۔ اسے کیا معلوم تھا کہ یہ کفن راحتاں کے ننگے جسم کی ستر پوشی کے کام آئے گا۔ کپاس کے پھول کی روئی سے تیار لٹھے کا یہ کفن اپنے منفرد و جداگانہ رنگ میں اپنی تمام تر المناکیوں کے ساتھ ٹریجڈی کی جمالیات کا ادراک و عرفان کراتا نظر آتا ہے۔ کفن کی یہ کامیڈی احمد ندیم قاسمی کے برق آسا تخلیقی ذہن کا غماز ہے کہ یہی وہ ٹریجڈی اور کامیڈی ہے جو مائی تاجوؔ کی دردمندی کو ہیومنزم کی ایک نئی صورت میں پیش کرتی ہے۔ غور فرمائیے کہ راحتاں نے کفن کو جلدی سے کھولا اور اپنے ننگے جسم پر لپیٹ کر یوں مسکرائی جیسے وہ حسب معمول دیوار پر سے مائی کو روٹی تھمانے آئی ہے۔
کفن کو لپیٹ کر مسکرانا اور اطمینان کا سانس لینا میرا خیال ہے کہ ٹریجڈی کا اتنا دردانگیز اور دردمند Touch شاید ہی اردو افسانوں میں دیکھنے کو ملے!
(٣٠/جولائی ٢٠١٥ء)
Izhar Khizer,
Old City Court, Near-Uma Petrol Pump, Patna-800007
Mob: 9771954313

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے