ٹَرُولنگ: ایک سماجی برائی

ٹَرُولنگ: ایک سماجی برائی

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ، پھلواری شریف، پٹنہ

انٹرنیٹ کے ذریعہ کسی مخصوص شخص یا جماعت کے خلاف جھوٹی باتیں لکھنا، دھمکی دینا، جذباتی تشدد، فحش کلامی یا مکر و فریب کو بڑھاوا دینا ٹرولنگ کہلاتا ہے، جان بوجھ کر اشتعال انگیز پوسٹ یا اشتعال انگیز پوسٹ کا جواب دینا جس کا مقصد کسی کو پریشان کرنا ہو ٹرولنگ کے زمرے میں آتا ہے، ٹرولنگ کا مقصد فریقین میں سے کسی ایک کو ذلیل کرنا یا جھگڑے کو بڑھاوا دینا ہوتا ہے، ٹرولنگ کی اصطلاح اکیسویں صدی میں وجود میں آئی، اس لیے کہ اس کے قبل نیٹ کا کثرت سے استعمال نہیں ہوتا تھا، ادب میں سب سے پہلے اس لفظ کا ذکر ۱۹۹۶ء میں محقق جوڈتھ ڈونات نے کیا تھا، اور اس کے لیے اس نے کانفرنس وغیرہ کے حوالہ سے کئی مثالیں دی تھیں، ٹرولنگ جو کرتا ہے اسے ٹرولر کہتے ہیں، ارینا کیسنن فونٹو فاجو روسی سائنس اکیڈمی کی ایک کارکن ہے، اس کا خیال ہے کہ نورس کے افسانوں میں معنوی طور پر اس کا وجود ہے، ٹرولنگ ایک سماجی برائی ہے اس لیے کہ اس کی وجہ سے جھوٹ کو فروغ ملتاہے، فحاشی بڑھتی ہے، غیر متعلق لوگوں کو سماجی اور عوامی سطح پر ذلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور مختلف لوگوں کے ذریعہ اس کو اس طرح پھیلا یا جاتا ہے کہ جھوٹ کو سچ اور فحاشی کو تہذیب سمجھ لیا جاتا ہے ۔
ٹرولنگ بھی ایک جرم ہے، لیکن عام طور پر اسے جرم نہیں سمجھا جاتا ہے، حالاں کہ لندن اور کولمبیا میں یہ انٹر نیٹ جرائم کے طور پر جانا جاتا ہے، آسٹریلیا نے پارلیامنٹ سے ٹرولنگ کے خلاف قانون پاس کر رکھا ہے اور جرمنی میں نفرت آمیز، اشتعال انگیز اور ہتک آمیز پوسٹ ڈالنے پر پانچ بلین یورو کا جرمانہ لگا رکھا ہے، اور چوبیس گھنٹے کے اندر اس کی گرفتاری یقینی بنانے کی ہدایت دے رکھی ہے، ایک سروے کے مطابق امریکہ میں اکتالیس (۴۱) فی صد افراد کو ٹرولنگ کا سامنا ہے، ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ایک رپورٹ جو ۲۰۱۷ء میں منظر عام پر آئی یہ ہے کہ آٹھ ممالک کی چار ہزار عورتوں میں چوتھائی ٹرولنگ سے گذر چکی تھیں، ہمارے ملک ہندستان میں ٹرولنگ کے لیے الگ سے کوئی قانون نہیں ہے، لیکن اسے ہتک عزتی والے دفعات کے ذیل میں رکھا جاتا ہے۔ اور آئی پی سی کی ۴۹۹ دفعہ ۵۰۰ کے تحت مقدمہ قائم ہو سکتا ہے، اگر ٹرولر نے قتل، زنا وغیرہ کی دھمکی دی ہے تو اس پر دفعہ ۵۰۶ کے تحت معاملہ درج ہو سکتا ہے، بار بار غلط تبصرہ کرنے پر دفعہ ۳۵۳ ڈی کے تحت سائبر کرائم کے ذیل میں کاروائی کی جا سکتی ہے۔ ٹرولنگ جاہل اور احمق ہی نہیں اچھے اچھے اور پڑھے لکھے لوگ بھی کیا کرتے ہیں، پڑھے لکھے لوگوں کی ٹرولنگ منصوبہ بند ہوتی ہے اور اس سے جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ ثابت کرنے کا کام لیا جاتا ہے، گذشتہ چند سالوں کی تاریخ پر جن کی نظر ہے وہ خوب اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس غیر شرعی اور غیر سماجی کام کو کن لوگوں نے پروان چڑھایا اور اس کے کیا اثرات مرتب ہوئے، تازہ اعداد و شمار کے مطابق ۲۴-۱۸؍ سال کے انٹر نیٹ استعمال کرنے والوں میں ستر فی صدی افراد کو ٹرول کیا گیا، ۲۰۱۹ء میں کیے گیے ایک تحقیق کے مطابق ٹرولنگ کی وجہ سے آسٹریلیا کو ۷-۳؍ ارب ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا تھا، ٹرولنگ کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ ٹرولر آپ کے خلاف ایک پوسٹ ڈال دیتا ہے، یہ پوسٹ آپ کی شخصیت پر ڈائرکٹ حملہ ہوتا ہے، آپ تلملا جاتے ہیں، آپ کی طبیعت چاہتی ہے کہ فوراً اس کا جواب دیں، لیکن عقل مندی یہ ہے کہ آپ جذبات میں نہ آئیں، اس پوسٹ کی ان دیکھی کر دیں، آپ کی ان دیکھی سے یہ معاملہ اپنی موت آپ مرجائے گا، آپ نے جو اب دے دیا تو پھر اس پر جواب الجواب کا سلسلہ شروع ہوجائے گا، جو آپ کے حق میں اچھا نہیں ہوگا، جس طرح ڈاکو اور چوروں کے قافلے ہوتے ہیں، ٹرولروں کے بھی بڑے بڑے گروپ ہوتے ہیں، وہ رَدّا پر رَدّا لگا کر آپ کو جوش میں لانے کی ہر ممکن کوشش کریں گے، ٹرولر گروپ والوں کے دوسرے گروپ والوں سے بھی مراسم ہوتے ہیں، وہ اس کو بھی آپ کے خلاف کھڑا کر دیں گے، اور آپ چوطرفہ حملے کی زد میں ہوں گے، یقینی طور پر یہ آپ کے تحمل اور برداشت کا امتحان ہے، آپ کی خاموشی آپ کو اس پریشانی سے نکال سکتی ہے، آپ یہ بھی کر سکتے ہیں کہ اس گروپ سے اپنے کو باہر کر لیں یا جس نمبر سے آپ کی شخصیت کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، اس کو بلاک کر دیں تاکہ منفی خیالات آپ تک نہ پہنچیں اور آپ اس کی وجہ سے ذہنی تناؤ، مایوسی اور جھنجھلاہٹ سے بچ سکیں، اگر بہت زیادہ پریشانی محسوس کرتے ہوں تو کچھ دنوں کے لیے سوشل میڈیا سے اپنے کو دور کر لیں، اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ جب ٹرولر سمجھے گا کہ اس کی بات آپ تک نہیں پہنچ رہی ہے تو وہ اس بے ہودہ کام سے رک جائے گا، اگر ٹرولر گروپ ہے تو اس سے باہر نکل جانے میں ہی عافیت ہے، بہت ناگزیر ہوتو عدالت کا رخ بھی کیا جا سکتا ہے، اور ہتک عزتی کی دفعات کے ذریعہ مقدمہ کیا جا سکتا ہے، لیکن یہ ایک طولانی عمل ہے، جو بہت دنوں تک آپ کو مشغول رکھے گا، اور آپ کی بہت ساری کار کر دگی متاثر ہوگی، اس لیے مقدمہ کی نوبت بھی نہ آنے دیں۔
ٹرولنگ کا استعمال حکومتی اور سرکاری سطح پر ان دنوں کثرت سے ہونے لگا ہے، اپنے مخالفین کو ہراساں کرنے کے لیے سرکاری سطح پر ٹرولنگ کا کام بڑے پیمانے پر ہوا کرتا ہے، کبھی انکم ٹیکس کے نام پر چھاپہ ماری سے لوگوں کو ہراساں کیا جاتا ہے اور کبھی فرضی مقدمات میں پھنسا کر، ان دنوں تشدد اور نفرت پھیلانے کے لیے بھی ٹرولنگ کا استعمال بڑے پیمانے پر کیا جا رہا ہے، ماضی قریب تک نفرت کے اظہار کے لیے برا بھلا کہہ کر تعلقات منقطع کر لینا کافی سمجھا جاتا تھا، لیکن اب ٹرولر کی ایک پوری فوج اس کام کو کر رہی ہے، جسے ٹرولر آرمی کہنا زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے، نفرت کے اس کاروبار کو کسی سیاسی آدمی کے ذریعہ سے شروع کرایا جاتا ہے، پھر اسے ہوا دی جاتی ہے اور جب ہوا تیز ہوجاتی ہے تو ٹرولر آرمی سے نفرت کی فصل کاٹنے کا کام لیا جاتا ہے، مختلف عنوان سے ماب لنچنگ کے واقعات کو اسی پس منظر میں دیکھنا چاہیے، ہمارے کئی صحافی بھی اس ٹرولر آرمی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔
سوشل نیٹ ورک کے علاوہ کانفرنس، خبروں کے مراکز پورٹل مصنوعات کی بڑی بڑی کمپنیاں بھی اس کام میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے کسی بھی پلیٹ فارم سے یہ کام ہو سکتا ہے، اس لیے ٹرولنگ سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے اور ممکنہ حکمت عملی کے ذریعہ اس کے تار و پود بکھیرنے کی ضرورت ہے، یہ حکمت عملی الگ الگ پلیٹ فارم اور الگ الگ موقعوں پر مختلف ہو سکتی ہے۔
ٹرولنگ آج ایک فن بن گیا ہے، ا س فن کا ماہر با آسانی اشتعال انگیز پوسٹ کی نشان دہی کر سکتا ہے، اور نشان دہی کے بعد وہ ٹرولر کا اس قدر تعاقب کرتا ہے کہ وہ گروپ چھوڑنے پر مجبور ہوجاتا ہے، جو ماہر ٹرولر ہوتے ہیں اور اپنا اصلی چہرہ ظاہر کئے بغیر لمبے عرصے تک ٹرولنگ کرکے متعلقہ افراد و اشخاص، ادارے اور کمپنیوں کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔
ٹرولنگ ایک مواصلاتی چیز ہے، لیکن اس کی وجہ سے اصل حقیقت لوگوں کے سامنے نہیں آپاتی، غلط اطلاعات کے ذریعہ ٹرولر بحث کو غلط رخ پر لے جاتا ہے، اور خواہ مخواہ کی اشتعال انگیزی پیدا کرتا ہے، اس طرح اس کے اندر سماجی جارحیت کے سارے اوصاف پائے جاتے ہیں، ٹرولنگ نفرت کی کھیتی ہے، اس کو آگے بڑھانے والا کبھی ذہنی اعتبار سے بیمار یا کسی کی محبت میں پاگل ہوتا ہے، یہ پاگل پن اس کے اندر سے بھلے برے کی تمیز ختم کر دیتا ہے، مودی بھگتی اس کی ایک مثال ہے، جو بھگتوں کی نظر میں ہر عیب کو ہنر بنا دے رہا ہے، اور مودی مودی کے خوب نعرے لگتے ہیں، اندھ بھگت جانتے ہیں کہ بھاجپا کے دور حکومت میں ملک تباہی کے کگار پر پہنچ گیا ہے، داخلی و خارجی دونوں محاذ پر حکومت پوری طرح ناکام ہے، لیکن اندھ بھگت ٹرولر جھوٹ کی بنیاد پر واہ واہی کے نعرے لگا رہے ہیں۔
اسلام میں ٹرولنگ کی کوئی گنجائش نہیں ہے، اس لیے کہ یہ جھوٹ، فحاشی، دوسروں کی تذلیل، حقائق سے دور خبروں کی اشاعت پر مبنی ہوتا ہے اور ہمارے یہاں جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ہے، فحاشی پھیلانے والوں کے لیے دنیا و آخرت میں درد ناک عذاب ہے، دوسروں کی تذلیل، اکرام و احترام انسانیت کے خلاف ہے اور بے بنیاد خبروں کے پھیلانے پر ندامت اٹھانے کی بات قرآن کریم میں مذکور ہے، اس لیے مسلمانوں کو اس سے ہر حال میں بچنا چاہیے اور اگر کسی نے یہ کام کیا ہے تو اسے توبہ استغفار کرکے اللہ کے دربار میں گڑگڑانا چاہیے کہ اے اللہ ہمیں معاف کردے، ہم سے غلطی ہو گئی، اللہ تعالیٰ غفور الرحیم ہے، وہ ضرور عفو ودر گذر کا معاملہ کرے گا۔
صاحب تحریر کی یہ نگارش بھی پڑھیں :کتاب: دل پسند باتیں

شیئر کیجیے

One thought on “ٹَرُولنگ: ایک سماجی برائی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے